شمشاد
لائبریرین
نہ کچھ مُنھ سے کہا اُسنے نہ مجھکو ہاتھ سے مارا
ادا وہ کی کہ جی ہی جی مین دل ٹکڑے ہوا سارا
نہین اپنا کوئی اپنا وہی جو اپنے دلمین ہے
وہی جیوڑا وہی جانی وہی دلبر وہی پیارا
مرے نالے کے شعلہ سے چھپی جا ابر مین بجلی
مری بیتابیِ دل کے نہ ٹھہرا سامنے پارا
بس اب چوپڑ اُٹھاؤ اور کچھ باتین کرین صاحب
جو مین جیتا تو تم جیتے جو تم ہارے تو میں ہارا
مرے آئینہ دل کا اُسے منظور تھا لینا
جو غیرون مین کہا بھونڈاؔ بُرا بدرنگ ناکاراؔ
اُٹھا بالونکو چہرے سے دکھا دے چاند سا مکھڑا
سرِ شام آج آتا ہے نظر تنہا مجھے تارا
عجب عیار ہے تو دن دیے نظرونکے آگے سے
لئے جاتا ہے باتونمین دلونکا باندھ پشتارا
کوئی دیتا نہین اُس بت کو دل کچھ اپنی خواہش سے
جو یون مرضی خدا کی ہو تو پھر بندیکا کیا چارا
حسن بھی آدمی ہے کچھ خفا ہوتے ہو تم جس سے
خسراؔ باقی جنونیؔ باؤلاؔ سودائیؔ آواراؔ