ذکر ایک پرُ اثر مختصر ملاقات کا

سید عمران

محفلین

سید رافع

محفلین
قدیم زمانے سے گمراہ انسانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور گناہوں کو تقدیر کا نام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور مظلوم طبقہ بھی خدا کی رضا سمجھ کر چپ ہوجاتا ہے۔ پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے!!!!؟؟اسے وہی بہتر جانتا ہے، ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہوتا ہے، اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے، اس کے لیے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔
یاد رکھیں کہ ہم تقدیر کے نہیں بلکہ احکامِ شرع کے پابند ہیں۔ کوئی شخص جرم کا ارتکاب اور نیکی کا انکار اس دلیل سے نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی تھا، اس لیے کہ ہمیں شریعت نے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے اور اس شرعی حکم کو ہم بخوبی جانتے ہیں۔ تقدیر کا تعلق علمِ غیب سے ہے جو ہمارے بس میں نہیں پھر جو چیز ہم جانتے ہیں اور جس کا حکم بھی ہمیں دیا گیا ہے اور جس کی تعمیل یا انکار کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے، اگر ہم اس کی تعمیل نہیں کرتے اور اس علمِ الٰہی کا جسے ہم جانتے ہی نہیں، بہانہ بنا کر غلط راہ اختیار کر رہے ہیں کہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا تو ہمیں کیسے پتہ چل گیا کہ ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ کیا ہم نے لوحِ محفوظ پر لکھا دیکھ لیا تھا؟ پس جس کا پتہ ہے اختیار ہے، کرنے کی قدرت ہے اور جس کے انجام سے باخبر ہیں، اس پر عمل نہ کرنا اور جسے جانتے ہی نہیں اس کا بہانہ بنا کر فرائض سے فرار اور جرائم کا ارتکاب کرنا، بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
بقول علامہ اقبال

تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اور یہی سیرت میں سنوار کا سبب ہیں

منقول

اصل معاملہ تدبیر اور تقدیر کے متعلق دعا کے بین بین ہے۔ تدبیر کرنے سے پہلے اور بعد میں کثیر دعاوں کا مجموعہ ہمیں سیرت رسولﷺ سے یہی سکھاتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
فطرت اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے جس کو بدلنا ممکن نہیں۔۔۔
حدیث پاک کا مفہوم ہے اگر کوئی کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو یقین کرلو، اگر کوئی کہے کہ فلاں کی فطرت بدل گئی تو یقین نہ کرو۔۔۔
فطرت یہ ہے کہ کسی میں غصہ کا مادہ زیادہ ہے، کسی میں کنجوسی کا، کسی میں بزدلی کا، کسی میں شہوت کا۔۔۔
اب جس کی فطرت میں زیادہ غصہ کرنا ہے تو وہ اس مادے کو ختم نہیں کرسکتا البتہ اس پر قابو پاسکتا ہے۔۔۔
مثلاً کسی بات پر غصہ تو بہت زیادہ آرہا ہے مگر غصہ کے اظہار پر قابو پارہا ہے اور اگر کہیں غصہ کا اظہار کرنا ضروری ہے تو صرف ضرورت کے مطابق اظہار کررہا ہے اور ضرورت سے زائد کو ضبط کررہا ہے۔۔۔
یہی حال کنجوسی کا ہے کہ مال خرچ کرنے کو دل نہیں چاہ رہا ہے لیکن دل کی نہیں مانتا، کنجوس طبع ہونے کے باجود زبردستی مال خرچ کرتا ہے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے، صدقات دیتا ہے، وغیرہ۔۔۔
اس کو کہتے ہیں کہ رزائل کا اِزالہ ممکن نہیں البتہ ان کا اِمالہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
اسی طرح آدمی آہستہ آہستہ بری باتوں پر قابو پا کر اخلاق اور سیرت کو بہتر بناتا جائے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
فطرت اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے جس کو بدلنا ممکن نہیں۔۔۔
حدیث پاک کا مفہوم ہے اگر کوئی کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو یقین کرلو، اگر کوئی کہے کہ فلاں کی فطرت بدل گئی تو یقین نہ کرو۔۔۔
فطرت یہ ہے کہ کسی میں غصہ کا مادہ زیادہ ہے، کسی میں کنجوسی کا، کسی میں بزدلی کا، کسی میں شہوت کا۔۔۔
اب جس کی فطرت میں زیادہ غصہ کرنا ہے تو وہ اس مادے کو ختم نہیں کرسکتا البتہ اس پر قابو پاسکتا ہے۔۔۔
مثلاً کسی بات پر غصہ تو بہت زیادہ آرہا ہے مگر غصہ کے اظہار پر قابو پارہا ہے اور اگر کہیں غصہ کا اظہار کرنا ضروری ہے تو صرف ضرورت کے مطابق اظہار کررہا ہے اور ضرورت سے زائد کو ضبط کررہا ہے۔۔۔
یہی حال کنجوسی کا ہے کہ مال خرچ کرنے کو دل نہیں چاہ رہا ہے لیکن دل کی نہیں مانتا، کنجوس طبع ہونے کے باجود زبردستی مال خرچ کرتا ہے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے، صدقات دیتا ہے، وغیرہ۔۔۔
اس کو کہتے ہیں کہ رزائل کا اِزالہ ممکن نہیں البتہ اس کا اِمالہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
اسی طرح آدمی آہستہ آہستہ بری باتوں پر قابو پا کر اخلاق اور سیرت کو بہتر بناتا جائے!!!
غصہ پر قرآن پاک کی ایک آیت یاد آگئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
و الکاظمین الغیظ۔۔۔
غصہ پر قابو پانے والے۔۔۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے ’’والعادمین الغیظ‘‘ نہیں فرمایا کہ غصہ کو عدم کرنے والے، یعنی غصہ کو مٹادینے والے۔۔۔
کیوں کہ ایسا کرنا ناممکن ہے کہ آپ غصہ کے مادے کو سرے سے ختم ہی کردیں!!!
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
محفل آج کل نہ جانے کونسے گئیر میں رواں دواں ہے کہ جب تک ہم تبصرے کا سوچتے ہیں لڑی دس بیس صفحات کے پل عبور کر چکی ہوتی ہے۔ اور ہم سوچتے ہیں کہ ہمارا تبصرہ جو کہ پہلی پوسٹ پر ہوگا بیچ کی تمام تر کاروائی کے بعد نہ جانے کیسا لگے گا۔

بہر کیف، ملاقات کا احوال پڑھ کر بہت اچھا لگا۔

ڈاکٹر صاحب سے ہماری بھی ملاقات ہے اور وہ محفل کے نفیس اور ادب دوست لوگوں میں سے ایک ہیں۔ یقیناً آپ دونوں کی ملاقات اچھی رہی ہوگی۔

ایس آئی یو ٹی کے بارے میں بھی کافی معلومات ملی آپ کی پوسٹ سے۔ ادیب رضوی صاحب سے تو خیر سبھی واقف ہیں تاہم تفصیل اس قدر پہلے معلوم نہیں تھی۔
 

سیما علی

لائبریرین
Top