گیٹ پہ بیٹھے مراسلے پڑھ رہے ہیں!!!ہیں کہاں ڈھونڈھیں تو پہلے
اس میں کیا شک ہے!!!کیا سچ ہے
شکر ہے ۔۔۔ دیر سے سہی ۔آپ کو ہماری فکر تو ہوئی۔جلدی جائیں ڈاکٹر کے پاس!!!
دوسری، تیسری اور چوتھی بار ذرا سنبھل کے!!!دیر ہوگئی۔۔۔
اب ہم اُکس چکے ہیں!!!
یس سر!!!دوسری، تیسری اور چوتھی بار ذرا سنبھل کے!!!
مدیریت کو نبھانا کوئی آسان کام ہے؟یہ آپ لوگوں کی محبت ہے
پر جہاں ہم غلطی کرتے ہیں خلیل بھیا ہمیں فوراً بتاتے ہیں
اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔۔۔
ان کے سیٹھ ان کے کیے کی سزا دے رہے ہیں!!!
کیا سچ ہے
دروغ بر گردن راوی۔۔۔جھوٹ، بالکل جھوٹ! بھائی آج کل پیر بھائیوں میں مصروف ہیں۔ فیس بک پر
آپ ہی بیان کیجیےسیرت اور فطرت میں فرق تلاش کریں!!!
خدا ہمیں بھی ایسی مکھن پالش کرنے کی صلاحیت عطا فرمادے!!!
قدیم زمانے سے گمراہ انسانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور گناہوں کو تقدیر کا نام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور مظلوم طبقہ بھی خدا کی رضا سمجھ کر چپ ہوجاتا ہے۔ پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے!!!!؟؟اسے وہی بہتر جانتا ہے، ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہوتا ہے، اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے، اس کے لیے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔
یاد رکھیں کہ ہم تقدیر کے نہیں بلکہ احکامِ شرع کے پابند ہیں۔ کوئی شخص جرم کا ارتکاب اور نیکی کا انکار اس دلیل سے نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی تھا، اس لیے کہ ہمیں شریعت نے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے اور اس شرعی حکم کو ہم بخوبی جانتے ہیں۔ تقدیر کا تعلق علمِ غیب سے ہے جو ہمارے بس میں نہیں پھر جو چیز ہم جانتے ہیں اور جس کا حکم بھی ہمیں دیا گیا ہے اور جس کی تعمیل یا انکار کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے، اگر ہم اس کی تعمیل نہیں کرتے اور اس علمِ الٰہی کا جسے ہم جانتے ہی نہیں، بہانہ بنا کر غلط راہ اختیار کر رہے ہیں کہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا تو ہمیں کیسے پتہ چل گیا کہ ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ کیا ہم نے لوحِ محفوظ پر لکھا دیکھ لیا تھا؟ پس جس کا پتہ ہے اختیار ہے، کرنے کی قدرت ہے اور جس کے انجام سے باخبر ہیں، اس پر عمل نہ کرنا اور جسے جانتے ہی نہیں اس کا بہانہ بنا کر فرائض سے فرار اور جرائم کا ارتکاب کرنا، بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
بقول علامہ اقبال
تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
اور یہی سیرت میں سنوار کا سبب ہیں
منقول
فطرت اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے جس کو بدلنا ممکن نہیں۔۔۔آپ ہی بیان کیجیے
ایسے ہی ضائع کردیں گے!!!پھر صلاحیت کو استعمال کہاں کریں گے؟
غصہ پر قرآن پاک کی ایک آیت یاد آگئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:فطرت اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے جس کو بدلنا ممکن نہیں۔۔۔
حدیث پاک کا مفہوم ہے اگر کوئی کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو یقین کرلو، اگر کوئی کہے کہ فلاں کی فطرت بدل گئی تو یقین نہ کرو۔۔۔
فطرت یہ ہے کہ کسی میں غصہ کا مادہ زیادہ ہے، کسی میں کنجوسی کا، کسی میں بزدلی کا، کسی میں شہوت کا۔۔۔
اب جس کی فطرت میں زیادہ غصہ کرنا ہے تو وہ اس مادے کو ختم نہیں کرسکتا البتہ اس پر قابو پاسکتا ہے۔۔۔
مثلاً کسی بات پر غصہ تو بہت زیادہ آرہا ہے مگر غصہ کے اظہار پر قابو پارہا ہے اور اگر کہیں غصہ کا اظہار کرنا ضروری ہے تو صرف ضرورت کے مطابق اظہار کررہا ہے اور ضرورت سے زائد کو ضبط کررہا ہے۔۔۔
یہی حال کنجوسی کا ہے کہ مال خرچ کرنے کو دل نہیں چاہ رہا ہے لیکن دل کی نہیں مانتا، کنجوس طبع ہونے کے باجود زبردستی مال خرچ کرتا ہے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے، صدقات دیتا ہے، وغیرہ۔۔۔
اس کو کہتے ہیں کہ رزائل کا اِزالہ ممکن نہیں البتہ اس کا اِمالہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
اسی طرح آدمی آہستہ آہستہ بری باتوں پر قابو پا کر اخلاق اور سیرت کو بہتر بناتا جائے!!!
بالکل درست صد فی صد جناب !!!!!!اس کو کہتے ہیں کہ رزائل کا اِزالہ ممکن نہیں البتہ اس کا اِمالہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
اسی طرح آدمی آہستہ آہستہ بری باتوں پر قابو پا کر اخلاق اور سیرت کو بہتر بناتا جائے!!!
بہت شکریہ بھیاایس آئی یو ٹی کے بارے میں بھی کافی معلومات ملی آپ کی پوسٹ سے۔ ادیب رضوی صاحب سے تو خیر سبھی واقف ہیں تاہم تفصیل اس قدر پہلے معلوم نہیں تھی۔
دروغ بر گردن راوی۔۔۔
بھیا نے ہم سے یہی کہا تھا۔۔۔
ہم سے جھوٹ بول کر فیس بک پر رنگ رلیاں منارہے ہیں۔۔۔
ابھی خبر لیتے ہیں ان کی!!!
درست کہا بھیا پر ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے کم ازکم اصلاح کا در تو کھلا ہے فیس بک پر تو ایسا ہے ہر دوسرا آدمی بقراط ہے اور پھر اگر غلط کو غلط کہہ دیا تو بتانے والے کی شامت !!!!!!!!!!مدیریت کو نبھانا کوئی آسان کام ہے؟