عظیم اللہ قریشی
محفلین
ایک بھنورا روزانہ باغ کی سیر کرنے جاتا تھا تو راستے میں ایک بھینسوں کے باڑے کے پاس اس کو اپنے سی شکل و صورت کا ایک کیڑا نظر آتا تھا ایک دن بھنورا کچھ دیر کے لیئے اس کے پاس رکا سلام دعا کی اور آگے نکل گیا پھر یہ روز کا معمول بن گیا یوں دونوں میں دوستی ہوگئی یہ کیڑا گوبریلا تھا جو کہ بھونرے کی شکل و صورت کا ہی ہوتا ہے۔ (ہماری پشتو زبان میں اس کو گونگٹ اور پشاور کی لوکل ہندکو میں اس کو ٹِٹن کہتے ہیں لیکن پڑھا ٹِٹَنڑ جاتا ہے)
ایک دن گوبریلے نے بھنورے سے کہا کہ تم روزانہ کہاں جاتے ہو تو بھونرے نے کہا کہ میں باغ کی سیر کو جاتا ہوں گوبریلے نے ضد کی مجھے بھی ساتھ لے جاؤ ۔ بھنورے کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا سو دونوں دوست چل دیئے جب باغ پہنچے تو بھونرے نے کہا کہ دیکھ دوست یہ سرخ گلاب ہے اس کی خوشبو کو سونگھ کر محسوس کرو یہ کہہ کر بھونرا پھول سے لپٹ گیا سو اس کی دیکھا داکھی گوبریلے نے بھی یہی عمل کیا پھر یکے بعد دیگرے کالے گلاب، گل داؤدی، موتیا، چمبیلی، کرنے، مروۃ، گل بابونہ غرض ہر پھول کے ساتھ بغل گیر ہوئے۔ بھونرے نے گوبریلے سے پوچھا تونے کچھ الگ طرح سے محسوس کیا تجھے کس پھولوں کی لطافت کس طرح محسوس ہوئی۔ کس پھول کی مدھر اور مست خوشبو نے تیرے مشام جاں کو والہ و شیدا اور معطر و محظوظ کیا۔ گوبریلے نے کہا کہ مجھے تو ذرا سی خوشبوبھی نہیں محسوس ہوئی تو اس پر بھنورا بہت پریشان ہوا اس نے کہا آج رات ادھر ہی ڈیرا ڈالتے ہیں ابھی کچھ ہی دیر میں آفتاب عالمتاب غروب ہوجائے گا اور شام کے دھندلکے پھیل جائیں تو فورا ہی رات کی رانی کی مست خوشبو پورے باغ کو اپنے حصار میں لے لے گی سو دونوں دوست اس خوشبو کے مزے لوٹ لیں گے۔ شام سے رات ہوگئی لیکن گوبریلے کو کسی بھی قسم کی کوئی خوشبو نہ آئی اور بھنورا شرمندہ ہوتا رہا۔ صبح کو جب دونوں باغ سے روانہ ہونے لگے تو بھونرے نے گوبریلے کی تلاشی لی تو اس کی ناک سے ایٹم بم برآمد ہوا یعنی اس کے نتھنوں میں گوبر پھنسا ہوا تھا تو اس کو خوشبو کہاں سے آتی۔
پسِ نوشت: کچھ لوگ گوبریلے کی مانند ہوتے ہیں آپ ان کو لاکھ خوشبو سونگھائیں لیکن یہ خوشبو سونگھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں
ایک دن گوبریلے نے بھنورے سے کہا کہ تم روزانہ کہاں جاتے ہو تو بھونرے نے کہا کہ میں باغ کی سیر کو جاتا ہوں گوبریلے نے ضد کی مجھے بھی ساتھ لے جاؤ ۔ بھنورے کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا سو دونوں دوست چل دیئے جب باغ پہنچے تو بھونرے نے کہا کہ دیکھ دوست یہ سرخ گلاب ہے اس کی خوشبو کو سونگھ کر محسوس کرو یہ کہہ کر بھونرا پھول سے لپٹ گیا سو اس کی دیکھا داکھی گوبریلے نے بھی یہی عمل کیا پھر یکے بعد دیگرے کالے گلاب، گل داؤدی، موتیا، چمبیلی، کرنے، مروۃ، گل بابونہ غرض ہر پھول کے ساتھ بغل گیر ہوئے۔ بھونرے نے گوبریلے سے پوچھا تونے کچھ الگ طرح سے محسوس کیا تجھے کس پھولوں کی لطافت کس طرح محسوس ہوئی۔ کس پھول کی مدھر اور مست خوشبو نے تیرے مشام جاں کو والہ و شیدا اور معطر و محظوظ کیا۔ گوبریلے نے کہا کہ مجھے تو ذرا سی خوشبوبھی نہیں محسوس ہوئی تو اس پر بھنورا بہت پریشان ہوا اس نے کہا آج رات ادھر ہی ڈیرا ڈالتے ہیں ابھی کچھ ہی دیر میں آفتاب عالمتاب غروب ہوجائے گا اور شام کے دھندلکے پھیل جائیں تو فورا ہی رات کی رانی کی مست خوشبو پورے باغ کو اپنے حصار میں لے لے گی سو دونوں دوست اس خوشبو کے مزے لوٹ لیں گے۔ شام سے رات ہوگئی لیکن گوبریلے کو کسی بھی قسم کی کوئی خوشبو نہ آئی اور بھنورا شرمندہ ہوتا رہا۔ صبح کو جب دونوں باغ سے روانہ ہونے لگے تو بھونرے نے گوبریلے کی تلاشی لی تو اس کی ناک سے ایٹم بم برآمد ہوا یعنی اس کے نتھنوں میں گوبر پھنسا ہوا تھا تو اس کو خوشبو کہاں سے آتی۔
پسِ نوشت: کچھ لوگ گوبریلے کی مانند ہوتے ہیں آپ ان کو لاکھ خوشبو سونگھائیں لیکن یہ خوشبو سونگھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں