روحانی اقوال

سنو! تم مجھ سے بچھڑ تو رھے ھو،
راستے خودسےجداکرتورھےھو،
پر رکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
جاتےسمےکچھ حساب تودیتےجاؤ،
حساب۔۔۔۔۔!میری ہراس سوچ کا،
جو تم سے شروع ھوکرتم پر ہی ختم ھوتی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
میری ان سوچوں کا حساب تو دیتےجاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
میری ان شاموں کاجو میں تیرےانتظارمیں
تجھ سے ملنے کی آس میں۔۔۔۔۔۔۔! بے چین گزاری ہیں۔۔۔۔۔!
میری رنگین صبحیں بےرنگ، کرنے چلے ہوِ؟
میری راتوں کا سکون لوٹنے چلے ہو؟
سنو۔۔۔۔! کیا تم میرے بنا خوش رہ سکو گےِِِِ؟
اگر ہاں؟ تو پھر شوق سے بچھڑو۔۔۔!
مگر یادرکھوِِِ! میں اگر اپنی چاہتوں کا جو حساب لینے بیٹھ جاؤں،
تو تم تو بس میرایاد کرنا بھی نا لوٹا سکوگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پر تو میری چیخیں ہی نکل گئی پتہ نہیں قارئین کی نکلتی ہیں یا نہیں
حساب۔۔۔۔۔!میری ہراس سوچ کا،
جو تم سے شروع ھوکرتم پر ہی ختم ھوتی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
 

نایاب

لائبریرین
تابوت سکینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاسٹ بلیٹ

یہ شمشاد کی لکڑی کا بنا ھوا ایک صندوق تھا جو آدم علیہ سلام پر نازل ھواتھا۔، یہ پوری زندگی آپ کے پاس رھا۔ پھر بطور میراث آپکے اولاد کو ملتا رھا، یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ سلام کو ملا اور آپکے بعد آپکی اولاد بنی اسرایئل کو ملا اور بعد میں یہ حضرت موسئ علیہ سلام کو ملا جس میں وہ اپنا حاص سامان اور تورات شریف رکھا کرتے تھے۔

یہ بڑا ھی مقدس اور بابرکت صندوق تھا، بنی اسرایئل جب کفار سے جہاد کرتے اور انکو شکست کاڈر ھوتا تو وہ اس صندوق کو آگے رکھتے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ھوتا کہ مجاھدین کے دلوں کو چین آرام و سکون حاصل ھو جاتا اور صندوق وہ جتنا آگے بڑھاتے آسمان سے نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ کی بشارت عظمی نازل ھوتی۔
بنی اسرایئل میں جب بھی کھبی احتلاف ھوتا تو وہ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے۔ صندوق سے فیصلہ کی آواز حود ھی آتی العرض یہ تابوت بنی اسرایئل کے لیے تابوت سکینہ ثابت ھوی۔

لیکن جب بنی اسرایئل طرح طرح کے گناھوں میں ملوث ھوے اور ان لوگوں میں سرکشی اور ظلم و جبر کا دور دورا عام ھوا تو انکی بداعمالیوں کی نحوست کی بدولت اللہ کا یہ عذاب نازل ھوگیا کہ قوم عمالقہ کے ایک لشکرر جرار نے بنی اسرایئل پر حملہ کیا اور بنی اسرایئل کی ایسی کی تیسی کر دی۔ ان میں قتل عام کیا اور انکی بستیوں کو تحت وتاراج کیا اور متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر راستے میں نجاستوں کے کوڑے میں پھینک دیا۔

اس بے ادبی کی سزا میں اللہ نے قوم عمالقہ پر وباء مسلط کی جس سے طرح طرح کی بیماریاں ان پر مسلط ھوی۔ اس وباء سے قوم عمالقہ کے پانچ شہر آن کی آن میں تباہ ھوکر ویران ھوے جس سے انکو یہ بات ماننی پڑی کہ یہ جو بھی ھو رھا ھے یہ سب کچھ اللہ کا عذاب ھے جو صندوق سکینہ کی وجہ سے اللہ نے ان پر مسلط کیا ھے، ان کی آنکھیں کھولنے میں ذرا دیر بھی نھی لگی۔ سو انھوں صندوق سکینہ تلاش کر کہ بیل گاڑی میں ڈال کر بیل گاڑی کو بنی اسرایئل کی طرف ھانک دیا۔

اللہ تعالی نے چار فرشتوں کو بیجھا جنھوں نے یہ مبارک صندوق اٹھا کر بنی اسرایئل کے بابرکت نبی حضرت شمویل علیہ سلام کی حدمت میں پیش کیا۔۔ اس وقت شمویل علیہ سلام نے طالوت کو بنی اسرایئل پر بادشاہ مقرر فرمایا تھا، اس وقت بنی اسرایئل طالوت کی بادشاھی مانے کو تیار نہ تھے۔اور انھوں نے یہی شرط ٹہرایی تھی کہ جب صندوق سکینہ آیے تو ھم طالوت کی بادشاھی کی اطاعت کرینگے۔۔ چنانچہ وہ صندوق انکے سامنے پیش کیا گیا اور انھوں نے طالوت کی بادشاھی کی اطاعت کی۔
بحوالہ تفسیر الصاوی جلد 1 صفحہ 385

اس مقدس صندوق میں موسئ علیہ سلام کا عصاء ان کی مقدس جوتیاں، ھارون علیہ سلام کا عمامہ ، حضرت سلیمان علیہ سلام کی انگوٹھی ، تورات کے چند تحتے ، کچھ من و سلویٰ اور اسکے علاوہ کچھ انبیاء علیہ سلام کے صورتوں کے حلیے وعیرہ شامل تھے۔بحوالہ تفسیر روح البیان جلد 1 صفحہ 384

قرآن نے صندوق سکینہ کو کچھ یوں بیان کیا ھے

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی (بخشنے والی چیز) ہوگی اور کچھ اور چیزیں بھی ہوں گی جو موسیٰ اور ہارون چھوڑ گئے تھے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے ایک بڑی نشانی ہے
 
کردار سازی کی ضرورت
ابے رنڈی کے بچے گاڑی تیز چلا ,,

ایک تیز چیختی آواز نے میرے کانوں کو یوں جھنجوڑ دیا جیسے کوئی بارود بھرا ٹرک کسی عمارت سے ٹکرا کر اسے ملیامیٹ کر دے ,, میں کراچی شہرکی معروف شاہرہ پر رواں دواں ایک منی بس میں بیٹھا اپنے خیالات کے تانے بن رہا تھا جب یہ حادثہ ھوا ,,
جی ہاں اسے حادثہ ہی سمجھیئے کونکہ میرے جیسے نازک اور لطیف احساسات رکھنے والے شخص کیلیئے ایسی گندی گالی کا سننا حادثے سے کم نہیں ھو سکتا ,,

میں نے پلٹ کر اس کریہہ شخص کی طرف دیکھا جسے کہیں پہنچنے کی بہت جلدی تھی ,, وہ شعلہ بار نگاہوں سے ڈرائیور کو گھور رہا تھا ,,
مجھے محسوس ھوا کہ وہ محض گالی پر اکتفا کرنے والا شخص نہیں بلکہ کسی بھی لمحے آگے بڑھ کر ڈرایئور کی گردن بھی مروڑے گا ,,

عین اسی وقت اگلی سیٹوں پر سے ایک نوجوان اٹھا اور اس نے پیجھے جا کر اس شخص کا گریبان پکڑ لیا

گالی کیوں دی ؟ نوجوان نے پوچھا اور زور سے جھٹکا دیا

جھٹکا کھاتے ہی گالی دینے والا شخص سمجھ گیا کہ مقابلے میں اس سے زیادہ طاقتور بندہ ھے ,, وہ اپنا گریبان چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ھوئے بولا
,, تم کیا لگتے ھو ڈرائور کے

میں بھی تماشا دیکھ رہا تھا اور دوسرے مسافر بھی اس سے لطف اندوز ھو رہے تھے ,, مگر بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر پر جوں تک نہ رینگی تھی ,,
کنڈیکٹر مسلسل صدر , صدر , کی آوازیں لگا رہا تھا اور ڈرائور مسلسل سلو موشن میں گاڑی بھگا رہا تھا ,, وہ گالیاں کھا کے بے مزہ ھونے والا بندہ تھا بھی نہیں , اس پر کچھ چرس کے نشے اور کچھ بس مالکان کے طے کردہ اصولوں کا اثر تھا ,,

وہ ھمارا بھائی ھے ,, جوشیلے نوجوان نے ڈرائور کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا , اور وہ بھی انسان ھے آئیندہ اس کو گالی دی تو ,,,

تو اس نے قدرے تفصیل سے بتایا کہ وہ اس کی ماں اور بہن کے ساتھ کیا کیا حرکتیں کر سکتا ھے ,,
اس کے لہجے میں ضرور کوئی ایسی بات تھی کہ گالی دینے والا بالکل ہی بھیگی بلی بن گیا تھا

آخرکار دوسرے مسافروں نے معاملہ رفع دفع کروا دیا ,,

میں ریلیکس ھو کر پھر ایک بار اپنے خیالوں کی وادی میں پہنچ گیا اور سوچنے لگا کہ کسی بھی معاشرے میں کردار سازی سب سے اولین ترجیح ہونی چاہیئے ,, اس کے بغیر نہ ملک ترقی کر سکتا ھے نہ لوگوں کے عمومی رویوں میں تبدیلی آ سکتی ھے ,,

پھر میں نے سوچا کہ کردار سازی تو بہرحال ضروری ھے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ بسوں کو بھی تیز چلنا چاہئیے ,, جس ملک کی بسیں ہی اتنی سست رفتار ھوں کہ زندگی کے کئی قیمتی گھنٹے اسی میں صرف ھو جایئں تو ملک نے خاک ترقی کرنی ھے ,,

اپنے اس خیال پر میں نے خود کو داد دی , اور تھوڑی بہت داد اس شخص کو بھی دے دی جس نے سب سے پہلے نکتہ اعتراض اٹھایا تھا ,,
میرا اسٹاپ یعنی صدر بازار آگیا تھا ,,
میں بس سے اتر گیا اور اپنے کام نمٹانے کے بعد ایک اور بس میں سوار ھوا ,,

میں نے خیالات کا سلسلہ ایک بار پھر جوڑا ,,
یاد رھے کہ میں ایک ادیب اور دانشور ھوں , خیالات کے تانے بانے بننا , سوچتے چلے جانا اور نتائج اخذ کرنا میرا محبوب مشغلہ ھے ,,

آخری بار میں اس نتیجے پر پینچا تھا کہ بسوں کو تیز چلنا چاہیئے ,, مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس بار جس بس میں میں سوار ھوں وہ حد درجہ تیز رفتار ھے ,,

ڈرایئور ریس پر سے پاؤں ہٹانے کیلیئے قطعی تیار نہیں ,,

وہ دیگر گاڑیوں کو اوور ٹیک کرتا جارہا تھا کہ ناگہاں اس کے سامنے ایک موٹر سایئکل والا آگیا ,,

اس نے زور سے بریک لگائی بس کے مسافر آگے کی طرف گرے , خود میرا سر سامنے والی سیٹ سے ٹکرا گیا ,, تبھی پیچھے سے ایک تیز غصے بھری آواز آئی ,,

ابے رنڈی کے بچے گاڑی سیلو چلا ,,
قیصرانی نایاب محمود احمد غزنوی تلمیذ
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت اہم نقطے کی طرف اشارہ ہے اس مضمون میں۔
اب ان دو انتہاؤں (اور عدم برداشت)کے ماحول میں کردار سازی کی بات کرنا واقعی ایک دشوار امر ہے۔
 
ﺣﻀﺮﺕ ﻏﺰﺍﻟﯽ ﺯﻣﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ !
ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻃﯿﺒﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ
ﺭﻭﺿﺌﮧ ﺍﻗﺪﺱ ﮐﯽ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﺸﺖ ﮐﺮﮐﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﻗﺒﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﻮ ﮐﻌﺒﮧ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺻﺮﻑ ﮐﻌﺒﮧ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﺮﺵ ﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻓﻀﻞ ﻣﺎﻧﺘﺎﮨﻮﮞ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺩﻟﯿﻞ ﻃﻠﺐ ﮐﯽ ﺗﻮ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﻋﺒﺪ ﺷﮑﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺣﻤﺪ ﻭﺛﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﯿﮟ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ
’’ ﻟﺌﻦ ﺷﮑﺮﺗﻢ ﻻﺯﯾﺪﻧﮑﻢ ‘‘
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺷﮑﺮ ﺑﺠﺎﻻﺋﮯ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﺿﺮﻭﺭ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ
ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ
ﻣﺮﺍﺗﺐ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﻗﯽ ﯾﮧ ﮨﻮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺷﮑﺮ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﻋﺮﺵ ﺍﻟٰﮩﯽ ﭘﺮ
ﭘﮩﻨﭽﺎﺩﯾﺎﺟﺎﺗﺎﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ
ﻭﮦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻮﺍﺳﺘﺮﺍﺣﺖ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺭﻭﺿﮧ ﻣﻘﺪﺳﮧ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﺮﺵ ﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻗﺎﺿﯽ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ۔
 

الشفاء

لائبریرین
ﺣﻀﺮﺕ ﻏﺰﺍﻟﯽ ﺯﻣﺎﮞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ !
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻣﺮﺍﺗﺐ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﻗﯽ ﯾﮧ ﮨﻮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺷﮑﺮ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﻋﺮﺵ ﺍﻟٰﮩﯽ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﺩﯾﺎﺟﺎﺗﺎ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻮﺍﺳﺘﺮﺍﺣﺖ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺭﻭﺿﮧ ﻣﻘﺪﺳﮧ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﺮﺵ ﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻗﺎﺿﯽ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ۔

اعزاز یہ حاصل ہے تو حاصل ہے زمیں کو
افلاک پہ تو گنبد خضریٰ نہیں کوئی۔۔۔
 
سورہ فاتحہ کی ایک عجیب مربوط تشریح
سورہ فاتحہ واقعی عجیب ہے.یہ سورت انسان کو مٹی سے اٹھا کر عرش کے نیچے لا کھڑا کرتی ہے…
ہمیں عدم سے وجودمیں لانے والا، پیدا کرنے والاکون؟ اللہ
الحمدللہ!
پھر ہمیں پالنے والا کون … رَبِّ الْعالَمِیْن …
دنیا میں ہمیں تھامنے اور چلانے والا کون ’’اَلرَّحْمٰن‘‘…
آخرت میں ہم کس کے سہارے ہوں گے… ’’اَلرَّحِیْم‘‘…
ہمیں دار دنیا سے آخرت منتقل کرنے والا اور وہاں ہمیں انصاف دینے والا…’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن‘‘…
جب ہماری پیدائش سے لے کر ہمیں اگلے جہاں لے جانے والا صرف اللہ تو بس پھر ہم اسی کے بندے اسی کے غلام …اِیَّاکَ نَعْبُدُ…
جب غلامی اس کی اختیار کی تو اب مدد کے لئے بھی صرف اسی کے سامنے جھکیں گے’’وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘…
مانگو کیا مانگتے ہو… یا اللہ آپ سے آپ ہی کو مانگتے ہیں… وہ راستہ جو سیدھا آپ تک پہنچا دے… اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
اور ہمیں انعام یافتہ افراد میں شامل کرادے… صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
اور ہمیں گمراہی اور آپ کے غضب سے بچا دے…غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
( بحوالہ : سچایار ۔ رنگ و نور )
 

نایاب

لائبریرین
سورہ فاتحہ کی ایک عجیب مربوط تشریح
سورہ فاتحہ واقعی عجیب ہے.یہ سورت انسان کو مٹی سے اٹھا کر عرش کے نیچے لا کھڑا کرتی ہے…
ہمیں عدم سے وجودمیں لانے والا، پیدا کرنے والاکون؟ اللہ
الحمدللہ!
پھر ہمیں پالنے والا کون … رَبِّ الْعالَمِیْن …
دنیا میں ہمیں تھامنے اور چلانے والا کون ’’اَلرَّحْمٰن‘‘…
آخرت میں ہم کس کے سہارے ہوں گے… ’’اَلرَّحِیْم‘‘…
ہمیں دار دنیا سے آخرت منتقل کرنے والا اور وہاں ہمیں انصاف دینے والا…’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن‘‘…
جب ہماری پیدائش سے لے کر ہمیں اگلے جہاں لے جانے والا صرف اللہ تو بس پھر ہم اسی کے بندے اسی کے غلام …اِیَّاکَ نَعْبُدُ…
جب غلامی اس کی اختیار کی تو اب مدد کے لئے بھی صرف اسی کے سامنے جھکیں گے’’وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘…
مانگو کیا مانگتے ہو… یا اللہ آپ سے آپ ہی کو مانگتے ہیں… وہ راستہ جو سیدھا آپ تک پہنچا دے… اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
اور ہمیں انعام یافتہ افراد میں شامل کرادے… صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
اور ہمیں گمراہی اور آپ کے غضب سے بچا دے…غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
( بحوالہ : سچایار ۔ رنگ و نور )
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
انسان کو جس چیز میں کمال حاصل ہوتا ہے - اسی میں مرتا ہے ۔

چنانچہ دھنتر وید کو سانپ پکڑنے میں کمال تھا - اس کو سانپ نے کاٹا اور مر گیا۔
ارسطو سل کی بیماری میں مرا ۔
افلاطون فالج میں ۔
لقمان سرسام میں اور جالینوس دستوں کے مرض میں۔
حالانکہ انہی بیماریوں کے علاج میں کمال رکھتے تھے ۔
اسی طرح جس کو جس سے محبّت ہوتی ہے ، اسی کے خیال میں جان دیتا ہے ۔
قارون مال کی محبّت میں مرا ۔
مجنوں لیلیٰ کی محبّت میں ۔
اسی طرح طالب خدا کو خدا کی طلبی کی بیماری ہے وہ اسی میں فنا ہو جاتا ہے ۔

اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ انسان جس چیز میں سمجھتا ہے کہ اسے کمال ہے یا اس کا وہ ماہر ہے وہ مہارت اسے یہ یقین عطا کرتی ہے کہ اب اس چیز سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور اسی میں اسی کی جان جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اب تک وہ بچتا اللہ کی اس پہ رحمت کی وجہ سے آرہا تھا نا کہ اپنی مہارت یا کمال کی وجہ سے ۔.

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی علم ہو کوئی بھی چیز ہو اس میں کاملیت صرف رب کی ذات کو ہے باقی سب فنا ہے ۔.

دوسری بات یہ کہ انسان جس خیال میں جان دے گا وہی اس کی آکرت ہے کوئی مال ، دولت دنیا کی حرص و حوص کی چاہ میں یہاں پر جیتا اور مرتا ہے تو وہی چیزیں اسے آخرت میں دی جائیں گی جو کہ عذاب بن کر اسے ہر وقت ڈسیں گی اور جو یہاں پر اللہ کی محبت اور چاہت میں مرا وہاں آللہ تعالیٰ کو پا لے گا ۔.
جس نے اپنے ہنر پہ فخر کیا وہ مارا گیا جس نے رب کی محبت کے سوا کسی اور محبت میں جان دی وہ بھی مارا گیا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین ۔
 
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا تھیا

تیرے عشق نے ڈیرا میرے اندر کیتا
بھر کے زہر پیالہ میں تاں آپے پیتا
جھب دے بوھڑیں وے طبیبا نی تے میں مر گئیا

تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا تھیا

چھپ گیا وے سورج ، باہر رہ گئی آ لالی
وے میں صدقے ہوواں دیوے مڑ جے وکھالی
پیر ! میں بھل گئیاں تیرے نال نہ گئیا

تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا تھیا

ایس عشق دے کولوں مینوں ہٹک نہ مائے
لاہو جاندڑے بیڑے کیہڑا موڑ لیائے
میری عقل جو بھلی نال مھانیاں دے گئیا

تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا تھیا

ایس عشق دے جھنگی وچ مور بلیندا
سانون قبلہ تو کعبہ سوہنا یار دسیندا
سانوں گھائل کر کے فیر خبر نہ لئیا

تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا تھیا

بلھا ! شوہ نے آندا مینوں عنایت دے بوہے
جس نے مینوں پوائے چولے ساوے تے سو ہے
جاں میں ماری ہے اڈی مل پیا ہے وھیا

تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا تھیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
 
کَب تَلک شب کے اندھیرے میں سَحر کو ترسے
وہ مُسافر جو بھرے شہر میں گھر کو ترسے

آنکھ ٹھہرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے
دل وہ رَہرو کے سمندر کے سفر کو ترسے

مجھ کو اس قَحط کےموسم سے بچا رَّبِ سُخن
جب کوئی اہلِ ہُنر عرضِ ہُنر کو ترسے

اب کے اس طَور مُسلّط ہے اندھیرا ہر سُو
ہِِجر کی رات مرے دیدۂ تَر کو ترسے

عُمر اتنی تو عطا کر مِرے فن کو خالق
مِرا دُشمن مِرے مَرنے کی خبر کو ترسے

اس کو پا کر بھی اسے ڈھُونڈھ رہی ہیں آنکھیں
جیسے پانی میں کوئی سِیپ گُہر کو ترسے

ناشناسائی کے موسم کا اثر تو دیکھو
آئینہ خَال و خدِ آئینہ گَر کو ترسے

ایک دنیا ہے کہ بَستی ہے تِری آنکھوں میں
وہ تو ہم تھے جو تِری ایک نظر کو ترسے

شورصَرصَرمیں جو سَرسَبز رہی ہے مُحسن
موسمِ گُل میں وہی شاخ ثَمر کو ترسے

مُحسن نَقوِی
 

سید زبیر

محفلین
لا جواب انتخاب ۔ خوش رہیں
ایک دنیا ہے کہ بَستی ہے تِری آنکھوں میں
وہ تو ہم تھے جو تِری ایک نظر کو ترسے
 
مدتوں بعد کسی نے پوچھا!
اب کہاں ہوتے ہیں جناب
میں نے عرض کیا!
اپنی اوقات میں

ماخوز از پنجابی
مُدّتاں بعد کسے نے پُچھیا"
ہُن کتھّے ہوندے او"؟
میں کہیا" اپنی اؤقات اِچ ،،،
 
تاریخ کےآئینےمیں.
خالد بن ولید
خالد بن ولید(عربی: خالد بن ولید بن المغیرۃ المخزومی) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپہ سالار اور ابتدائی عرب تاریخ کے بہترین سپاہی تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےوصال کے بعد انھوں نے ریاست مدینہ کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد خالد بن ولید نے ساسانی اور بازنطینی سلطنتوں کو شکست دیکر نہ صرف مدینہ کی چھوٹی سی ریاست کو ایک عالمی طاقت میں تبدیل کردیا۔ بلکہ پہلے درجہ کے عالمی فاتحین میں بھی اپنے آپ کو شامل کرالیا۔


موازنہ
خالد بن ولید نے 125 کے قریب جنگوں میں حصہ لیا اور کسی میں بھی شکست نہیں کھائی۔ وہ پیدائشی جنگجو سپاہی تھے۔ انہوں نے عربوں کے لیے جن علاقوں کو فتح کیا وہ اب بھی ان کے پاس ہیں۔ جبکہ باقی عالمی فاتحین نپولین، چنگیز خان، تیمور اور ہٹلر نے جو علاقے فتح کیے وہ ان کی زندگی میں ہی یا بعد میں ان سے چھن گئے۔

زندگی

خالد بن ولید 592 میں مکہ میں قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو مخزوم کے سردار ولید بن مغیرہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ بنی مخزوم کی وجہ شہرت جنگ و جدل تھا۔
وہ شروع میں مسلمانوں کے مخالفین میں سے تھے اور احد کی جنگ کا پانسہ مسلمانوں کے خلاف پلٹنے میں ان کا اہم کردار تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اسلام قبول کیا اور بقیہ زندگی اسلام کے لیے وقف کر دی۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ موتہ میں ان کی بے مثل بہادری پر انھیں سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم اجمعین عرب نے چھوٹے چھوٹے عرب قبیلوں کو ایک جتھے میں بدل دیا۔ اور قبائلی جنگوں میں ضائع ہونے والی ان کی توانائیوں کو ایک سمت دے کر ایک ایسے زبردست طوفان میں تبدیل کر دیا جس نے جلد ہی پورے مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس علاقے اور دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور اسی صحرائی طوفان کا عنوان تھے خالد بن ولید۔

مشہور جنگیں
غزوۂ احد
فتح مکہ
فتح طائف
جنگ موتہ
معرکۂ دومتہ الجندل
جنگ یرموک
جنگ یمامہ
جنگ اجنادین
فتح حلب

نظم و ضبط
مسلمانوں میں یہ تاثر عام پیدا ہو گیا تھا کہ خالد بن ولید ہر جنگ کی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ اس پر خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انھیں سپہ سالاری کے درجے سے ہٹادیا کہ فتح اللہ تعالٰیٰ کی مدد سے ہوتی ہے اور امیر کی اطاعت خالد بن ولید کے کردار کا اہم حصہ تھا۔ انھوں نے اسے بخوشی قبول کیا۔

وفات
خالد بن ولید کو اپنے انتقال سے پہلے اس چیز کا بہت افسوس تھا کہ وہ میدان جنگ کے بجائے بستر پر اپنی جان دے رہے ہیں۔ وہ 642ء میں شام کے شہر حمص میں وفات پاگئے۔ ان کی قبر مسجد جامعۃ خالد بن ولید کا حصہ ہے۔ اپنی وفات پر انھوں نے خلیفۃ الوقت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اپنی جائیداد کی تقسیم کی وصیت کی۔
ماخوذ از فیس بک
 
موجِ صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں
ڈوبی ہوئی ہیں خون میں پھولوں کی بستیاں

مستی ہو یا خُمار ہو، کر مے پرستیاں
بے سود رفعتیں ہیں نہ بیکار پستیاں

اے دوست کچھ تو سوچ کہ دنیا بدل گئی
اب اس قدر نہ ہوش نہ اس درجہ مستیاں

شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے
کس طرح اِک نظر سے بدلتی ہیں ہستیاں

اے کاروانِ راحت و غم دل ہے وہ مقام
دن رات جس دیار میں لُٹتی ہیں بستیاں

غم، کشتگانِ عشق سے اتنا نہ کر گریز
کچھ کام آ رہیں گی یہ بے کار ہستیاں

آواز پائے ناز کو بھی مدتیں ہوئیں
سونی پڑی ہیں کب سے ترے غم کی بستیاں

دونوں سے بے نیاز ہوں، کیا موت کیا حیات
ہیں رشکِ صد نشاط مری غم پرستیاں

اس جیبِ تار تار کو خالی نہ جاننا
بستی ہیں بیخودوں کے گریباں میں بستیاں

سنتے ہیں حسن درد کی تصویر ہو چلا
کچھ لا چلی ہیں رنگ مری غم پرستیاں

کب ہم خیالِ عشق ہوا حسنِ بدگماں
گو خود پرستیاں تھیں مری حق پرستیاں

اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

اُس کی نگاہِ ناز کی کیا بات ہے فراق
دامن میں ہوش ہے تو گریباں میں مستیاں
فراق گھورکھ پوری
 
آخری تدوین:
Top