نویں جماعت کی اردو گرامر میں ایک محاورہ ہے، کل کچھ طالبات سب سے پوچھنے کے بعد خصوصی طور پر میرے پاس لے کر آئیں اس یقین کے ساتھ کہ مجھے تو اسکا مطلب ضرور ہی پتا ہوگا لیکن افسوس کہ مجھے بھی علم نہ تھا۔ اب ان سے کہا ہے کہ کل دیکھ کے بتاؤں گی۔ محاورہ کچھ یوں ہے:
"سیکھ دا کو دیجیے جا کو سیکھ سہائے سیکھ نہ دیجیے باندرا جو گھر بئے کا جائے"
ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ سخت سردی کے دن تھے۔ کئی دن سے برابر بارش ہورہی تھی۔ بَیا اپنے گھونسلے میں مزے سے بیٹھا اپنے بچوں کو کہانیاں سنا رہا تھا کہ اچانک درخت کی شاخوں پر کھڑبڑ کی آواز آئی۔
بَیےنے گھونسلے کے دروازے پر آکر اِدھر اُدھر جھانکا۔ کالے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ بارش ہورہی تھی۔ چاروں طرف گُھپ اندھیرا تھا۔ بَیے کو کچھ نظر نہ آیا لیکن اچانک بجلی چمکی تو اس نے دیکھا کہ ایک بندر درخت کے پتوں میں اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ اُس کا سارا جسم بھیگا ہوا تھا اور وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔
بیے کو بندر پر بہت ترس آیا۔ وہ چاہتا تو تھا کہ اُس کو پناہ دے‘ لیکن اُس کے گھر میں جگہ نہ تھی۔ بَیا ننھا سا جانور ہے۔ اس کا گھونسلا کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ بندر اُس کے اندر نہیں آسکتا۔ بَیے کو بندر کو بے وقوفی پر بھی غصہ آرہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس نالائق نے اپنا گھر بنا لیا ہوتا تو آج یوں پریشان نہ ہوتا۔ جب گھر بنانے کے دن تھے تو اُس وقت تو یہ درختوں کی شاخوں پر کود پھاند کرتا رہا اور اب مارے سردی کے مرا جارہا ہے‘ بیے نے بندر سے کہا: ’’ارے بندر‘ تیرے ہاتھ پاؤں تو انسانوں کے سے ہیں‘ جسم کی بناوٹ بھی انسانوں سے ملتی جلتی ہے تو چاہے تو اچھا سا گھر بناسکتا ہے۔ چار مہینے پہلے سردی کے دن آئے تھے تو نے ان دنوں بھی اپنے لیے گھرکا انتظام نہ کیا؟‘‘
بندرکو بَیے کی یہ بات بہت بُری لگی۔ وہ غصے سے بولا ’’ تم کون ہوتے ہو مجھے نصیحت کرنے والے؟ تمہاری اوقات ہی کیا ہے۔ ایک تھپڑ دُوں تو دوسرا سانس لینا بھی نصیب نہ ہو‘‘
بَیا بولا ’’ بھائی‘ تم تو خواہ مخواہ جھگڑا کرتے ہو۔ میں تو تمہارے ہی بھلے کی کہہ رہا تھا۔ نصیحت کا بُرا نہیں ماننا چاہیے۔‘‘
بندر غصے میں آپے سے باہر ہوگیا۔ کہنے لگا ’’تیری یہ مجال کہ مجھے نصیحت کرے! ٹھہر جا! ابھی مزا چکھاتا ہوں‘‘
یہ کہہ کر بندر نے بَیے کے گھونسلے کو نوچ کھسوٹ کر نیچے پھینک دیا اب بَیا اور اُس کے بچے بارش میں بھیگ رہے تھے اور رو رہے تھے۔ اُن کاگھونسلا درخت کے نیچے بکھرا پڑا تھا۔
برابر والے درخت پر ایک اور بَیے کا گھونسلا تھا۔ اُس نے پڑوسی بَیے کے بچوں کی چیخیں سُنیں تو جلدی سے باہر نکلا اور پوچھا ’’کیا بات ہے؟ بچے کیوں رو رہے ہیں؟‘‘
بَیے نے سارا قصہ کہہ سنایا۔ پڑوسی بَیے نے انہیں اپنے گھونسلے میں بُلا لیا اور کہا:
سیکھ تو وا کو دیجیے‘ جاکو سیکھا سُہائے
سیکھ نہ دیجے باندرا‘ جو بَیے کا گھر جائے
یعنی نصیحت اُس کوکرنی چاہیے جو نصیحت پر کان دھرے۔ تم نے دیکھ لیا کہ بندر کو نصیحت کرنے سے تمہارا اپنا گھر اُجڑ گیا۔
اس طرح یہ ایک کہاوت بن گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوف شخص کو نصیحت نہیں کرنی چاہیے۔ وہ نصیحت کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اُسے نقصان پہنچاتا ہے۔
لنک