حسان خان
لائبریرین
امت بھی بہت بکتا ہے بھائی۔۔۔
تندور والا اکثر اسی میں روٹیاں رکھ کر دیتا ہے۔۔۔
جبھی تو کہا تھا کہ اس 'کارآمد' اخبار کے خلاف کوئی کاروائی کرنا فضول ہے۔
امت بھی بہت بکتا ہے بھائی۔۔۔
تندور والا اکثر اسی میں روٹیاں رکھ کر دیتا ہے۔۔۔
واہ یوسف جی واہ کس خوبصورتی سے آپ نے جنگ کو گرادیا واہ کیا بات ہے آپ کی اس بات کا مطلب کہ جنگ دو نمبر ہوگیا بلکل ایسے ہی جیسے اِدھر کنعان کا چاند دونمبر ہے۔ہاہاہاہا ۔ آپ کی نظروں کی بھی کیا بات ہے حسان بھائی۔ اگر خدا نخواستہ آپ کی نظروں سے جنگ اور ڈان کبھی گر گئے تو ان اخبارات کے مالکان کہاں جائیں گے؟ لیجئے جنگ کو تو ابھی آپکی نظروں سے ”گراتا“ ہوں۔ سندھ ہائی کورٹ نے ایک معروف علامہ صاحب کے بیٹے کو ایک جرم کی پاداش میں سزا سنادی۔ جنگ نے سزا سنانے کی اس خبر کو ہی ”کِل“ کردیا۔ جبکہ یہی خبر ڈان کی اُس روز کی فرنٹ پیج کی مین لیڈ اسٹوری تھی۔ ہون دسو جنگ کی کیا وقعت رہی آپ کی نگاہوں میں۔۔۔
یہ بہت پرانی خبر ہے کہ جنگ کراچی میں سب سے زیادہ بکنے والا اخبار ہے۔ کبھی ایسا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ چھپنے اور بکنے کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے سعود بھائی۔ اخبارات روز چھپتے اور روز ہی بکتے ہیں۔ اگر کسی دن کسی اخبار کی پانسو کاپی کم بکے تو اگلے روز پانسو کاپی کم چھپتی ہے۔ کوئی اخبار اتنا بھی احمق نہیں ہوتا کہ چھاپے زیادہ اور بیچے کم۔ کوئی بھی اخبار فروش پورے شہر کے اخبار فروشوں سے بکنے والے اخبارات کا ریکارڈ نہیں رکھتا۔ اسے صرف اپنے علاقہ کا پتہ ہوتا ہے۔ لہذا اصل سرکولیشن صرف ایک پرنٹنگ پریس سے بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے۔ نہ کہ پورے شہر بھر کے اخبار فروشوں کا سروے کرکے۔ ویسے یہ بات شاید بہت سوں کو نہ معلوم ہو کہ جنگ وہ واحد اخبار ہے جو ”آرڈر“ پر چھپتا ہے۔ ایک ہول سیل ڈیلر جنگ مالکان کو اگلے روز کے لئے آرڈر بُک کرواتا ہے، جس کا تعین وہ وہ اپنے ریٹیل سیلرز کی ملنے والی بکنگ کی بنیاد پرکرتا ہے۔ شہر کی صورتحال خراب ہو، کسی علاقے میں کسی تنظیم نے اخبار جنگ کا بائیکاٹ کیا ہو تو جنگ کو آرڈر ہی کم ملتا ہے۔ اخبار فروش کے پاس اگر جنگ کی کچھ کاپیاں بکنے سے رہ جائیں تو وہ واپس بھی نہیں ہوتیں۔ باقی تمام اخبارات کی نہ بکنے والی کاپیاں ادارہ واپس لے لیتا ہے۔ جبکہ ڈان کا سرکولیشن کا اپنا نظام ہے۔ آپ کراچی کی حد تک جنگ، امت، نوائے وقت، ڈان، (شام کا) قومی اخبار ، جسارت کے چھپنے والے مراکز سے براہ راست معلومات حاصل کریں تو آپ حیرت میں مبتلاہوجائیں گے کہ بڑے بڑے بتوں کی اصل حقیقت کیا ہےچھپنے کا تو مجھے نہیں پتا البتہ بکنے کا بتا سکتا ہوں، اور یہ معلوم کرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں اپنے علاقہ میں کسی بھی ا خبار فروش سے یہ معلومات آپ حاصل کرسکتے ہیں۔ پچھلے اٹھائیس سال سے میں جانتا ہوں کہ کراچی میں سب سے زیادہ بکنے والا اخبار جنگ ہے، جنگ کے بعد ڈان کی باری آتی یا پھر ایکسپریس کی ، اخبار فروش برادری میں کہا جاتا ہے کہ جنگ اور ڈان کے بعد تیسرے بڑے اخبار کی جگہ کراچی میں ہمیشہ اوپن رہتی ہے اور مختلف وقتوں میں مختلف اخبار یہ جگہ لیتے رہتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں نیوز چینلز اور مہنگائی کی وجہ سے جنگ اخبار کی سیل کم ہوئی ہے لیکن پھر بھی کراچی میں بکنے والے تمام اخباروں کی مشترکہ سیل بھی اکیلے جنگ کی سیل کے برابر نہیں بنتی ۔ جہاں تک امت کا تعلق ہے تو سیل میں اس کا اور جنگ کا دور دور تک کوئی مقابلہ نہیں۔
انگریزی اخبارات کے قارئین اردو اخبارات کی نسبت بہت کم ہیں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ یہاں ایکسپریس بکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا تھا کہ دوسرے نمبر پر ڈان یا ایکسپریس بکتا ہے، اب اس پر اپنی مجھ سے اندازہ لگانا کوئی غلط بات ہے؟؟ یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ انگریزی قارئین بہت کم ہیں، لہذا اگر ڈان اور ایکسپریس کا مقابلہ ہوگا تو گمانِ غالب یہی ہے کہ ایکسپریس زیادہ بکتا ہوگا۔
آپ کو اپنی رائے رکھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے حسان بھائی۔ لیکن آپ کی رائے سے ”صحافتی معیار“ کو ناپا نہیں جاسکتا نامیری عرض صرف اتنی سی ہے کہ میں امت کو گھٹیا مصالحہ اخبار سمجھتا ہوں (اس دعوے کے ثبوت میں یہی خبر کافی ہے)۔ اگر میں دیکھوں گا کہ موقر اخبارات بھی مصالحے کی تلاش میں امت جیسے اخبار سے خبریں مستعار لے کر چھاپ رہے ہیں تو میرے نزدیک اُن کی وقعت کم ہونا فطری بات ہے۔
آپ کو اپنی رائے رکھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے حسان بھائی۔ لیکن آپ کی رائے سے ”صحافتی معیار“ کو ناپا نہیں جاسکتا نا
بات شعیہ مسلک کی نہیں بلکہ سیدکی ہو رہی ہےہمارے علاقہ تحصیل ساہیوال ضلع سرگودھا میں کافی تعداد میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔۔۔ ! اس لئے آپ اس مشاہدہ کو آٹے نمک کے برابر نہیں کہہ سکتے۔۔۔ !
یہ بہت پرانی خبر ہے کہ جنگ کراچی میں سب سے زیادہ بکنے والا اخبار ہے۔ کبھی ایسا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ چھپنے اور بکنے کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے سعود بھائی۔ اخبارات روز چھپتے اور روز ہی بکتے ہیں۔ اگر کسی دن کسی اخبار کی پانسو کاپی کم بکے تو اگلے روز پانسو کاپی کم چھپتی ہے۔ کوئی اخبار اتنا بھی احمق نہیں ہوتا کہ چھاپے زیادہ اور بیچے کم۔ کوئی بھی اخبار فروش پورے شہر کے اخبار فروشوں سے بکنے والے اخبارات کا ریکارڈ نہیں رکھتا۔ اسے صرف اپنے علاقہ کا پتہ ہوتا ہے۔ لہذا اصل سرکولیشن صرف ایک پرنٹنگ پریس سے بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے۔ نہ کہ پورے شہر بھر کے اخبار فروشوں کا سروے کرکے۔ ویسے یہ بات شاید بہت سوں کو نہ معلوم ہو کہ جنگ وہ واحد اخبار ہے جو ”آرڈر“ پر چھپتا ہے۔ ایک ہول سیل ڈیلر جنگ مالکان کو اگلے روز کے لئے آرڈر بُک کرواتا ہے، جس کا تعین وہ وہ اپنے ریٹیل سیلرز کی ملنے والی بکنگ کی بنیاد پرکرتا ہے۔ شہر کی صورتحال خراب ہو، کسی علاقے میں کسی تنظیم نے اخبار جنگ کا بائیکاٹ کیا ہو تو جنگ کو آرڈر ہی کم ملتا ہے۔ اخبار فروش کے پاس اگر جنگ کی کچھ کاپیاں بکنے سے رہ جائیں تو وہ واپس بھی نہیں ہوتیں۔ باقی تمام اخبارات کی نہ بکنے والی کاپیاں ادارہ واپس لے لیتا ہے۔ جبکہ ڈان کا سرکولیشن کا اپنا نظام ہے۔ آپ کراچی کی حد تک جنگ، امت، نوائے وقت، ڈان، (شام کا) قومی اخبار ، جسارت کے چھپنے والے مراکز سے براہ راست معلومات حاصل کریں تو آپ حیرت میں مبتلاہوجائیں گے کہ بڑے بڑے بتوں کی اصل حقیقت کیا ہے
جناب کیا آپ یہ بات ثابت کرسکتے ہیں۔۔۔ اہلسنت والجماعت کے نام کی یہ جماعت ۔۔ ۔پاکستانی قانون کے مطابق کالعدم ہے ۔۔۔ ؟
یہ بہت پرانی خبر ہے کہ جنگ کراچی میں سب سے زیادہ بکنے والا اخبار ہے۔ کبھی ایسا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ چھپنے اور بکنے کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے سعود بھائی۔ اخبارات روز چھپتے اور روز ہی بکتے ہیں۔ اگر کسی دن کسی اخبار کی پانسو کاپی کم بکے تو اگلے روز پانسو کاپی کم چھپتی ہے۔ کوئی اخبار اتنا بھی احمق نہیں ہوتا کہ چھاپے زیادہ اور بیچے کم۔ کوئی بھی اخبار فروش پورے شہر کے اخبار فروشوں سے بکنے والے اخبارات کا ریکارڈ نہیں رکھتا۔ اسے صرف اپنے علاقہ کا پتہ ہوتا ہے۔ لہذا اصل سرکولیشن صرف ایک پرنٹنگ پریس سے بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے۔ نہ کہ پورے شہر بھر کے اخبار فروشوں کا سروے کرکے۔ ویسے یہ بات شاید بہت سوں کو نہ معلوم ہو کہ جنگ وہ واحد اخبار ہے جو ”آرڈر“ پر چھپتا ہے۔ ایک ہول سیل ڈیلر جنگ مالکان کو اگلے روز کے لئے آرڈر بُک کرواتا ہے، جس کا تعین وہ وہ اپنے ریٹیل سیلرز کی ملنے والی بکنگ کی بنیاد پرکرتا ہے۔ شہر کی صورتحال خراب ہو، کسی علاقے میں کسی تنظیم نے اخبار جنگ کا بائیکاٹ کیا ہو تو جنگ کو آرڈر ہی کم ملتا ہے۔ اخبار فروش کے پاس اگر جنگ کی کچھ کاپیاں بکنے سے رہ جائیں تو وہ واپس بھی نہیں ہوتیں۔ باقی تمام اخبارات کی نہ بکنے والی کاپیاں ادارہ واپس لے لیتا ہے۔ جبکہ ڈان کا سرکولیشن کا اپنا نظام ہے۔ آپ کراچی کی حد تک جنگ، امت، نوائے وقت، ڈان، (شام کا) قومی اخبار ، جسارت کے چھپنے والے مراکز سے براہ راست معلومات حاصل کریں تو آپ حیرت میں مبتلاہوجائیں گے کہ بڑے بڑے بتوں کی اصل حقیقت کیا ہے
ویسے سنا تھا کہ "ایوننگ اسپیشل" اور "مارننگ اسپیشل" بھی بہت اچھے اور معیاری اخبارات تھے۔۔۔