دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

نہ کچھ مُنھ سے کہا اُسنے نہ مجھکو ہاتھ سے مارا
ادا وہ کی کہ جی ہی جی مین دل ٹکڑے ہوا سارا

نہین اپنا کوئی اپنا وہی جو اپنے دلمین ہے
وہی جیوڑا وہی جانی وہی دلبر وہی پیارا

مرے نالے کے شعلہ سے چھپی جا ابر مین بجلی
مری بیتابیِ دل کے نہ ٹھہرا سامنے پارا

بس اب چوپڑ اُٹھاؤ اور کچھ باتین کرین صاحب
جو مین جیتا تو تم جیتے جو تم ہارے تو میں ہارا

مرے آئینہ دل کا اُسے منظور تھا لینا
جو غیرون مین کہا بھونڈاؔ بُرا بدرنگ ناکاراؔ

اُٹھا بالونکو چہرے سے دکھا دے چاند سا مکھڑا
سرِ شام آج آتا ہے نظر تنہا مجھے تارا

عجب عیار ہے تو دن دیے نظرونکے آگے سے
لئے جاتا ہے باتونمین دلونکا باندھ پشتارا

کوئی دیتا نہین اُس بت کو دل کچھ اپنی خواہش سے
جو یون مرضی خدا کی ہو تو پھر بندیکا کیا چارا

حسن بھی آدمی ہے کچھ خفا ہوتے ہو تم جس سے
خسراؔ باقی جنونیؔ باؤلاؔ سودائیؔ آواراؔ​
 

شمشاد

لائبریرین

کسی کو ہے غم کا مرے غم ہوا
کہ عالم مین کیا اسکا عالم ہوا

مرے حق مین اُسنے تغافل کیا
وہ محرم ہی تھا پر نہ محرم ہوا

پھٹا دلکے زخمونکا انگور کیا
کہ پھر چشم خون بستہ کچھ نم ہوا

ہمارے جو ساتھی سفر کر گئے
صفر مین ہمین تو محرم ہوا

وہی ڈھب جو ہے اُسکے ملنے کا ہے
نہ درہم ہوا اور نہ برہم ہوا

تجھے میرے رونے سے تھی کیا خبر
یہی تو نے دیکھا جو اسدم ہوا

مین آگے تو روتا تھا دو دو پہر
بہت ابتو رونا مرا کم ہوا

پیا من نے پانی جو اُس بن حسن
اگر تھا وہ امرت ہی تو سم ہوا​
 

شمشاد

لائبریرین

کس نیک گھڑی سے شبِ مہتاب مین رویا
جو آنکھونپہ رکھ اُسکے قدم خواب مین رویا

کیا کیا نہ جدا دوست ہوے پل کے جھپکتے
بھر بھر کے مین آنسو غمِ احباب مین رویا

کی آہ و فغان گھر مین کبھی اور کبھی باہر
ظاہر مین کبھی اور کبھی جذبات مین رویا

یاد آیا جو ساتھ اپنے مجھے اُسکا نہانا
تنہا مین کھڑے ہو کے بہت آب مین رویا

کی سیر محبت کے رسالے کی جو مین نے
سُرخی کی جگہ خون ہر اک باب مین رویا

نالے کیے دریا نے مری نوحہ گری سے
اس شور سے مین گردشِ گرداب مین رویا

جس منعمِ ممسک نے نہ کھایا نہ کھلایا
سرپوش وہان ڈھانکے مُنھ قاب مین رویا

اس طرح سے دل ڈوب گیا میرا کہ بیتاب
خود ہو کے وہ دلبر دلِ بیتاب مین رویا

گریہ نے مِرے مجھکو دیئے گوہر نایاب
ناحق میں تلاشِ دُرِ نایاب مین رویا

آنکھیں تو بھر آئین مری بیتابی سے لیکن
چون آئنہ کب صحبتِ سیماب مین رویا

ہر چند حسن مجھکو میسر تھے سب اسباب
پر بے مے و معشوق ہر اسباب مین رویا​
 

شمشاد

لائبریرین

اِیدھر سے جو ٹک ہو کر وہ آج صنم گذرا
غیرونکے تو بس دلپر گویا کہ ستم گذرا

جنت مین کہان گویا نزدیک ہمارے تو
کوچے کی طرف تیرے جو اپنا قدم گذرا

غصہ تو نہو میری اس جان نکلنے پر
اس جانسے مین اپنی بس تیری قسم گذرا

وہ مجھکو جلاتا ہے تو مجھکو رُلاتا ہے
مین تجھسے بھی اور دل سے اے دیدہ نم گذرا

اِس قید سے ہستی کی چھوٹا تو نکل بھاگا
پھر مُنھ نکیا اِیدھر جو سوئے عدم گذرا

چاہا تھا غرض مین نے عشق ایسے ہی دلبر کا
گر مجھپہ بہت گذرا غم اسمین تو کم گذرا

اُس گل کی ہوا نے آ برباد کیا ووہین
جب دھیان مین کچھ لطفِ گلزار ارم گذرا

رہتا ہے کوئی خامہ لکھ اور غزل اب تو
سچ ہے کہ حسن جسدم گذرا تو قلم گذرا​
 

شمشاد

لائبریرین

مین نے جو کہا مجھپہ کیا کیا نہ ستم گذرا
بولا کہ ابے تیرا روتے ہی جنم گذرا

ہنس کھیل کے کٹجاوے جو دم سو غنیمت ہے
جو دم کہ گیا پھر وہ آتا نہین دم گذرا

کچھ لطف زمانیکا دیکھا تو وہی دیکھا
جو ساتھ جوانی کے تجھ ساتھ بہم گذرا

ہر وقت نہین لازم ہر وقت ستم کرنا
جو وقت کہ آگے تھا وہ وقت صنم گذرا

مین کوچے ہی کا ٹونگا اے غیر یہ سن رکھنا
جسروز ترا اُسکے کوچہ مین قدم گذرا

اِکدن بھی نہ کی تو نے وعدہ پہ وفا ظالم
ہر وقت تجھے کرتے آ رے و نعم گذرا

جب بیت لکھی اُسکے تعریف مین ابرو کی
تب شوق سے وان اپنے سر ہی سے قلم گذرا

جسنے کہ رکھی حرمت کچھ کعبہ دلکی یان
وہ راہ سے دل ہی کے جا سوے حرم گذرا

کب مصحفِ رو کی مین تعریف لکھی اُسکی
جو شوق سے وان اپنے سر سے نہ قلم گذرا

کیونکر نہ حسن رؤون مین اپنے نصیبونکو
غم رشک سے غیرون کے دلپر مرے کم گذرا​
 

شمشاد

لائبریرین

غمخانہ دل عیش کا گھر ہوویگا یارب
آباد کبھی یہ بھی نگر ہوویگا یارب

جب دیکھو ہون اُسکو تو مجھے آتا ہے یہ رشک
کس کس کا یہ منظورِ نظر ہوویگا یارب

بگڑی تو ہے غیرونسے اور اب ہمسے و لیکن
کیا جانئے وہ شوخ کدھر ہوویگا یارب

جان و دل و دین کھو دیے اِک اُسکی نظر پر
ایسا بھی کوئی اور بشر ہوویگا یارب

رونے سے مِرے سنگ تلک ہو گئے پانی
دلمین کبھی اُسکے بھی اثر ہوویگا یارب

داغون کو ترے غم کے جو رکھے تروتازہ
یہ میرے سوا کسکا جگر ہوویگا یارب

روتے ہی گزرتی ہے شب و روز حسن کو
اور اس سے تو کیا حال بتر ہوویگا یارب​
 

شمشاد

لائبریرین

ظلمت و نور سب آ جائے نظر آخر شب
خواب غفلت سے کھلے آنکھ اگر آخر شب

شبِ اول تو توقع پہ ترے وعدے کے
سہل ہوتی ہے بلا ہوتی ہے پر آخر شب

رشک اُس مرغِ چمن پر ہے کہ جو گل کے حضور
داستان کہتے گیا جیسے گذر آخر شب

نالہ بھر بھر کے نہو کیونکہ خموش آخر دل
بیشتر رہتا ہے سنسان نگر آخر شب

وصل کی شب کا مزاہ ہوتا ہے اول جیسے
ویسے ہی ہوتا ہے احوال بتر آخر شب

صفحہ – 35

سر پہ آوے جو سفیدی تو نہو کیونکہ تمام
زندگی شمع کی ہوتی ہے بسر آخر شب

تجربہ ہمنے تو دیکھا نکچھ اسکا لیکن
کہتے ہین نالے مین ہوتا ہے اثر آخر شب

اول اول کی جو مستی کا ہے عالم اُسکی
گر تو چتیے گا تو ہو ویگی خبر آخر شب

تھا سرِ شب ہی سے معلوم یہ ہمکو کہ حسن
شمع و پروانہ کا ہو ویگا سفر آخر شب​
 

شمشاد

لائبریرین

تم نہ ہنستے ہو کچھ نہ کہتے ہو بات
گزری جاتی ہے مفت میں یہ رات

ہجر ہی مین تمام ہو گئی عمر
کس خرابی سے یہ کٹی اوقات

تو نہ کڑھ دردِ دل پہ میرے صنم
جی رہونگا جو ہو گی میری حیات

آہ سرد اپنی ہی سے تھی وہ باد
اب ہلے کیون نہ ہر درخت کا پات

چال مین عشق کے جو ہو قائم
اُسکی ہووے کبھی نہ بازی مات

زلف مشکین کے پیچ مین تیرے
آ گیا دل تو لے حمیدہ صفات

شاہ ہووے غلام کا بندا
کون پوچھے ہے عاشقی مین ذات

وعدہ آنیکا ہے حسن مت رو
ہو نہ اُسکو بہانہ برسات​
 

شمشاد

لائبریرین

ایک دل تو نے کیا میرے خدا یا قسمت
ہو گیا وہ بھی نصیبون سے جدا یا قسمت

دیکھیے جیوین کہ مر جائین نہین کچھ معلوم
ابتو جاتے ہین ترے در سے بھلا یا قسمت

جب لگے ہونے جدا حضرتِ دل ہمنے کہا
پھر بھی ملییگا کبھی ہمسے کہا یا قسمت

عشقبازی مین ترے مایہ بساط اپنے جو تھا
ایک دل سو بھی تو وہ ہار دیا یا قسمت

نامہ بر سبکے پھرے نامہ و پیغام لے اور
میرا قاصد جو گیا سو نہ پھرا یا قسمت

کس توقع سے حسن آیا تھا اور یون افسوس
تیرے دیدار سے محروم چلا یا قسمت​
 

شمشاد

لائبریرین

شور ہے ملک دل مین چاروں کھونٹ
دیکھئیے بیٹھتا ہے کس کل اونٹ

دم رُکا جاتا ہے نکل اے آہ
بس دھوین مین زیادہ جی کو نہ گھونٹ

دل جلا کسکا کشت پر دہقان
ہولی ہو کر جو نکلے آپکے ہونٹ

شیخ پر اسکے جرم کا رکھ بوجھ
اور پیا کر حسن شراب کے گھونٹ

پھر جو وہ کچھ کہے تو بکنے دے
بڑبڑاتے ہین لادنے مین اونٹ​
 

شمشاد

لائبریرین

دل دیا ہمنے تجھکو یار عبث
تلخ کی عمر خوشگوار عبث

شوخ سنتا نہین کسیکا حال
اُس سے کہنا ہے بار بار عبث

تیرے بھانوین ہی کچھ نہین مطلق
دل جلانا ہے تجھپہ یار عبث

مین تو آگے ہی پیچ و تاب مین ہون
بل نکھا زلف مشکبار عبث

وہ تو کر دیگا خاکسے یکسان
ہے بنانا مرا مزار عبث

ان بتون کے لیے خدا کو مان
ہو حسن تو نہ اتنا خوار عبث​
 

شمشاد

لائبریرین

روشن نہین مین دیدہ نمناک کے باعث
چون آئنہ ہےہ مجھکو جلا خاک کے باعث

گرمی ہے ترے حسن کی ہم ہی سے کہ ہے یان
شعلے کو ترقی خس و خاشاک کے باعث

یون ہو گئے ویران کہ گویا نہ تھے آباد
دلکے نگر اِس غمزہ صفاک کے باعث

ہے گردشِ دامن سے ترے گرد بھی بیچین
ماٹی بھی پھرے ہے مری اس چاک کے باعث

کیا کیا غم و اندوہ گذرتے ہین شب و روز
یان نامِ خدا اُس بتِ بیباک کے باعث

وہ باد جو نالونکی بندھی تھی کوئی دن آہ
سو جاتی رہی اس دلِ صد چاک کے باعث

گردش سے تری چشم کی رہتے ہین سدا خوار
آوارہ نہین گردشِ افلاک کے باعث

غصہ مین پسینہ جو ہوا چہرے پہ اُسکے
طوفان ہوا یان روے غرفناک کے باعث

ہون مست حسن اپنے ہی اشکونسے مین ہردم
مستی ہے مجھی اپنی اسی تاک کے باعث​
 

شمشاد

لائبریرین

ہوا کیا خوب تم آئے یہان آج
نہین تو ہم چلے تھے مہربان آج

کمر پر لیکے دامن ہاتھ مین تیغ
چلے ہو قتل پر کسکے میان آج

خفا جس بات پر تم کل ہوے تھے
ہوئی وہ بات بھی ہمبر عیان آج

ہوا ہے جی یہانتک زیست سے تنگ
جو کل لیتے تھے جی لیوین بتان آج

چھپاوین کیون کسی سے ڈر ہے کیا اُوہ
گئے تھے اُسکے کوچہ مین تو ہان آج

ہوے تھے نامور جو کل جہان مین
نپایا اُنکا کچھ نام و نشان آج

گلی مین اُسکے کل بیٹھے تھے محفوظ
اُٹھا لائی ہمین قسمت یہان آج

فلک کی بھی یہ کیا کیا گردشین ہین
کہان بیٹھے تھے کل آئے کہان آج

حسن کو سونپ کر کنجِ قفس مین
کدھر پھرتا ہے تو اے آسمان آج​
 

شمشاد

لائبریرین

کوئی خدا کہے ہے کوئی رام وقتِ صبح
کافر یہ دل جپے ہے ترا نام وقت صبح

بلبل گلونپہ بیٹھی ہے کیا پھول پھول تو
صیاد لے پہونچتا ہے اب دام وقت صبح

زلفونکے بعد دیکھئے چہریکا اُسکے رنگ
کھلتا ہے شب سے زیادہ وہ گلفام وقت صبح

پھر ہم کہان اور آہ پری بھی یہ پھر کہان
ساقی پلا دے ہمکو کوکئی جام وقت صبح

آہِ سحر کے ساتھ نکلجائے کیون نہ جی
چلنا مسافرونکا تو ہے کام وقت صبح

اک ذرہ دیکھ آوین اُسے چلکے ہمنشین
آیا ہے مہروش وہ لبِ بام وقت صبح

خوابِ گران مین ہوئے اگر وہ تو اے نسیم
دیجو نہ تو مرا اُسے پیغام وقت صبح

سن داستانِ بلبل مجروح گل نمک
دیوے تبسم اپنے سے انعام وقت صبح

مثل پتنگ کیونکہ ندون جان مین حسن
جاتا ہے پاس سے وہ دل آرام وقت صبح​
 

شمشاد

لائبریرین

ہم گئے بھول اُسے دیکھ کے پرواز کی طرح
لیگیا دلکووہ بس آتے ہی شہباز کی طرح

اُٹھ سکے دیکھئے کس طرح یہ اب دلسے مرے
بیطرح آئی نظر مجھکو ترے ناز کی طرح

دل تجھے کسنے لگایا ہے کہ اِیدھر کی اودھر
اور اودھر کی ادھر کہتا ہے غماز کی طرح

تو ہی تو بولے ہے پردیمین نہین غیر کوئی
یار پہچانتے ہین یار کی آواز کی طرح

پیرہن پہنے اگر کتنا ہی ارزل تو بھی
گفتگو سے نہ چھپے اسکی تو بو پیاز کی طرح

مُنھ تھتھا کر تو نہ تو پاس مرے بیٹھا کر
یہ تو بھاتی نہین ہے دلکو ترے ناز کی طرح

ہو چکا تو تو حسن چین مرے دلکے تئین
ہے اگر اُسکی یہی عشوہ و انداز کی طرح​
 

شمشاد

لائبریرین

خلق کا خون کر رہا ہے شوخ
رنگ چہریکا تیرے کیا ہے شوخ

دلکو لیجا کے پھر مُکر جانا
یہ بھی اِک طرفہ ماجرا ہے شوخ

ان بتون مین نہ کہیے اسکے تئین
وہ قیامت ہے اک بلا ہے شوخ

آپ یہ کہنا اپنی خو بد ہے
یہ بھی اک طرح کی ادا ہے شوخ

اور تو خوبیان ہی ہین پہ حسن
ایک یہ ہے کہ بیوفا ہے شوخ​
 

شمشاد

لائبریرین

لعل و یاقوت ایسے کب ہین سُرخ
جیسے اُس شوخ کے وہ لب ہین سُرخ

شک خونی سے عندلیبون کے
در و دیوار باغ سب ہین سُرخ

خون دل پھر رہے کہ یا نرہے
دیکھ لے چشم میری اب ہین سُرخ

قتل کسکو کیا ہے شوخ نگاہ
آج آنکھین تری غضب ہین سُرخ

دل حسن خون ہو گیا کہ جگر
آج آنسو یہ کس سبب ہین سُرخ​
 

شمشاد

لائبریرین

مرنے کے بعد گل کے ہوا وہوس کے بیچ
بلبل کے پر ہی اُڑتے ہیں کنج قفس کے بیچ

جیسے کہ آج وصل ہوا کیا نہ چاہیے
اِکدن بھی آوے ایسا اگر سو برس کے بیچ

تصویر بُول اُٹھے جو کرے اُس سے بات وہ
ہے یہ بھی معجزہ مرے عیسی نفس کے بیچ

ہو ضبط نالہ کیونکہ دلِ ناتوان مین آہ
آتش کہین چھپائے سے چھپتی ہے خس کے بیچ

ہان دل تو چاہتا ہے تجھے کوئی کچھ کہے
موجود ہون یہ بات تو کہنے کو دس کے بیچ

مندیل پر یہ شیخ نے طرہ نہین رکھا
گنبد کی اپنے شان دکھائی کلس کے بیچ

نالان ہون مین حسن خلش دل کے ہاتھ سے
دل بیقرار ہو تو صدا ہو جرس کے بیچ​
 

شمشاد

لائبریرین

کسی کی سنتے نہین آہ یہ بتان فریاد
انھون کے ہاتھ سے لیجاؤنمین کہان فریاد

لیا ہے دام مین کس کس طرح سے دلکو مرے
تمہارے ہاتھ سے اے زلف مہو شان فریاد

ہمیشہ جلتے ہی اس بزم مین رہے ہمتو
ولے نہ نکلی کبھی مُنھ سے شمع سان فریاد

اثر سے آہ کے اور اشک کی شرارت
کرے ہے نوحہ زمین اور آسمان فریاد

عصاے آہ بن ابتو نہین یہ اُٹھتی آہ
ہوئی ہے یان تئین اس دلکی ناتوان فریاد

مرے بھی رونے پہ مت جاؤ سامنے اُسکے
کرو نہ تم بھی ٹک اے نالہ و فغان فریاد

جب آہ و نالہ حسن کر کے ٹک رہون ہون چپ
صدا نکلتی ہے پھر دلسے یون کہ ہان فریاد​
 

شمشاد

لائبریرین

خط اُسے لکھنے کو جسوقت منگایا کاغذ
آہ نے پھونکا اور اشکون نے بہایا کاغذ

منتژ آہ سے یون ہو کے اُڑے دل کے ورق
پھر جو ڈھونڈھا تو کہین اُسکا نپایا کاغذ

پُرزہ اک ہمنے کہین بھیجا تھا چھپکر اُسکو
سو بھی وانتک نگیا اور پھر آیا کاغذ

جس طرح چاہا لکھین دل نے کہا یون مت لکھ
سیکڑون بار دھرا اور اُٹھایا کاغذ

در و دیوار پہ کوچے مین حسن نے اُسکے
اپنے احوال کا لکھ لکھ کے لگایا کاغذ

تو بھی اُسنے نہ نظر کی نہ اُدھر ٹک دیکھا
نہ کھڑے ہو کے کسی سے وہ پڑھایا کاغذ

کس توقع بھلا اب کوئی لکھے نامہ
وان برابر ہی لکھایا نہ لکھایا کاغذ​
 
Top