ساقی۔
محفلین
قائد اعظم (رح) کا تصور پاکستان
تحریر: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
پاکستان کا قیام تاریخ انسانی کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ مسلمانان ہند کی سال ہا سال کی قربانیوں اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز اور بابصیرت قیادت کا ثمر تھا کہ انگریزوں کی سازشوں اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مسلمانان برصغیر نے چند سال کی محنت کے نتیجے میں کرہ ارض پر دنیا کا سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرنے کا معجزہ کر دکھایا۔ لیکن آج جب ہم تاریخ کے اوراق میں جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان قائم ہونے کے باوجود ان مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہوا جو قیام پاکستان کے وقت پیش نظر تھے۔ آج ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قائداعظم، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے پیش نظر وہ کیا مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے اتنی طویل جدوجہد کی گئی، جس کے لئے ان گنت قربانیاں دی گئی اور ہجرت کا ایک ایسا عظیم عمل وجود میں آیا جس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ صاف ظاہر ہے اس کے پیش نظر دنیا کا کوئی حقیر مقصد نہیں ہوسکتا تھا بلکہ یہ سب کچھ ایک عظیم نظریاتی، روحانی اور تہذیبی مقصد کے پیش نظر تھا۔ آج جب کہ قوم بانی پاکستان کا یوم ولادت منا رہی ہے یہ امر بہت اہم کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ قائد اعظم کے پیش نظر پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا اور ان کے تصور کے مطابق پاکستان کا نظام اور پاکستان کی قومی زندگی کی ہیئت کیا ہونی چاہیے تھی؟ قائد اعظم کے بیسیوں بیانات اور ان کی تحریریں اس امر کو واضح کرتی ہیں کہ ان کا تصورِ پاکستان کیا تھا۔ 22 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہونے والا قائداعظم کا خطاب اس امر کو بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ ان کے پیش نظر ہندو مسلم اختلاف اور فرق کی نوعیت کیا تھی اور اس فرق کے نتیجے میں متحدہ ہندوستان میں وہ کون سے حالات تھے جن کے تحت مسلمان زندگی نہیں گزار سکتے تھے اور وہ اس امر پر مجبور تھے کہ یہ ایک الگ خطہ کا مطالبہ کریں۔ قائد اعظم نے اپنے اس تاریخی خطاب میں ہندو مسلم تہذیب اور قوم کے اختلافات کو بیان کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا کہ ہندؤوں اور مسلمانوں کا تنازعہ کوئی وقتی یا فرقہ وارانہ تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیبی اور ثقافتی فرق ہے جس کی جڑیں مذہب میں گہری ہیں۔ آپ نے اس خطاب میں ہندو مسلم اختلافات کی اس تاریخی اور نظریاتی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’یہ سمجھنا بہت دشوار بات ہے کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو مت کی حقیقت نوعیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں مذاہب نہیں ہیں۔ فی الحقیقت یہ مختلف اور نمایاں معاشرتی نظام ہیں اور یہ ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم کی سلک میں منسلک ہو سکیں گے۔ ایک ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے اور آپ کے بہت سے مصائب کی جڑ ہے۔ اگر ہم بروقت اپنے تصورات پر نظرثانی نہ کرسکے تو یہ ہند کو تباہی سے ہمکنار کر دے گا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق ہے۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی رزم مختلف ہے، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں۔ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگا اور آخر کار وہ تانا بانا ہی تباہ ہو جائے گا جو اس طرح کی ریاست کے لئے بنایا جائے گا۔ ‘‘
یہی وہ وژن تھا کہ قائد اعظم نے جب بھی قیام پاکستان کی بات تو اس حقیقت کو انہوں نے شرح صدر کے ساتھ جابجا بیان کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک الگ خطہ کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک ایسی سرزمین کے حصول کے لئے کوشش ہے جہاں وہ ایک ایسی مملکت قائم کرسکیں جس میں ان کے اپنے نظریاتی روحانی اور مذہبی آدرش تکمیل پذیر ہوسکیں اور وہ اپنی خواہشات کے مطابق نظام کو قائم کرسکیں جس کے اندر ان کے ایمان و ایقان اورنظریات کی بقا ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے نئی دہلی میں یکم اپریل 1940ء کو ارشاد فرمایا:
’’اس امر کے احساس ہی کی وجہ سے ہندو انڈیا کی مسلمان اقلیتوں نے آمادگی کے ساتھ قرارداد لاہور کی تائید کی تھی۔ ہندو انڈیا میں مسلم اقلیتوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا نو کروڑ نفوس پر مشتمل پورے مسلم ہند پر ہندو اکثریت کا راج مسلط کر دیا جائے جہاں انہیں اپنی روحانی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ترقی دینے اور اپنا مستقبل خود سنوارنے کا موقع حاصل ہو اور ہندوؤں اور دیگر لوگوں کو بھی یہی موقع حاصل ہو۔ مسلمانوں کے وطن میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کی یہی صورت حال ہوگی۔
میری رائے میں ایک فرقے کی دوسرے پر حکمرانی کرنے اور باقی ماندہ لوگوں پراپنی برتری قائم کرنے کی خواہش کی وجہ سے جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اس کے ختم ہو جانے کے بعد ہمیں ماحول میں زیادہ مفاہمت اور خیرسگالی میسر آجائے گی۔ ہندوستان کی تقسیم کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں اکثریت پر یہ عظیم ذمہ داری عائد ہو جائے گی کہ وہ اپنی اقلیتوں میں تحفظ کاحقیقی احساس پیدا کریں اور ان کا مکمل اعتماد اور بھروسہ حاصل کریں۔ ‘‘
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قائد اعظم نے جب بھی قیام پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا انہوں نے ان مقاصد میں نظام اسلام کے قیام کو مرکز و محور کے طور پر بیان کیا تو اس سے ان کی مراد بڑی واضح تھی یعنی وہ اسلام کو بطور ایک نظام زندگی کے نافذ کرنے کی بات کرتے تھے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں بھی اسلام کے نظام کی یا اسلام کے نفاذ کی یا اسلام کی دی ہوئی تعلیمات کے نظام کی تشکیل کی بات کی تو اس کا مرکز و محور اسلام کا معاشرتی انصاف عدل قرار دیا۔ آپ نے 11 اکتوبر 1947ء کو کراچی میں مسلح افواج کے افسروں سے خطاب میں فرمایا :
’’قیام پاکستان، جس کے لئے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، اللہ کے فضل و کرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذات خود کوئی مقصد نہیں۔ تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں اور آزاد افراد کی حیثیت سے سانس لے سکیں۔ جسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ وہ کار سخت جو ہمارا منتظر تھا اور راستہ کی وہ دشواریاں کہ جن سے ہمیں گزرنا تھا، مجھے ان کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں تھی تاہم میں اس بات سے تقویت پا رہا تھا کہ مجھے تمام مسلمانوں کی بے پناہ حمایت حاصل ہوگی، نیز اقلیتوں کا تعاون بھی جسے ہم منصفانہ بلکہ فیاضانہ سلوک سے جیت سکیں گے۔ ‘‘
آج اگر ہم ملک کے حالات اور حکمرانوں کے رجحانات اور رویوں کو قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ان فرامین کی روشنی میں دیکھیں اور ان کا جائزہ لیں تو ہمیں ان میں بعد المشرقین نظر آتا ہے۔ قائد اعظم ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہو، اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں، رشوت ستانی، بدعنوانی، اقربا پروی کا خاتمہ ہو اور نسلی، علاقائی، لسانی اور صوبائی تعصبات کا وجود نہ ہو۔ لیکن شومئی قسمت ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ان مقاصد کے کوسوں دور کھڑے ہیں جو قائد اعظم اور تحریک پاکستان کی دیگر قائدین کے پیش نظر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں جب قائد اعظم کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا تو اس کے بعد جب آپ نے اسمبلی سے خطاب فرمایا۔ آپ نے اسمبلی کے فرائض بیان کرتے ہوئے جہاں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اس قانون ساز اسمبلی کو دو بنیادی اور تاریخی کام درپیش ہیں یعنی نوزائیدہ مملکت کے لئے ایک آئین تیار کرنا اوراس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کا کردار ادا کرنا ہے۔ اسمبلی کے ان فرائض کو بیان کرنے کے ساتھ آپ نے اس امر کی وضاحت بھی کی کہ ہمارا بنیادی فریضہ یہ بھی ہے کہ ہم ایسے قوانین تشکیل دیں جن سے مملکت میں امن و امان قائم ہو، لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہو۔ سماجی برائیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے قائد اعظم نے جس سماجی برائی کا قلع قمع کرنے کی تلقین کی وہ رشوت کی لعنت ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے موثر اقدامات کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اس مجلس کے پہلے فریضہ کے بارے میں، میں اس وقت کسی سوچی سمجھی بات کا تو اعلان نہیں کرسکتا لیکن ایک دو چیزیں جو میرے ذہن میں آئیں گی آپ کے سامنے پیش کر دوں گا۔ پہلی اور سب سے زیادہ اہم بات جو میں زور دے کر کہوں گا وہ یہ ہے، یاد رکھیئے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں؟ پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور انکے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔
دوسری بات جو اس وقت میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے دوسرے ممالک اس سے پاک ہے، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت ہی خراب ہے، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے، ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلہ میں مناسب اقدامات کریں گے جتنی جلد اس اسمبلی کے لئے ایسا کرنا ممکن ہو۔‘‘
آپ نے مملکت کی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں سے اقربا پروی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ اقربا پروی کی لعنت سے نجات دلانے کے لئے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا کیا کردار ہونا چاہیے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا:
’’میں یہ واضح کر دوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربانوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثرو رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی قبول کروں گا۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ہے خواہ یہ اعلی سطح پر ہو یا ادنی پر، یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔ ‘‘
قیام پاکستان کے ساتھ ہی مملکت کو درپیش چیلنجز میں سے ایک چیلنج فرقہ وارانہ تعصبات کا خاتمہ تھا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج بھی یہ چیلنج ایسے ہی سر اٹھائے کھڑا ہے جیسے کہ قیام پاکستان کے وقت تھا۔ گروہ در گروہ علاقائی، لسانی، مذہبی اور صوبائی تفریق نے آج ہمارے جسد قومی کو لخت لخت کر دیا ہے۔ قائد اعظم نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کو مملکت کے لئے ضروری قرار دیا آپ نے اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔ پس حضرات میں آپ کا مزید وقت لینا نہیں چاہتا اور ایک بار پھر اس اعزاز کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے آپ نے مجھے نوازا۔ میں ہمیشہ عدل اور انصاف کو مشعل راہ بناؤں گا اور جیسا کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے تعصب یا بدنیتی دوسرے لفظوں میں جانبداری اور اقرباپروری کو راہ نہ پانے دوں گا۔ عدل اور مکمل غیر جانبداری میرے رہنما اصول ہوں گے اور میں یقیناً آپ کی حمایت اور تعاون سے دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں پاکستان کو دیکھنے کی امید کرسکتا ہوں۔ ‘‘
یہ بات بڑی قابل غور ہے کہ ہماری دو بنیادی فکری، نظریاتی اور قومی قیادتوں حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور بابائے قوم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے افکار اور تعلیمات میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ اس سے ہمیں آج بھی اپنی منزل کے تعین میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ ہماری بانی قیادت کی فکری ہم آہنگی تھی جس نے ہندوستان کے منتشرمسلمانوں کو ایک منظم قوم میں بدلا جو ایک مملکت کے حصول میں کامیاب ہوئی۔ اقبال کی فکر کی اہمیت کا نہ صرف قائد اعظم کو احساس تھا بلکہ انہوں نے 25 مارچ 1940ء کو لاہور میں یوم اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تقریب میں اپنی صدارتی تقریر میں اس کا اظہار یوں کیا:
’’اگر میں اس وقت تک زندہ رہا کہ ہند میں مسلم ریاست کا حصول دیکھ سکوں اور اس وقت مجھے کلام اقبال اور مسلم ریاست کی فرمانروائی پیش کی گئی کہ دونوں میں سے ایک چن لوں تو میں بلا تامل اول الذکر کا انتخاب کروں گا۔‘‘
الغرض قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تصور پاکستان کے وہ خدوخال جو ان کی مختلف تقریروں اور تحریروں میں جابجا بکھرے ہوتیہیں پاکستان کا ایک ایسا جامع اور منظم تصورپیش کرتے ہیں کہ ان کو عملی شکل دے کر آج ہم نہ صرف جملہچیلنجز سے عہدہ برا ہوسکتے ہیں بلکہ ایک باوقار، خودگر اور ترقی یافتہ قوم کی صورت میں دنیا میں آگے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو نہ صرف اپنے معاصر چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت رکھتی ہو، نہ صرف ہر لحظہ ترقی میں آگے بڑھتی ہوئی دنیا کے قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ چل سکے بلکہ اس کے ہاتھ اپنے نظریہ، اپنی شناخت اور اپنی روایات پر بھی مضبوطی سے جمے ہوئے ہوں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جو ہمیشہ قائد اعظم کے پیش نظر رہا۔ آپ نے جب بھی اسلام اور پاکستان کے تشخص کی بات کی وہ بات صرف رسمی، وقتی یا روایتی نہیں تھی بلکہ آپ نے اسے ایک عملی حقیقت کے طور پر بیان کیا۔ قائد اعظم کا تصور پاکستان اسلام کی عدل و انصاف پر مبنی تعلیمات کا حامل ہے جس کی منزل ایک ترقی یافتہ اسلامی فلاحی ریاست ہے نہ کہ پاپائی ریاست۔ اسلام کے مکمل ضابطہ حیات کو بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی میں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم فرمانروا تھے جنہوں نے حکمرانی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔
اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لئے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لئے عدل کے اعلی ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔‘‘
قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے یہی وہ بنیادی اور کلیدی تصورات ہیں جن کی طرف آج ہمیں پھر سے پورے خلوص نیت اور استقامت عمل کے ساتھ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم کے اس تصور پاکستان کو اختیار کرکے ہم بانیان پاکستان کی قربانیوں کا قرض بھی چکا سکتے ہیں، اپنے حال کو پروقار بھی بناسکتے ہیں اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک مضبوط، مستحکم، پائیدار اور ترقی یافتہ ملک کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
تحریر: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
پاکستان کا قیام تاریخ انسانی کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ مسلمانان ہند کی سال ہا سال کی قربانیوں اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز اور بابصیرت قیادت کا ثمر تھا کہ انگریزوں کی سازشوں اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مسلمانان برصغیر نے چند سال کی محنت کے نتیجے میں کرہ ارض پر دنیا کا سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرنے کا معجزہ کر دکھایا۔ لیکن آج جب ہم تاریخ کے اوراق میں جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان قائم ہونے کے باوجود ان مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہوا جو قیام پاکستان کے وقت پیش نظر تھے۔ آج ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قائداعظم، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے پیش نظر وہ کیا مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے اتنی طویل جدوجہد کی گئی، جس کے لئے ان گنت قربانیاں دی گئی اور ہجرت کا ایک ایسا عظیم عمل وجود میں آیا جس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ صاف ظاہر ہے اس کے پیش نظر دنیا کا کوئی حقیر مقصد نہیں ہوسکتا تھا بلکہ یہ سب کچھ ایک عظیم نظریاتی، روحانی اور تہذیبی مقصد کے پیش نظر تھا۔ آج جب کہ قوم بانی پاکستان کا یوم ولادت منا رہی ہے یہ امر بہت اہم کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ قائد اعظم کے پیش نظر پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا اور ان کے تصور کے مطابق پاکستان کا نظام اور پاکستان کی قومی زندگی کی ہیئت کیا ہونی چاہیے تھی؟ قائد اعظم کے بیسیوں بیانات اور ان کی تحریریں اس امر کو واضح کرتی ہیں کہ ان کا تصورِ پاکستان کیا تھا۔ 22 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہونے والا قائداعظم کا خطاب اس امر کو بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ ان کے پیش نظر ہندو مسلم اختلاف اور فرق کی نوعیت کیا تھی اور اس فرق کے نتیجے میں متحدہ ہندوستان میں وہ کون سے حالات تھے جن کے تحت مسلمان زندگی نہیں گزار سکتے تھے اور وہ اس امر پر مجبور تھے کہ یہ ایک الگ خطہ کا مطالبہ کریں۔ قائد اعظم نے اپنے اس تاریخی خطاب میں ہندو مسلم تہذیب اور قوم کے اختلافات کو بیان کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا کہ ہندؤوں اور مسلمانوں کا تنازعہ کوئی وقتی یا فرقہ وارانہ تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیبی اور ثقافتی فرق ہے جس کی جڑیں مذہب میں گہری ہیں۔ آپ نے اس خطاب میں ہندو مسلم اختلافات کی اس تاریخی اور نظریاتی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’یہ سمجھنا بہت دشوار بات ہے کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو مت کی حقیقت نوعیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں مذاہب نہیں ہیں۔ فی الحقیقت یہ مختلف اور نمایاں معاشرتی نظام ہیں اور یہ ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم کی سلک میں منسلک ہو سکیں گے۔ ایک ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے اور آپ کے بہت سے مصائب کی جڑ ہے۔ اگر ہم بروقت اپنے تصورات پر نظرثانی نہ کرسکے تو یہ ہند کو تباہی سے ہمکنار کر دے گا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق ہے۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی رزم مختلف ہے، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں۔ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگا اور آخر کار وہ تانا بانا ہی تباہ ہو جائے گا جو اس طرح کی ریاست کے لئے بنایا جائے گا۔ ‘‘
یہی وہ وژن تھا کہ قائد اعظم نے جب بھی قیام پاکستان کی بات تو اس حقیقت کو انہوں نے شرح صدر کے ساتھ جابجا بیان کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک الگ خطہ کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک ایسی سرزمین کے حصول کے لئے کوشش ہے جہاں وہ ایک ایسی مملکت قائم کرسکیں جس میں ان کے اپنے نظریاتی روحانی اور مذہبی آدرش تکمیل پذیر ہوسکیں اور وہ اپنی خواہشات کے مطابق نظام کو قائم کرسکیں جس کے اندر ان کے ایمان و ایقان اورنظریات کی بقا ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے نئی دہلی میں یکم اپریل 1940ء کو ارشاد فرمایا:
’’اس امر کے احساس ہی کی وجہ سے ہندو انڈیا کی مسلمان اقلیتوں نے آمادگی کے ساتھ قرارداد لاہور کی تائید کی تھی۔ ہندو انڈیا میں مسلم اقلیتوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا نو کروڑ نفوس پر مشتمل پورے مسلم ہند پر ہندو اکثریت کا راج مسلط کر دیا جائے جہاں انہیں اپنی روحانی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ترقی دینے اور اپنا مستقبل خود سنوارنے کا موقع حاصل ہو اور ہندوؤں اور دیگر لوگوں کو بھی یہی موقع حاصل ہو۔ مسلمانوں کے وطن میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کی یہی صورت حال ہوگی۔
میری رائے میں ایک فرقے کی دوسرے پر حکمرانی کرنے اور باقی ماندہ لوگوں پراپنی برتری قائم کرنے کی خواہش کی وجہ سے جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اس کے ختم ہو جانے کے بعد ہمیں ماحول میں زیادہ مفاہمت اور خیرسگالی میسر آجائے گی۔ ہندوستان کی تقسیم کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں اکثریت پر یہ عظیم ذمہ داری عائد ہو جائے گی کہ وہ اپنی اقلیتوں میں تحفظ کاحقیقی احساس پیدا کریں اور ان کا مکمل اعتماد اور بھروسہ حاصل کریں۔ ‘‘
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قائد اعظم نے جب بھی قیام پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا انہوں نے ان مقاصد میں نظام اسلام کے قیام کو مرکز و محور کے طور پر بیان کیا تو اس سے ان کی مراد بڑی واضح تھی یعنی وہ اسلام کو بطور ایک نظام زندگی کے نافذ کرنے کی بات کرتے تھے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں بھی اسلام کے نظام کی یا اسلام کے نفاذ کی یا اسلام کی دی ہوئی تعلیمات کے نظام کی تشکیل کی بات کی تو اس کا مرکز و محور اسلام کا معاشرتی انصاف عدل قرار دیا۔ آپ نے 11 اکتوبر 1947ء کو کراچی میں مسلح افواج کے افسروں سے خطاب میں فرمایا :
’’قیام پاکستان، جس کے لئے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، اللہ کے فضل و کرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذات خود کوئی مقصد نہیں۔ تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں اور آزاد افراد کی حیثیت سے سانس لے سکیں۔ جسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ وہ کار سخت جو ہمارا منتظر تھا اور راستہ کی وہ دشواریاں کہ جن سے ہمیں گزرنا تھا، مجھے ان کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں تھی تاہم میں اس بات سے تقویت پا رہا تھا کہ مجھے تمام مسلمانوں کی بے پناہ حمایت حاصل ہوگی، نیز اقلیتوں کا تعاون بھی جسے ہم منصفانہ بلکہ فیاضانہ سلوک سے جیت سکیں گے۔ ‘‘
آج اگر ہم ملک کے حالات اور حکمرانوں کے رجحانات اور رویوں کو قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ان فرامین کی روشنی میں دیکھیں اور ان کا جائزہ لیں تو ہمیں ان میں بعد المشرقین نظر آتا ہے۔ قائد اعظم ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہو، اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں، رشوت ستانی، بدعنوانی، اقربا پروی کا خاتمہ ہو اور نسلی، علاقائی، لسانی اور صوبائی تعصبات کا وجود نہ ہو۔ لیکن شومئی قسمت ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ان مقاصد کے کوسوں دور کھڑے ہیں جو قائد اعظم اور تحریک پاکستان کی دیگر قائدین کے پیش نظر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں جب قائد اعظم کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا تو اس کے بعد جب آپ نے اسمبلی سے خطاب فرمایا۔ آپ نے اسمبلی کے فرائض بیان کرتے ہوئے جہاں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اس قانون ساز اسمبلی کو دو بنیادی اور تاریخی کام درپیش ہیں یعنی نوزائیدہ مملکت کے لئے ایک آئین تیار کرنا اوراس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کا کردار ادا کرنا ہے۔ اسمبلی کے ان فرائض کو بیان کرنے کے ساتھ آپ نے اس امر کی وضاحت بھی کی کہ ہمارا بنیادی فریضہ یہ بھی ہے کہ ہم ایسے قوانین تشکیل دیں جن سے مملکت میں امن و امان قائم ہو، لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہو۔ سماجی برائیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے قائد اعظم نے جس سماجی برائی کا قلع قمع کرنے کی تلقین کی وہ رشوت کی لعنت ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے موثر اقدامات کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اس مجلس کے پہلے فریضہ کے بارے میں، میں اس وقت کسی سوچی سمجھی بات کا تو اعلان نہیں کرسکتا لیکن ایک دو چیزیں جو میرے ذہن میں آئیں گی آپ کے سامنے پیش کر دوں گا۔ پہلی اور سب سے زیادہ اہم بات جو میں زور دے کر کہوں گا وہ یہ ہے، یاد رکھیئے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں؟ پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور انکے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔
دوسری بات جو اس وقت میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے دوسرے ممالک اس سے پاک ہے، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت ہی خراب ہے، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے، ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلہ میں مناسب اقدامات کریں گے جتنی جلد اس اسمبلی کے لئے ایسا کرنا ممکن ہو۔‘‘
آپ نے مملکت کی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں سے اقربا پروی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ اقربا پروی کی لعنت سے نجات دلانے کے لئے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا کیا کردار ہونا چاہیے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا:
’’میں یہ واضح کر دوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربانوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثرو رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی قبول کروں گا۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ہے خواہ یہ اعلی سطح پر ہو یا ادنی پر، یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔ ‘‘
قیام پاکستان کے ساتھ ہی مملکت کو درپیش چیلنجز میں سے ایک چیلنج فرقہ وارانہ تعصبات کا خاتمہ تھا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج بھی یہ چیلنج ایسے ہی سر اٹھائے کھڑا ہے جیسے کہ قیام پاکستان کے وقت تھا۔ گروہ در گروہ علاقائی، لسانی، مذہبی اور صوبائی تفریق نے آج ہمارے جسد قومی کو لخت لخت کر دیا ہے۔ قائد اعظم نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کو مملکت کے لئے ضروری قرار دیا آپ نے اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔ پس حضرات میں آپ کا مزید وقت لینا نہیں چاہتا اور ایک بار پھر اس اعزاز کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے آپ نے مجھے نوازا۔ میں ہمیشہ عدل اور انصاف کو مشعل راہ بناؤں گا اور جیسا کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے تعصب یا بدنیتی دوسرے لفظوں میں جانبداری اور اقرباپروری کو راہ نہ پانے دوں گا۔ عدل اور مکمل غیر جانبداری میرے رہنما اصول ہوں گے اور میں یقیناً آپ کی حمایت اور تعاون سے دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں پاکستان کو دیکھنے کی امید کرسکتا ہوں۔ ‘‘
یہ بات بڑی قابل غور ہے کہ ہماری دو بنیادی فکری، نظریاتی اور قومی قیادتوں حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور بابائے قوم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے افکار اور تعلیمات میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ اس سے ہمیں آج بھی اپنی منزل کے تعین میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ ہماری بانی قیادت کی فکری ہم آہنگی تھی جس نے ہندوستان کے منتشرمسلمانوں کو ایک منظم قوم میں بدلا جو ایک مملکت کے حصول میں کامیاب ہوئی۔ اقبال کی فکر کی اہمیت کا نہ صرف قائد اعظم کو احساس تھا بلکہ انہوں نے 25 مارچ 1940ء کو لاہور میں یوم اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تقریب میں اپنی صدارتی تقریر میں اس کا اظہار یوں کیا:
’’اگر میں اس وقت تک زندہ رہا کہ ہند میں مسلم ریاست کا حصول دیکھ سکوں اور اس وقت مجھے کلام اقبال اور مسلم ریاست کی فرمانروائی پیش کی گئی کہ دونوں میں سے ایک چن لوں تو میں بلا تامل اول الذکر کا انتخاب کروں گا۔‘‘
الغرض قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تصور پاکستان کے وہ خدوخال جو ان کی مختلف تقریروں اور تحریروں میں جابجا بکھرے ہوتیہیں پاکستان کا ایک ایسا جامع اور منظم تصورپیش کرتے ہیں کہ ان کو عملی شکل دے کر آج ہم نہ صرف جملہچیلنجز سے عہدہ برا ہوسکتے ہیں بلکہ ایک باوقار، خودگر اور ترقی یافتہ قوم کی صورت میں دنیا میں آگے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو نہ صرف اپنے معاصر چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت رکھتی ہو، نہ صرف ہر لحظہ ترقی میں آگے بڑھتی ہوئی دنیا کے قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ چل سکے بلکہ اس کے ہاتھ اپنے نظریہ، اپنی شناخت اور اپنی روایات پر بھی مضبوطی سے جمے ہوئے ہوں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جو ہمیشہ قائد اعظم کے پیش نظر رہا۔ آپ نے جب بھی اسلام اور پاکستان کے تشخص کی بات کی وہ بات صرف رسمی، وقتی یا روایتی نہیں تھی بلکہ آپ نے اسے ایک عملی حقیقت کے طور پر بیان کیا۔ قائد اعظم کا تصور پاکستان اسلام کی عدل و انصاف پر مبنی تعلیمات کا حامل ہے جس کی منزل ایک ترقی یافتہ اسلامی فلاحی ریاست ہے نہ کہ پاپائی ریاست۔ اسلام کے مکمل ضابطہ حیات کو بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی میں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم فرمانروا تھے جنہوں نے حکمرانی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔
اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لئے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لئے عدل کے اعلی ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔‘‘
قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے یہی وہ بنیادی اور کلیدی تصورات ہیں جن کی طرف آج ہمیں پھر سے پورے خلوص نیت اور استقامت عمل کے ساتھ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم کے اس تصور پاکستان کو اختیار کرکے ہم بانیان پاکستان کی قربانیوں کا قرض بھی چکا سکتے ہیں، اپنے حال کو پروقار بھی بناسکتے ہیں اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک مضبوط، مستحکم، پائیدار اور ترقی یافتہ ملک کی تشکیل کرسکتے ہیں۔