محمد تابش صدیقی
منتظم
یہ صرف پیرنٹ کا نہیں تقریباً ہر انسان کا طرزِ عمل ہے۔امی کو یاد مِس کرتے ہوئے ذہن میں آیا کہ پچھلے ہفتے اسی وقت:
بھائی کی کسی بات کے جواب میں میں نے کہا کہ اسلام کا دائرہ وہ دائرہ ہے جس میں پہلے لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے، آجکل بس خارج کرتے ہیں.
امی:______
میں: (چار پانچ سیکنڈز کے بعد خود کلامی کے انداز میں) ابنِ انشا نے کہا ہے!
امی: واقعی یہ ابنِ انشاء نے کہا ہے؟
واہ! کیا بات کر دی انہوں نے!
میں: (شاواشے!)
وہی بات میں نے کہی، ایویں کوئی فلسفہ بگھارا ہے والا ری ایکشن!
ساتھ کہا کہ ابن انشاء نے کہا ہے تو واہ واہ کمال کر دیا!
پیرنٹ کمیونٹی کی طرف سے کھلے تضادات میں سے ایک!
یہ بات صرف کہی جا سکتی ہے کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے، مگر عملاً ایسا ممکن نہیں۔ اور غلط بھی نہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ کون کہہ رہا ہے۔
اب اگر زرداری کرپشن کے خلاف درس دے رہا ہو تو آپ متاثر ہوں گی؟ ہرگز نہیں، بلکہ الٹا غصہ آئے گا کہ دیکھو تو کہہ کون رہا ہے۔
دراصل کسی بھی بات کے ساتھ ایک پورا ماحول جڑا ہوتا ہے۔ جس میں ایک بہت بڑا حصہ کہنے والے کی شخصیت اور مزاج کا ہے۔
اب مجھے نہیں معلوم کہ آپ کا اپنی والدہ کے سامنے کیا امیج ہے۔ لیکن ابنِ انشا ایک عمدہ مزاح نگار کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان سے منسلک مزاح خود بخود معتبر ہو جائے گا۔
آپ فیس بک پر اشفاق احمد کا کوئی جملہ اپنے نام سے لکھیں تو ریسپانس دیکھیے گا اور کوئی چول سا جملہ لکھ کر ساتھ اشفاق احمد لکھ دیں، لائکس اور شیئرز کی تعداد دیکھیے گا۔
یہی تجربہ الیکشن سے کچھ عرصہ قبل فیس بک پر موجود ایک لکھاری کر چکے ہیں، جس میں انھوں نے عمران خان کا ایک بیان نواز شریف، اور نواز شریف کا ایک بیان عمران خان کے نام سے پوسٹ کیا تھا۔ اور قوم کا اجتماعی شعور سامنے آ گیا تھا۔