زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

سید عاطف علی

لائبریرین
اِنضِباط
فارسی میں 'نظم و ضبط' یا 'ڈسپلن' کے لیے 'انضباط' استعمال ہوتا ہے:
"سرانجام مسایلِ انضباطی آنچنان بالا گرفت که تدریس عملاً ناممکن شد و او در جستجوی شُغلی مناسب‌تر همراهِ رفیقه و پسرش رهسپارِ رُم شد."
آخرکار نظم و ضبط کے مسائل اِس قدر بڑھ گئے کہ تدریس عملاً ناممکن ہو گئی اور وہ مناسب تر پیشے کی جستجو میں اپنی رفیقہ اور پسر کے ہمراہ روم کی جانب روانہ ہو گیا۔
علاوہ بریں، اِسی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے 'نظم و انضباط' کی ترکیبِ عطفی بھی استعمال ہوتی ہے:
تربيتِ صحيح و آموختنِ نظم و انضباط به فرزندان در كودكى، نقشى بس بزرگ در منضبط شدنِ آنان دارد.
فرزندوں کی طفلی میں صحیح تربیت اور اُنہیں نظم و ضبط سکھایا جانا اُن کے مُنَظَّم و مُنضَبِط بننے میں ایک بسیار اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ضمناً، فارسی میں مستعمَل عربی الاصل الفاظ کی تعداد اردو کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ فارسی میں اور اردو میں شامل عربی الاصل الفاظ میں اگر چہ معنی استعمال اور اصل سے قریب اور مربوط ہوتے ہیں لیکن عموما اردو میں عربی الفاظ کے معنی کسی محاوراتی اسلوب میں ڈھلے ہوئے ملتے ہیں جو اصل سے ہٹ کر بھی عام استعمال ہوتے ہیں (مثلاً۔ تکلیف۔انحصار ۔ )جبکہ فارسی میں عربی مستعمل الفاظ اپنی اصل معنوی شکل برقرار رکھتے ہیں اور بطور ذخیرہء الفاظ زبان کو قوت بخشتے ہیں ۔ اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فارسی میں محاورہ ڈھالنے کی صلاحیت کمزور ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اس کا فطری اسلوب زیادہ مستحکم ہے ۔جبکہ اردو زبان اپنی لچک سے دونوں کی وسعت اور گہرائی سے خوب مستفید ہونے کی وجہ سے بہت خوش قسمت ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صرافت = اندیشه و نیتِ انجام دادنِ کاری (کسی کام کو انجام دینے کی فکر یا نیت)
به صرافتِ کاری افتادن = به فکرِ انجامِ آن افتادن (کسی کام کو انجام دینے کی فکر میں پڑنا)
[ماخذ: فرهنگِ روزِ سخن]

اِس لفظ اور عبارت کا استعمال ایرانی فارسی میں ہوتا ہے۔ ایک ایرانی کتاب سے اِس عبارت کی مثال دیکھیے:
"...فلوطین کم‌کم متقاعد شد که فلسفهٔ افلاطون را بهتر از خودِ افلاطون درک می‌کند و به صرافت افتاد تا دیگران را با 'نیّاتِ واقعیِ' افلاطون آشنا کند."
"۔۔۔۔فلوطین کو آہستہ آہستہ باور ہو گیا کہ وہ افلاطون کے فلسفے کو خود افلاطون سے بہتر فہم کرتا ہے، اور وہ اِس فکر میں پڑ گیا کہ دیگروں کو افلاطون کی 'حقیقی نیّتوں' سے آشنا کرے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اس نے آشپزاں کو کہا کہ دسترخوان کو آراستہ کریں اور پہلواناں کے روبرو رکھ دیں۔
خوب! :)

'فرمودن' یہاں 'امر کرنا، حکم کرنا' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہ ترجمہ بہتر ہے: اُس نے آشپَزوں/باورچیوں کو حکم دیا کہ۔۔۔

'آر'، 'آراستن' کا مضارع نہیں، بلکہ 'آوردن' کے مضارع 'آور' کا مخفف ہے۔ یعنی: اُس نے آشپَزوں/باورچیوں کو حکم دیا کہ وہ دسترخوان لائیں۔۔۔

خوان نهادن = دسترخوان بچھانا ('دسترخوان رکھنا' بھی درست ترجمہ ہے۔)

'خوالیگر' اور 'خوان' میں استعمال ہونے والا واؤ، واوِ معدولہ ہے۔
 
خوب! :)

'فرمودن' یہاں 'امر کرنا، حکم کرنا' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہ ترجمہ بہتر ہے: اُس نے آشپَزوں/باورچیوں کو حکم دیا کہ۔۔۔

'آر'، 'آراستن' کا مضارع نہیں، بلکہ 'آوردن' کے مضارع 'آور' کا مخفف ہے۔ یعنی: اُس نے آشپَزوں/باورچیوں کو حکم دیا کہ وہ دسترخوان لائیں۔۔۔

خوان نهادن = دسترخوان بچھانا ('دسترخوان رکھنا' بھی درست ترجمہ ہے۔)

'خوالیگر' اور 'خوان' میں استعمال ہونے والا واؤ، واوِ معدولہ ہے۔

معاف بفرمائید غلطی سے بیارند کو بیارایند خوان (پڑھ)لیا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
برادر اریب آغا، شاہنامہ کی اِن ابیات کا ترجمہ کیجیے:
"اگر شیر پیش آمدی، بی‌گمان
نرَستی، چُنین دان ز گُرزِ گَران
به پیشم چه بَبْر و پلنگ و هِزَبْر
به پیکان فرو بارم آتش ز ابر
چو گُردان مرا روی بینند تیز
زِرِ
ه بر تنانْشان شود ریزه‌ریز"

یہاں سہراب اپنی قہرَمانی و جنگاوری پر مُباہات کا اظہار کر رہا ہے۔
 
آخری تدوین:
برادر محمد ریحان قریشی، آپ مشق کے لیے اوحدی مراغہ‌ای کے اِس شعر کا ترجمہ کیجیے:
رفتنِ مِهرِ تو از سینهٔ من ممکن نیست
همچو نامی که کسی نقش کند بر حَجَری
تیری محبت کا میرے سینے سے چلا جانا ممکن نہیں ہے، اس نام کی طرح کہ جسے کوئی ایک سنگ پر نقش کرے۔
 
آخری تدوین:
برادر اریب آغا، شاہنامہ کی اِن ابیات کا ترجمہ کیجیے:
"اگر شیر پیش آمدی، بی‌گمان
نرَستی، چُنین دان ز گُرزِ گَران
به پیشم چه ببر و پلنگ و هِزَبر
به پیکان فرو بارم آتش ز ابر
چو گُردان مرا روی بینند تیز
زِرِ
ه بر تنانشان شود ریزه‌ریز"

یہاں سہراب اپنی قہرَمانی و جنگاوری پر مُباہات کا اظہار کر رہا ہے۔

اگر بےشک شیر آگے آتا تو(میرے) بھاری گرز سے رہائی نہ پاتا،ایسا فہم کرلے۔میرے سامنے ببر شیر،چیتا اور ہزبر چہ معنیٰ دارد،میں (اپنے تیر کی) نوک پر ابر سے آتش برساتا ہوں۔جب میرا روئے تیز پہلوان دیکھتے ہیں تو ان کے تنوں پر موجود زرہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر بےشک شیر آگے آتا تو(میرے) بھاری گرز سے رہائی نہ پاتا،ایسا فہم کرلے۔میرے سامنے ببر شیر،چیتا اور ہزبر چہ معنیٰ دارد،میں (اپنے تیر کی) نوک پر ابر سے آتش برساتا ہوں۔جب میرا روئے تیز پہلوان دیکھتے ہیں تو ان کے تنوں پر موجود زرہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔
ترجمہ درست ہے۔ :)

میں اِن ابیات کا ترجمہ یوں کرتا:
اگر شیر سامنے آتا تو یہ جان لو کہ وہ یقیناً (میرے) گُرزِ گراں سے نجات نہیں پاتا؛ میرے سامنے کیا ببر، کیا تیندوا اور کیا شیر۔۔۔۔ میں (اپنے) نیزے سے ابر سے آتش برساتا ہوں۔ جب پہلوان میرا خشمگین چہرہ دیکھتے ہیں تو اُن کے تنوں پر زِرہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔

چند نکات:
'پیش آمدی' اور 'نرستی' میں یائے شرطی کا استعمال ہوا ہے۔ یہ دونوں بالترتیب 'پیش می‌آمد' اور '‌نمی‌رست' کے ہم سنگ ہیں۔ معاصر فارسی میں یائے شرطی اور یائے استمراری کا استعمال نہیں ہوتا۔
'ہِزَبْر' کا معنی بھی 'شیر' یا 'شیرِ درندہ' ہے۔ میں اِس لفظ کو فارسی الاصل سمجھتا تھا، لیکن بعد میں معلوم ہوا ہے کہ یہ بھی ایک عربی الاصل لفظ ہے۔ فارسی ادبیات میں اِس لفظ کی مُفرَّس شکل 'ہِژَبر' بھی استعمال ہوئی ہے۔
'به پیکان' کا مفہوم یہ ہے: پیکان کے ذریعے، پیکان سے
لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'تیز' کا ایک معنی 'خشم ناک، خشمگین، غضب آلود' بھی ہے۔ میری نظر میں یہ لفظ یہاں اِسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر اریب آغا، شاہنامہ کی اِس بیت کا مفہوم بیان کیجیے:
تَهَمتَن به تُوران‌سپه شد به جنگ

بدان سان که نخچیر گیرد پلنگ
 
آخری تدوین:
برادر محمد ریحان قریشی، حافظ شیرازی کے اِس شعر کا ترجمہ کیجیے:
ای پادشهٔ خوبان داد از غمِ تنهایی

دل بی تو به جان آمد وقت است که بازآیی
مفہوم
خوبوں کے بادشاہ سے غم تنہائی کے ظلم پر فریاد۔
دل تیرے بغیر جان تک آ گیا ۔ وقت ہے کہ تو لوٹ آئے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
مفہوم
خوبوں کے بادشاہ سے غم تنہائی کے ظلم پر فریاد۔
دل تیرے بغیر جان تک آ گیا ۔ وقت ہے کہ تو باز آئے۔
باز آئے سے بہتر نہ ہو کہ واپس آئے کہیں ؟
کیا خیال ہے ؟
لگتا ہے ظلم سے باز آنا موضوع نہیں بلکہ تنہائی کا مداوا واپس لوٹ آنے سے ہے۔
حسان خان محمد ریحان قریشی
 
باز آئے سے بہتر نہ ہو کہ واپس آئے کہیں ؟
کیا خیال ہے ؟
لگتا ہے ظلم سے باز آنا موضوع نہیں بلکہ تنہائی کا مداوا واپس لوٹ آنے سے ہے۔
حسان خان محمد ریحان قریشی
آپ کی بات درست ہے۔
باز آئے شاید اردو میں ایسے مستعمل نہیں، باز آمدن کے معنی لوٹ آنا ہی ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مفہوم
خوبوں کے بادشاہ سے غم تنہائی کے ظلم پر فریاد۔
دل تیرے بغیر جان تک آ گیا ۔ وقت ہے کہ تو باز آئے۔
اِس ترجمے میں مندرجۂ ذیل نقائص ہیں:
یہاں 'خوبوں کا پادشاہ' مُخاطَب ہے، جس کے سامنے شاعر غمِ تنہائی کے باعث فریاد کر رہا ہے۔ میری نظر میں یہاں 'پادشۂ خوباں' کی جانب سے 'ظلم' کا مفہوم موجود نہیں ہے۔
'به جان آمدن' ایک عبارت ہے جس کا مفہوم 'عاجز و ملول ہونا'، 'تنگ آنا'، 'خستہ ہونا'، 'درماندہ ہونا' یا 'زندگی سے بیزار ہونا' وغیرہ ہے۔ اردو میں اِس کے لفظی ترجمے سے معنی بہ درستی بیان نہیں ہو رہا۔
'بازآمدن' اِس شعر میں 'واپس آنا' یا 'دوبارہ آنا' کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
 
برادر اریب آغا، شاہنامہ کی اِس بیت کا مفہوم بیان کیجیے:
تَهَمتَن به تُوران‌سپاه شد به جنگ

بدان سان که نخچیر گیرد پلنگ
رستم سپاہانِ توران کے ساتھ جنگ آزما ہوا جس طرح شکار تیندوے کو گرفت میں لیتا ہے۔

یہاں توران سپاہ دراصل صفت و موصوفِ مقلوب ہے بربنائے آنکہ قبلاََ برادرم حسان خان نے تحریر کیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
رستم سپاہانِ توران کے ساتھ جنگ آزما ہوا جس طرح شکار تیندوے کو گرفت میں لیتا ہے۔

یہاں توران سپاہ دراصل صفت و موصوفِ مقلوب ہے بربنائے آنکہ قبلاََ برادرم حسان خان نے تحریر کیا۔
ترجمہ تقریباً درست ہے۔ غلطی یہ ہے کہ شکار اور تیندوے کی ترتیب معکوس ہو گئی ہے۔ درست ترجمہ یہ ہو گا: 'جس طرح تیندوا شکار کو گرفت میں لیتا ہے'۔

'سپاہ' کو جمع کی بجائے مفرد ہونا چاہیے۔

مصرعِ اول کا یہ ترجمہ کرنا بھی ممکن ہے: 'رستم سپاہِ توران کے ساتھ جنگ کے لیے روانہ ہوا'۔۔۔ کیونکہ 'شدن' کا ایک معنی 'جانا' اور 'روانہ ہونا' بھی ہے۔

ہے تو یہاں بھی اضافتِ مقلوب، لیکن 'توران' اور 'سپاہ' صفت اور موصوف نہیں ہیں، بلکہ بالترتیب 'مُضافٌ‌ الیہ' اور 'مُضاف' ہیں، اور اِن کے درمیان 'اضافتِ مِلکی' کا تعلق ہے۔

مجھ سے بیت کے متن کو لکھنے میں غلطی ہو گئی ہے۔ 'تُوران‌سپاه' کی بجائے 'تُوران‌سپه' آئے گا۔
 
آخری تدوین:
Top