عرفان سعید
محفلین
بچپن میں شغل میں کھیلا کرتے تھے۔یہاں کون ہے جس نے کبڈی کھیلی ہے ؟
بچپن میں شغل میں کھیلا کرتے تھے۔یہاں کون ہے جس نے کبڈی کھیلی ہے ؟
میں نے بھی کھیلی ہے ،بچپن میں شغل میں کھیلا کرتے تھے۔
میں نے کھیلی ہے اور زبردست قسم کی۔ کھیل تو بیچ میں رہ جاتا تھا مخالف محلے کی ٹیم کے ساتھ "دشمنی" پڑ جاتی تھی، دوسرے کھلاڑی کو ہاتھ لگانے کی بجائے بھاری بھر کم تھپڑ مارا جاتا تھا اور جو پکڑا جاتا تھا اس کو اچھی طرح رگید کر چھوڑا جاتا تھا۔یہاں کون ہے جس نے کبڈی کھیلی ہے ؟
زبردست۔ رات کی جھلکیوں میں بھی ہند و پاک کے کھلاڑی کسی حد تک یہی سفلانہ بھڑاس کسی قدر نکالتے نظر آئے ۔ خصوصاِِ ایک پاکستانی نے پوائنٹ لیتے وقت ہندی کھلاڑی کو لائن پار کرتے وقت ایک بے اختیار دھکا بھی دیا ۔۔۔خیر اس طرح تو ہوتا ہے ۔۔۔میں نے کھیلی ہے اور زبردست قسم کی۔ کھیل تو بیچ میں رہ جاتا تھا مخالف محلے کی ٹیم کے ساتھ "دشمنی" پڑ جاتی تھی، دوسرے کھلاڑی کو ہاتھ لگانے کی بجائے بھاری بھر کم تھپڑ مارا جاتا تھا اور جو پکڑا جاتا تھا اس کو اچھی طرح رگید کر چھوڑا جاتا تھا۔
دھکا دے کر مخالف کھلاڑی کو لائن سے باہر بھیج دینا موجودہ قوانین کے تحت سرکل سٹائل کبڈی میں 'لیگل' ہے اور اگر لائن کے قریب کھیل ہو رہا ہو تو دونوں مخالف کھلاڑیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کو لائن سے باہر دھکیل دیں۔ تھپڑ وغیرہ مارنا منع ہے۔ اس کے لیے پنجاب میں غیر سرکاری سطح پر ایک چماٹوں والی ون ٹو ون کبڈی کھیلی جاتی ہے جس میں گھونسا نہیں مار سکتے لیکن چپتیں اور تھپڑ مارنے کی کھلی چھٹی ہوتی ہے۔زبردست۔ رات کی جھلکیوں میں بھی ہند و پاک کے کھلاڑی کسی حد تک یہی سفلانہ بھڑاس کسی قدر نکالتے نظر آئے ۔ خصوصاِِ ایک پاکستانی نے پوائنٹ لیتے وقت ہندی کھلاڑی کو لائن پار کرتے وقت ایک بے اختیار دھکا بھی دیا ۔۔۔خیر اس طرح تو ہوتا ہے ۔۔۔
چماٹوں سے یسّو، پنجو، ہار، کبوتر، ڈولی یاد آگیاچماٹوں والی کبڈی۔
اس کا نام تو چمٹی ہونا چاہیئے ۔چماٹوں والی کبڈی۔
یا پھر چماٹ کبڈیاس کا نام تو چمٹی ہونا چاہیئے ۔
ٹ مشدد
اسے غالبا پنجابی میں "چماٹ" کہتے ہیں اور یہ کبڈی کے کھیل کا ہی حصہ ہے۔دوسرے کھلاڑی کو ہاتھ لگانے کی بجائے بھاری بھر کم تھپڑ مارا جاتا تھا
اس بارہ میں معروف کامیڈی شو خبر یار کے میزبان آفتاب اقبال کا موقف ہے کہ پنجاب کے بہت سے کھیلوں میں تشدد کی کسی قدر آمیزش شامل ہوتی ہے۔ اور اسی پنجابی کلچر کی وجہ سے مقامی مراثیوں اور بھانڈوں کو بھی ہنسانے کیلئے چپت اور چماٹوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔چماٹوں سے یسّو، پنجو، ہار، کبوتر، ڈولی یاد آگیا
کیا اے لیول اور آئی بی کی سہولت وہاں نجی تعلیمی اداروں میں باآسانی دستیاب ہے؟جی نہیں۔ عام طور پر پنجاب کے سارے تعلیمی بورڈز اور فیڈرل بورڈ کا نصاب ایک جیسا ہی ہے۔ بورڈ کا انحصار اس بات پر ہے کہ تعلیمی ادارہ کس بورڈ سے الحاق شدہ ہے۔ میرے بچے آرمی پبلک اسکول میں پڑھتے تھے اور پڑھتے ہیں، ان کا الحاق فیڈرل بورڈ کے ساتھ ہے (کسی اور بورڈ کے ساتھ بھی ہوتا تو میں کیا کر لیتا)۔ بڑے بیٹے کو میڑک کے بعد پنجاب کالج میں سو فیصد سکالر شپ مل رہی تھی سو اس کو وہاں داخل کروا دیا اور ان کا الحاق پنجاب کے گوجرانولہ بورڈ سے ہے۔ (ظاہر ہے اس میں میرا معاشی فائدہ بھی تھا اور یوں بھی پنجاب گروپ آف کالجز کی شہرت اچھی ہے)۔
جی نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ جو خدشہ آپ کو ہے وہی میرے بیٹے کو بھی تھا کہ فیڈرل بورڈ کے مقابلے میں دوسرے بورڈز کا چیکنگ کا نظام وغیرہ مشتبہ ہے لیکن گیارہویں کے نتیجے کے بعد اس کو ذہنی سکون ہو گیا۔ ویسے میرے بچے خود ہی پڑھتے ہیں، نویں دسویں میں کچھ عرصہ مجھ سے ریاضی فزکس وغیرہ پڑھتے رہے ہیں لیکن بعد میں خود ہی پڑھنا شروع کر دیا اور اب ایف ایس سی میں بھی خود ہی پڑھتا ہے۔ (اور اسی بہانے میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ٹیوشنوں کی فیسیں نہیں بھرنی پڑتیں)۔
باآسانی تو دستیاب نہیں ہے لیکن دستیاب ہے یعنی تمام نجی تعلیمی اداروں میں یہ سہولت نہیں ہے لیکن اچھے اور مہنگے اداروں میں موجود ہے۔کیا اے لیول اور آئی بی کی سہولت وہاں نجی تعلیمی اداروں میں باآسانی دستیاب ہے؟
پنجاب کو خواہ مخواہ تو بدنام نہ کریں۔ کیا باکسنگ یا مارشل آرسٹس کی دیگر کھیلیں پنجاب کی کھیلیں ہیں؟ تمام "کانٹکٹ سپورٹس" میں مار کٹائی کا عنصر شامل ہے اور ان کھیلوں میں اموات بھی واقع ہوتی ہیں اور لوگ معذور بھی ہوتے ہیں، اس کے باوجود یہ کھیلیں ہی ہیں۔ اور کبڈی بھی کانٹکٹ اسپورٹ کی ایک قسم ہے۔اس بارہ میں معروف کامیڈی شو خبر یار کے میزبان آفتاب اقبال کا موقف ہے کہ پنجاب کے بہت سے کھیلوں میں تشدد کی کسی قدر آمیزش شامل ہوتی ہے۔ اور اسی پنجابی کلچر کی وجہ سے مقامی مراثیوں اور بھانڈوں کو بھی ہنسانے کیلئے چپت اور چماٹوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
ہمارا میٹرک کا واٹس ایپ گروپ 2015 سے فعال ہے ۔ شئیر ہونے والے مواد سے لگتا ہے کہ ابھی تک سب "لڑکے" میٹرک میں ہی ہیں ۔میری دسویں کلاس کے دوستوں نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا ہے، اور یہ میرا پہلا واٹس ایپ گروپ بھی ہے۔ دوست دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں اور اکثر ایک دوسرے سے 1988ء کے بعد پہلی بار مل رہے ہیں۔ سب کی عمریں اس وقت پچاس کے قریب ہیں اور جوش و جذبہ اس وقت کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب کوئی کہتا ہے، یار "مُنڈے" کدھر گئے یا "مُنڈیا" نوں بلاؤ۔ (منڈا بمعنی لڑکا بالا)۔
مجھے جب کبھی گھر سے کام کرنا ہوتا ہے، اور ان دنوں میں بھی، بالکل آفس جانے کے لیے تیار ہو کر بابو بن کر کام کرتا ہوں۔آج گھر سے کام کرنے کا فقط دوسرا دن ہے اور کم از کم بارہ دن مزید ہیں لیکن اس 'اسطوخودوس' قسم کی روٹین سے اکتا ہٹ شروع ہو گئی ہے، نہ اس طرح کام ہے کہ چوکس بیٹھ کر کام رکتے رہیں اور نہ اس طرح چھٹی ہے کہ کوئی کام ہی نہ کریں، یا للعجب!