کردار سازی کی ضرورت
ابے رنڈی کے بچے گاڑی تیز چلا ,,
ایک تیز چیختی آواز نے میرے کانوں کو یوں جھنجوڑ دیا جیسے کوئی بارود بھرا ٹرک کسی عمارت سے ٹکرا کر اسے ملیامیٹ کر دے ,, میں کراچی شہرکی معروف شاہرہ پر رواں دواں ایک منی بس میں بیٹھا اپنے خیالات کے تانے بن رہا تھا جب یہ حادثہ ھوا ,,
جی ہاں اسے حادثہ ہی سمجھیئے کونکہ میرے جیسے نازک اور لطیف احساسات رکھنے والے شخص کیلیئے ایسی گندی گالی کا سننا حادثے سے کم نہیں ھو سکتا ,,
میں نے پلٹ کر اس کریہہ شخص کی طرف دیکھا جسے کہیں پہنچنے کی بہت جلدی تھی ,, وہ شعلہ بار نگاہوں سے ڈرائیور کو گھور رہا تھا ,,
مجھے محسوس ھوا کہ وہ محض گالی پر اکتفا کرنے والا شخص نہیں بلکہ کسی بھی لمحے آگے بڑھ کر ڈرایئور کی گردن بھی مروڑے گا ,,
عین اسی وقت اگلی سیٹوں پر سے ایک نوجوان اٹھا اور اس نے پیجھے جا کر اس شخص کا گریبان پکڑ لیا
گالی کیوں دی ؟ نوجوان نے پوچھا اور زور سے جھٹکا دیا
جھٹکا کھاتے ہی گالی دینے والا شخص سمجھ گیا کہ مقابلے میں اس سے زیادہ طاقتور بندہ ھے ,, وہ اپنا گریبان چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ھوئے بولا
,, تم کیا لگتے ھو ڈرائور کے
میں بھی تماشا دیکھ رہا تھا اور دوسرے مسافر بھی اس سے لطف اندوز ھو رہے تھے ,, مگر بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر پر جوں تک نہ رینگی تھی ,,
کنڈیکٹر مسلسل صدر , صدر , کی آوازیں لگا رہا تھا اور ڈرائور مسلسل سلو موشن میں گاڑی بھگا رہا تھا ,, وہ گالیاں کھا کے بے مزہ ھونے والا بندہ تھا بھی نہیں , اس پر کچھ چرس کے نشے اور کچھ بس مالکان کے طے کردہ اصولوں کا اثر تھا ,,
وہ ھمارا بھائی ھے ,, جوشیلے نوجوان نے ڈرائور کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا , اور وہ بھی انسان ھے آئیندہ اس کو گالی دی تو ,,,
تو اس نے قدرے تفصیل سے بتایا کہ وہ اس کی ماں اور بہن کے ساتھ کیا کیا حرکتیں کر سکتا ھے ,,
اس کے لہجے میں ضرور کوئی ایسی بات تھی کہ گالی دینے والا بالکل ہی بھیگی بلی بن گیا تھا
آخرکار دوسرے مسافروں نے معاملہ رفع دفع کروا دیا ,,
میں ریلیکس ھو کر پھر ایک بار اپنے خیالوں کی وادی میں پہنچ گیا اور سوچنے لگا کہ کسی بھی معاشرے میں کردار سازی سب سے اولین ترجیح ہونی چاہیئے ,, اس کے بغیر نہ ملک ترقی کر سکتا ھے نہ لوگوں کے عمومی رویوں میں تبدیلی آ سکتی ھے ,,
پھر میں نے سوچا کہ کردار سازی تو بہرحال ضروری ھے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ بسوں کو بھی تیز چلنا چاہئیے ,, جس ملک کی بسیں ہی اتنی سست رفتار ھوں کہ زندگی کے کئی قیمتی گھنٹے اسی میں صرف ھو جایئں تو ملک نے خاک ترقی کرنی ھے ,,
اپنے اس خیال پر میں نے خود کو داد دی , اور تھوڑی بہت داد اس شخص کو بھی دے دی جس نے سب سے پہلے نکتہ اعتراض اٹھایا تھا ,,
میرا اسٹاپ یعنی صدر بازار آگیا تھا ,,
میں بس سے اتر گیا اور اپنے کام نمٹانے کے بعد ایک اور بس میں سوار ھوا ,,
میں نے خیالات کا سلسلہ ایک بار پھر جوڑا ,,
یاد رھے کہ میں ایک ادیب اور دانشور ھوں , خیالات کے تانے بانے بننا , سوچتے چلے جانا اور نتائج اخذ کرنا میرا محبوب مشغلہ ھے ,,
آخری بار میں اس نتیجے پر پینچا تھا کہ بسوں کو تیز چلنا چاہیئے ,, مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس بار جس بس میں میں سوار ھوں وہ حد درجہ تیز رفتار ھے ,,
ڈرایئور ریس پر سے پاؤں ہٹانے کیلیئے قطعی تیار نہیں ,,
وہ دیگر گاڑیوں کو اوور ٹیک کرتا جارہا تھا کہ ناگہاں اس کے سامنے ایک موٹر سایئکل والا آگیا ,,
اس نے زور سے بریک لگائی بس کے مسافر آگے کی طرف گرے , خود میرا سر سامنے والی سیٹ سے ٹکرا گیا ,, تبھی پیچھے سے ایک تیز غصے بھری آواز آئی ,,
ابے رنڈی کے بچے گاڑی سیلو چلا ,,
قیصرانی نایاب محمود احمد غزنوی تلمیذ