آپ کے ہر لفظ سے سو فیصد اتفاق ہے۔
البتہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں نے ایسا کیوں کہا۔
پہلی وجہ یہ کہ تابش بھائی نے اللہ سے دعا اور امید کی بات پہلے ہی کہی تھی اور ایسے شخص سے میں یہی امید کرسکتا ہوں کہ ایسا کوئی وظیفہ نہ ہوگا جو وہ نہ پڑھتے ہوں۔
دوسری وجہ:
2010 کی بات ہے، ہمارے ہاں حالات معمول سے زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ (mass uprising). میرا ایک دوست شہر کے ایک سینزٹیو علاقے میں کئی دنوں سے پھنسا ہوا تھا۔ جس سے میرا ملنا بہت ضروری تھا۔ ٹرانسپورٹ بالکل بند۔ بائسیکل تک نہیں چلتے تھے۔ کمیونکیشن کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔
میں نے اللہ کا نام لیا اور پیدل چل نکلا۔ قریبا" چالیس کلومیٹر کی مسافت تھی۔ لگ بھگ پچیس کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد میں اچانک ایسی جگہ پھنس گیا جہاں سے نہ واپس مڑنا ممکن رہا نہ آگے چلنا۔ آگے کنواں پیچھے کھائی والی صورتحال ہوگئی.دونوں جانب موت ہی نظر آرہی تھی۔ میں اپنی بے وقوف بہادری کو کوس رہا تھا۔ لیکں پچھتانے کا یہ محل نہ تھا۔ یقین کریں کہ میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں کہ مجھے " ڈر کے آگے جیت ہے" والی بات یاد آگئی۔ میں نے اللہ کا نام لیا، کلمہ شہادت پڑھا اور چل دیا۔ جب مجھے کبھی وہ سین یاد آتا ہے تو میرا یقین االلہ کی ذات پر اور بڑھ جاتا ہے۔
ماشاءاللہ۔
حمزہ بہت اچھا لگا آپ کا یہ تجربہ شریک کرنا۔ آپ نے بھی اس جملہ کو بس سوچا تھا۔ اس کا ورد نہیں کیا۔ نام تو اللہ ہی کا لیا تھا۔
تابش ہم سے زیادہ ہی جانتے اور مانتے ہوں گے۔ ان کے ہاں درس و تدریس کے سلسلے جاری رہتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔بسا اوقات
بڑوں کو چھوٹوں سے
جاننے والوں کو نہ جاننے والوں سے
عالم کو جاہل سے
ماننے والے کو رد کرنے والے سے
کوئی تحریک، کوئی نکتہ مل جاتا ہے آگے بڑھنے، جگاڑ لگانے، تدبیر کرنے، حل نکالنے کے لئے۔
ایسا بھی دیکھا ہے کہ شاگرد نے استاد کو پتے کی بات بتا دی۔
ایک اچھا بھلا عبادت گذار بندہ افسردہ بیٹھا ہے اور ایک عام سے دنیا دار نے اُسے اللہ سے مدد طلب کرنے کی تحریک دے دی۔
اللہ نجانے کِس کِس سے کیا کیا کام لے لیتا ہے۔
وہ بڑا بے نیاز ہے۔