بوسہ گال کی قیمت میری جاں ٹھہری ہے
چیز کتنی سی ہے اور کتنی گراں ٹھہری ہے
چھیڑ کر پھر مجھے مصروف نہ کر نالوں میں
دو گھڑی کے لئے صیّاد زباں ٹھہری ہے
آہِ پُر سوز کو دیکھ اے دلِ کمبخت نہ روک
آگ نکلی ہے لگا کر جہاں یہ ٹھہری ہے
صبح سے جنبشِ ابرو و مژدہ سے پیہم
نہ تیرے تیر رکے ہیں نہ کماں ٹھہری ہے
دم نکلنے کو ہے ایسے میں وہ آ جائیں قمرؔ
صرف دم بھر کے لیے روح رواں ٹھہری ہے
اگلا لفظ : روح