دیئے گئے لفظ پر شاعری

شمشاد

لائبریرین
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
(چچا)


بوسہ
 
بوسہ گال کی قیمت میری جاں ٹھہری ہے
چیز کتنی سی ہے اور کتنی گراں ٹھہری ہے
چھیڑ کر پھر مجھے مصروف نہ کر نالوں میں
دو گھڑی کے لئے صیّاد زباں ٹھہری ہے
آہِ پُر سوز کو دیکھ اے دلِ کمبخت نہ روک
آگ نکلی ہے لگا کر جہاں یہ ٹھہری ہے
صبح سے جنبشِ ابرو و مژدہ سے پیہم
نہ تیرے تیر رکے ہیں نہ کماں ٹھہری ہے
دم نکلنے کو ہے ایسے میں وہ آ جائیں قمرؔ
صرف دم بھر کے لیے روح رواں ٹھہری ہے

اگلا لفظ : روح
 
سرِبازار لُٹ کر بھی دہائی اب نہیں دیتے
مرے لوگوں کو دکھ اپنے دکھائی اب نہیں دیتے
سرِ محشر کوئی خلقِ خدا سے کیا نباہے گا
یہاں ملزم خود اپنی بھی صفائی اب نہیں دیتے
کبھی چشمِ شناسا کی طرح جو ہنس کے ملتے تھے
وہ آئینے بھی دادِ آشنائی اب نہیں دیتے
جو منظر تھے وہ پس منظر میں پنہاں ہوتے جاتے ہیں
تماشے میں تماشائی دکھائی اب نہیں دیتے
ہماری سرحدوں سے شہ رگوں تک آن پہنچے ہیں
محافظ اپنے پنجوں سے رہائی اب نہیں دیتے
گلِہ کس کس کی رخصت کا سعید اس دشت میں کیجئے
ہمیں خود اپنے سائے بھی دکھائی اب نہیں دیتے

اگلا لفظ: دہائی
 

شمشاد

لائبریرین
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار
(فیض احمد فیض)
 

شمشاد

لائبریرین
کوئی کرے تو کہاں تک کرے مسیحائی
کہ ایک زخم بھرے دوسرا دہائی دے
(عبد اللہ علیم)

زخم
 
ہر ايک زخم کا چہرہ گلاب جيسا ہے
مگر يہ جاگتا منظر بھي خواب جييسا ہے

يہ تلخ تلخ سا لہجہ، يہ تيز تيز سي بات
مزاج يار کا عالم شراب جيسا ہے

مزاج
 

شمشاد

لائبریرین
دل جلوں کو کبھی دیکھے نہ حقارت سے کوئی
کام کے ہم کو تو اکثر یہی ناکام ملے
(سرور عالم راز)


ناکام
 

جٹ صاحب

محفلین
ناکام کوشش کیا کرتے ہیں
ہم انہی سے محبت کیا کرتے ہیں
خدا نے تقدیر میںاک ٹوٹا تارا نہیں لکھا
ہم چاند کی آرزو کیا کرتے ہیں

کوشش
 
آپ کی آنکھ سے گہرا ہے میری رُوح کا زخم
آپ کیا سوچ سکیں گے میری تنہائی کو
میں تو دَم توڑ رہا تھا مگر افسردہ حیات
خود چلی آئی میری حوصلہ افزائی کو
لذتِ غم کے سوا تیری نگاہوں کے بغیر
کون سمجھا ہے میری زخم کی گہرائی کو

تنہائی
 

شمشاد

لائبریرین
تنہائی سی تنہائی ہے کیسے کہیں کیسے سمجھائیں
چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں
(ابن صفی)

روح
 

شمشاد

لائبریرین
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
(فیض)

تصور
 
پھر میرے ذہن میں اشعار اُترتے آئیں
میں تصور میں سنواروں تیری الجھی زلفیں
اور ان زلفوں میں پھر شب کی سیاہی بھر دوں
تیرے چہرے کو کسی چاند سے تشبیہ دے کر

تشبیہ
 

شمشاد

لائبریرین
الجھ رہا ہے تو الجھے گروہِ تشبیہات
بس اور کچھ نہ کہوں گا ادا کہوں گا تمہیں
(جمیل الدین عالی)
 

شمشاد

لائبریرین
بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا، ہم بھی نکھر نکھر گئے
(عدیم ہاشمی)
 
Top