شمشاد
لائبریرین
جز اشک بلبل اب نہین گل شاخسار پر
کیا اوس پڑ گئی ہے چمن مین بہار پر
دلکی یہ بیقراری ترا قول سو وہ کچھ
دامن کو تیرے چھوڑیے پھر کس قرار پر
کس وقت مین بسا تھا الٰہی یہ ملک دل
صدمے ہی پڑتے رہتے ہین نت اس دیار پر
دامن سے کوئی جھٹکے ہے پھیرے ہے کوئی مُنھ
کیا کیا ہین خواریان مرے مشتِ غبار پر
ہوتے ہی اُسکے سامنے جاتا رہے ہے یہ
کچھ اختیار اپنا نہین اختیار پر
تیرے ہی زلف و رو کی مدد سے تو عصر مین
رونق دو چند ہو گئی لیل و نہار پر
جو اہلِ دل ہین اُنکی نصیحت تو ہے یہی
تحقیق جان ایک سے لے تا ہزار پر
پروانگی پتنگ سے لیوے نہ جب تلک
لاوے نہ کوئی شمع کسی کے مزار پر
وعدہ پر اُسنے کی ہے وفا بھی کبھی حسن
تو اعتبار کرتا ہے کس اعتبار پر