ہاہاہااہا۔۔۔ بس آپ کے "فن" کو برداشت کرنے والوں کا بھی حوصلہ ہے۔۔:rollingonthefloor:
میں بھی سیکھ ہی جاؤں گی۔۔ان شاء اللہ۔۔۔:laugh:
ہماری چھپر چھایاں میں رہو گی تو خوب ترقی کرو گی ۔اب ان کو ہی دیکھ لو کتنی شہرت پائی ہے ۔:devil3:
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
تو کیا سرجی بچوں کو کھیلنے دینا چاہیئے؟
یہ تو مطلب نہیں تھا میرا۔
میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ اپنے بچپن میں ہم جتنے نڈر اور جدت پسند ہوتے ہیں اس کا کچھ حصہ اس عمر میں بھی اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اپنا لیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
اکثر ڈاکٹر اپنی غلطی کو justify کرتے نظر آتے ہیں. ان کو چاہیے کہ کھلے دل سے اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور معافی مانگیں زیادہ تر لوگ معاف کر دیتے ہیں
CPR کرتے ہوئے ہڈیاں توڑنا غلط ہے اور یہ کسی کامیابی کی نشانی نہیں ہے
 

ہادیہ

محفلین
یہ تو مطلب نہیں تھا میرا۔
میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ اپنے بچپن میں ہم جتنے نڈر اور جدت پسند ہوتے ہیں اس کا کچھ حصہ اس عمر میں بھی اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اپنا لیں۔
سرجی لڑکے تو بڑے ہوکربھی بہادر ہوتے۔۔
لڑکیوں کا معاملہ الٹ ہے۔۔۔
 

م حمزہ

محفلین
لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم۔
چلتے پھرتے پڑھیں۔
یقین مانیں اس جیسا کوئی ذکر نہیں۔ اتنی قوت دیتا ہے یہ ذکر۔ سارے خوف زائل کر دیتا ہے۔
آج کل ہم فلمیں دیکھ دیکھ کے ہیرو ہیروئن کے افعال سے متاثر اُن جیسے اقوال دھرانے کی حماقت میں مبتلا ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ یقین کی طاقت کسی بھی ورد کے ساتھ ہو تو اللہ سب کا اللہ ہے لیکن ہم کیوں نہ وہ ورد کریں جو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں بتایا ہے۔ سنت کی سنت۔ اللہ کی رضا اور دل شاد مطمئن۔:)
آپ کے ہر لفظ سے سو فیصد اتفاق ہے۔
البتہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں نے ایسا کیوں کہا۔
پہلی وجہ یہ کہ تابش بھائی نے اللہ سے دعا اور امید کی بات پہلے ہی کہی تھی اور ایسے شخص سے میں یہی امید کرسکتا ہوں کہ ایسا کوئی وظیفہ نہ ہوگا جو وہ نہ پڑھتے ہوں۔
دوسری وجہ:
2010 کی بات ہے، ہمارے ہاں حالات معمول سے زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ (mass uprising). میرا ایک دوست شہر کے ایک سینزٹیو علاقے میں کئی دنوں سے پھنسا ہوا تھا۔ جس سے میرا ملنا بہت ضروری تھا۔ ٹرانسپورٹ بالکل بند۔ بائسیکل تک نہیں چلتے تھے۔ کمیونکیشن کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔
میں نے اللہ کا نام لیا اور پیدل چل نکلا۔ قریبا" چالیس کلومیٹر کی مسافت تھی۔ لگ بھگ پچیس کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد میں اچانک ایسی جگہ پھنس گیا جہاں سے نہ واپس مڑنا ممکن رہا نہ آگے چلنا۔ آگے کنواں پیچھے کھائی والی صورتحال ہوگئی.دونوں جانب موت ہی نظر آرہی تھی۔ میں اپنی بے وقوف بہادری کو کوس رہا تھا۔ لیکں پچھتانے کا یہ محل نہ تھا۔ یقین کریں کہ میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں کہ مجھے " ڈر کے آگے جیت ہے" والی بات یاد آگئی۔ میں نے اللہ کا نام لیا، کلمہ شہادت پڑھا اور چل دیا۔ جب مجھے کبھی وہ سین یاد آتا ہے تو میرا یقین االلہ کی ذات پر اور بڑھ جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ناکامی کے خوف پر کیسے قابو پایا جائے۔
انسان کو اکثر اپنی مکمل صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہوتا۔ اور کبھی اسے اب تک آزامائی گئی صلاحیت سے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کا موقع ملے تو بہت کم ہوتے ہیں جو ہمت اور حوصلہ سے آنے والے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
البتہ اکثر متوقع ناکامی کا خوف انسان کو گھیر لیتا ہے۔
اپنی طرف سے تیاری اور اللہ تعالیٰ سے دعا اور امید کے باوجود یہ خوف بار بار حوصلہ کم کرتا ہے۔ اس خوف کو کیسے کم سے کم کیا جائے؟
جب بھی ناکامی کا خیال ذہن میں آئے فوراً دماغ سے یہ سوچنا شروع کردیں کہ مجھے ہرحال میں کامیابی ملے گی۔۔۔
انسان جو کچھ سوچتا ہے بالآخر دماغ اسے تسلیم کرلیتا ہے۔۔۔
اس پر تسلسل کے ساتھ عمل کرنے سے سارا خوف جاتا رہے گا۔۔۔
یہ کوئی ٹوٹکہ یا واہمہ نہیں ہے۔۔۔
دماغ کے شعور، لاشعور اور مثبت منفی سوچ سے دماغ جو کیمیکل خارج کرتا ہے اس کی سائنس ہے۔۔۔
یہ تو ہوا خوف پر قابو پانے کا طریقہ۔۔۔
اب رہا کامیابی کا حصول تو اس کے لیے اہل و مخلص لوگوں سے مشورہ کرنا، پیپر ورک مکمل کرنا، تجربہ حاصل کرنا، دیانت و محنت سے کام کرنا جیسے اسباب کا اختیار کرنا۔۔۔
اور مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا!!!
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
آپ کے ہر لفظ سے سو فیصد اتفاق ہے۔
البتہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں نے ایسا کیوں کہا۔
پہلی وجہ یہ کہ تابش بھائی نے اللہ سے دعا اور امید کی بات پہلے ہی کہی تھی اور ایسے شخص سے میں یہی امید کرسکتا ہوں کہ ایسا کوئی وظیفہ نہ ہوگا جو وہ نہ پڑھتے ہوں۔
دوسری وجہ:
2010 کی بات ہے، ہمارے ہاں حالات معمول سے زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ (mass uprising). میرا ایک دوست شہر کے ایک سینزٹیو علاقے میں کئی دنوں سے پھنسا ہوا تھا۔ جس سے میرا ملنا بہت ضروری تھا۔ ٹرانسپورٹ بالکل بند۔ بائسیکل تک نہیں چلتے تھے۔ کمیونکیشن کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔
میں نے اللہ کا نام لیا اور پیدل چل نکلا۔ قریبا" چالیس کلومیٹر کی مسافت تھی۔ لگ بھگ پچیس کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد میں اچانک ایسی جگہ پھنس گیا جہاں سے نہ واپس مڑنا ممکن رہا نہ آگے چلنا۔ آگے کنواں پیچھے کھائی والی صورتحال ہوگئی.دونوں جانب موت ہی نظر آرہی تھی۔ میں اپنی بے وقوف بہادری کو کوس رہا تھا۔ لیکں پچھتانے کا یہ محل نہ تھا۔ یقین کریں کہ میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں کہ مجھے " ڈر کے آگے جیت ہے" والی بات یاد آگئی۔ میں نے اللہ کا نام لیا، کلمہ شہادت پڑھا اور چل دیا۔ جب مجھے کبھی وہ سین یاد آتا ہے تو میرا یقین االلہ کی ذات پر اور بڑھ جاتا ہے۔

ماشاءاللہ۔
حمزہ بہت اچھا لگا آپ کا یہ تجربہ شریک کرنا۔ آپ نے بھی اس جملہ کو بس سوچا تھا۔ اس کا ورد نہیں کیا۔ نام تو اللہ ہی کا لیا تھا۔
تابش ہم سے زیادہ ہی جانتے اور مانتے ہوں گے۔ ان کے ہاں درس و تدریس کے سلسلے جاری رہتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔بسا اوقات
بڑوں کو چھوٹوں سے
جاننے والوں کو نہ جاننے والوں سے
عالم کو جاہل سے
ماننے والے کو رد کرنے والے سے
کوئی تحریک، کوئی نکتہ مل جاتا ہے آگے بڑھنے، جگاڑ لگانے، تدبیر کرنے، حل نکالنے کے لئے۔
ایسا بھی دیکھا ہے کہ شاگرد نے استاد کو پتے کی بات بتا دی۔
ایک اچھا بھلا عبادت گذار بندہ افسردہ بیٹھا ہے اور ایک عام سے دنیا دار نے اُسے اللہ سے مدد طلب کرنے کی تحریک دے دی۔
اللہ نجانے کِس کِس سے کیا کیا کام لے لیتا ہے۔
وہ بڑا بے نیاز ہے۔
 
کبھی ہوا کے جھونکے سے جھکتی اشجار کی ٹہنیوں کو دیکھو وہ ایک خاص انداز سے جھومتے ہوئے نیچے کی جانب جھکتی ہیں اور پھول اپنی ٹہنی کے ساتھ دائیں بائیں جھکتا ہے۔ جیسے ذکر کی لذت سے اس پہ ایک وجد طاری ہو اور بےاختیار وہ جھک جاتا ہو۔ یہ سارا عالم ماسوائے انسان کے وصل کی حالت میں ہے۔ جب کہ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کو ہجر کی بھٹیوں میں جلایا جاتا ہے اور مہجوری کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان عاشق بھی ہے اور عارف بھی۔ جب کہ باقی سب کو صرف معرفت ملی اور انسان کو عشق بھی عطا ہوا۔
 

جاسمن

لائبریرین
سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اکثر ایسا کیوں ہوتا ۔۔ہم اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہوپاتے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ کسی کمی کا ہونا یا کچھ اور؟
جاسمن ، م حمزہ ،@محمد تابش صدیقی ، محمد وارث ، عرفان سعید

شکر کو دل میں بسالیں تو بہت اطمینان ہوتا ہے۔
علیم الحق حقی مرحوم (اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے اور لواحقین کو آسانیاں اور خوشیاں عطا فرمائے۔آمین) کی کتاب اسم اعظم پڑھی تو میں نے شکر شروع کیا۔
زبان پہ جاری ہوجائے تو پھر رفتہ رفتہ دل میں بھی جاری ہوجاتا ہے۔ پھر دل ٹھنڈا رہتا ہے۔مطمئن۔شاد۔
ایک حسد سے بچنا چاہیے۔ جب دل میں اُگے فورا سورہ فلق و ناس پڑھیں۔جس کے لئے پیدا ہو اس کے لئے دعا کریں۔
 
سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اکثر ایسا کیوں ہوتا ۔۔ہم اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہوپاتے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ کسی کمی کا ہونا یا کچھ اور؟
جاسمن ، م حمزہ ،@محمدتابش صدیقی، محمد وارث ، عرفان سعید
مصائب پر صبر، نعمتوں پر شکر، جو ملا اس پر قناعت، عمل میں اخلاص، تعلقات میں بے لوثی
مطمئن زندگی کی گارنٹی
 

ہادیہ

محفلین
شکر کو دل میں بسالیں تو بہت اطمینان ہوتا ہے۔
علیم الحق حقی مرحوم (اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے اور لواحقین کو آسانیاں اور خوشیاں عطا فرمائے۔آمین) کی کتاب اسم اعظم پڑھی تو میں نے شکر شروع کیا۔
زبان پہ جاری ہوجائے تو پھر رفتہ رفتہ دل میں بھی جاری ہوجاتا ہے۔ پھر دل ٹھنڈا رہتا ہے۔مطمئن۔شاد۔
ایک حسد سے بچنا چاہیے۔ جب دل میں اُگے فورا سورہ فلق و ناس پڑھیں۔جس کے لئے پیدا ہو اس کے لئے دعا کریں۔
اگر کسی سے کوئی حسد بھی نا ہو ، اور اس بات کا بھی احساس غالب رہے کہ میرے پاس جو کچھ اللہ کی عطا سے ہے بہت سے لوگوں کے پاس یہ بھی نہیں ہوتا۔۔ مگر اس کے باوجود خالی پن سا، اک کمی، اور مطمئن نا ہونا۔۔؟
 

زیک

مسافر
اگر کسی سے کوئی حسد بھی نا ہو ، اور اس بات کا بھی احساس غالب رہے کہ میرے پاس جو کچھ اللہ کی عطا سے ہے بہت سے لوگوں کے پاس یہ بھی نہیں ہوتا۔۔ مگر اس کے باوجود خالی پن سا، اک کمی، اور مطمئن نا ہونا۔۔؟
تو تلاش کریں اس چیز کی جو خوشی اور اطمینان دے
 
Top