عظیم اللہ قریشی
محفلین
دورانِ گفتگو ایک دن استادِ محترم مجھ سے پوچھنے لگے۔۔(ان کا سوال پنجابی میں تھا)۔۔
یار تمہاری علمی قابلیت کتنی ہے؟؟
(ان دنوں میں تازہ تازہ لٹریچر/Literature سے جڑا ہوا تھا، جوشیلے نوجوانوں کی طرح انگریزی کے الفاظ بولنا، مختلف انگریزی، یونانی فلاسفرز کا حوالہ دینا، میری گفتگو کا لازمی جزو ہوتا تھا )۔۔
میں بڑے فخر سے انہیں اپنی ڈگریاں/Degrees، سرٹیفیکیٹس/Certificates بتانا شروع ہو گیا۔۔
چہرے پہ مسکراہٹ لئیے بڑے تحمل سے میری بات سنتے رہے، میں فخریہ انداز سے بتاتا جا رہا تھا۔۔۔
"ماشاء اللہ۔۔ پھر تم تو بہت پڑھے لکھے ہوئے۔ ہیں نا؟؟ "
"اچھا یہ بتاوْ۔۔ ماں جی (مراد میری والدہ محترم) کتنی پڑھی لکھی ہیں؟؟"
میں نے عرض کیا کہ بالکل ان پڑھ ہیں۔۔
مسکرا کر کہنے لگے ۔۔ " تم نے ابھی جو جو تعلیم ڈگریاں بتائی ہیں، ان کا عملی استعمال کبھی کیا ہے؟؟ تم اگر والدہ محترمہ کو کوئی سائنسی تھیوری سمجھانا چاہو تو سمجھا دو گے؟؟
"نہیں سر۔۔"
"پھر کیا فائدہ تمہارے پڑھنے کا ؟؟" "تمہاری والدہ تو اس وقت بھی تمہاری بات سمجھ لیتی تھی جب تمہیں بولنا نہیں اتا تھا؟؟ اب تمہیں جتنا زیادہ بولنا آ گیا ہے،اتنی زیادہ تم ماں جی کو بات سمجھانے میں مشکل محسوس کرتے ہو؟؟ ہیں نا؟؟٫۔
جی سر۔۔۔
"علم کی تعریف بتاوْ، علم کہتے کسے ہیں؟؟" دوبارہ پیار سے پوچھنے لگے
میں نے ہمت کر کے وہی انگریزی زبان والی تعریف کہ "معلومات۔۔۔۔۔"۔۔
اب وہ کھل کھلا کر مسکرائے۔۔"اچھا یار ٹھیک ہے" پر بات کچھ جچی نہیں۔۔
دوبارہ فرمانے لگے
" گورے کی ایک عادت ہے جو اس کے خمیر میں ہے کہ چیزوں کو سیسٹیمیٹکلی/Systematically، سائنٹیفکلی/Scientifically دیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کا عادی ہے، اسی وجہ سے اتنی ترقی کر گیا ہے۔۔۔ ہم مسلمان اس کام میں پیچھے ہیں، ہمارے سمجھنے، سوچنے کا انداز مختلف ہے۔۔۔ گورا مارکیٹنگ/Marketing کرتا ہے، اس کا انداز مارکیٹنگ والا ہے، اس کی زبان کا انداز مارکیٹنگ والا ہے، چیزوں کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے،۔۔ مارکیٹنگ اانداز/Style/way ہے علم نہیں ہے۔۔۔
تم کیا بتا رہے تھے مینجمنٹ سائنسز۔۔۔ تمہارے سامنے اگر کوئی فریڈرک ونسلو ٹیلر/Frederick Winslow Taylor ،ہینری فائیل/Henri Fayol کا نام لے، اس کی بات پیش کر دے تو اسے اتھارٹی/Authority سمجھ لو گے۔۔ اگر کوئی تمہارے سامنے ان انگریزی الفاظ کی بجائے مولانا رومی، غالب، واصف علی واصف ، اشفاق احمد کی بات کا حوالہ دے تو تم اسے کوئی اتھارٹی نہیں سمجھو گے اسے محض ایک روحانی سکالر، شاعر کی بات سمجھو گے؟؟ ایسا ہے نا؟؟
"انسانی رویوں پہ بات ہو اگر کوئی پنجابی میں تمہیں، سادہ زبان میں، یا اسلامی طرزِ معاشرت سے کوئی مثال دے دے تو تم اسے محض ایک بات، عام سوچ کی بات کہو گے، اگر وہ تمہارے سامنے ویہلم ونت/Wilhelm Wundt، سیگمڈ فرائیڈ/Sigmund Freud کا نام لے کر کہے تو تم اسے سمجھو گے کہ واقعی علمی بات کہی۔۔۔"
"ایسا ہی ہے نا؟؟"
" جی سر"
"اقبال یا غالب رحمت اللہ علیہ اگر کہیں کہ ذرہ کائنات تباہ کر سکتا تو تم سمجھو گے کہ شاعر نے دور کی چھوڑی ہے، آئین سٹائیں/Einstein اسے سائنسی انداز میں ثابت کردے تو تم اسے تسلیم کر لو گے۔۔ اور من و عن مانو گے۔۔"
جانتے ہو گورا رومیؒ سے کیون عقیدت رکھتا ہے؟؟ "
میں دھیان سے ان کی باتیں سن رہا تھا، بس سر ہلا کر "نہ" کا اشارہ کیا
" اس لئیے کہ وہ جانتا ہے جس مقام پہ رومی کھڑا ہے اس نے کوئی قیاسی بات نیں کہی ہے۔۔ اس کی وسعتِ نظر آسمان سے بھی پرے ہے۔۔"
"محض الفاظ سیکھ لینا، بول چال سیکھ لینا علم نہیں ہے میرے بچے۔۔۔ کسی کو بول چال کا ڈھنگ آ گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صاحبِ علم بھی ہے۔۔۔ اس نے صرف الفاظ سیکھے ہیں، علم نہیں۔۔ کوئی اگر بہتر گفتگو کرنا جانتا ہے تو اسے الفاظ کے استعمال کا فن آتا ہے۔۔۔ ، وہ اپنی بات کی اہمیت دو چار انگریزی الفاظ سے بڑھا دیتا ہے۔۔ ہو سکتا ہے علم کے معاملے میں خالی ہو۔۔۔"
" ایک عام پنجابی، سندھی، یا اپنی مادری زبان بولنے والا اس عالم سے کہیں بہتر ہے جو اپنی علمی بات کم علموں کو نہیں سمجھا سکتا، ۔۔ تعلیمی اسناد، صرف رسیدیں ہوتی ہیں ، رسیدوں سے آپ کسی بابو ٹائپ بندے کو ہی متاثر کر سکتے ہو، ۔۔ایک دیہاتی کے لئے وہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں"
" گفتگو سادہ رکھو ، جو بات کہو، جو سمجھانا چاہو، اپنے اندر سوچو کہ آیا تمہیں خود اس بات کی پوری سمجھ بھی ہے یا نہیں؟؟ جب تک تمہیں خود پوری سمجھ نہ ہو تم بات سمجھا کیسے سکتے ہو۔۔۔ " "جب خود تمہیں کسی بات کی مکمل سمجھ ہو گی تب تم اپنے ان پڑھ لوگوں کو بھی سمجھا سکتے ہو۔۔۔"
استادِ محترم یہ سب باتیں پنجابی زبان میں کہہ رہے تھے اور میں ہکا بکا تھا۔۔۔
" پہلے یہ ضرور سمجھ لینا کہ سامنے والا کس ذہنی معیار کا ہے۔۔ اسے اس کے مقام پہ جا کر بات سمجھائی جاتی ہے۔۔ اسے خود کے معیار پہ لانے کے لئے ہو سکتا تمہاری یا اس کی عمر صرف ہو جائے۔۔ لہٰذا بات کا حسن ہے کہ سامنے والے کے علمی معیار پہ آ کر بات کی جائے"
"گفتگو میں سادہ زبان استعمال کرو ۔۔ اس مین تمہارے لئے آسانی ہو گی کہ سبھی تمہاری بات سمجھ سکیں گے اگر گفتگو مشکل الفاظ میں کی تو لوگ تمہاری بات سمجھنے کی بجائے تمہیں خبطی کہیں گے ، شوخا کہیں گے۔۔۔"
"ہمیں لوگ کو متاثر نہیں کرنا۔۔۔ اللہ کے عطا کئیے ہوئے علم سے فیض دینا ہے نہ ہمیں خود کو منوانا ہے ۔۔ منوانے کے لئے تو پھر بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں"
توقف لے کر دوبارہ فرمانے لگے
" معلومات کے بارے میں دعویٰ ہو سکتا ہے کہ مکمل، یا ساری معلومات ہیں۔۔ علم لا محدود ہے، اس کے بارے میں میں دعویٰ نہیں ہو سکتا کہ میں نے لا محدود کا احاطہ کر لیا ہے۔۔ واصف صاحب فرماتے ہیں کہ کہ علم ایک سفر ہے۔۔معلوم سے نا معلوم کا سفر،،، بڑے سے بڑا فلاسفر بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا، بڑے سے بڑا سائنسدان بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کا علمی سفر ختم ہو گیا، یا وہ منزل پہ پہنچ گا ہے۔۔ کیونکہ یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔۔۔ البتہ اس نے رستے میں پڑاوْ کئے ہیں، میٹرک ، اے لیول، گریجوایشن، ماسٹر، ایم فل، ڈاکٹریٹ۔۔۔ یہ سب اس کے عارضی پڑاوْ ہیں۔۔۔ ڈاکٹریٹ پہ تو اس کے سفر کا اصل آغاز ہوا ہے۔ ۔کیونکہ ابھی اس کے پاس زادِ راہ کافی ہے"۔۔۔
" سادگی میں پائیدار حُسن ہے۔۔۔ سادہ بندہ ہر جگہ فِٹ ہو جاتا ہے، مسئلہ تو اس کے لئے ہو تا ہے جو اس طریق کا عادی نیں ہوتا۔۔۔ "
"اگر تو تمہارے گرد سب لوگ ان مشکل الفاظ، اس مشکل زبان کو اچھی طرح سمجھتے ہیں تو بے شک انہی کے لب و لہجہ میں بات کرو۔۔ اگر کثیر تعداد سادہ لوگوں کی ہے تو پھر سادہ لب و لہجہ۔۔ وہ سبھی کو سمجھ آ جائے گا۔۔"
پیار سے میری پیٹھ تھپک کر کہنے لگے " یہ لو اب چائے پیو اور یہ باتیں پلے باندھ لینا کام آئیں گی"
میں بیٹھا سوچتا ہی رہا کہ واقعی زبان سادہ ہو تو ہم یہی سمجھتے ہی کہ " بندہ ایویں ہی ہے۔"۔۔ یہ نہیں سمجھ ہوتی کہ وہ ان مغربی فلاسفروں سے بہت اوپر کی چیز ہے۔۔ لا علمی دراصل ہماری اپنی ہوتی ہے، جہالت دراصل ہمارے اندر ہوتی ہے۔۔ ہمارے اندر کی کج فہمی، ہمارے اپنے ذہن کا فتور۔۔ یا پھر ہمارے اپنے اندر کا میل غلاظت۔۔
حسن منصوری
یار تمہاری علمی قابلیت کتنی ہے؟؟
(ان دنوں میں تازہ تازہ لٹریچر/Literature سے جڑا ہوا تھا، جوشیلے نوجوانوں کی طرح انگریزی کے الفاظ بولنا، مختلف انگریزی، یونانی فلاسفرز کا حوالہ دینا، میری گفتگو کا لازمی جزو ہوتا تھا )۔۔
میں بڑے فخر سے انہیں اپنی ڈگریاں/Degrees، سرٹیفیکیٹس/Certificates بتانا شروع ہو گیا۔۔
چہرے پہ مسکراہٹ لئیے بڑے تحمل سے میری بات سنتے رہے، میں فخریہ انداز سے بتاتا جا رہا تھا۔۔۔
"ماشاء اللہ۔۔ پھر تم تو بہت پڑھے لکھے ہوئے۔ ہیں نا؟؟ "
"اچھا یہ بتاوْ۔۔ ماں جی (مراد میری والدہ محترم) کتنی پڑھی لکھی ہیں؟؟"
میں نے عرض کیا کہ بالکل ان پڑھ ہیں۔۔
مسکرا کر کہنے لگے ۔۔ " تم نے ابھی جو جو تعلیم ڈگریاں بتائی ہیں، ان کا عملی استعمال کبھی کیا ہے؟؟ تم اگر والدہ محترمہ کو کوئی سائنسی تھیوری سمجھانا چاہو تو سمجھا دو گے؟؟
"نہیں سر۔۔"
"پھر کیا فائدہ تمہارے پڑھنے کا ؟؟" "تمہاری والدہ تو اس وقت بھی تمہاری بات سمجھ لیتی تھی جب تمہیں بولنا نہیں اتا تھا؟؟ اب تمہیں جتنا زیادہ بولنا آ گیا ہے،اتنی زیادہ تم ماں جی کو بات سمجھانے میں مشکل محسوس کرتے ہو؟؟ ہیں نا؟؟٫۔
جی سر۔۔۔
"علم کی تعریف بتاوْ، علم کہتے کسے ہیں؟؟" دوبارہ پیار سے پوچھنے لگے
میں نے ہمت کر کے وہی انگریزی زبان والی تعریف کہ "معلومات۔۔۔۔۔"۔۔
اب وہ کھل کھلا کر مسکرائے۔۔"اچھا یار ٹھیک ہے" پر بات کچھ جچی نہیں۔۔
دوبارہ فرمانے لگے
" گورے کی ایک عادت ہے جو اس کے خمیر میں ہے کہ چیزوں کو سیسٹیمیٹکلی/Systematically، سائنٹیفکلی/Scientifically دیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کا عادی ہے، اسی وجہ سے اتنی ترقی کر گیا ہے۔۔۔ ہم مسلمان اس کام میں پیچھے ہیں، ہمارے سمجھنے، سوچنے کا انداز مختلف ہے۔۔۔ گورا مارکیٹنگ/Marketing کرتا ہے، اس کا انداز مارکیٹنگ والا ہے، اس کی زبان کا انداز مارکیٹنگ والا ہے، چیزوں کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے،۔۔ مارکیٹنگ اانداز/Style/way ہے علم نہیں ہے۔۔۔
تم کیا بتا رہے تھے مینجمنٹ سائنسز۔۔۔ تمہارے سامنے اگر کوئی فریڈرک ونسلو ٹیلر/Frederick Winslow Taylor ،ہینری فائیل/Henri Fayol کا نام لے، اس کی بات پیش کر دے تو اسے اتھارٹی/Authority سمجھ لو گے۔۔ اگر کوئی تمہارے سامنے ان انگریزی الفاظ کی بجائے مولانا رومی، غالب، واصف علی واصف ، اشفاق احمد کی بات کا حوالہ دے تو تم اسے کوئی اتھارٹی نہیں سمجھو گے اسے محض ایک روحانی سکالر، شاعر کی بات سمجھو گے؟؟ ایسا ہے نا؟؟
"انسانی رویوں پہ بات ہو اگر کوئی پنجابی میں تمہیں، سادہ زبان میں، یا اسلامی طرزِ معاشرت سے کوئی مثال دے دے تو تم اسے محض ایک بات، عام سوچ کی بات کہو گے، اگر وہ تمہارے سامنے ویہلم ونت/Wilhelm Wundt، سیگمڈ فرائیڈ/Sigmund Freud کا نام لے کر کہے تو تم اسے سمجھو گے کہ واقعی علمی بات کہی۔۔۔"
"ایسا ہی ہے نا؟؟"
" جی سر"
"اقبال یا غالب رحمت اللہ علیہ اگر کہیں کہ ذرہ کائنات تباہ کر سکتا تو تم سمجھو گے کہ شاعر نے دور کی چھوڑی ہے، آئین سٹائیں/Einstein اسے سائنسی انداز میں ثابت کردے تو تم اسے تسلیم کر لو گے۔۔ اور من و عن مانو گے۔۔"
جانتے ہو گورا رومیؒ سے کیون عقیدت رکھتا ہے؟؟ "
میں دھیان سے ان کی باتیں سن رہا تھا، بس سر ہلا کر "نہ" کا اشارہ کیا
" اس لئیے کہ وہ جانتا ہے جس مقام پہ رومی کھڑا ہے اس نے کوئی قیاسی بات نیں کہی ہے۔۔ اس کی وسعتِ نظر آسمان سے بھی پرے ہے۔۔"
"محض الفاظ سیکھ لینا، بول چال سیکھ لینا علم نہیں ہے میرے بچے۔۔۔ کسی کو بول چال کا ڈھنگ آ گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صاحبِ علم بھی ہے۔۔۔ اس نے صرف الفاظ سیکھے ہیں، علم نہیں۔۔ کوئی اگر بہتر گفتگو کرنا جانتا ہے تو اسے الفاظ کے استعمال کا فن آتا ہے۔۔۔ ، وہ اپنی بات کی اہمیت دو چار انگریزی الفاظ سے بڑھا دیتا ہے۔۔ ہو سکتا ہے علم کے معاملے میں خالی ہو۔۔۔"
" ایک عام پنجابی، سندھی، یا اپنی مادری زبان بولنے والا اس عالم سے کہیں بہتر ہے جو اپنی علمی بات کم علموں کو نہیں سمجھا سکتا، ۔۔ تعلیمی اسناد، صرف رسیدیں ہوتی ہیں ، رسیدوں سے آپ کسی بابو ٹائپ بندے کو ہی متاثر کر سکتے ہو، ۔۔ایک دیہاتی کے لئے وہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں"
" گفتگو سادہ رکھو ، جو بات کہو، جو سمجھانا چاہو، اپنے اندر سوچو کہ آیا تمہیں خود اس بات کی پوری سمجھ بھی ہے یا نہیں؟؟ جب تک تمہیں خود پوری سمجھ نہ ہو تم بات سمجھا کیسے سکتے ہو۔۔۔ " "جب خود تمہیں کسی بات کی مکمل سمجھ ہو گی تب تم اپنے ان پڑھ لوگوں کو بھی سمجھا سکتے ہو۔۔۔"
استادِ محترم یہ سب باتیں پنجابی زبان میں کہہ رہے تھے اور میں ہکا بکا تھا۔۔۔
" پہلے یہ ضرور سمجھ لینا کہ سامنے والا کس ذہنی معیار کا ہے۔۔ اسے اس کے مقام پہ جا کر بات سمجھائی جاتی ہے۔۔ اسے خود کے معیار پہ لانے کے لئے ہو سکتا تمہاری یا اس کی عمر صرف ہو جائے۔۔ لہٰذا بات کا حسن ہے کہ سامنے والے کے علمی معیار پہ آ کر بات کی جائے"
"گفتگو میں سادہ زبان استعمال کرو ۔۔ اس مین تمہارے لئے آسانی ہو گی کہ سبھی تمہاری بات سمجھ سکیں گے اگر گفتگو مشکل الفاظ میں کی تو لوگ تمہاری بات سمجھنے کی بجائے تمہیں خبطی کہیں گے ، شوخا کہیں گے۔۔۔"
"ہمیں لوگ کو متاثر نہیں کرنا۔۔۔ اللہ کے عطا کئیے ہوئے علم سے فیض دینا ہے نہ ہمیں خود کو منوانا ہے ۔۔ منوانے کے لئے تو پھر بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں"
توقف لے کر دوبارہ فرمانے لگے
" معلومات کے بارے میں دعویٰ ہو سکتا ہے کہ مکمل، یا ساری معلومات ہیں۔۔ علم لا محدود ہے، اس کے بارے میں میں دعویٰ نہیں ہو سکتا کہ میں نے لا محدود کا احاطہ کر لیا ہے۔۔ واصف صاحب فرماتے ہیں کہ کہ علم ایک سفر ہے۔۔معلوم سے نا معلوم کا سفر،،، بڑے سے بڑا فلاسفر بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا، بڑے سے بڑا سائنسدان بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کا علمی سفر ختم ہو گیا، یا وہ منزل پہ پہنچ گا ہے۔۔ کیونکہ یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔۔۔ البتہ اس نے رستے میں پڑاوْ کئے ہیں، میٹرک ، اے لیول، گریجوایشن، ماسٹر، ایم فل، ڈاکٹریٹ۔۔۔ یہ سب اس کے عارضی پڑاوْ ہیں۔۔۔ ڈاکٹریٹ پہ تو اس کے سفر کا اصل آغاز ہوا ہے۔ ۔کیونکہ ابھی اس کے پاس زادِ راہ کافی ہے"۔۔۔
" سادگی میں پائیدار حُسن ہے۔۔۔ سادہ بندہ ہر جگہ فِٹ ہو جاتا ہے، مسئلہ تو اس کے لئے ہو تا ہے جو اس طریق کا عادی نیں ہوتا۔۔۔ "
"اگر تو تمہارے گرد سب لوگ ان مشکل الفاظ، اس مشکل زبان کو اچھی طرح سمجھتے ہیں تو بے شک انہی کے لب و لہجہ میں بات کرو۔۔ اگر کثیر تعداد سادہ لوگوں کی ہے تو پھر سادہ لب و لہجہ۔۔ وہ سبھی کو سمجھ آ جائے گا۔۔"
پیار سے میری پیٹھ تھپک کر کہنے لگے " یہ لو اب چائے پیو اور یہ باتیں پلے باندھ لینا کام آئیں گی"
میں بیٹھا سوچتا ہی رہا کہ واقعی زبان سادہ ہو تو ہم یہی سمجھتے ہی کہ " بندہ ایویں ہی ہے۔"۔۔ یہ نہیں سمجھ ہوتی کہ وہ ان مغربی فلاسفروں سے بہت اوپر کی چیز ہے۔۔ لا علمی دراصل ہماری اپنی ہوتی ہے، جہالت دراصل ہمارے اندر ہوتی ہے۔۔ ہمارے اندر کی کج فہمی، ہمارے اپنے ذہن کا فتور۔۔ یا پھر ہمارے اپنے اندر کا میل غلاظت۔۔
حسن منصوری