دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب ڈاٹ آرگ (مکمل)

جیہ ابن سعید
قابل ذکر بات یہ ہے اگر یہ شعر غالب کا ہے تو نسخہ مہر میں اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے میرے دھاگے میں ہے
میری ناقص رائے میں اسے حسن مطلع کے طور پر دوسرے نمبر پر ہونا چاہئے تھا مگر یہ شعر اس غزل میں آخری دو اشعار سے پہلے ہے
 
جیہ ابن سعید اعجاز عبید
کسی دوست نے ایک غزل سنائی تھی کہ یہ غالب کی غیر مطبوعہ غزل ہے وہ بھی شریک کر رہا ہوں اس بارے میں بھی تحقیق کر لیں
غزل یہ ہے
درد افسوں نظر تھا آسماں کہنا پڑا
اک خوابِ پریشاں دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
ناموافق تھی بہت غربت وطن کہتے ہی بنی
تنگ نکلا حلقہِ دام آشیاں کہنا پڑا
قطرہ خوں کا تھا پیچ و تابِ دل جانا اسے
لہر تھی زہر آب غم کی اور زباں کہنا پڑا
آگ بھڑکائی ہوا نے میں اسے سمجھا بہار
شعلہ پیچ و تاب بن کر جب ابھرا خزاں کہنا پڑا
اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ دل تھا وہ
اس روش سے اُٹھ کر گیا کہ جاں کہنا پڑا
کٹ گئی عمر جو مستی میں وہی جوشِ زیست
بچ رہا تھا ہستی میں جو کچھ زیاں کہنا پڑا
شیوہِ صبر آزمائی پہ تری جیتا تھا میں
یوں تری فرقت کو بھی اپنا امتحاں کہنا پڑا
بہت ممکن ہے متن میں مجھ سے کچھ غلطی ہوئی ہو کیونکہ یہ تقریباََ دس سال پہلے کی بات ہے اس بارے میں بھی تحقیق ہو جائے تو بہتر ہو گا
 
یہ تو کسی طور سے چچا کی غزل معلوم نہیں ہوتی۔ فیس بک میں پوچھیں کہ وہاں اس کام اخذ کیا تھا؟
محترم استاد جی اس کا کوئی حوالہ دیا تھا مجھے یاد نہیں مگر میرے خیال میں بھی یہ غزل غالب کی نہیں لگتی میں نے صرف اس خیال سے شریک کی تھی کہ میرا شک رفع ہو جائے
بہت آداب
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جیہ ابن سعید اعجاز عبید
کسی دوست نے ایک غزل سنائی تھی کہ یہ غالب کی غیر مطبوعہ غزل ہے وہ بھی شریک کر رہا ہوں اس بارے میں بھی تحقیق کر لیں
غزل یہ ہے
درد افسوں نظر تھا آسماں کہنا پڑا
اک خوابِ پریشاں دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
ناموافق تھی بہت غربت وطن کہتے ہی بنی
تنگ نکلا حلقہِ دام آشیاں کہنا پڑا
قطرہ خوں کا تھا پیچ و تابِ دل جانا اسے
لہر تھی زہر آب غم کی اور زباں کہنا پڑا
آگ بھڑکائی ہوا نے میں اسے سمجھا بہار
شعلہ پیچ و تاب بن کر جب ابھرا خزاں کہنا پڑا
اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ دل تھا وہ
اس روش سے اُٹھ کر گیا کہ جاں کہنا پڑا
کٹ گئی عمر جو مستی میں وہی جوشِ زیست
بچ رہا تھا ہستی میں جو کچھ زیاں کہنا پڑا
شیوہِ صبر آزمائی پہ تری جیتا تھا میں
یوں تری فرقت کو بھی اپنا امتحاں کہنا پڑا
بہت ممکن ہے متن میں مجھ سے کچھ غلطی ہوئی ہو کیونکہ یہ تقریباََ دس سال پہلے کی بات ہے اس بارے میں بھی تحقیق ہو جائے تو بہتر ہو گا
الف عین ۔ سید شہزاد ناصر
یہ تو واضح طور پر غالب کی ایک بہت معروف اور بہترین فارسی غزل کا منظومہ ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ذرا دیکھئے۔

دود سودائے تتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشاں زد جہاں نامیدمش
 
یہ تو واضح طور پر غالب کی ایک بہت معروف اور بہترین فارسی غزل کا منظومہ ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ذرا دیکھئے۔
دود سودائے تتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشاں زد جہاں نامیدمش
مکمل غزل عنایت ہو جائے تو نوازش ہو گی
 
  • دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
    دیدہ بر خوابِ پریشان زد، جہاں نامیدمش

    خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا-

    وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
    قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش

    وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔

    باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
    داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش

    ہوا نے آگ کو بھڑکایا میں نے اسے بہار کہہ دیا۔ اسی آگ کے شعلے جل کر جب داغ بن کر رہ گئے تو میں نے اسے خزاں کا نام دیا۔

    قطرہٴ خونے گرہ گردید، دل دانستمش
    موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش

    ایک قطرہء خوں تھا بل کھا کر گرہ بن گیا اور میں نے اسے دل سمجھ لیا۔ ایک زہراب کی لہر تھی اس میں تلاطم برپا ہوا میں نے اسے زباں کہہ دیا۔

    غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
    کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش

    پردیس مجھے راس نہ آیا ناچار میں نے اسے وطن سمجھ لیا۔ حلقہء دام تنگ نکلا میں نے اسے آشیاں کہہ دیا۔

    ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
    ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش

    مستی کے عالم میں جو کچھ زندگی میں کمی واقع ہوئی میں نے اسے نفع میں شمار کیا اور میری ہستی میں سے جو کچھ بچ رہا اسے نقصان سمجھ لیا۔ یعنی زندگی کے وہی لمحات تھے جو عالمِ مستی اور ذوق و شوق میں گزر گئے، بقیہ زندگی تو گویا زندگی ہی نہ تھی۔

    تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
    چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش

    جب تک وہ مجھ سے ایک طویل عرصے کیلیے الگ ہو کر رہا میں اسے ایک خوش ذوق انسان سمجھتا رہا۔ جب وہ تھوڑی مدت کیلیے مجھ سے آ ملا تو میں نے اسے بد گماں کا لقب دیا۔

    دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
    گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش

    میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میری زباں محبت اور دوستی کی رازداں ہو اس لیے جب بھی محبوب کا تذکرہ آیا میں نے اسے کبھی فلاں، کبھی فلاں کہا۔

    بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
    من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش

    غالب تو گلستانِ ایران کی ایک بلبل تھا، میں نے غفلت میں اسے طوطیِ ہندوستاں کہہ دیا۔
    ..................................
    اسد اللہ خان غالب
  • بشکریہ فیس بک
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
الف عین ۔ سید شہزاد ناصر
یہ تو واضح طور پر غالب کی ایک بہت معروف اور بہترین فارسی غزل کا منظومہ ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ذرا دیکھئے۔

دود سودائے تتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشاں زد جہاں نامیدمش
ڈاکٹر حمید یزدانی کی شرح کلیات فارسی میرے پاس ہے اسمیں بھی یہ موجود ہے۔اس میں یہی ترجمہ صوفی تبسم صاحب کے نام سے لکھا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین

سید عاطف علی

لائبریرین
  • دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
    دیدہ بر خوابِ پریشان زد، جہاں نامیدمش

    خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا-

    وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
    قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش

    وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔

    باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
    داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش

    ہوا نے آگ کو بھڑکایا میں نے اسے بہار کہہ دیا۔ اسی آگ کے شعلے جل کر جب داغ بن کر رہ گئے تو میں نے اسے خزاں کا نام دیا۔

    قطرہٴ خونے گرہ گردید، دل دانستمش
    موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش

    ایک قطرہء خوں تھا بل کھا کر گرہ بن گیا اور میں نے اسے دل سمجھ لیا۔ ایک زہراب کی لہر تھی اس میں تلاطم برپا ہوا میں نے اسے زباں کہہ دیا۔

    غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
    کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش

    پردیس مجھے راس نہ آیا ناچار میں نے اسے وطن سمجھ لیا۔ حلقہء دام تنگ نکلا میں نے اسے آشیاں کہہ دیا۔

    ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
    ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش

    مستی کے عالم میں جو کچھ زندگی میں کمی واقع ہوئی میں نے اسے نفع میں شمار کیا اور میری ہستی میں سے جو کچھ بچ رہا اسے نقصان سمجھ لیا۔ یعنی زندگی کے وہی لمحات تھے جو عالمِ مستی اور ذوق و شوق میں گزر گئے، بقیہ زندگی تو گویا زندگی ہی نہ تھی۔

    تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
    چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش

    جب تک وہ مجھ سے ایک طویل عرصے کیلیے الگ ہو کر رہا میں اسے ایک خوش ذوق انسان سمجھتا رہا۔ جب وہ تھوڑی مدت کیلیے مجھ سے آ ملا تو میں نے اسے بد گماں کا لقب دیا۔

    دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
    گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش

    میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میری زباں محبت اور دوستی کی رازداں ہو اس لیے جب بھی محبوب کا تذکرہ آیا میں نے اسے کبھی فلاں، کبھی فلاں کہا۔

    بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
    من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش

    غالب تو گلستانِ ایران کی ایک بلبل تھا، میں نے غفلت میں اسے طوطیِ ہندوستاں کہہ دیا۔
    ..................................
    اسد اللہ خان غالب
کیا ہی اعلٰی انتخاب ہے زبان و بیان کا۔ واہ
 

جیہ

لائبریرین
جیہ ابن سعید
قابل ذکر بات یہ ہے اگر یہ شعر غالب کا ہے تو نسخہ مہر میں اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے میرے دھاگے میں ہے
میری ناقص رائے میں اسے حسن مطلع کے طور پر دوسرے نمبر پر ہونا چاہئے تھا مگر یہ شعر اس غزل میں آخری دو اشعار سے پہلے ہے
آپ کی بات سو فی صد درست ہے ۔ مگر جیسا کہ بابا جانی نے دیباچے میں ذکر کیا ہے نسخہ اردو ویب کی بنیاد نسخہ نظامی پر ہے، اس کے بعد ترتیب میں نسخہ حمیدیہ اور پھر نسخہ مہر پر ہے ۔ چونکہ یہ غزل نسخہ حمیدیہ میں نہیں۔ اور نسخہ نظامی میرے پاس موجود نہیں تو اسی وجہ سے اس غزل میں نسخہ مہر کی ترتیب کو برقرار رکھا گیا ہے۔
 
Top