دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

گر واقعی مزاج مین تیرے غرور ہے
تو بولنا تو غیر سے بھی کیا ضرور ہے

نزدیکِ مرگ پہلی ہی منزل مین پہونچے ہم
اور راہ عشق کی تو ابھی ہمسے دور ہے

ہم درد کے بھرون کی تو رسمِ فغان نہین
خالی ہے نے اسی لیے اُسمین یہ شور ہے

مدت سے دیکھتا ہون کہ آئینہ کی مثال
مین اُسکے سامنے ہون وہ میرے حضور ہے

رکھون کہان مین اپنے پر یزاد کو حسن
شیشہ جو ایک دل کا مرے ہے سو چور ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

یار اگر اپنے پاس ہو جاوے
زندگی کی پھر آس ہو جاوے

قاصد ایسی نہ بات کچھ کہیو
جس سے دل بیحواس ہو جاوے

مژدہ وصل دے طبیب اول
پھر دوا دے کہ راس ہو جاوے

جسکے دل مین وہ گُل بسے اُسکے
داغ مین گل کی باس ہو جاوے

مین تو اُس ڈر سے کچھ نہین کہتا
تو مبادا اُداس ہو جاوے

ابتو مرتا ہون اے نسیم اُسے
کہ کہ ٹک میرے پاس ہو جاوے

جسکو سمجھا ہون مین حسن اُمید
کہین وہ بھی نہ یاس ہو جاوے​
 

شمشاد

لائبریرین

شبِ فراق مین اے کاش دم نکل جاوے
کہ عمر عمر کا اس دل سے غم نکل جاوے

چمن مین گُل تو نپٹ پھول پھول بیٹھے ہے
جو آوے یار ابھی تو بھرم نکل جاوے

ہو میرے عشق کا شہرا تو نام مجنون کا
جہان کے صفحہ سے پھر یک قلم نکل جاوے

مین ساتھ نامے کے جی اپنا بھی روانہ کیا
کہ نامہ بر سے بھی برھکر قدم نکل جاوے

حسن کے سینے سے یا رب کہین یہ دل گم ہو
کہ اس بچارے کا درد و الم نکل جاوے​
 

شمشاد

لائبریرین

شمع سان رات کیا سُنی ہمنے
جس سے رو رو کے صبح کی ہمنے

چمن مین غم کے آغاز ہی مین مر گئے آہ
آخرِ کار کچھ نکی ہمنے

ایک دن بھی نہ چین پایا ہاے
تیرے ہاتھون سے زندگی ہمنے

کر کے بسمل نہ تو نے پھر دیکھا
بس اسی غم مین جان دی ہمنے

مین کہا جی مرا لیا کسنے
ہنس کے کہنے لگا کہ جی ہمنے

ملک مین عشق کے جو آسودہ
ایک دیکھی تو بیکسی ہمنے

زلفِ مشکن مین دل پھنسا کے حسن
اک بلا اپنے سر پہ لی ہمنے​
 

شمشاد

لائبریرین

مین کہا تھا کبھی سے یہ کچھ ہے
جسکا عالم ابھی سے یہ کچھ ہے

جاے شکوہ نہین سلوک اُسکا
دیکھتا ہون سبھی سے یہ کچھ ہے

جبسے دیکھا ہے تجھکو ابتو کیا
حالت دل تب ہی سے یہ کچھ ہے

ہمنے جانا سخن کی شیرینی
اُسکی شکر لب ہی سے یہ کچھ ہے

دن کو تو خیر تھی حسن پر کُچھ
بیقراری شب ہی سے یہ کچھ ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

عرق کو دیکھ مُنھ پر تیرے پیارے
فلک کو پیٹھ دے بیٹھے ہین تارے

کبھی وہ دن بھی ہو ویگا جسدن
گلے سے پھر ملین گے ہم تمھارے

چمن مین کسنے دل خالی کیا ہے
لہو سے جو بھرے ہین پھول سارے

نہین ہوتی میسر وصل کی رات
چلے جاتے ہین یوہین دن ہمارے

رقیبون کو ملین گل اور ہمین داغ
حسن کیا بخت اُلٹے ہین ہمارے​
 

شمشاد

لائبریرین
گلون کو دیکھ کے تجھ بن تو اور داغ ہوے
چمن مین آن کے ہم خوب باغ باغ ہوے

ترے سُراغ نے ایسا ہی گم کیا ہمکو
کہ اس جہان سے ہم آپ بے سراغ ہوے

لبوں تلک تو نہ پہونچے کسی کے ہم اے واے
اگر ہزار بنے جام سو ایاغ ہوے

بُرا کہا نہین ہمنے تو کچھ رقیبون کو
سبب بتاؤ تو کیون ہمسے بیدماغ ہوے

دیئے جو عشق نے اُسکے حسن جگر پر داغ
تو دودمان کے اپنے سبھی چراغ ہوے

 

شمشاد

لائبریرین

شمع کہتی تھی یہی شام سے بلتے بلتے
صبح تک جی نرہیگا مرا جلتے جلتے

میرے رخساروں سے لے تابسرِ دامنِ خاک
جادے پڑ پڑ گئے ہین اشک کے ڈھلتے ڈھلتے

دسترس پانؤن تلک اُسکے نہو ہاے ہمین
ہاتھ بھی گھس گئے افسوس سے ملتے ملتے

دانہ اشک کے مانند نہ پھولے نہ پھلے
یون ہی ضایع ہوے ہم خاک مین رلتے رلتے

انتہا بادیہ عشق کا پایا نہ حسن
ہمتو مر مر گئے اس راہ مین چلتے چلتے​
 

شمشاد

لائبریرین

کبھی جو اُس سے ملاقات مجھسے ہوویگی
تو مین یہ کہتا ہون کیا بات مجھسے ہوویگی

مجھے یہ غم ہے کہ آوے گا بعد میرے وہ شوغ
تو کیونکہ اُسکی مدارات مجھسے ہوویگی

پھرے تو غیرون مین اور مین جدا رہون تجھسے
یہ طرح جینے کی ہیہات مجھسے ہوویگی

مجھی کو رونے دے اے ابر اور تو نہ برس
جہان مین ابکی یہ برسات مجھسے ہوویگی

حسن تو عشق کے جھگڑے سے مت ہراسان ہو
جو ہو گی حرف و حکایات مجھسے ہوویگی​
 

شمشاد

لائبریرین

گر چمن تو اُٹھ کے چل بیٹھے
سرو گل باغ سے نکل بیٹھے

اُٹھ گئے آج جان دل کیدھر
آہ پھرتے تھے یہ تو کل بیٹھے

دیکھکر تیرے تیغ کی ہیئت
وے جو رستم تھے سو بھی ٹل بیٹھے

ہے یہ خطرا کہ چرخ کجرفتار
اور ہی چال کچھ نہ چل بیٹھے

دے جگہ یا رب ایسی کوئی جہان
بے خلل اُٹھے بے خلل بیٹھے

ناصحو سُنتا ہے تمہاری کون
ہانکتے ہو یہ کیا زٹل بیٹھے

اِس زمین ہی مین اے حسن ہمنے
رات کہ لی یہ اور غزل بیٹھے

وے ہی منزل سے اپنی چل بیٹھے
اس سرا سے جو اب نکل بیٹھے

دلِ گم گشتہ کی طرف سے ہم
کفِ افسوس اپنے مل بیٹھے

تیرے کوچہ سے اب کہان جاوین
بس یہین یار ہمتو تھل بیٹھے

وجد کا اپنے حال تو کہو کچھ
شیخ مجلس مین کیوں اُچل بیٹھے

دلربا سامنے سے آتا ہے
ٹک حسن کو کہو سنبھل بیٹھے​
 

شمشاد

لائبریرین

کیون ان دنون حسن تو اتنا جھٹک گیا ہے
ظالم کہین ترا دل کیا پھر اٹک گیا ہے

اے نالہ جرس ٹک لیجو خبر شتابی
ناقہ سے دور رہکر مجنون بھٹک گیا ہے

کہ سرگذشت اپنی دیوار و در سے تیرے
رو رو کے آج کوئی سر کر پٹک گیا ہے

دشت مژہ کھلی یون کیون رہگئی ہین یارب
کسکا قصور انسے دامن جھٹک گیا ہے

شاید کہین حسن نے کھینچی ہے آہ شاید
کانٹا سا اِک جگر مین اپنے کھٹک گیا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

ہمسے تو کسی کام کی بنیاد نہووے
جبتک کہ اُدھر ہی سے کچھ امداد نہووے

ہمکو بھی نہین چین ترے غمزون سے دلبر
جبتک کہ نیا اک ستم ایجاد نہووے

اے آہ ذرا اُٹھیو تو آہستہ کہ وہ جو
تھوڑا سا اثر ہے کہین برباد نہووے

دی تھی یہ دعا کسنے مرے دل کو الٰہی
اُجڑے یہ گھر ایسا کہ پھر آباد نہووے

دیکھا نہ کسی وقت مین ہنستے ہوے اُسکو
یہ بھی کوئی دل ہے جو کبھی شاد نہووے

بھولے سے بھی بھولو نہ کبھی غیرونکا تم نام
اور نام ہمارا ہی تمھین یاد نہووے

کیون دیکھو ہو اسکا قد ور و بلبل و قمری
کیا سمجھے ہو تم یہ گل و شمشاد نہووے

مر جائین قفس مین یون ہی ہم آہ تڑپکر
اتنی جو خبر لینے کو صیاد نہووے

دل جل کے جہان سرمہ ہوا قیس کا ابتک
اُس جا پہ جرس پہونچے تو فریاد نہووے

میرے لئے قاتل بھی اگر ہووے تو ہووے
پر غیر کے حق مین تو وہ جلاد نہووے

وارستہ جو ہو قید سے ہستی کے تو بہتر
پر دام سے تیرے حسن آزاد نہووے​
 

شمشاد

لائبریرین

نہ ہم وہش مین مے پرستی سے گذرے
ہوے جبکہ بیہوش مستی سے گذرے

نہ ٹھہرا ذرا قافلہ اس سرا مین
لئے حسرتین یانکی بستی سے گذرے

رہے جسمین خطرا سدا نیستی کا
بس اے زندگی ایسی ہستی سے گذرے

نچھیڑین کبھی زلف کو اُسکی ہم تو
اگر شانہ بھی پیشدستی سے گذرے

ہوا کچھ نہ خطرا ہمین مثل سایہ
اگرچہ بلندی و پستی سے گذرے

چلی اب جوانی کہو ٹک حسن سے
خدا کے لئے بت پرستی سے گذرے​
 

شمشاد

لائبریرین

کبھی کبھی جو مرے دل مین ہوش آتا ہے
تو پھر تری ہی محبت کا جوش آتا ہے

سُراغ ناقہ لیلٰی بتائیو اے خضر
کوئی جرس کی طرح پر خروش آتا ہے

بتان کے کوچہ مین لٹتا ہی دیکھتے ہین اُسے
جو کوئی آہ یہان دلفروش آتا ہے

مغان یہ دیکھونگا جوش و خروش می کاتری
کوئی گھڑی کو مرا بادہ نوش آتا ہے

حسن کو کیا ہوا یا رب کہ اُسکے کوچہ سے
کچھ آج روتا ہوا پھر خموش آتا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

دل کی زمین سے کونسی بہتر زمین ہے
پر جان تو بھی ہو تو عجب سر زمین ہے

سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے
تو خاک سے بنا ہے ترا گھر زمین ہے

روتا پھرا ہے کون یہ سرگشہ اے فلک
جیدھر نظر پڑے ہے اُدھر تر زمین ہے

آئینہ کی طرح سے نظر ہے تو دیکھ لے
روشن دلون کی گھر کی منور زمین ہے

شاید نہا کے آج نچوڑی ہے تو نے زلف
گھر کی تمام تیری معنبر زمین ہے

گیتی نے زیر چرخ رکھا ہے سبھون کو تھام
اس کشتیِ جہان کی لنگر زمین ہے

لے دل سے چشم تک مرے دریا سا ہے بھرا
دنون گھرون کی غرق سراسر زمین ہے

اول یہی ہے باعثِ خونریزیِ جہان
زیور ہے زن ہے زور ہےیا زن زمین ہے

اس تنگنائی دہر سے جاؤن کدھر نکل
اودھر ہے آسمان اور ایدھر زمین ہے

جز خونِ کوہکن نہ اُگے وانسے کوئی گُل
شیرین کی راہِ عشق کی پتھر زمین ہے

روندے ہو نقش پا کی طرح جسکو تم حسن
دیکھو گے کوئی دن یہی سر پر زمین ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

تم پاس سے جو اپنے غیرون مین جا کے بیٹھے
ہمکو یہ آئی غیرت ہم مُنھ چھپا کے بیٹھے

جب پاس میرے آئے تب مُنھ بنا کے بیٹھے
اِک دن نہ پیار سے تم پہلو مین آ کے بیٹھے

ناصح وہی جو مجھکو کرتے تھے آ نصیحت
کوچے م ین تیرے دیکھا باتین بنا کے بیٹھے

جانیکا قصد تیرے جیدھر سُنا اُدھر کو
دوکاندار اپنے سودے لگا کے بیٹھے

آہون سے گو جلے دل یا جی رُکے دھوین سے
اُس شوخ پر ہم ابتو دھونی رما کے بیٹھے

چون شمع داغ ہون مین ان شعلہ رو کے ہاتھون
یانتک ہنسے کہ آخر مجھکو رُلا کے بیٹھے

دم اپنا روتے روتے کیونکر اُلٹ نجاوے
مدت کے بعد آئے سو مُنھ پھرا کے بیٹھے

تم کہ گئے تھے مجھکو تو بیٹھ مین یہ ایا
مین اُٹھ گیا جہان سے تم خوب جا کے بیٹھے

یہ کیا ہے گرمجوشی پیارے خلاف عادت
گھٹنے سے آج میرا زانو دبا کے بیٹھے

کیا پیستے ہو مجھکو تمسے نہ یہ نبھے گی
کیون مجھ غریب سے تم تکیا لگا کے بیٹھے

غمگین نہو حسن تو یہ ناز ہے تجھی پر
یون اور کے وہ آگے کب مُنھ تُھتھا کے بیٹھے​
 

شمشاد

لائبریرین

آپ کو اُسنے اب تراشا ہے
قہر ہے ظلم ہے تماشا ہے

اُسکو لیتے بغل مین ڈرتا ہون
نازکی مین وہ شیشہ باشا ہے

کیو کہون اپنے سیم تن کا حال
گاہ تولا ہے گاہ ماشا ہے

ترے کوچہ سے اُٹھ نہین سکتا
کس وفا کشتہ کا یہ لاشا ہے

گر فرشتہ بھی ہو حسن تو وہان
گالی اور جھڑکی بے تحاشا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

اتنے آنسو تو نہ تھے دیدہ تر کے آگے
ابتو پانی ہی بھرا رہتا ہے گھر کے آگے

دمبدم مجھکو تصور ہے اُسی دلبر کا
رات دن پھرتا ہے میری وہ نظر کے آگے

ہین یہ اے جان مری دل سے مجھے اپنے عزیز
تیرے داغون کو مین رکھتا ہون جگر کے آگے

گرمی اپنی کو فراموش کرین مہر و شان
سرد ہو جائین سب اُس رشکِ قمر کے آگے

باد تندی سے میان تیری مجھے حیرت ہے
کیونکہ رکھتا ہے طپانچون کو کمر کے آگے

تیرے دانتون سے مین تشبیہ ندون گوہر کو
پوتھ کو قدر نہین سلکِ گُہر کے آگے

زور سے کام نکلتا نہین بے زر کے دیئے
زر بھی حربہ ہے ترا ایک بشر کے آگے

زر اگر برسر فولاد نہی نرم شود
زور کا زور دھرا رہتا ہے زر کے آگے

کسکو کہتا ہے میان یان سے سرک یان سے سرک
کوئی بیٹھا نہین آ کر ترے در کے آگے

یہ تو مجلس ہے جہان بیٹھ گئے بیٹھ گئے
کیون جگہ بدلے کوئی کاہیکو سرکے آگے

اب کہان جاے حسن ہاتھون سے تیرے ظالم
رکھ لیا تو نے اسے تیغ و سپر کے آگے​
 

شمشاد

لائبریرین

وہ طبیعت کی کجی اور وہ رُکھائی نہ گئی
ہم بھلون سے بھی تری آہ بُرائی نہ گئی

اپنی سوگند جو دی اُسنے تو کھائی نہ گئی
ایک بھی بات محبت کی چھپائی نہ گئی

وہ نظر باز ہمین تاڑ گیا نظرون مین
روبرو اُسکے تو کچھ بات بنائی نہ گئی

ترے ابرو کا مین عاشق ہون کہون کیونکر نہین
مجھسے اس بات پہ تلوار اُٹھائی نہ گئی

مل کے بیٹھا نہ خوشی سے تو کبھی ایک بھی رات
آئے دنکی یہ تری مجھسے لڑائی نہ گئی

پل مین انکھون نے تری صاف کیا عالم کو
تو بھی ظالم ترے دیدے کی صفائی نہ گئی

شیخ تو نیک و بد دخترِ زر کیا جانے
وہ بچاری تو ترے پاس نہ آئی نہ گئی

ناتوانی کا مین انکھون کی تری قائل ہون
پشت پا سے نگہِ ناز اُٹھائی نہ گئی

اس طرح روٹھ گئی جان مری مجھسے کہ مین
مر گیا تو بھی وہ بیرحم منائی نہ گئی

ہنس کے پھر میان مین کر لی نہ بھلا ایدھر دیکھ
ایک بھی تجھسے تو تلوار لگائی نہ گئی

عشق کے آنیکا سبب میرے وہ کل پوچھ رہا
پر حسن مجھسے پہیلی یہ بتائی نہ گئی​
 

شمشاد

لائبریرین

رونے مین خونِ دل کی صورت ہزار دیکھی
برسات مین شفق کی کیا کیا بہار دیکھی

دل کو لگا کے تجھسے ایذا جفا مصیبت
جو کچھ ندیکھتی تھی سو ہمنے یار دیکھی

شہرِ بتان مین دل کو روتے پھرے ہین بیدل
دل ہی کی ہر طرف یان ہمنے پکار دیکھی

عاشق کو ڈوبتے ہی دریاے غم مین دیکھا
کشتی کسی کی اس سے ہمنے نہ پار دیکھی

اُسنے تو خس برابر احسان کچھ نہ مانا
پلکون سے ہمنے اُسکے دہلی بُہار دیکھی

در در ہمین پھرایا گھر گھر ہمین جھکایا
بس تیری ہمنے خوی اے روزگار دیکھی

مد نظر ہے کسپر ظالم جو آئینہ لے
کنگھی پہ ہاتھ پھیرا ابرو سنوار دیکھی

کیا تھا کہ آج ناقہ بے ساربان پایا
مجنون کے ہاتھ ہمنے اُسکی مہار دیکھی

یانتک تو تھا حسن کو کل زنتظار تیرا
انکھون مین اُسکے ہمنے جانِ نزار دیکھی​
 
Top