زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

طالب سحر

محفلین
اردو میں "کام و دہن" اور "لذتِ کام و دہن" کی تراکیب کافی مستعمل ہیں۔ محمد تابش صدیقی کی ایپس نے اردو کے دو بڑے شاعروں کے کلام سے "کام و دہن" کو تلاش کیا:

رگ و پَے میں جب اُترے زہرِ غم، تب دیکھیے کیا ہو!
ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے
-- غالب

صِلہ اُس رقص کا ہے تشنگیِ کام و دہن
صِلہ اِس رقص کا درویشی و شاہنشاہی
-- اقبال
 

حسان خان

لائبریرین
ایران میں 'رویتِ ہلال' یا 'جستجوئے ہلال' کے لیے 'اِسْتِهلال' کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

با نزدیک شدن زمان آغاز ماه مبارک رمضان سال ۱۴۲۷ هجری قمری، از عصر جمعه در کشورهای اسلامی استهلال برای تعیین شروع این ماه آغاز شد.

ماخذ

فتح‌علی شاه قاجار در شب اوّل ماه به استهلال مشغول بود. در این بین یکی از خانم‌های حرم دریچه را بگشود که او نیز استهلال کند. فتح‌علی خان صبا در خدمت بود، بالبدیهه چنین گفت:
در شب نو، آن پری‌رخ، بی‌نقاب آمد برون
ماه می‌جستند مردم، آفتاب آمد برون

ماخذ


فارسی کے برعکس، عربی زبان میں اِس لفظ کے معانی 'آغاز، شروع، شروعات، ابتداء، افتتاح؛ مقدمہ، تمہید' وغیرہ ہیںِ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان میں 'بھینس' کو 'گاومیش' کہتے ہیں۔ یہ دو لفظوں 'گاو' (گائے) اور 'میش' (گوسفند) سے مرکّب ہے۔ ایرانی اس لفظ کا تلفظ 'gâvmîş' کرتے ہیں جبکہ مشرقی فارسی لہجوں میں اس کا تلفظ 'gâvmêş' ہے۔
گذشتہ زمانوں میں 'میش' بے تفریقِ جنس مطلق گوسفند کے لیے استعمال ہوتا تھا، لیکن اب یہ لفظ عموماً مادہ گوسفند کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

عربی زبان میں 'بھینس' کو 'جامُوس' کہتے ہیں، اور یہ فارسی کے 'گاومیش' ہی کا معرّب ہے۔
عربی میں 'جاموس' کی جمع 'جوامیس' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"عرب میں شجاعت، بہادری، جانبازی، ابائے نفس، اقتحامِ حرب، آزادی، بے باکی، مہمان نوازی، ایثار وغیرہ مضامین کثرت سے ہیں، فارسی میں یہ مضامین نہایت کم ہیں، اور جو ہیں وہ اوروں کی داستان ہیں، عرب کا شاعر خود ان اوصاف سے متصف ہوتا ہے، اور اپنے ہی واقعات بیان کرتا ہے، اس لیے اس کا خاص اثر ہوتا ہے، یہ بات ایرانی شعراء کو نصیب نہیں، ایران میں شخصی حکومت رہی اور نہایت جبّاری اور سطوت کے ساتھ رہی، اس لیے قوم میں آزادانہ جذبات پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔"
----------------
"عرب کی شاعری سے ملک کا تمدن، معاشرت، خانگی حالات، رہنے سہنے کے طریقے، پوشش اور لباس، وضع قطع، اسبابِ خانہ داری، طریقِ ماند و بود، اس قسم کی باتیں، اس تفصیل سے معلوم ہو سکتی ہیں، کہ تاریخ سے بھی نہیں معلوم ہو سکتیں، فارسی میں یہ باتیں ناپید ہیں۔"
----------------
"مرثیہ کا جوش و خروش جو عرب میں ہے، ایران میں نہیں، اسی بنا پر ایران میں مرثیہ شاعری کی کوئی مستقل نوع نہیں۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ جہارم)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"فارسی میں تاریخی نظمیں کثرت سے ہیں، عربی میں ایک بھی نہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی واقعات مثنوی کے بغیر ادا نہیں ہو سکتے، اور عربی میں مثنوی سرے سے نہیں، یا ہے تو برائے نام ہے۔"
----------------
"عشق و محبت کے خیالات میں ایران عرب سے بڑھا ہوا ہے، عشق و عاشقی کی جو نازک اور لطیف وارداتیں ایران نے ادا کیں، عرب ان کو سمجھ بھی نہیں سکتا، اور یہ دونوں ملکوں کے اختلافِ تمدن کا اثر ہے۔"
----------------
"اخلاقی نظمیں بھی جس قدر فارسی میں ہیں، عرب میں نہیں، سیکڑوں مثنویاں خاص فنِ اخلاق پر ہیں، عربی میں ایک بھی نہیں۔"
----------------
"فارسی شاعری کی یہ ممتاز خصوصیت ہے کہ صرف ایک شعر بلکہ ایک مصرع میں ایک وسیع خیال، ایک مہتم بالشان مسئلہ، ایک دقیق نکتہ ادا کر دیا جاتا ہے، یورپ کی شاعری میں کوئی خیال ایک آدھ شعر میں ادا نہیں ہو سکتا، اس لیے انگریزی وغیرہ میں فرد اور متفرق شعر کم ملتے ہیں، وہاں کوئی مضمون مسلسل اشعار کے بغیر ادا نہیں کر سکتے۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ جہارم)
 

حسان خان

لائبریرین
قَلیان/غَلیان
فارسی زبان میں 'حُقّے' کو 'قلیان' کہتے ہیں۔
فارسی ویکی پیڈیا کے مطابق افغانستان میں 'حُقّے' کے لیے 'قلیان' کے علاوہ 'چلم' بھی استعمال ہوتا ہے۔
تاجکستان میں بھی لفظِ 'قلیان' رائج ہے۔
آذربائجانی ترکی میں بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اِس لفظ کا ایک کمتر موردِ استعمال املاء 'غلیان' بھی ہے، اور خیال یہی ہے کہ اِس کا ماخذ عربی الاصل لفظ 'غَلَیان' ہے جس کا مفہوم 'جوش؛ جوش میں آنا، ابلنا' وغیرہ ہے۔

فارسی میں تو یہ لفظ عام ہے، لیکن میں نے آج منیر شکوہ آبادی کے ایک قصیدے میں اِس لفظ کا بارِ اولین اردو میں استعمال دیکھا ہے:
دُودِ قَلیاں سے معطر ہوئی بزمِ عشرت
باغِ قالیں میں کھلا سنبلِ فردوسِ بہار
(منیر شکوہ آبادی)

اِس اردو شعر کو بطورِ مثال پیش کرنے کا ایک مقصود یہ دکھانا بھی ہے کہ ہمارے ادبی اسلاف کی نگاہوں میں فارسی کا ہر لفظ اردو کا لفظ تھا۔


معاصر فارسی میں 'حُقّه' بنیادی طور پر 'حیلہ، نیرنگ، مکر' وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زُولبیا
ایران میں جلیبی جیسی چیز کو 'زُولبیا' کہتے ہیں۔ فارسی ویکی پیڈیا کے مطابق، یہ لفظ در اصل 'صلیبی' تھا کیونکہ اِسے ایک دائرے کے اندر موجود صلیب کی شکل میں بنایا کرتے تھے۔ بعد میں یہ لفظ متغیر ہو کر 'زلیبی' یا 'زلبی' ہو گیا، اور پھر یہ تغیر یافتہ الفاظ بھی 'زولبیا' میں تبدیل ہو گئے، اور اب ایران میں عموماً یہی لفظ مستعمل ہے۔ اِس وجۂ تسمیہ میں کتنی حقیقت ہے، اللہ بہتر جانتا ہے!
فارسی ویکی پیڈیا پر یہ بھی لکھا ہے کہ ایران کے جنوبی مناطق میں اِس شیرینی کو 'زلیبی' کے نام ہی سے جانا جاتا ہے۔ نیز، افغانستان میں اِسے 'جلبی' جبکہ بلادِ عرب میں 'زلابیہ' یا 'زلابیا' کہا جاتا ہے۔
اردو کے لفظ 'جلیبی' کا بھی یقیناً یہی ماخذ ہے۔

لغت نامۂ دہخدا میں اِس لفظ کی مندرجۂ ذیل مختلف شکلیں درج ہیں:
زولبیا، زلوبیا، زلابیہ، زلیبیا، زلیبا، زلابی، زلیبیہ، زلیب
یا للعجب!

مجھے ایک جگہ اس لفظ کی یہ دلچسپ وجۂ تسمیہ بھی نظر آئی ہے، حالانکہ میرا نہیں خیال کہ یہ درست ہے:
"در واقع اس لفظ کا ماخذ 'زلفِ یار' ہے کیونکہ جس وقت زولبیا پر نگاہ کی جاتی ہے تو وہ درہم و برہم بالوں کی شکل جیسی لگتی ہے۔ یہ لفظ مرورِ زمانہ سے عوام کے درمیان زولبیا میں تبدیل ہو گیا ہے۔"

ایرانی زولبیا:
186516_327.jpg
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زبانِ فارسی میں 'پسر' کا لفظ 'بیٹا' اور 'لڑکا' دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِسی طرح لفظِ 'دختر' بھی 'بیٹی' اور 'لڑکی' دونوں معنوں کا حامل ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
زبانِ فارسی میں 'پسر' کا لفظ 'بیٹا' اور 'لڑکا' دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِسی طرح لفظِ 'دختر' بھی 'بیٹی' اور 'لڑکی' دونوں معنوں کا حامل ہے۔
بر سبیل تذکرہ ۔
یہی اسلوب عربی میں بھی عام ہے ابن اور بنت کے لیے۔
ابن القریۃ ۔گاؤں کا لڑکا ۔
 

حسان خان

لائبریرین
سارِق
ابنِ انشا کے ایران کے سفر کے دوران دو چوروں نے اُن کی گھڑی چرانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ جب کوشش ناکام ہونے کے بعد وہ بھاگنے لگے تو ابنِ انشا لکھتے ہیں:
"۔۔۔کیونکہ چند گز کے فاصلے پر دوسرے راہگیر دکھائی دے رہے تھے۔ اب ہم خود شیر ہو گئے کہ یہ لوگ جانے نہ پائیں۔ لہذا چلا کر لوگوں کو اکھٹا کرنا چاہیے۔ لیکن عین اس ڈرامائی موقع پر آقائے ابنِ انشا کی فارسی تمام ہو گئی۔
چور کو فارسی میں دُزد کہتے ہیں اور بالکل سامنے کا لفظ ہے لیکن کمبخت اس وقت یاد نہ آ رہا تھا لہذا ہم نے آوازہ لگایا۔
"ایں سارق است، بگیرید، بگیرید۔"
سارق کا مطلب بھی چور ہے لیکن عربی میں اور بگیرید بگیرید کے متعلق ہم کہہ نہیں سکتے کہ یہ محاورہ جدید فارسی میں پکڑو پکڑو کا مفہوم ادا کرتا ہے کہ نہیں۔ بہرحال کوئی مدد کو نہ آیا۔۔۔۔"
(ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں)

ابھی میں نے ایک ایرانی اخبار میں 'سارق' کا لفظ دیکھا تو یہ تحریر یاد آ گئی۔ 'سارق' یقیناً ایک عربی الاصل لفظ ہے، لیکن 'دُزد' کے ہمراہ اِس کا استعمال بھی ایران میں عام ہے اور اخباروں میں یہ لفظ بہت استعمال ہوتا ہے۔ البتہ، تاجکستان میں لفظِ 'سارق' زیادہ رائج نہیں ہے۔
نیز، ہمیشہ کی طرح جدید فارسی میں بھی 'بگیر' 'پکڑو' کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ انگریزی فلم 'کیچ می اِف یُو کین' کے نام کا فارسی ویکی پیڈیا پر ترجمہ یہ ہے: اگه می‌تونی منو بگیر (اگه = اگر، می‌تونی = می‌توانی، منو = مرا)
القصہ، اگر ابنِ انشا کی فریاد پر اُس وقت کوئی مدد کو نہیں آیا تو شاید اُس کے پیچھے کوئی لسانی وجہ نہیں تھی۔ :)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت 'از' کے مخفف 'ز' اور مصوِّت سے شروع ہونے والے الفاظ کے درمیان ادغام بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً مندرجۂ ذیل شعروں میں وزن برقرار رکھنے کے لیے 'ز الحانش' اور 'ز آتش' کو بالترتیب 'زِلحانش' اور 'زاتش' پڑھا جائے گا۔ فارسی میں یہ چیز جائز ہے۔

مشو قانع به صوت و حرف، کسبِ فیضِ معنی کن
که داود از نبوت می‌کند دعوی نه ز الحانش

(محمد فضولی بغدادی)

دل و می هر دو روشن شد، ‌نمی‌دانم که تابِ می
زد آتش‌ها به دل، یا تابِ می شد ز آتشِ دل‌ها

(امیر علی‌شیر نوایی)
 

حسان خان

لائبریرین
علامہ اقبال لکھتے ہیں:
"۔۔۔یگانه محصول ذره‌نمای وجود را سخن فارسی می‌دانم۔"
ترجمہ: میں زندگی کا واحد حاصلِ ناچیز شعرِ فارسی کو سمجھتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
نَبَرْده
شاہنامۂ فردوسی میں یہ لفظ 'شجاع، دلیر، دلاور، مبارز، نبردکنندہ، بہادر، جنگ آور، جنگجو' کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ بعد کے ادوار میں یہ لفظ متروک ہو گیا تھا۔


برائے مثال:
گمانی برم من که او رستم است
که چون او نبرده به گیتی کم است
(فردوسی طوسی)

ترجمہ: میرا گمان ہے کہ وہ رستم ہے؛ کہ اُس جیسے دلیر جنگجو دنیا میں کم ہیں۔
 

طالب سحر

محفلین
نَبَرْده
شاہنامۂ فردوسی میں یہ لفظ 'شجاع، دلیر، دلاور، مبارز، نبردکنندہ، بہادر، جنگ آور، جنگجو' کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ بعد کے ادوار میں یہ لفظ متروک ہو گیا تھا۔

کیا بعد کے ادوار میں فارسی شاعری میں "نبردہ" کی جگہ "نبرد آزما" استعمال ہوا ہے؟ ریختہ ڈاٹ آرگ کے مطابق اردو کے چند ہم عصر شعراء نے "نبرد آزما" کی فارسی ترکیب استعمال کی ہے۔ گو کہ اردو کی کلاسیکی اور جدید شاعری میں "نبردہ" کا استعمال کہیں بھی نظر نہیں آیا، لیکن خویشگی صاحب نے فرہنگِ عامرہ (نظرِثانی: 1957) میں "نبردہ" بمعنی دلاور، بہادر، جنگجو کو اردو میں مستعمل قرار دیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کیا بعد کے ادوار میں فارسی شاعری میں "نبردہ" کی جگہ "نبرد آزما" استعمال ہوا ہے؟ ریختہ ڈاٹ آرگ کے مطابق اردو کے چند ہم عصر شعراء نے "نبرد آزما" کی فارسی ترکیب استعمال کی ہے۔
'نبرد' فارسی میں متروک نہیں ہوا تھا اُور اِس کا استعمال تا امروز جاری ہے۔ صرف 'نبردہ' متروک ہوا ہے۔ رہی بات 'نبردآزما/نبردآزمای' کی تو یہ ترکیب فارسی فرہنگوں میں بھی موجود ہے اور قدیم ادب میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن جدید فارسی میں اِس ترکیب کا رواج نہیں ہے کیونکہ انٹرنیٹ پر مجھے زیادہ مثالیں نہیں ملیں۔ فرہنگِ عمید نے تصریح کی ہے کہ یہ لفظ 'قدیمی' ہے۔

کہنہ فارسی ادب سے 'نبردآزما/ی' کی مثالیں:
نبردآزمایانِ ایران‌سپاه
گرفتند بر لشکرِ روم راه
(نظامی گنجوی)

به نیک و بدِ کارزارش رهست
نبرد‌آزمایست و کار‌آگهست
(نظامی گنجوی)


اِن دنوں اردو میں جب 'نبردآزما' کی ترکیب استعمال ہوتی ہے تو عموماً اِس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی چیز کے خلاف جدوجہد اور مبارزہ کر رہا ہے، لیکن کہنہ فارسی میں یہ ترکیب صفت کے طور پر استعمال ہوئی ہے یعنی جنگ آزمودہ اور رزم و نبرد کا تجربہ رکھنے والا شخص۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گو کہ اردو کی کلاسیکی اور جدید شاعری میں "نبردہ" کا استعمال کہیں بھی نظر نہیں آیا، لیکن خویشگی صاحب نے فرہنگِ عامرہ (نظرِثانی: 1957) میں "نبردہ" بمعنی دلاور، بہادر، جنگجو کو اردو میں مستعمل قرار دیا ہے۔
میرا گمان ہے کہ یہ لفظ اردو میں بھی کہیں نہ کہیں استعمال ہوا ہو گا۔ گذشتہ قرون کے اردو نویس ادباء فارسی الفاظ و تراکیب و مصطلحات کا آزادانہ استعمال کیا کرتے تھے۔ مثلاً شاہنامہ میں 'پہلوان و دلاور و دلیر و شجاع' کے معانی میں 'یَل' کا لفظ کئی بار استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ جدید فارسی میں زیادہ استعمال نہیں ہوتا، لیکن اردو میں مَیں نے اِسے ایک نامعلوم شاعر کی مثنوی 'رستم نامہ' میں دیکھا ہے:

"وہ میں ہوں دلاور یلِ نامجو
کہ دیوِ سپیدِ سیہ کار کو
کیا کشتہ اک دم میں ہنگامِ جنگ
نہ جانبر ہوئے مجھ سے شیر و پلنگ"

(پلنگ = تیندوا؛ یہ فارسی لفظ بھی اب اردو میں مستعمل نہیں ہے۔)


"یہ کہہ کر وہ دونوں یلِ نامدار
لگے کرنے کشتی کے فن آشکار"
 
نظیری کا ضرب المثل شعر ہے

دستِ طمع کہ پیشِ کساں کردہ ای دراز
پل بستہ ای کہ بگذری از آبروئے خویش

اس کا ترجمہ کیا ایسے ہوگا؟؟
دستِ طمع جو تو نے کساں کے آگے دراز کیا تو پل بنایا جس سے تو اپنی آبرو سے گزر گیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نظیری کا ضرب المثل شعر ہے

دستِ طمع کہ پیشِ کساں کردہ ای دراز
پل بستہ ای کہ بگذری از آبروئے خویش

اس کا ترجمہ کیا ایسے ہوگا؟؟
دستِ طمع جو تو نے کساں کے آگے دراز کیا تو پل بنایا جس سے تو اپنی آبرو سے گزر گیا۔
جی، اس شعر کا یہی مفہوم ہے۔ :)
دوسرے مصرعے کا ترجمہ یوں بہتر ہے:
۔۔۔تو گویا اپنی آبرو سے گذرنے کے لیے پُل بنایا ہے۔
از چیزی گذشتن = کسی چیز کو ترک کرنا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہاں پر مولانا جلال الدین رومی کی چار سو منتخب غزلیں عربی، فارسی اور اسلامی علوم کے برطانوی عالم اے جے آربیری کے مستند انگریزی ترجمے کے ساتھ موجود ہیں:
http://rumi-ghazals.appspot.com/

مسنتد کا لفظ میں نے اِس لیے استعمال کیا کیونکہ متأسفانہ مولوی رومی انگریزی کے اقبال اور فراز بن گئے ہیں، یعنی لوگوں کے دلوں میں جو بھی آتا ہے وہ رومی سے منسوب کر دیتے ہیں یا اپنے تمایلات و رجحانات کے موافق رومی کی شاعری کی بالکل مسخ شدہ انگریزی شکل پیش کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں ایسے ایسے لوگوں نے رومی کی شاعری کا جعلی 'ترجمہ' اور دلخواہ 'تفسیر' کر کے اُن کی شخصیت اور شاعری کو مسخ کرنے کی جسارت کی ہے جو خود فارسی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے ہیں۔ نتیجتاً، انگریزی کا سستا اور سطحی ملنگ رومی اور فارسی کے اصلی مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی اُتنے ہی مختلف ہیں جنتے مختلف فیس بُک کا عوامی اقبال اور علامہ اقبالِ لاہوری ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top