"فلسفہ اور تصوف جس قدر فارسی میں ہے عربی میں نہیں، مولانا روم، فریدالدین عطار، سنائی، سحابی، عراقی، اوحدی، ان کے مقابلے میں عرب کا کون شاعر پیش کیا جا سکتا ہے، ہم ابن الفارض اور شیخ محی الدین اکبر سے ناواقف نہیں، لیکن ان کی شاعری کو اُن بزرگوں سے کیا نسبت۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ چہارم)
ایران کی خاک فنونِ لطیفہ کی قابلیت میں بھی سب سے ممتاز تھی، اور بالخصوص شاعری اِس کا خمیر تھا، اسلام نے اِس خاص جوہر کو زیادہ چمکایا اور اِس حد تک پہنچایا کہ تمام دنیا کی شاعری ایک طرف، اور صرف ایران کی شاعری ایک طرف۔۔۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ اول)
شبلی نعمانی سے تقریباً چھے سو سال پہلے امیر خسرو دیباچہ غرۃ الکمال (تقریباً 1315ء) میں لکھتے ہیں:
اگر وہ لطافت ِالفاظ کے باب میں[عرب شاعر]
ابیوردی کے آبِ کلام کا پیاسا ہے تو وہ
خاقانی کے علوئے الفاظ کو سر اونچا کر کے دیکھے، اُس کے دعوے کی بلندی کی کلاہ سر سے گر پڑے گی۔ اگر اُس کی سکرات
متنبّی کے معنی خالص کی رنجش سے ہے، جو بہتے پانی سے زیادہ رواں ہے اور وہ پانی روانی اور تازگی کے ساتھ صرف اُس کی صراحی سے ٹپکتا ہے دوسروں کی صراحی سے نہیں ٹپکتا، تو اُسے (فریق ِمخالف) کو
رضی [نیشاپوری]کے پسندیدہ معانی اور
انوری کے کلام کے انوار و کمال کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اعترض کرنے والے کی اِس زور سے سرزنش کرنی چاہیے کہ اُس کا سر پارہ پارہ ہو جائے۔ اسے
معزّی (کے کلام میں) حسنِ الفاظ اور خوبی ِمعنی کی تحسین کرنی چاہیے۔
سیّد حسن[غزنوی]،
نظامی اور
ظہیر [فاریابی] کے (کلام میں) لفظ و معنی کا مطالعہ کرنا چاہیے تا کہ (مدعی ان کی خوبیوں سے) اگاہ اور بذات ِخود انصاف کر سکے۔
۔۔۔
اب میں پھر دلائل سے ثابت کرتا ہوں کہ شاعری کے مزاج کے اعتبار سے اہل ِفارس اہلِ عرب سے بہتر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر عربی زبان کا کوئی فاضل تر اور فصیح تر شاعر خراسان میں وارد ہو تو فارسیوں کی روش پر گھوڑا نہیں دوڑا سکتا اور اُس کی زبان فارسی روزمرّہ پر قادر نہ ہو سکے گی۔ اِسی طرح سے اُسے فارسی شعر کے معنی کی تہ داری، اوزان اور انشا پر قدرت حاصل نہ ہو سکے گی۔ اس کے برعکس اگر فارسی زبان کا شاعر جو اعلیٰ درجے کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو، وہ فارسیوں کی بستیوں میں عربی زبان کے مزاج سے اِس قدر ہم آہنگ ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص جو منصف و دانا ہے اور چالبازی بھی نہ کرے تو صد ہا تحسین کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ اگر وہ شاعر اپنے علم و فضل کے اوصاف کے ساتھ عرب جائے تو فصحائے عرب بیابانوں کی راہ اختیار کریں گے۔
زمخشری (صاحب ِکشّاف) خوارزم میں پیدا ہوا تھا لیکن عرب میں علّامہ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا اور
سيبویہ نے جن امور کو مجمل بیان کیا تھا اس نے مفصّل بیان کیا۔
(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)