روحانی اقوال

ایک دفعہ ایک آدمی ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد جا رہا تھا ۔رکعات چھوٹنے کے خوف سے جلدی جلدی چل رہا تھا۔ راستے میں اس کا گزر کھجور کے درخت کے پاس سے ہوا، دیکھا کہ ایک آدمی ڈیوٹی کے لباس میں ملبوس کھجور توڑنے میں مشغول ہے۔ اسے دیکھ کر بہت متعجب ہوا اور سوچا کہ یہ کیسا آدمی ہے جو نماز کا اہتمام نہیں کرتا، اور کام میں اس قدر غرق ہے کہ گویا اس نے اذان سنی ہی نہیں۔ غصہ کی حالت میں زور سے چیخا اور کہا: اترو نماز کے لئے، آدمی نے اطمینان سے کہا، ٹھیک ہے، اترتا ہوں۔ پھر اس آدمی نے دوبارہ کہا: نمازپڑھنے کے لئے جلدی کرو، اے گدھے! اے گدھے! یہ سن کر آدمی زور سے چیخا اور کہا: میں گدھا ہوں! پھر کھجور کا ایک تنا توڑ کر جلدی جلدی اترنے لگا تاکہ اس کا سر پھوڑ دے۔ یہ دیکھ کر اس آدمی نے تولیہ سے اپنا ڈھانپ لیا تاکہ وہ پہچان نہ سکے اور دوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا۔ شدید غصے کی حالت میں وہ آدمی کھجور کے درخت سے اترا ، گھر گیا، نماز پڑھی، کھانا کھایا، تھوڑا آرام کیا اور پھر کام کی تکمیل کے لئے کھجور کے درخت کے پاس آیا۔ پھر تھوڑی دیر میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ پھر وہی آدمی جو ظہر کے وقت نماز کے لئے کھجور کے درخت کے پاس سے گزرا تھا، عصر کی نماز کے لئے بھی اسی راستہ سے گزرا، پھر دیکھا کہ آدمی درخت کے اوپر اپنے کام میں مشغول ہے، لیکن اس دفعہ آدمی نے گفتگو کا انداز بدل دیا اور کہا : السلام علیکم، کیا حال ہے۔ اس نے جواب دیا، الحمدللہ، خیریت ہے۔ آدمی نے کہا : سناؤ! اس سال پھل کیسا ہے؟ اس نے کہا ، الحمدللہ ، اچھا ہے۔ آدمی نے کہا: اللہ تجھے توفیق دے اور تجھے رزق دے اور روزی میں برکت اور وسعت دے اور اہل وعیال کے لئے کئے گئے عمل اور کوشش کو رائیگاں نہ کرے۔ وہ آدمی یہ دعائیہ کلمات سن کر بہت خوش ہوا اور اس دعا پہ آمین کہا۔ پھر اس آدمی نے کہا:لگتا ہے کہ کام میں کافی مشغولیت کی وجہ سے آپ نے عصر کی اذان نہیں سنی! اذان ہو چکی ہے، اور اقامت ہونے والی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ درخت سے اتر جاتے، تھوڑی دیر آرام کرتے اور نماز باجماعت پالیتے اور نماز کے بعد اپنے کام کو پورا کرلیتے۔ اللہ آپ کی حفاظت کرے گا اور آپ کو صحت وتندرستی عطا کرے گا۔ یہ دعائیہ کلمات سن کر اس نے کہا: ان شاءاللہ ان شاءاللہ، اور درخت سے اترنے لگا، پھر اس آدمی کے پاس آیا اور گرم جوشی کے ساتھ اس سے مصافحہ کیا اور کہا: اچھے اور عمدے اخلاق وعادات پہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن ظہر کے وقت جو آدمی میرے پاس سے گزرا تھا اور جس بداخلاقی سے پیش آیا تھا، اگر میں اسے پالیتا تو اسے بتلادیتا کہ گدھا کون ہے؟۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
ایک دفعہ ایک آدمی ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد جا رہا تھا ۔رکعات چھوٹنے کے خوف سے جلدی جلدی چل رہا تھا۔ راستے میں اس کا گزر کھجور کے درخت کے پاس سے ہوا، دیکھا کہ ایک آدمی ڈیوٹی کے لباس میں ملبوس کھجور توڑنے میں مشغول ہے۔ اسے دیکھ کر بہت متعجب ہوا اور سوچا کہ یہ کیسا آدمی ہے جو نماز کا اہتمام نہیں کرتا، اور کام میں اس قدر غرق ہے کہ گویا اس نے اذان سنی ہی نہیں۔ غصہ کی حالت میں زور سے چیخا اور کہا: اترو نماز کے لئے، آدمی نے اطمینان سے کہا، ٹھیک ہے، اترتا ہوں۔ پھر اس آدمی نے دوبارہ کہا: نمازپڑھنے کے لئے جلدی کرو، اے گدھے! اے گدھے! یہ سن کر آدمی زور سے چیخا اور کہا: میں گدھا ہوں! پھر کھجور کا ایک تنا توڑ کر جلدی جلدی اترنے لگا تاکہ اس کا سر پھوڑ دے۔ یہ دیکھ کر اس آدمی نے تولیہ سے اپنا ڈھانپ لیا تاکہ وہ پہچان نہ سکے اور دوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا۔ شدید غصے کی حالت میں وہ آدمی کھجور کے درخت سے اترا ، گھر گیا، نماز پڑھی، کھانا کھایا، تھوڑا آرام کیا اور پھر کام کی تکمیل کے لئے کھجور کے درخت کے پاس آیا۔ پھر تھوڑی دیر میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ پھر وہی آدمی جو ظہر کے وقت نماز کے لئے کھجور کے درخت کے پاس سے گزرا تھا، عصر کی نماز کے لئے بھی اسی راستہ سے گزرا، پھر دیکھا کہ آدمی درخت کے اوپر اپنے کام میں مشغول ہے، لیکن اس دفعہ آدمی نے گفتگو کا انداز بدل دیا اور کہا : السلام علیکم، کیا حال ہے۔ اس نے جواب دیا، الحمدللہ، خیریت ہے۔ آدمی نے کہا : سناؤ! اس سال پھل کیسا ہے؟ اس نے کہا ، الحمدللہ ، اچھا ہے۔ آدمی نے کہا: اللہ تجھے توفیق دے اور تجھے رزق دے اور روزی میں برکت اور وسعت دے اور اہل وعیال کے لئے کئے گئے عمل اور کوشش کو رائیگاں نہ کرے۔ وہ آدمی یہ دعائیہ کلمات سن کر بہت خوش ہوا اور اس دعا پہ آمین کہا۔ پھر اس آدمی نے کہا:لگتا ہے کہ کام میں کافی مشغولیت کی وجہ سے آپ نے عصر کی اذان نہیں سنی! اذان ہو چکی ہے، اور اقامت ہونے والی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ درخت سے اتر جاتے، تھوڑی دیر آرام کرتے اور نماز باجماعت پالیتے اور نماز کے بعد اپنے کام کو پورا کرلیتے۔ اللہ آپ کی حفاظت کرے گا اور آپ کو صحت وتندرستی عطا کرے گا۔ یہ دعائیہ کلمات سن کر اس نے کہا: ان شاءاللہ ان شاءاللہ، اور درخت سے اترنے لگا، پھر اس آدمی کے پاس آیا اور گرم جوشی کے ساتھ اس سے مصافحہ کیا اور کہا: اچھے اور عمدے اخلاق وعادات پہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن ظہر کے وقت جو آدمی میرے پاس سے گزرا تھا اور جس بداخلاقی سے پیش آیا تھا، اگر میں اسے پالیتا تو اسے بتلادیتا کہ گدھا کون ہے؟۔
عمدہ!
 
" جان لو کہ اللہ نے تمہیں اسلئیے تخلیق کیا تا کہ تم اپنے ارد گرد اسکا جمال دیکھ سکو۔ پس تم کوشش کرو کہ اس مشاہدہ جمال سے محروم نہ رہ جاؤ، یہ سمجھتے ہوئے کہ شائد تم دین کی درست فہم پر ہو ۔ جان لو کہ مشاہدہِ جمال دل میں نرمی اور رقت پیدا کرتا ہے اور عدمِ مشاہدہ تنگ دلی اور روگردانی پیدا کرتا ہے۔ پس تم دیکھ لو کہ تمہیں اپنے لئے کونسی بات پسند ہے"۔
(الشیخ الصوفی السید عبدالغنی العمری حفظہ اللہ)
 

ساقی۔

محفلین
ﺣﻀﺮﺕ ﺧ۔۔ﻮﺍﺟ۔۔ﮧ ﻏ۔ﻼﻡ ﻓ۔ﺮﯾ۔ﺪ ﺭحمتہ اللہ علیہ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﻻﮨﺎ ﻣﺮﯾ۔ﺪ ﺗﮭﺎ ۔۔ ﻭﮦ ﮨ۔ﺮ ﺳﺎﻝ ﺣﻀﺮﺕ ﺧ۔ﻮﺍﺟ۔ﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺧ۔ﺪﻣ۔ﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟ۔ﻨ۔ﮕ۔ﯽ ﮨﺪﯾﮧ ﻻﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ایک دفعہ وہ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﻧﺎﻏﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﺎﻝ ﺩﻭ ﻟﻨﮕﯿﺎﮞ ﮨ۔ﺪﯾﮧ ﻻﯾﺎ ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺧ۔ﻮﺍﺟ۔ﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻏ۔ﯿ۔ﺮ ﺣ۔ﺎﺿ۔ﺮﯼ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ : " ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺳﺎﻝ ﻟﻨﮕﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﻧ۔۔ﮧ ہو ﺳﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﻧ۔ﮧ ہو ﺳﮑﺎ " ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻓﻮﺭًﺍ ﻟ۔ﻨﮕﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﮒ ﻟﮕﻮﺍ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
" ﺟ۔ﮩ۔ﮍﯼ ﺷﺌﮯ ﯾ۔ﺎﺭ ﮐ۔ﻨ۔ﻮﮞ ﻧ۔ﮑﮭ۔ﯿ۔ﮍﮮ ﺍﻭﻧ۔ﮑﻮ ﺑﮭ۔ﺎﮦ ﻻ "

ﯾﻌﻨﯽ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﯾﺎﺭ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺍﺳﮯ ﺁﮒ ﻟﮕﺎ ﺩﻭ .

بحوالہ : رسالہ ولایت
 
ایک اہم راز کی بات
یاد رکھیئے کہ ہر علم و شعور پہلے قلب میں پنپتا ہے لیکن دل میں یہ ایک مختصر مجمل خاکہ ہوتاہے دماغ میں جاکر اس کی تفصیل وتفسیر ھوتی ھے جو پھیل کر کئی جزئیات میں بٹتی ہے انہی جزئیات سے نظریات قائم کئے جاتے ہیں اور ان نظریات سے پروگرام جو باربار کے تجربہ و مشاہدے سے قانون کی صورت اختیار کر لیتے ہیں لیکن اصل بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ یہ تفصیلات اسی طرح اپنے اجمال کے تابع ہوتی ہیں جس طرح دماغ دل کے ماتحت اسی بناء پر شروع میں اصلاح قلب پر زوردیاگیاھے اور صوفیا کرام نے اس کے مختلف طریقہ ہائےاصلاح یا حسب موقعہ و مناسب مقرر کیے ہیں کیونکہ دل درست ہو گا تو دماغ اور سب اعمال و اخلاق و کمالات بھی ٹھیک ہوں گے ورنہ نہیں
 
جس گناہ سے عمر کم ہوتی ہے وہ بیوی سے بدسلوکی ہے
جس گناہ سے انسان پر لعنت ہوتی ہے وہ جھوٹ ہے
جس گناہ سے پکڑ ہوتی ہے وہ ظلم ہے
جس گناہ سے رزق بند ہوتا ہے وہ زنا ہے
جس گناہ سے پردہ فاش ہوتا ہے وہ نشہ ہے
جس گناہ سے پوری انسانیت تباہ ہوتی ہے وہ قتل ہے
جس گناہ سے نعمتوں کو زوال آتا ہے وہ تکبر ہے
 
1970441_10152036552092523_166318632_n.jpg


" اختلاف رکھنے والوں کے عقائد بھی حق سے مکمل طور پر محروم نہیں ہوتے، اگر ایسا نہ ہو تا تو یہ عقائد کبھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ پاتے۔ اور اس بات کا تعلق اشیاؑ میں حق تعالیٰ کی قیومیت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کافر کو کافر یعنی چھپانے والا کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اس نے اس حق پر پردہ ڈال دیا جو اسکے ساتھ تھا۔ یہ نہیں کہ وہ کلیتاؑ حق سے محروم ہوتا ہے۔ اور اگر کفار یا جن لوگوں کو ناحق کافر کہا جاتا ہے، کفر کی حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی اس بات پر غصے کا اظہار نہیں کریں گے جب انہیں کافر کہا جائے کیونکہ لفظ کافر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان میں حق کا ایک چہرہ یعنی ایک پہلو موجود ہے ۔ اور یہ بات عدلِ الٰہی سے ہے، جو اسکے بندوں میں جاری و ساری ہے۔ بلکہ اگر ہم کفر کے معنی کی حقیقت دیکھ پائیں تو دیکھیں گے کہ مومنین بھی اپنے اندر کسی نہ کسی حق کے پہلو سے حجاب میں رہنے کی بناء پر کفر کرتے ہیں۔ اور اسی بات کو بعض صوفیہ نے نورانی حجابات کا نام دیا ہے بالمقابل ظلمانی حجابات کے جو کافرین کیلئے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمام حجابات ظلمانی ہیں اور امومنین کے حجابات کو اگر نورانی کہا گیا تو یہ شریعت میں انکی اصل کی رعایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے ۔"
(الشیخ الصوفی السید عبدالغنی العمری حفظہ اللہ تعالیٰ)۔۔۔۔۔
 
1970441_10152036552092523_166318632_n.jpg


" اختلاف رکھنے والوں کے عقائد بھی حق سے مکمل طور پر محروم نہیں ہوتے، اگر ایسا نہ ہو تا تو یہ عقائد کبھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ پاتے۔ اور اس بات کا تعلق اشیاؑ میں حق تعالیٰ کی قیومیت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کافر کو کافر یعنی چھپانے والا کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اس نے اس حق پر پردہ ڈال دیا جو اسکے ساتھ تھا۔ یہ نہیں کہ وہ کلیتاؑ حق سے محروم ہوتا ہے۔ اور اگر کفار یا جن لوگوں کو ناحق کافر کہا جاتا ہے، کفر کی حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی اس بات پر غصے کا اظہار نہیں کریں گے جب انہیں کافر کہا جائے کیونکہ لفظ کافر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان میں حق کا ایک چہرہ یعنی ایک پہلو موجود ہے ۔ اور یہ بات عدلِ الٰہی سے ہے، جو اسکے بندوں میں جاری و ساری ہے۔ بلکہ اگر ہم کفر کے معنی کی حقیقت دیکھ پائیں تو دیکھیں گے کہ مومنین بھی اپنے اندر کسی نہ کسی حق کے پہلو سے حجاب میں رہنے کی بناء پر کفر کرتے ہیں۔ اور اسی بات کو بعض صوفیہ نے نورانی حجابات کا نام دیا ہے بالمقابل ظلمانی حجابات کے جو کافرین کیلئے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمام حجابات ظلمانی ہیں اور امومنین کے حجابات کو اگر نورانی کہا گیا تو یہ شریعت میں انکی اصل کی رعایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے ۔"
(الشیخ الصوفی السید عبدالغنی العمری حفظہ اللہ تعالیٰ)۔۔۔ ۔۔
سوہنیو! بات وہی ہوگئی نہ کہ دنیا میں دوطاقتیں ہیں
ایک رحمان ایک شیطان
ایک نور ایک نار
ایک پازیٹو ایک نیگٹو
ایک مثبت ایک منفی
جیسے آپ مثبت یعنی رحمانی یعنی نور اور میں منفی یعنی شیطان یعنی نار یعنی منفی
سارا کھیڈ ای ایس نظریے دے ایچ لکیا (چھپا)ہویا اے
 
ٹھیک ہے، لیکن اقتباس میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہی ہے کہ دنیا میں بلیک اینڈ وائٹ ہی دو رنگ نہیں ہیں بلکہ انکے درمیان بہت سے شیڈز ہیں۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سوہنیو! بات وہی ہوگئی نہ کہ دنیا میں دوطاقتیں ہیں
ایک رحمان ایک شیطان
ایک نور ایک نار
ایک پازیٹو ایک نیگٹو
ایک مثبت ایک منفی
جیسے آپ مثبت یعنی رحمانی یعنی نور اور میں منفی یعنی شیطان یعنی نار یعنی منفی
سارا کھیڈ ای ایس نظریے دے ایچ لکیا (چھپا)ہویا اے
روحانی بابا اگر آپ روحانی ڈنڈا نہ استعمال کریں تو ایک بات کہوں؟
رحمان اور شیطان کا مقابلہ کسی طور بھی ممکن نہیں کہ تقابل ہم دو برابر یا ہم جنس اشیاء میں کر سکتے ہیں، خالق اور مخلوق میں نہیں
 

زیک

مسافر
روحانی بابا اگر آپ روحانی ڈنڈا نہ استعمال کریں تو ایک بات کہوں؟
رحمان اور شیطان کا مقابلہ کسی طور بھی ممکن نہیں کہ تقابل ہم دو برابر یا ہم جنس اشیاء میں کر سکتے ہیں، خالق اور مخلوق میں نہیں
میں نے غزنوی جی کے لیئے یہ بات کہی تھی وہ میری بات کا مطلب سمجھ گئے ہیں لیکن آپ نے بیچ میں چھلانگ مار دی مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ روحانی اقوال بھی پڑھتے ہو ۔
میرے دوست رحمان ایک صفت ہے اور میرے رحمان بیان کرنے کا مقصد کسی بھی صورت میں قطعا ان معنوں میں نہ تھا جن میں آپ سمجھ رہے ہیں میں نے کبھی کسی انسان کو پکارتے وقت یا بلاتے وقت نام کے ساتھ عبد کا لفظ نہیں لگایا سوائے عبداللہ کے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں نے غزنوی جی کے لیئے یہ بات کہی تھی وہ میری بات کا مطلب سمجھ گئے ہیں لیکن آپ نے بیچ میں چھلانگ مار دی مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ روحانی اقوال بھی پڑھتے ہو ۔
میرے دوست رحمان ایک صفت ہے اور میرے رحمان بیان کرنے کا مقصد کسی بھی صورت میں قطعا ان معنوں میں نہ تھا جن میں آپ سمجھ رہے ہیں میں نے کبھی کسی انسان کو پکارتے وقت یا بلاتے وقت نام کے ساتھ عبد کا لفظ نہیں لگایا سوائے عبداللہ کے۔
میں معذرت خواہ ہوں :)
 

ابن رضا

لائبریرین
سوہنیو! بات وہی ہوگئی نہ کہ دنیا میں دوطاقتیں ہیں
ایک رحمان ایک شیطان
ایک نور ایک نار
ایک پازیٹو ایک نیگٹو
ایک مثبت ایک منفی

جیسے آپ مثبت یعنی رحمانی یعنی نور اور میں منفی یعنی شیطان یعنی نار یعنی منفی
سارا کھیڈ ای ایس نظریے دے ایچ لکیا (چھپا)ہویا اے

گستاخی معاف ،کائنات میں طاقت صرف ایک ہے۔ رحمان اور شیطان کا تقابل کسی بھی صورت معقول نہیں۔ خالق اور مخلوق غالب اور مغلوب کا ایک ہی سطح پر موازنہ کسی طور بھی ممکن نہیں۔عوامی سطح پر الفاظ اور اندازِ بیاں فصاحت کا پابند ٹھہرایا جاتا ہے بہت آداب۔ جاری رکھیں
 

الشفاء

لائبریرین
" ﺟ۔ﮩ۔ﮍﯼ ﺷﺌﮯ ﯾ۔ﺎﺭ ﮐ۔ﻨ۔ﻮﮞ ﻧ۔ﮑﮭ۔ﯿ۔ﮍﮮ ﺍﻭﻧ۔ﮑﻮ ﺑﮭ۔ﺎﮦ ﻻ "

ﯾﻌﻨﯽ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﯾﺎﺭ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺍﺳﮯ ﺁﮒ ﻟﮕﺎ ﺩﻭ .

بحوالہ : رسالہ ولایت

سبحان اللہ۔۔۔ بابا غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے اس ایک جملے میں تصوف کے ان گنت مسائل کا حل چھُپا ہوا ہے۔۔۔
سچ ہے کہ کلام الملوک۔۔۔ ملک الکلام۔۔۔
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
جس گناہ سے عمر کم ہوتی ہے وہ بیوی سے بدسلوکی ہے
جس گناہ سے انسان پر لعنت ہوتی ہے وہ جھوٹ ہے
جس گناہ سے پکڑ ہوتی ہے وہ ظلم ہے
جس گناہ سے رزق بند ہوتا ہے وہ زنا ہے
جس گناہ سے پردہ فاش ہوتا ہے وہ نشہ ہے
جس گناہ سے پوری انسانیت تباہ ہوتی ہے وہ قتل ہے
جس گناہ سے نعمتوں کو زوال آتا ہے وہ تکبر ہے

پہلے قول کی حکمت تو خوب عیاں ہے۔۔۔:)
 
Top