فطرت اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے جس کو بدلنا ممکن نہیں۔۔۔
حدیث پاک کا مفہوم ہے اگر کوئی کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو یقین کرلو، اگر کوئی کہے کہ فلاں کی فطرت بدل گئی تو یقین نہ کرو۔۔۔
فطرت یہ ہے کہ کسی میں غصہ کا مادہ زیادہ ہے، کسی میں کنجوسی کا، کسی میں بزدلی کا، کسی میں شہوت کا۔۔۔
اب جس کی فطرت میں زیادہ غصہ کرنا ہے تو وہ اس مادے کو ختم نہیں کرسکتا البتہ اس پر قابو پاسکتا ہے۔۔۔
مثلاً کسی بات پر غصہ تو بہت زیادہ آرہا ہے مگر غصہ کے اظہار پر قابو پارہا ہے اور اگر کہیں غصہ کا اظہار کرنا ضروری ہے تو صرف ضرورت کے مطابق اظہار کررہا ہے اور ضرورت سے زائد کو ضبط کررہا ہے۔۔۔
یہی حال کنجوسی کا ہے کہ مال خرچ کرنے کو دل نہیں چاہ رہا ہے لیکن دل کی نہیں مانتا، کنجوس طبع ہونے کے باجود زبردستی مال خرچ کرتا ہے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے، صدقات دیتا ہے، وغیرہ۔۔۔
اس کو کہتے ہیں کہ رزائل کا اِزالہ ممکن نہیں البتہ ان کا اِمالہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
اسی طرح آدمی آہستہ آہستہ بری باتوں پر قابو پا کر اخلاق اور سیرت کو بہتر بناتا جائے!!!