واہ جی واہ ! لگتا ہے سعود بھائی نے ’’سیوریج ‘‘ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔۔۔!چلیں ہم تھوڑی سی تفصیل لکھ دیتے ہیں۔
گول ڈھکن کے فوائد:
- گول کے بجائے کوئی اور شکل ہو مثلاً چوکور تو ڈھکن ترچھا کر کے گٹر میں گرایا جا سکتا ہے۔
- دائرہ (ڈسک) ایسی شکل ہے جس میں کم سے کم دھات کا استعمال کر کے دیگر شکلوں سے زیادہ رقبہ بنایا جا سکتا ہے۔
- گول کے بجائے کسی اور شکل کا ڈھکن بنانے میں جو تھوڑا تھوڑا اضافی مٹیریل استعمال ہوگا اس کو شہر میں موجود مین ہول کی ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد سے ضرب دیں تو اضافی خرچ بہت نمایاں نظر آئے گا۔
وہ کیا ے نا میری طبیعت کچھ ٹھیک نھیں ہی ہی ہی
ہاں دماغی مرض لگتا ہے کوئی ۔۔وہ کیا ے نا میری طبیعت کچھ ٹھیک نھیں ہی ہی ہی
سمجھا کرو!
ہاہاہا کڈنگ نہ ۔۔۔
نو کبھی نھیں!!!تو سید تراب کاظمی کا بڑے بھٹو صاحب کی برسی سے کچھ تعلق ہے کیا؟
@مقدس،دو دن بعد کیا ہونے والا ہے؟
آج میں ایک کہانی سنا تا ہوں ۔ بہت زمانہ ہوا ہندوستان میں ایک نہایت ظالم پر ذہانت کا دلدادہ بادشاہ حکومت کرتا تھا اسکا یہ معمول تھا کہ جب بھی کوئی نیا شخص اسکی حکومت کی سرحدوں میں داخل ہوتا اسکو پکڑ کر دربار میں لایا جاتا وہ بادشاہ اس سے ایک سوال کرتا تھا اگر اسکا جواب وہ شخص دیدیتا تھا تو اسکو انعام و اکرام سے نوازہ جاتا ورنہ عمر قید کیلئے جیل میں ڈالدیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ ایک نہایت ذہین آدمی کو پکڑ کر لایا گیا۔ بادشاہ نے اسکو 9 سکے دیئے اور کہا کہ یہ سب سکے ہر طرح سے ایک جیسے ہیں بس ایک کھوٹا ہے جسکا وزن باقیوں سے تھوڑا سا زیادہ ہے جسکو صرف اور صرف تول کر ہی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اس نےاس شخص کو ایک ترازو بھی دیا اور کہا کہ تم کو صرف اس ترازو کو دو دفعہ استعمال کرنا ہے اور کھوٹا سکہ میرے ہاتھ میں رکھنا ہے۔ اور واقعی اس شخص نے ترازو سے سکوں کو صرف دو دفعہ تول کرکھوٹا سکہ بادشاہ کے ہاتھ میں رکھ دیا
ایسا دعویٰ مت کیجئے کیوں کہ اسی زمانے میں ایک راجہ نے بیمار بیٹے کی صحتیابی کے لئے منت مانی تھی کہ وہ ہاتھی کے وزن کے برابر سونا تقسیم کرے گا۔ بیٹھے کی صحت یابی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا ایسا ترازو کہاں سے لائیں جس میں ہاتھی کے برابر سونا توالا جا سکے۔ کئی ہفتوں تک اس کا کوئی حل نہیں ملا تو بادشاہ نے ہاتھی کے برابر سونا تولنے میں مدد کرنے والے کے لئے انعام رکھا۔ ایک ملاح نے وہ انعام جیتا، کیسے؟دو پلڑوں والا ہی ہوتا تھا اس زمانے میں