روحانی اقوال

جھوٹ انسانی ذھن کو بہت مرغوب ہے کیونکہ جھوٹی کہانیاں بُننا اسکو تخلیق کار بنا دیتا ہے، صانع بنا دیتا ہے۔ اور جب ذھن فعال ھو جاتا ہے تو اس سے انا کو وجود ملتا ہے۔ اگر انسان سچ کا ساتھ دے تو دماغ کے کرنے کے لئے کچھ بھی باقی نھیں رھتا لھذا وہ فنا ھو جاتا ہے اور اسکے ساتھ ہی جھوٹی انا بھی غائب ہو جاتی ہے اور ایسی صورتحال نہ تو ذھن کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی انا کو پسند کرتی ہے۔
 
منطق الطیر
منطق الطیر خواجہ فرید الدین عطار رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی تحریر کردہ ایک تمثیلی مثنوی ہے جس میں چار ہزار چھ سو اشعار ہیں مثنوی کا آغاز اللہ تبارک تعالیٰ کی حمد و ثناء،رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کی منقبت سے کیا گیا ہے ۔ مثنوی میں 45مقالے ہیں آخر میں ایک خاتمہ ہے ۔مضمون پرندوں کے اجتماع سے شروع ہوتا ہے آپ پرندوں کا خیال بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ پرندوں(انسانوں) کے خیال میں کوئی ملک بادشاہ کے بغیر خوشحال نہیں رہ سکتا ہے اور وہ اپنا بادشاہ سیمرغ (حق)کو خیال کرتے ہیں اور اسے تلاش کرنے کے لیئے تمام پرندے ہد ہد کی(راہ نما ،پیامبر، خضر راہ) رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ہد ہد(مرشدِ کامل ) وعدہ کرتا ہے کہ وہ انھیں سیمرغ تک پہنچا دے گا شرط یہ ہے کہ وہ راستے کی صعوبتیں برداشت کرنے کی ہمت رکھتے ہوں ان پرندوں میں 30پرندے ایسے ہوتے ہیں جن کی طلب صادق ہوتی ہے جن کو سالک کہا جاتا ہے سالک جو صعوبتیں برداشت کرتے ہیں وہ دراصل عارفوں کی ریاضتیں ہیں۔
راہ سلوک میں سالک کی سات وادیاں(بمعنی منازل)ہوتی ہیں ۔
پہلی منزل کا(وادی) نام طلب و جستجو ہے جب تک کوئی سالک اپنے اندر طلب پیدا نہ کرے گا وہ کمال کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے ۔بہت سارے پرندے ادھر سے ہی واپس ہوجاتے ہیں ۔کیونکہ وہ اپنے اندر طلب و جستجو کا مادہ نہیں پاتے ہیں ۔
حضرت ابوبکر واسطی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ۔اس میں تین چیزیں بہرصورت ہونی چاہیے ہیں اس کو نیند پر غلبہ ہو ۔اس کا کھانا فاقہ ہو۔اس کی گفتگو ضرورت کے مطابق ہو۔
یعنی کم خوردن،کم گفتن،کم خفتن(قلت طعام،قلت کلام،قلت منام)(کم کھانا،کم بولنا،کم سونا)
جدوجہد این جااست بایدسالہا
زآنکہ این جا قلب گردد سالہا
مال این جا بایدت انداختن!
ملک این جا بایدت در باختن
دوسری منزل کا(وادی) نام عشق ہے اس کے لیے سالک کو منزل مقصود سے اتنی دل بستگی ہو یعنی ارادہ اتنا قوی و پختہ ہو کہ راہِ طریقت میں بلا اندیشہ نکل کھڑا ہواور راستہ کی تکالیف اور مصائب کو خاطر میں نہ لائے۔
اس منزل پر بہت سارے پرندے آکر رک جاتے ہیں اور بہت سارے راستے میں ہی ہلاک ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کا مادہ ان مصائب اور سختیوں کا متحمل نہیں ہوتا ہے ۔
بعد ازآں وادی عشق آمد پدید
غرق آتش شد کسی کانجا رسید
کس دریں وادی بجز آتش مباد
وآنکہ آتش نیست عیشش خوش مباد
عاشق آں باشد کہ چون آتش بود
گرم روسو زندہ و سرکش بود!
عاقبت اندیش نبود یکزماں!
غرق در آتش چون آن برق جہاں
تیسری منزل کا(وادی) نام معرفت ہے اور یہ ہر سالک کی عقل و استعداد کے مطابق ہوتی ہے یعنی جیسا اس کا مادہ ہوگا بعینہ معرفت ہوگی۔اس منزل پر آکر بہت ساری باتوں کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔علوم و فنون کی حقیقت منکشف ہوتی ہے اور بہت سارے ادھر ہی مشغول ہوجاتے ہیں ۔
ہیچ رہ دردی نہ چون آن دیگر است
سالک تن مالک جاںدیگر است
لاجرم بس رہ کہ پیش آید پدید
ہریکی برحد خویش آید پدید
سیر ہر کس تاکمال او بود
قرب ہر کس حسب حال او بود
معرفت ایں جا تفاوت یافتہ
ایں یکی محراب و آں بت یافتہ
صد ہزاراں مرد گم کردد مدام!
تا یکے اسرار بین گرد تمام
ہست دائم سلطنت در معرفت
جہد کن تا حاصل آید ایں صفت
چوتھی منزل کا(وادی) نام استغناءہے اس وادی میں دنیا و مافیا سے بے نیاز سالک داخل ہوتا ہے خواہشات دنیا کا اسیر شخص اس وادی میں داخل نہیں ہوسکتا ہے ۔کیونکہ یہ سالک بلند نظر ہوتا اور اس کو نظر آتا ہے کہ یہ سب اعتبارات ہیں جن کو عوام الناس حقیقت سمجھ رہے ہیں اس کی نظر میں دنیا اس نقش کی مانند ہے جس کو صحرا کی ریت پر لکھا جاتا ہے اور پھر ہوا کے بگولے اس کو مٹا دیتے ہیں ۔
اس مقام پر بہت سارے مستقل رہائش اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ میں آگے جانے کی استطاعت نہیں پاتے ہیں ۔یہ مقام جذب ہے اس مقام کا بندہ اٹھارہ ہزار عالم کا اپنے ناخن پر مشاہدہ کرتا ہے ۔اورایسا بندہ کی حرکات و سکنات پر غور کیا جائے تو وہ ہر قدم بہت پھونک پھونک کر لیتا ہے کیونکہ دنیا اس کو ایک فٹبال کی مانند دکھتی ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اگر ایک قدم اور آگے بڑھایا تونیچے گر جائے گا۔مزید جاننے کے لیئے دیکھو حاجی شریف زندنی کے واقعات جو کہ حضرت عثمان ہارونی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے مرشد تھے اور موخر الذکر حضرت خواجہ خوجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ العزیز کے مرشد ہیں ۔
دیدہ باشی کان حکم پرخرد
تختہ خاک آورد درپیش خود
پس کند آں تختہ و پرنقش ونگار
ثابت و سیارآرد آشکار
ہم ملک آرد پدید وہم زمیں
گہ برآں حکمی کند گاہی بریں
ہم نجوم وہم بروج آرد پدید
ہم افول و ہم عروج آردپدید
ہم نحوست ہم سعادت برکشد
خانہموت و ولادت برکشد
چوں حساب نحس گردد سعد از آ
گوشہ آں تختہ گیر د بعد از آں
برفشاند گوئی آن ہرگز نبود
آں ہمہ نقش و نشاں ہرگز نبود
صورت ایں عالم پر پیچ پیچ
ہست ہمچوں صورت تختہ ہیچ
پانچویں منزل کا(وادی) نام توحید ہے اس مقام پر سالک کو کثرت میں وحدت نظر آتی ہے وہ ہر شئے میں تجلیات اسماءکا مشاہدہ کرتا ہے ۔من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے ۔
بہت سارے اسی مقام پر آکر رک جاتے ہیں اور مستقل رہائش اختیار کرلیتے ہیں ۔
چوں یکی باشد ہمی نبود دوئی!
ہم منی برخیزد این جا ہم توئی!
چشم بینا جس جگہ اور جس شخص کو دیکھتی ہے وہ اس کی حقیقت یعنی خدا کو دیکھتی ہے
رفت پیش بو علی آں پیرزن
کاغذ زبرد کایں بستان زمن
شیخ گفتا عہد دارم من کہ نیز
جزز حق نستانم از کس ہیچ چیز
پیرز ن در حال گفتا بوعلی!
از کجا آوردی آخر احولی
مرد راہ در دیدہ این جا غیرنیست
کعبہ را ضدیتی باد یر نیست
چھٹی منزل کا(وادی) نام بے خودی(مقام حیرت بھی کہتے ہیں ) ہے اس مقام پر آکر سالک کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی ساری معلومات محدود تھیں اور وہ محض لاعلم تھا تو وہ مبہوت ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اپنی ہستی تک سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے ۔
دیوانگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھی تو گھر آنا چاہیے
مرد حیران چون رسد ایں جایگاہ
در تحیر ماندہ گم کردہ راہ
گم شود در اہ حیرت محوومات
بے خبر از بود خود و زکائنات
ہر کہ زد توحید برجا نش رقم
جملہ گرد و کم از و اونیزہم
گربدوگویندہستی یا نہ ای
سربلندعالمی پستی کہ ای
درمیانی یا برونی از میاں
برکناری یا نہانی یا عیاں
فانئی یا باقی یا دوئی
ہر دوئی یا تو نہ ای یا نہ توئی
گوید اصلامی ندانم چیز من
دین ندانم ہم ندانم نیز من
ساتویں منزل کا(وادی) نام فنا ہے۔یہاں پر سالک فنا کے بعد بقا پاتا ہے اور واصل بحق ہوجاتا ہے ۔
ہر کہ دریای کل گم بودہ شد
دائما گم بودہ و آسودہ شد
گر تو ہستی راہ بین و دیدہ ور!
موی در موی ایں چنیں اندر نگر
ہر کہ او رفت ازمیاں انیک فنا
چوں فنا گشت ارفنا انیک بقا
خواجہ فرید الدین عطار رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مقام پر صرف 30پرندے پہنچتے ہیں اور وہ سیمرغ کو پالیتے ہیں ۔یعنی اپنی حقیقت کو پالیتے ہیں ۔کیونکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ سی مرغ اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔یعنی سی یعنی تیس اور مرغ یعنی پرندے جب نایافت کو دریافت کرنے نکلے تو ان کی خود شناسی کی تلاش کا سفر اپنی ہی یافت پر ختم ہوا(من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہ)جس نے اپنے نفس کو جانا اُسنے اپنے رب کو جانا)قول مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

ہم زعکس روی سیمرغ جہاں
چہرہ سیمرغ دیدند آں زماں
چوں نگہ کردند ایں سیمرغ زود
بےشک ایں سی مرغ آں سیمرغ بود
کشف ایں سر قوی درخواستند
حل مائی و توی درخواستند
بی زباں آمد از آنحضرت جواب
کاینہ است آنحضرت چوں آفتاب
ہر کہ آید خویشتن بینددراو
جان و تن ہم جان و تن بیند در او
 
اگر کوئی آپ کی پرواہ رکھتا ہے آپ کی خیر خبر رکھتا ہے محفل میں یا آمنے سامنے آنے پر آپ کو توجہ دیتا ہے تو اس شخص کی قدر کریں کیونکہ دنیا میں تماشائیوں کی تعداد زیادہ ہے جب کہ آگے بڑھ کر لبیک کہنے والے قدر کرنے والے لوگ قلیل تعداد میں ہیں۔
مولا علی کے فرمان کا مفہوم
 
تو خود حجاب خودی حافظ از میان برخیزد
خوشا کسے کے دریں راہ بے حجاب رود
تو اپنے اور اُس کے درمیان خود ہی ایک حجاب ہے۔ وہ شخص کتنا خوش قسمت ہے کہ جو اِس راہ پہ بے حجاب چلتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر خدا ھے تو میں نہیں ھوں
اگر ھوں میں تو خدا نہیں ھے
ہے اسقدر تنگ راہ الفت
کہ اس میں دو کی جگہ نہیں ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔

بیکار کی تلاش تھی میری اِدھر اُدھر
خود سے ملا تو اٗن سے ملاقات ہو گئی
۔۔۔۔۔۔
پوچھتے ہو کہ سرِ وحدت کیا ہے
ماسوا کی بھلا ، حقیقت کیا ہے
یوں ملوں تم سے میں، کہ میں نہ رہوں
دوسرا جب ہوا تو خلوت کیا ہے
 
ممتاز مفتی فرماتے ہیں:

"اسلام کہتا ہے اللہ سے تعلق قائم کرو، اسے اپنا لو، اسے اپنا جانو ، جیسے تم بھائی بہن ،والدین یا دوستوں کو اپنا جانتے ہو۔ تعلق کوئی کام نہیں بلکہ رویّہ ہے، اور رویّہ تو ہر وقت قائم رہتا ہے؛ گھڑی کے جیسے، ہر وقت ٹِک ٹِک کرتا رہتا ہے۔

اگر آپ سمجتھے ہیں کہ پانچوں وقت جائے نماز پر کھڑے ہو کر الله کو سلام کرنے سے الله سے تعلق پیدا ہو جائے گا، تو یہ آپ کی بھول ہے۔ اللہ سے تعلق پیدا کرنا ہے تو اسے انگلی لگا کر ساتھ ساتھ لیے پھرو، کھانا کھانے لگو تو پاس بٹھا لو۔ کہو یار آج تونے مجھے اتنی ساری نعمتیں دے دیں۔ رات کو سونے لگو تو اسے ساتھ لٹا لو، کہو واہ میرے دوست سارا دن قدم قدم پر تو نے میرا ساتھ دیا ہے، کیا خوب ساتھ دیا ہے سبحان الله! اللہ سے تعلق تو ایسا ہونا چاہیے جیسے ماں سے ہوتا ہے۔ تھک جاؤ تو اس کی گود میں سر رکھ دو"۔
تلاش
 
حسن بتاں کا عشق میری جان ہوگیا
یہ کفر اب تو حاصل ایمان ہوگیا

میں نے درِ صنم پہ پڑھی اس طرح نماز
کعبہ میری نماز پہ قربان ہوگیا

اے ضبط دل یہ کیسی قیامت گزر گئی
دیوانگی میں چاک گریبان ہوگیا

وہ بن سنور کے پھر میری محفل میں آگئے
بیٹھے بٹھائے حشر کا سامان ہوگیا

کر کے سنگھار آئے وہ ایسی ادا کے ساتھ
آئینہ ان کو دیکھ کر حیران ہوگیا

دیکھا جو اس صنم کو محسوس یہ ہوا
جلوہ خدا کا صورت انسان ہوگیا

سب میرا عشق دیکھ کے لیتے ہیں تیرا نام
میں بھی تیرے جمال کی پہچان ہوگیا

پوجا کریں گے اس کی فناؔ تمام عمر
وہ بت ہمارے واسطے بگوان ہوگیا

فنا بلند شہری
 
تصوّف دراصل اپنی زندگی میں اللّٰہ کےعمل کودریافت کرنا ہے یا اسکے عمل کےحوالے سےاپنی زندگی کو دریافت کرنا ہے۔

حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ
 
فنا کی منزل ایسی ہوتی ہے کہ سب سے پہلے سالک سے اسکے پرانے خیالات دور کیے جاتے ہیں اور (اس کے سینے کو) شیشے کی طرح صاف کر دیا جاتا ہے - بعد ازاں اس پر حقائق لکھے جاتے ہیں - اس منزل میں سالک کا حافظہ بھی رخصت ہوجاتا ہے - دوستی دشمنی اور باقی تمام علائق بھی ختم ہوجاتے ہیں - جنت دوزخ کشف و کرامات اور دوسری خواہشات کا بھی صفایا ہو جاتا ہے - اور جب ان چیزوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو پھر قلب پر حق تعالیٰ کا نزول ہوتا ہے - نزول کا مطلب یہ کہ ظاہر ہو جاتا ہے ورنہ حق تعالیٰ تو ہر وقت انسان کے دل میں موجود رہتا ہے

امیر حمزہ شنواری (چشتی نظامی نیازی)
ملفوظات حمزہ باباؒ
 
جابر بن حیان ابو الکیمیاء نے امام جعفر الصادقؑ سے پوچھا
" اے استاد مُکرم ، اے فرزندِ رسولؑ ، یہ تو بتائیے کے موت کیا ہے ؟
امامؑ نے فرمایا: جابر سمجھ سکتا ہے ؟
جابر نے کہا جی مولا اگر اپ اہل سمجھیں تو سمجھائیں ،
امامؑ نے فرمایا :
"جابر غور سے سُن اور سمجھ جب تو شکمِ مادر میں تھا تو تاریک پردوں میں رہتا تھا وہ بہت چھوٹا سا جہاں تھا تب جابر تو نے اِس جہاں کی وسعت اور روشنی دیکھی نہیں تھی
لیکن تو اُس تاریک جہاں میں بہت خوش تھا تب تو اُس جہاں سے کسی اور جگہ جانا نہیں چاہتا تھا کیوں کے تو نے اُس سے بڑا جہاں دیکھا نہیں تھا یہی سبب ہے کے تو نے اِس جہاں میں آتے ہی رونا شروع کر دیا تھا کیوں کے تو سمجھ رہا تھا کہ میں مر رہا ہوں لیکن یہاں والے خوش تھے کے تو اُس جہاں میں پیدا ہو رہا ہے یہی ہوگا جب تو یہ جہاں چھوڑ کر اگلے جہاں جائے گا وہاں والے خوش ہوں گے کے جابر پیدا ہو رہا ہے یہاں والے رو رہے ہوں گے کے جابر مر رہا ہے ،
امامؑ نے فرمایا جابر جسے دنیا پیدائش کہتی ہے وہ اصل میں موت ہے اور جسے دنیا موت کہتی ہے وہ اصل میں پیدائش ہے ،
جابر جتنا فرق شکم ِمادر اور اِس جہاں میں ہے اِتنا ہی فرق اِس جہاں اور اُس سے اگلے جہاں میں ہے،
جابر جیسے تو اِس جہاں میں آ کر واپس پلٹنا نہیں چاہتا ایسے ہی تو اگلے جہاں کی وسعت کو دیکھ کے پچھلے جہاں میں پلٹنا نہیں چاہے گا ،
جابر یاد رکھ جتنا فرق شکم ِمادر اور اِس جہاں میں فرق ہے اُتنا ہی فرق اِس جہاں میں اور اِس سے اگلے جہاں میں ہے اور اُتنا ہی فرق اُس جہاں اور جنت میں ہے
"جس کے حسنینؑ سردار ہیں."
 
دیکھ کلمہ کہاں ہے کلمے میں
بول کس کا بیاں ہے کلمے میں

کتنے نقطوں کا اِک نقطہ ہے
کتنے نقطے نہاں ہیں کلمے میں

کھول کلمے کو کلمے کی کَل سے
کلمے کی کل کہاں ہے کلمے میں
 
ہزاراں سال با فطرت نشستم
بہ او پیوستم و از خود گسستم
ولیکن سر گذشتم ایں دو حرف است
تراشیدم ، پرستیدم ، شکستم

میں ہزاروں برس فطرت کے ساتھ رہا ہوں
اس میں پیوست اور خود سے جدا ہوا ہوں
لیکن میرا ماجرا ان دو حرفوں میں آجاتا ہے
میں نے بت تراشا،میں نے پوجا، میں نے توڑ دیا۔

تشریح: انسان ہزاروں سال سے اس کائنات عالم میں غور و فکر کررہا ہے یعنی فطرت کا قاری ہے اور اس کے عجائب وغرائب کے مشاہدہ و مطالعہ میں منہمک و مستغرق ہے۔ اوراپنی خودی سے غافل ہوکر اس نے اپنی تمام تر توجہ عناصر فطرت پر مبذول کردی ہے لیکن اِس طویل مدت کے مطالعہ مشاہدہ اور تجربہ کا نتیجہ تین لفظوں میں پنہاں ہے۔
1۔انسان نے ہر دور میں غور و فکر کے بعد اپنی ناقص عقل کے مطابق تجربات و مشاہدات کے بعد کچھ نظریات ترتیب دیئے۔
2۔ ان کو صحیح قرار دے کر سمجھ کر انکی پرستش کی حد تک پیروی کی اور ان کو کہیں تبلیغا اور کہیں بزور بازو پھیلایا۔
3 بعد میں انہیں کے پیروکاروں نے جب ان پر اساتذہ و امامان فن کی اغلاط آشکارہ ہوگئی تو ان نظریات کو مردود قرار دے دیا۔
یعنی اپنے بنائے ہوئے بُتوں کو خود پاش پاش کردیا
قلندر لاہوری ڈاکٹر اقبال رحمٹہ اللہ علیہ نے رباعی میں گذشتہ ڈھائی ہزار سال کی فلسفیانہ جدوجہد کی تاریخ کا خلاصہ بیان کردیا ہے۔
لسان العصر سید اکبر الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کوکچھ یوں بیان کیا ہے۔
انکشافِ رازِ ہستی عقل کی حد میں نہیں
فلسفی یاں کیا کرے اور سارا عالم کیا کرے
 
میں فدا ہوں تجھ پہ جاناں تیرے در سے کیسے اٹھوں
جو ملا نہیں حرم سے تیرے در سے ملے گا


میری بندگی کا حاصل تیری اک نظر ہے جاناں
تیری اک نظر سے مجھ کو میرا مدعا ملے گا


جو خدا کی جستجو ہے کرو جستجوئے خواجہ
چلو چشتی گلی میں وہی پہ خدا ملے گا


بڑی عظمتیں ملیں گی تیری عاشقی میں جاناں
جو نظر ملا کے تجھ سے مئے عاشقی پیے گا


تیرے در کا ہوں بھکاری مجھے اپنا صدقہ دے دیں
میری جھولیاں بھریں گی تو اگر کرم کرے گا


نہ دوئی کا رنگ ہوگا نہ خودی رہے گی باقی
تیرے رخ سے میرے جاناں یہ حجاب جب ہٹے گا


فناؔ ہو کے تیرے در پہ ایسا آئینہ بنو ں گا
مجھے دیکھ لے گا جو بھی تیرا جلوہ دیکھ لے گا


فناؔ بلند شہری
 
دلِ بے مدعا ہے میں نہیں ھوں
کوئی دم کی ہوا ہے میں نہیں ھوں

وہ خود بیں خود نما ہے میں نہیں ھوں
مقابل آئینہ ہے میں نہیں ھوں

حقیقت میں خدا ہے میں نہیں ھوں
یہ برحق ہے بجا ہے میں نہیں ھوں

اُٹھے ہیں جب ذرا غفلت کے پردے
تو یہ عقدہ کُھلا ہے میں نہیں ھوں

جہاں ڈالی نظر نکلا تُو ہی تُو
پتہ اس سے چلا ہے میں نہیں ھوں

وہ میرا راز ہے میں راز اُس کا
سمجھ لو بات کیا ہے میں نہیں ھوں

کبھی ساجد کبھی مسجود ہوں میں
پھر اِس پر یہ مزا ہے میں نہیں ھوں

سمائے ہیں نگاہوں میں وہ جلوے
تو کہنا ہی پڑا ہے میں نہیں ھوں

بنا کر خود ہی اِک مٹی کو مورت
وہ خود ہی آ بسا ہے میں نہیں ھوں

وہی نقشہ ، وہی شوخی ، وہی چال
سراپا دل رُبا ہے میں نہیں ھوں

ترا بند قبا چُھونے کے قابل
فقط بادِ صبا ہے میں نہیں ھوں

دلِ مشتاق میرا کیا بھروسہ
ترا حافظ خدا ہے میں نہیں ھوں

کلام حضرت الشیخ غلام معین الدین جیلانی تخلص مشتاق المعروف بڑے لالہ جی گولڑہ شریف
 
".. ﻣﻌﺮﻓﺖ .."

" ﻭﺍﻟﻌﺼﺮ ﺍﻥ ﺍﻻﻧﺴﺎﻥ ﻟﻔﯽ ﺧﺴﺮ "

"ﻗﺴﻢ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﯽ.! ﺗﺤﻘﯿﻖ کہ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ۔"

ﻣُﺮﯾﺪ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ مُرﺷﺪ فقیر ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ "ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﻣﮕﺮ وہ ﻟﻮﮒ جو ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ۔ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺲ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﺲ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻻﻧﺎ ﮬﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﯾﺎ ﺟﺎﭼﮑﺎ ﮬﮯ۔"

ﻓﻘﯿﺮ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ "ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺗُﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﻨﺘﺎ ﮬﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮬﮯ۔؟" ﺳﺎﺋﻞ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮬﮯ۔ ﻓﻘﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ "تُو ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﯿﻮﮞ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ، ﺗُﻮ ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻘﯽ، ﭘﺮﮬﯿﺰﮔﺎﺭ، ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺰﺍﺭ، ﺑﻦ ﺟﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﮬﮯ ﮔﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮬﯽ، ﺍﻭﺭ ﺁﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ تُو ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮬﻮ ﮐﺮ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ تُو "ﻟﻘﺪ ﺧﻠﻘﻨﺎﻻﻧﺴﺎﻥ ﻓﯽ ﺍﺣﺴﻦ ﺗﻘﻮﯾﻢ" ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗُﻮ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﺣﺴﻦ ﺗﻘﻮﯾﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮬﮯ، ﺟﺲ ﭘﺮ اللّٰہ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺧﻠﻖ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ، ﮐﯿﺎ ﺗُﻮ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ "ﺍللّٰہ ﮬﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽّﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﭘﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺮﭘﺮﺳﺖ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ" ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﯾﺎ ﮐﺎﻓﺮ ﯾﺎ ﻣﺠﻮﺳﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﺍﺣﺴﻦ ﺗﻘﻮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﯾﮧ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺗُﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺁﺩﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﻔﺖ ﺍﻭﺭ ﺻﻮﺭﺕ ﭘﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ۔ "ﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻋﻠٰﯽ ﺻﻮﺭﺗﮧ" ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺧﻠﻖ ﮐﯿﺎ ﺁﺩﻡ ﺍﻭﭘﺮ ﺻﻮﺭﺕِ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺮ" تُو ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮬﻮ ﮔﺎﺟﺐ تُو ﺍِﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔"

ﻣﺮﯾﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﻮ "ﻭﺗﻮﺍﺻﻮاﺑﻠﺤﻖ" ﺍﻭﺭ "ﻭﺗﻮﺻﻮﺍﺑﺎﻟﺼﺒﺮ" ﮬﮯ ﺍس کا ﮐﯿﺎ ﻣﻔﮭﻮﻡ ﮬﮯ۔؟"

ﻓﻘﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ "ﯾﮩﯽ ﺗﻮ ﺁﯾﺖ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ تُو ﺍِﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ تُو ﺻﻔﺖِ الہٰی ﮐﺎ ﻣﻈﮩﺮ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ، ﺗﻮ تُو ﺍﻭﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍِﺱ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﺣﻖ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ، ﺟﻮ ﺗﺠﮫ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﯽ۔ ﺍِﺱ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ تُو ﺻﺮﻑ ﺍُﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮬﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻔﺖ ﻭ ﺷﻨﯿﺪ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﺟﯿﺴﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮬﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺳﯿﮑﮭﻮ ﮔﮯ، ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺟﮯ ﮐﻮ ﻋﻤﺪﮦ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺳﻮﺍ ﺍِﺱ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ھے ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺻﺒﺮ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺍِﺱ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ اور اُس ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ والا ﺷﺎﺯ ﻭ ﻧﺎﺩﺭ ﮬﯽ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﻣﯿﺴّﺮ ﮬﻮ ﮔﺎ۔"
 
اس نے کہا: تم "بے نیاز" ہوجاو۔۔ جیسے خدا "بے نیاز" ہے
میں نے کہا: میں خدا نہیں۔۔ انسان ہوں
اس نے کہا: یقینا انسان خدا نہیں ہے۔ وہ محدود ہے۔۔ لیکن وہ خدا کی کئی صفات کو اپنا کر اپنی شخصیت سنوار سکتا ہے۔۔ جیسے خدا رحم فرماتا ہے۔۔ انسان بھی رحم کرسکتا ہے۔
میں نے کہا: لیکن انسان کے رحم کرنے میں اور خدا کی صفت رحمت میں بہت بڑا فرق ہے
اس نے کہا: فرق ہے۔۔ ایک سمندر اور ندی میں جتنا فرق ہے اس سے بھی زیادہ بڑا فرق ہے لیکن دونوں میں بہتا تو پانی ہی ہے نا۔
میں نے کہا: کیا انسان خدا کی طرح بے نیاز ہوسکتا ہے؟
اس نے کہا: تم بے نیازی کو سمجھتے کیا ہو؟
میں نے چند لمحے سوچ کر کہا: بے نیاز ہوجانے سے مراد ہے کہ کچھ بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اس نے تمہیں "بے نیازی" سمجھ میں آجائے گی۔۔کیونکہ بے نیازی میں یہ چار کیفیات بالکل نہیں ہوتی۔
میرے دماغ میں روشنی سی چمک اٹھی۔۔میں نے کہا:
ہاں بالکل۔۔ خدا بے پرواہ نہیں۔۔ کیونکہ وہ انسان سے محبت کرتا ہے۔۔ اور محبت میں بے پروائی نہیں ہوتی۔۔ خدا بے نیاز ہے۔۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں۔۔ وہ انسان سے محبت کرتا ہے لیکن بدلے میں انسان کے کسی عمل کا وہ محتاج نہیں۔۔ وہ پسند فرماتا ہے کہ انسان اس کی عبادت کرے۔ لیکن اسےعبادت کی ضرورت نہیں۔ وہ عبادت کا محتاج نہیں۔
مگر کیا انسان ایسا بے نیاز ہوسکتا ہے؟ ایسا بے غرض ہوسکتا ہے۔۔ ؟ انسان جو کہ نفس کا غلام ہے۔ خواہشات کا اسیر ہے۔۔خود غرض ہے۔۔۔ اس کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے ہر کام کے بدلے میں "کچھ نہ کچھ" چاہتا ہے۔ ایسا انسان بے نیاز کیسے ہوسکتا ہے؟ اپنی غرض اپنی خواہشات اور اپنے مفاد کو کون چھوڑتا ہے؟ اور پھر خدا رشتوں اور ضروریات کا محتاج نہیں لیکن انسان کے اندر اس نے دو "درد" رکھے ہیں۔۔ ایک اپنا درد۔۔۔ایک دوسروں کا درد۔۔۔ انسان رشتوں کا بھی محتاج ہے اور زندگی گذارنے کے لئے ضروریات کا بھی محتاج ہے۔۔ وہ ان سب سے کیسے بے نیاز ہوسکتا ہے؟
اس نے کہا: یہ مشکل ہے۔۔ آسان نہیں ہے لیکن ہوسکتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کے ولیوں کی سب سے بڑی نشانی کیا ہوتی ہے؟ وہ "مطمئن" ہوتے ہیں۔ طمانیت کے اس مقام پر ہوتے ہیں جہاں اضطراب ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔۔
ایک اللہ کے ولی جناب شیخ عبدالقادر کا واقعہ سنو۔۔ وہ وعظ فرمارہے تھے جب اوپر درخت سے ایک سانپ ان پر آگرا۔۔ سننے والے چیختے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے مگر شیخ اپنی جگہ مطمئن بیٹھے تھے۔
سانپ ان پر سے سرکتا ہوا نیچے اتر کر سامنے آیا اور بولا:
میں اپنے اس وار سے بڑے بڑے لوگوں کو آزمایا۔۔ کچھ مجھ سے ڈرے کچھ نہیں ڈرے لیکن آپ جس مقام طمانیت پر ہیں وہاں کسی اور کو نہ پایا۔۔کہ آپ کے ظاہر تو کیا باطن میں بھی ایک ذرا جنبش اضطراب پیدا ہوتی نہ دیکھی۔۔
شیخ نے فرمایا: تجھ سے کیا ڈرنا۔۔ دست قدرت میں تو ایک کیڑا ہی تو ہے۔
ایک توقف بعد اس نے کہا: یہ واقعہ سچا ہے یا مبالغہ آمیز حد تک جھوٹا۔ لیکن اس کے پیغام کو سمجھو۔۔ اللہ کا ولی مطمئن ہوتا ہے اور وہ اسلئے مطمئن ہوتا ہے کیونکہ وہ "اللہ کی رضا" کو تسلیم کرچکا ہوتا ہے۔ زندگی سے لے کر موت تک۔۔ اور اس بیچ ہر حادثے ہر سانحے اور ہر خوشی وغمی کو اللہ کی رضا مان لینا "طمانیت" عطا کرتا ہے۔ اور یہی طمانیت قائم ہوجائے۔۔تو "بے نیازی" کا سفر شروع ہوتا ہے۔ تم نے صحیح کہا۔۔ خدا رشتوں اور ضروریات کا محتاج نہیں لیکن انسان ہے۔۔۔ لیکن تم نے شروع میں یہ بھی کہا تھا کہ انسان خدا نہیں ہے۔۔ وہ صفت خداوندی کو اس درجہ اپنائے گا جو اس کے اختیار میں ہے۔۔ انسان کی بے نیازی رشتوں اور ضروریات سے بے نیازی نہیں ہے۔۔۔کیونکہ انسان دوسرے انسانوں سے انٹرایکشن کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو تنہا ہوجائے گا۔
جبکہ بے نیازی نہ تو انسان کو دوسرے انسان سے دور کرتی ہے اور نہ ہی تنہا۔۔۔ بے نیازی تو بس یہ ہے کہ تمہاری ذات کو آزاد کرنے کا نام ہے۔ "خواہشات۔۔ مفادات۔۔۔اغراض اور محتاجی سے اپنی ذات کو آزاد کردینے کا نام بے نیازی ہے۔۔۔کوئی تم سے محبت کرے یا نفرت کرے۔۔ تمہاری تعریف کرے یا تضحیک کرے۔۔۔ تمہیں اپنا بنائے یا چھوڑ دے۔۔۔ تم دوسروں کے ہر عمل کو "تسلیم" تو کرو۔۔ لیکن ان سے جدا رہو۔۔۔جیسے پانی تیل سے جدا رہتا ہے۔۔۔۔ اور تم یوں جدا رہو کہ کسی کی تعریف تمہیں مغرور نہ کرسکے کسی کی تضحیک تمہیں رلا نہ سکے۔
اور یہ وہ مقام ہے جہاں تمہیں ہر احساس "خالص ترین" ملے گا۔۔۔۔کیونکہ اس مقام پر جب تم کسی کے لئے کچھ چاہو گے تو وہ بے غرض ہوگا۔۔ وہ محبت ہو یا نفرت ہو۔۔ اس میں کسی صلے کی خواہش نہ ہوگی۔ کسی شے کی آرزو نہ ہوگی۔۔۔۔تم اپنی زندگی کے جس مقام پر ہو اسے تسلیم کرلو۔۔اور یہ بھی تسلیم کرلو کہ یہاں تم ہمیشہ نہیں رہو گے۔۔زندگی تمہیں لے کر آگے بڑھتی جائے گی۔۔۔۔ تسلیم تمہیں طمانیت دے گی اور طمانیت تمہیں بے نیازی عطا کرے گی۔۔۔ بے نیازی کا مقام ایک ایسی آزادی ہے جہاں تمہیں "آزادی" کا صحیح مفہوم سمجھ میں آئے گا..!!
 
مہا بھارت کے یُدھ (لڑائی) کیلئے جب ارجن تیار ہو گیا تو اس نے کرشن جی سے پوچھا ”مہاراج! میرے شترو (دشمن) کون ہیں؟“ کرشن جی نے کہا ”ارجن! کیا تو اپنے شترو بھی نہیں پہچانتا؟“ ارجن بولا ”مہاراج ! میں بھیتر (اندر) کے شترو کاپوچھ رہا ہوں“ کرشن جی نے کہا ”ارجن! تیرے بھیتر کے شترو تین ہیں جو ہر مُنش (انسان) کیساتھ ہوتے ہیں جو کوئی ان پر قابو پائے بنا آگے بڑھتا ہے وہ وِناش (تباہی) کے راستے پر چلتا ہے اور اسے وِناش ہی ملتی ہے اور جو اپنے بھیتر کے شترو پر قابو پالیتا ہے وہ ہمیشہ فتح پاتا ہے، کامیابی حاصل کرتاہے۔

ارجن! تیرے بھیتر کے شترو تین ہیں۔ تیرا سب سے بڑا شترو کرود (غصہ) ہے، دوسرا شترو آہنکار (تکبر) ہے اور تیسرا شترو بدلے کی بھاونا (انتقام کی خواہش) ہے۔ ارجن! یاد رکھنا کوئی مُنش (انسان) اس وقت تک بڑا نہیں بنتاجب تک وہ اپنے بھیتر کے ان تینوں شتروں کوختم نہیں کرتا۔ کسی بھی کامیابی کیلئے سب سے اہم کام اپنے بھیترکے شترو ختم کرکے آگے بڑھنا ہے!“
 

فاخر رضا

محفلین
جھوٹ انسانی ذھن کو بہت مرغوب ہے کیونکہ جھوٹی کہانیاں بُننا اسکو تخلیق کار بنا دیتا ہے، صانع بنا دیتا ہے۔ اور جب ذھن فعال ھو جاتا ہے تو اس سے انا کو وجود ملتا ہے۔ اگر انسان سچ کا ساتھ دے تو دماغ کے کرنے کے لئے کچھ بھی باقی نھیں رھتا لھذا وہ فنا ھو جاتا ہے اور اسکے ساتھ ہی جھوٹی انا بھی غائب ہو جاتی ہے اور ایسی صورتحال نہ تو ذھن کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی انا کو پسند کرتی ہے۔
یہ نہایت عجیب و غریب اور تناقص سے بھرپور بات کی آپ نے
 
کرم کرو کبھی پھل کی اچھا مت کرو ، سوئم کو سیما میں مت باندھو ، سیما سے آگے بڑھنے کا پریاس ہی شیکھر پر پہنچاتا ہے ، کبھی یہ مت سوچو کہ سنسار تمہارے لئے ہے سدا یہی سوچو کہ تم سنسار کے لئے ہو !
نیک عمل کرو اور کبھی بھی اس اچھے اور نیک عمل و سلوک کی دوسرے سے امید نہ رکھو بلکہ ہر عمل اللہ کی رضا کے لیئے کرو۔ خود کو کسی بھی حدود میں نہ باندھو ۔ حدود سے اگے بڑنے کی کوشش کرو اور یہی کوشش ہی تمہیں تمہارے مقصد تک پہنچاتی ہے ۔ یہ کبھی مت سوچنا کے یہ دنیا تمہارے لئے ہے بلکہ ہمیشہ یہ سوچو کے تم دنیا کے لئے ہو۔
 
Top