اس شعر میں 'رائے مفعولی' نہیں، بلکہ 'رائے فکِّ اضافہ' استعمال ہوا ہے۔
یعنی یہاں لفظِ 'را' کوئی مفعول بیان نہیں کر رہا، بلکہ ترکیبِ اضافی کا کام انجام دے رہا ہے۔ یہ 'را' جب استعمال ہوتا ہے تو اضافی ترکیب کے اجزا یعنی مضاف اور مضافٌ الیہ کی جگہ مقلوب ہو جاتی ہے اور یہ 'را' اُن دونوں اجزا کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہے۔ مثال دے کر بات واضح کرتا ہوں:
'میدانِ حرص' ایک اضافی ترکیب ہے جس میں مُضاف 'میدان' ہے، جبکہ مضافٌ الیہ 'حرص'۔ اور دونوں کو علامتِ اضافت یعنی زیر نے آپس میں جوڑا ہوا ہے۔
جس طرح اردو میں مندرجۂ بالا ترکیب کو 'حرص کا میدان' میں بدلا جا سکتا ہے، اُسی طرح فارسی میں بھی اس ترکیب کو 'رائے فکِّ اضافہ' یعنی علامتِ اضافت کو حذف کر دینے والے را کی مدد سے 'حرص را میدان' میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں 'حرص' کوئی مفعول نہیں، بلکہ مضافٌ الیہ ہے۔ اردو میں اس ترکیب کا سادہ و مناسب ترجمہ 'حرص کا میدان' ہو گا۔
"بس فراخ است حرص را میدان"
(حرص کا میدان بہت فراخ ہے۔)
حرص را میدان = میدانِ حرص
لہٰذا وارث صاحب کے درج کردہ شعر میں مرا مقدار (= من را مقدار) در حقیقت 'مقدارِ من' کا ہم معنی ہے۔