دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

جز اشک بلبل اب نہین گل شاخسار پر
کیا اوس پڑ گئی ہے چمن مین بہار پر

دلکی یہ بیقراری ترا قول سو وہ کچھ
دامن کو تیرے چھوڑیے پھر کس قرار پر

کس وقت مین بسا تھا الٰہی یہ ملک دل
صدمے ہی پڑتے رہتے ہین نت اس دیار پر

دامن سے کوئی جھٹکے ہے پھیرے ہے کوئی مُنھ
کیا کیا ہین خواریان مرے مشتِ غبار پر

ہوتے ہی اُسکے سامنے جاتا رہے ہے یہ
کچھ اختیار اپنا نہین اختیار پر

تیرے ہی زلف و رو کی مدد سے تو عصر مین
رونق دو چند ہو گئی لیل و نہار پر

جو اہلِ دل ہین اُنکی نصیحت تو ہے یہی
تحقیق جان ایک سے لے تا ہزار پر

پروانگی پتنگ سے لیوے نہ جب تلک
لاوے نہ کوئی شمع کسی کے مزار پر

وعدہ پر اُسنے کی ہے وفا بھی کبھی حسن
تو اعتبار کرتا ہے کس اعتبار پر​
 

شمشاد

لائبریرین

دیتا ہے یون دھوانسا یہ دلکا داغ جلکر
گل ہوئے جس طرح سے کوئی چراغ جلکر

اُڑتی پھرا کریگی محشر مین راکھ میری
گردش سے کوئی ہو گا مجھکو فراغ جلکر

بادِ سموم غم سے ہے اب یہ دلکی حالت
ہو جائے کوئی جیسے ویران باغ جلکر

کیا جانے آتشین لب یاد آئے کسکے اسکو
ہاتھون سے گر پڑا جو میرے ایاغ جلکر

کہنے پہ شیخ کے کچھ مت مست ہوش رکھ تو
بیفائدہ بکے ہے وہ تو اُلاغ جلکر

جاے عجب نہین گر بندھ جاے گرم مضمون
ہوتا ہے شعر اکثر دل اور دماغ جلکر

اک حال سوز دلکا پوچھے ہے کیا حسن تو
چون شمع ہم سراپا ہو گئے ہین داغ جلکر​
 

شمشاد

لائبریرین

اے دل خفا نہ ہونا اپنی کدورتون پر
رہتا ہے رنگ یکسان کب یانکی صورتون پر

اس گنجفہ کا یانکے ہے کھیل اور ہی کچھ
دیتے ہین جان ناحق انسان مورتون پر

یون جی کو کون اپنے کھوتا ہے ایک ہی پر
دے بیٹھتے ہین سر بھی اپنی ضرورتون پر

ماتھے پہ دلبرون کے افشان نہین چنی یہ
تحریر ہے طلائی قرآن کی سورتون پر

چھڑیان ہین آج چلکر دلکو حسن تو بہلا
نکلے ہین سیر کرنے سب خوبرو رتون پر​
 

شمشاد

لائبریرین

وصل بھی ہو گا حسن تو ٹک تو استقلال کر
حال اپنا ہمسے کہہ کہہ ہمکو مت بیحال کر

ساربان گرم حُدی ہے اور جرس ہے نعرہ زن
تو بھی ٹک محمل کے آگے گرد مجنون حال کر

شمع سان جتنا سنایا حال رو رو اُسکو مین
اُٹھ گیا آخر وہ سب باتین ہنسی مین ٹال کر

مشق جورو ظلم تو کرتا ہی جاتا ہے وہ شوخ
تو بھی دل صبر و تحمل کا اب استعمال کر

عیش و عشرت کو نہ دے تو راہ دل مین اے حسن
درد و غم ہی سے کسی کے اِسکو مالا مال کر​
 

شمشاد

لائبریرین

اے گرد باد طرفِ چمن ٹک گذار کر
بلبل کے پر پڑے ہین گلون پر نثار کر

آئے تھے عیش کے لیے سو تو نہ یان ملا
پھر غمکدہ کو اُٹھ چلے ہم اپنے ہار کر

کیا مسکرا کے ٹالے ہے اب پھر کب آئیگا
دل بیقرار ہوتا ہے کچھ تو قرار کر

داغون سے دلکے سینہ تو ہے رشک لالہ زار
ہان اشک سرخ تو بھی تو اپنی بہار کر

دھجی بھی ایک چھوڑی نہ دامان و جیب کی
دستِ جنون نے لوٹا مجھے تار تار کر

وہ بھی نہ آیا اور نظر آنے سے رہگیا
دیکھا مزا نہ اور دل اب انتظار کر

بے چیز تو نہین یہ حسن اُس گلی مین روز
جا جا کے بات کرتے ہر اِک سے پکار کر​
 

شمشاد

لائبریرین

لگا رکھ دلکو میرے زلف چشمِ یار کی خاطر
انار تحفہ ہے کام آئیگا بیمار کی خاطر

جگرؔ کے داغؔ دلکے زخم روز اٹھ دیکھتا ہونمین
مجھے پیدا کیا تھا حق نے اس گلزار کی خاطر

مجھے تو دید تھی منظور تیری اے فدا تیرے
نہ ایا تھا یہان کچھ مین در و یوار کی خاطر

یہ باتین ہین کہ مین آؤنگا پھر احوال پرسی کو
تمھین کیا ہے عزیز ایسی دلِ افگار کی خاطر

نہ کی خاطر ہمارے ایکدن بھی خوش کبھی اُسنے
فدا جی تک کیا ہمنے حسن جس یار کی خاطر​
 

شمشاد

لائبریرین

ہے دھیان جو اپنا کہین اے ماہ جبین اور
جانا ہے کہین اور تو جاتا ہون کہین اور

جب تو ہی کرے دشمنی ہمسے تو غضب ہے
تیرے تو سوا اپنا کوئی دوست نہیں اور

مین حشر کو کیا رؤون کہ اُٹھ جاتے ہی تیرے
برپا ہوئی اِک مجھپہ قیامت تو یہین اور

وعدہ تو ترے آنیکا ہے سچ ہی و لیکن
بازو کے پھڑکنے سے ہوا دلکو یقین اور

آخر تو کہان کوچہ ترا اور کہان ہم
کر لیوین یہان بیٹھ کے اِک آہِ حزین اور

تھا روے زمین تنگ زبس ہمنے نکالی
رہنے کے لیے شعر کے عالم مین زمین اور

نام اپنا لکھا دے تو لکھا دلپہ تو میرے
اس نام کو بہتر نہین اس سے تو نگین اور

ابرو کی تو تھی چین مرے دلپہ غضب پر
مژگانسے نمودار ہوئے خنجر کین اور

نکلے تو اُسی کوچہ سے یہ گم شدہ نکلے
ڈھونڈھے ہے حسن دلکو تو پھر ڈھونڈ وہین اور​
 

شمشاد

لائبریرین

غزل ہذا در تعریف پل میان الماس

دو رستا ہے بتونکا فرض ہے جانا وہان کُل پر
جھمکڑا ہے خدائیکا میان الماس کے پل پر

بہارِ شمعرد یان دیکھ اِس تختے کی مرتے ہین
نہ گل کا جی ہے بلبل پر نہ بلبل کا ہے جی گل پر

لئے جاتے ہین دل سودے لگا کر وانکے بازاری
تکلم پر ترحم پر تبسم پر تغافل پر
گھرونسے اپنے بن بن کر نکلنا ماہرویونکا
اکڑؔ نا نازؔ پر اندازؔ پر اپنے تجمل پر

کھڑے رہنا کہین عاشق کا اور معشوق کا یکجا
کسی عالم کی باتین بیچ مین لانا توصل پر

کہین لے لے کے پنجرے عشقبازونکا کھڑے رہنا
گلون کا رام کر لینا سَدا آوازِ بلبل پر

حسن وان شام کو ایسی ہے کیفیت کہ کیا کہیے
سمان یہ ہے نہ زلفون پر نہ یہ عالم ہے کاکل پر​
 

شمشاد

لائبریرین

ہین ترے ابرو مژہ جیسے صنم شمشیر و تیر
دیکھنے مین ایسے تو آئے ہین کم شمشیر و تیر

دیکھیے کیونکر بچے دل میرا اُس قاتل کے آہ
قتل پر میرے ہوئے ہین ہمقسم شمشیر و تیر

جنبش ابرو و مژگانکا تصور کسکے ہے
آج نظرون مین پھرے ہین دمبدم شمشیر و تیر

عشق ہی کی جاگری ہے یہ کہ جب ہوتی ہے جنگ
کھاتے ہین بے حاصلِ دام و درم شمشیر و تیر

اس طپانچہ بند کا جبسے ہوا ہے دَور دَور
تب سے دنیا مین ہوے ہین منعدم شمشیر و تیر

ہمسری کیجو نہ میرے آہ و نالے سے کہین
رہنے دیجو کوئی دم اپنا بھرم شمشیر و تیر

وہ کہے مین چھوٹون پہلے وہ کہے مین جا لگون
دلپہ لڑتے ہین مرے اُسکے بہم شمشیر و تیر

نیم بسمل ہے یہ دل پھر بھی اسے ٹک دیکھیو
رکھیو اسکے حال پر اپنا کرم شمشیر و تیر

راست کہتا ہون نہین اسمین حسن حرف کجی
شعر کے میدان مین ہین دست و قل شمشیر و تیر​
 

شمشاد

لائبریرین

جس طرح ہو کوئی حیران روے حیران دیکھکر
دل پریشان ہو گیا زلفِ پریشان دیکھکر

وصل کے شب کے مزے کو ہمنشین پہونچیگا وہ
جو کوئی جیتا بچیگا روز ہجران دیکھکر

دل مین کیسا تو تو ہوتا ہو گا اپنے شاد شاد
عاشقون کے دمبدم چاکِ گریبان دیکھکر

جھڑتے ہین پلکونسے موتی دخت رز کی یاد مین
یہ ہَوا یہ موسم اور یہ ابرِ نیسان دیکھکر

کل کی ہے یہ بات جو پھرتے تھے یونہین یہ بھی آہ
تم قدم رکھیو تو گورستان مین یاران دیکھکر

پا برہنہ ساتھ ناقے کے چلا آتا ہے قیس
اِک طرف کر دے صبا خارِ مغیلان دیکھکر

دامنِ صحرا سے اُٹھنے کو حسن کا جی نہین
پانؤن دیوانے نے پھیلائے بیابان دیکھکر​
 

شمشاد

لائبریرین

اُس شوخ نے پھیکا ہے مگر تیر ہَوا پر
جاتا ہے جو دلکا مرے نخچیر ہوا پر

جزو و وولِ سوختہ آتشِ حرمان
دیکھی ہے کسینے کہین زنجیر ہوا پر

ہے دلمین نکچھ غم ہین سبھون کے نہ خوشی ہے
موقوف ہے ہر ملک کی تاثیر ہوا پر

ٹک کیجو عذر نالہ جانسوز سے میرے
ہے برق کے مانند یہ شمشیر ہوا پر

ظاہر مین تو اُڑتا ہون ولے اُڑ نہین سکتا
بے بس ہون مین چون طائر تصویر ہوا پر

پتھرا دے ہے یہ حسن کے لشکر کا نشان دیکھ
لہراوے ہے جو زلف گرہگیر ہوا پر

ساقی بھی ہے اور ابر بھی ہے تو بھی تو مطرب
کرز مزمئہ راست کی تحریر ہوا پر

جگنو کی چمک یہ تو نہین رات کو تجھبن
ہے یہ شرر نالہ شبگیر ہوا پر

اس ریختی کی رکھ کے حسن مین نے بنا کی
سو فکر سے ہر بیت کے تعمیر ہوا پر​
 

شمشاد

لائبریرین

نہ رہا گُل نہ خار ہی آخر
اِک رہا حسن یار ہی آخر

اب جو چھوٹے بھی ہم قفس سے تو کیا
ہو چکی وان بہار ہی آخر

آتشِ دلپہ آب لے دوڑا
دیدہ اشکبار ہی آخر

ضد سے ناصح کی مین نے کر ڈالا
جیب کو تار تار ہی آخر

کیون نہ ہون تیرے در پہ ہونا ہے
ایکدن تو غبار ہی آخر

کام آیا نہ جائے شمع مزار
یہ دلِ داغدار ہی آخر

شمعرو پر مثال پروانہ
ہو گئے ہم نثار ہی آخر

وہ نہ آیا ادھر حسن افسوس
رہ گیا انتظار ہی آخر​
 

شمشاد

لائبریرین

کیا مغرور اُسکو آپ اپنا حال کہ کہکر
مجھے آتا ہے غصہ اپنی نادانی پہ رہ رہ کر

مثل مشہور ہے خود کردہ رادرمان نمی باشد
کیا ظالم تجھے ہم ہی نے تیرا ظلم سہہ سہہ کر

حسن کے دلکو تو مت خاک مین ہر دم ملایا کر
کچھ اسکے رو نہین آتے کہ آئین گے یہ بہ بہ کر​
 

شمشاد

لائبریرین

ہم قتل ہو گئے نہین تجھکو خبر ہنوز
باندھے پھرے ہے ہمپہ میان تو کمر ہنوز

سو سو طرح کے وصل نے مرحم رکھے ولے
زخمِ فراق ہین مِرے ویسے ہی تر ہنوز

کھولی تھی خواب ناز سے کسنے یہ اُٹھ کے زلف
لاتی ہے بوے ناز نسیمِ سحر ہنوز

وعدونپہ تیرے کام بھی میرا ہوا تمام
باتین ہی تو بنایا کیا یار پر ہنوز

جو دودھ کا جلا ہو پیے چھاچھ پھونک پھونک
ہون وصل مین پہ ہجر سے ہے مجھکو ڈر ہنوز

بھولے سے تو نے پیار کی اِکدن کہی جو بات
روتا ہون دل ہی دل مین اُسے یاد کر ہنوز

اُجڑے ہزار شہر حسن اور پھر بسے
آباد پر ہوا نہ یہ دلکا نگر ہنوز​
 

شمشاد

لائبریرین

حد سے در گذرا ہمارا اس طرف عجز و نیاز
پر اُدھر سے بے نیازی ہی رہی سر گرم ناز

عدد کی اب بات تھوڑی سی بھی لگتی ہے بہت
ہو رہا ہے بسکہ اک مدت سے دل اپنا گداز

اگرچہ دلکو ہے یقین یہ خط نہین پڑھنیکا وہ
پر تقاضا شوق کا لکھنے سے کب رکھتا ہے باز

ظلم کب تک کیجیے گا اس دل ناشاد پر
ابتو اس بندہ پہ ٹک کیجیے کرم بندہ نواز

اور دل لاوین مگر کوکئی کہین سے اے حسن
عشق کا ہمسے تو اسمین چھپ نہین سکتا ہے راز​
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔ سینہ پر داغ نہین پیکر طاؤس
اُڑتا ہے اسے دیکھ کے رنگ پر طاؤس

۔۔۔۔۔۔۔۔ ہین یہ جب داغ لئے اشک جگر گون
پھرتا ہے تب آنکھونمین مرے لشکرِ طاؤس

۔۔۔نگی جلوہ کو ترے دیکھ کے پیارے
خجلت سے جھکے پانؤن کے اوپر طاؤس

۔۔۔۔ سوختہ دلؔ خستہ جگر آہؔ حزین ہون
نہ نالہ بلبل ہون نہ شور و شر طاؤس

جز سوز کے اور داغ کے خالی نہین اِک جا
ہون کاغذ آتش زدہ مین یا پر طاؤس

کچھ گرد مین ہین آج کے سو رنگ کے جلوے
برباد ہوے ہے کہین خاکسترِ طاؤس

نیرنگ معانی ہین غزل مین تو حسن کی
ہے اسکو بجا کہیے اگر افسر طاؤس​
 

شمشاد

لائبریرین

سرگرم مرے سینہ مین ہوتی ہے جب آتش
اشکون کی جگہ برسے ہے آنکھون سے تب آتش

مے آتش و رنگ آتش و یاقوت لب آتش
عاشق کے جلانے کو وہ رکھتا ہے سب آتش

غم دلکے مرے حال سے کچھ تجھکو خبر ہے
کس گھر کو لگاتا ہے تو اے بے ادب آتش

کیا خاک ہو آرام اُسے کیونکہ پڑے کل
پھڑکا کرے جس دل مین سدا روز و شب آتش

مین شمع و چراغ آہ نہین ہون مرے دلسوز
کس واسبے دیتا ہے مجھے بے سبب آتش

پہلو مین جو بیٹھے کوئی ہمدم تو جلے وہ
ایسی ہی لگی ہے مِرے دلمین غضب آتش

ہون دیدہ تر سُلگون ہون رہ رہ کے جو غم سے
کرتی ہے کمی ورنہ جلانے مین کب آتش

نکلے ہے جگر سے مرے یون آہ بھبھوکا
گویا کہ بھڑک اُٹھی ہے پہلو مین اب آتش

گر رؤون تو دہکے ہے حسن دونی تپِِ عشق
چون شمع لگی ہے مِرے تن مین عجب آتش​
 

شمشاد

لائبریرین

نی فکر ہے سعاد کی اور نہ غم معاش
جو ماسوا ہے انکے مجھے اُسکی ہے تلاش

جبسے لگی ہے ناوکِ مژگانسے اُسکی آنکھ
ہر پل مین ہے جگر پہ نئی طرح کی خراش

یا دل کو مین ہی بھلون کہ یا اُسکو بھولے دل
اِن دونون باتون مین سے کہین ایک ہوے کاش

یون پرزے پرزے ہوئے یہ قاتل کی تیغ سے
تا اس گلی سے اُٹھ نسکے میرے دلکی لاش

ہے چاک چاک روز ازل سے یہ دل مرا
جون خرپزہ عیان ہے جدا ایک ایک فاش

بیکنٹھ ہو نصیب کہ تھا اُسکو سب سے اُنس
لالہ سروپ سنگہ تھا بھی زور یار باش

صدمہ تھا ہجر کا کہ یہ تھا کیا غضب حسن
یون دل جگر کو میرے کیا جسنے پاش پاش​
 

شمشاد

لائبریرین

ہے کون کون لون مین کس کس کا نام مخلص
عالم تو ہو گیا ہے تیرا تمام مخلص

تم جانو یا نجانو پر ہمتو اپنے دل سے
بندے وہی ہین فدوی خادم غلام مخلص

پیارے کمی ہے تجھکو کیا اپنے مخلصون کی
تیرے ہی تو یہان ہین سب خاص و عام مخلص

اخلاص کی جو صورت ہووے تو اس عمل سے
کیونکر کرے نہ تمکو پیارے یہ رام مخلص

ٹک عزم مدعا پر اسکے بھی دھیان رکھنا
لایا ہے اپنے دل کا کچھ یہ پیام مخلص

دیتے نہین ہو کیون تم اسکو جواب شافی
کرتا ہے یہ جو تمسے پھر پھر کلام مخلص

حور و پری سے ہرگز لیوے حسن نہ صہبا
یہ چاہتا ہے تیرے ہاتھوں سے جام مخلص​
 

شمشاد

لائبریرین

اب کہان لطف یار اور اخلاص
تھا کبھی ہمسے پیار اور اخلاص

لیگیا دلکو ہنستے ہنستے صنم
کر کے دار و مدار اور اخلاص

جیتے جی ناخوشی و ہجر نہو
مین ہون اور وہ نگار اور اخلاص

قہر اور مہر سے ترے دل مین
ہے ہمارے غبار اور اخلاص

ایک سورہ حسن کہ خوب نہین
دوستی بار بار اور اخلاص​
 
Top