زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
بی‌قرین
بی‌نزدیک؛ مجازاً بی‌مانند، بی‌مثل، بی‌همتا.

تو آسمانی و هنرِ تو عطارد است
وآن بی‌قرین لِقای تو چون ماهِ آسمان
(منوچهری)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی، جلدِ اول، صفحه ۱۸۰]


× منوچهری = ابوالنجم احمد بن قوص بن احمد منوچهری دامغانی
تو آسمانی و هنرِ تو عطارد است
وآن بی‌قرین لِقای تو چون ماهِ آسمان
(منوچهری)
شعر کا ترجمہ: تم آسمان ہو اور تمہارا ہنر عُطارِد ہے، جبکہ تمہارا وہ بے نظیر چہرہ ماہِ آسمان جیسا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بی‌قرین
بی‌نزدیک؛ مجازاً بی‌مانند، بی‌مثل، بی‌همتا.
میر تقی میر نے ایک منقبتی ہفت بند میں 'بے قریں' استعمال کیا ہے:
"ذات تیری جوں خدا کی ذات ہے والاصفات
بے شریک و بے عدیل و بے نظیر و بے قریں"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گُل نسبتے ندارد با روئے دلفریبَت
تو درمیانِ گل ہا چوں گل میانِ خارے


شیخ سعدی شیرازی

پُھول تیرے دلفریب چہرے کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں رکھتا کیونکہ تُو پھولوں کے درمیان ایسے ہی ہے جیسے کہ پھول کانٹوں کے درمیان۔
وارث بھائی بتا چکے ہیں کہ وہ لکھتے وقت اکثر یائے نکرہ و وحدت (متداول پاکستانی رسم الخط میں 'ے') اور یائے مصدری و نسبتی وغیرہ (متداول پاکستانی رسم الخط میں 'ی') میں فرق نہیں کرتے، لیکن جو دوست نہیں جانتے یا جو مبتدیوں کی صنف سے تعلق رکھتے ہیں، اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں مصرعِ ثانی میں 'خار' کے بعد یائے نکرہ نہیں، بلکہ یہاں وہ 'یا' ہے جو '(تو) هستی' کے جانشین کے طور پر الفاظ کے ساتھ پیوستہ کی جاتی ہے اور جس کا اردو میں ترجمہ 'تم ہو' یا 'تو ہے' کیا جاتا ہے۔
یعنی اگر اِس مصرعے کے حصے کر کے لفظی ترجمہ کیا جائے تو وہ یوں ہو گا:
تو - در میانِ گل‌ها چون گل میانِ خار - ی
تم
- گلوں کے درمیان خار کے درمیان گل جیسے - ہو

اِس بات کے اثبات میں یہ دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں:
سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ایرانی فارسی میں بھی یائے معروف اور یائے مجہول کے درمیان صوتی فرق موجود تھا، اِس لیے میرا گمان ہے کہ اُس وقت ایسے الفاظ کو باہم قافیہ نہیں رکھا جاتا تھا جن میں 'یا' کی مختلف آوازیں ہوتی تھیں۔ (اگر اِس گمان کی نفی کرتا ہوا کوئی قدیم دور کا شعر نظر آیا تو ضرور آگاہ کروں گا۔) اِس غزل کے دیگر جتنے بھی اشعار ہیں اُن میں 'یا' کی وہ انواع استعمال ہوئی ہیں جو پاکستانی رسم الخط میں یائے معروف سے لکھی جاتی ہیں۔ لہٰذا اِس شعر میں بھی یائے معروف ہی کا ہونا مناسب تر ہے۔
دیگر دلیل یہ کہ اِس شعر کے روسی رسم الخط متن میں بھی 'خار' کے بعد یائے معروف کا استعمال ہوا ہے۔
ایک اور نکتہ میرے ذہن میں یہ آ رہا ہے کہ معنائی لحاظ سے یہاں 'خار' کے بعد وحدت یا نکرہ کی مناسبت محسوس نہیں ہو رہی۔ فارسی میں اگر کوئی اسمِ عام مفرد ہو، تو اُس سے تو جمع کے معنی مراد لیے جا سکتے ہیں، لیکن اگر یائے نکرہ یا یائے وحدت کسی مفرد اِسم سے متصل ہوں تو اُن سے عموماً مفرد معنی ہی مراد لیے جاتے ہیں۔ اور یہاں ایک خار کی نہیں، بلکہ کئی خاروں کی بات ہو رہی ہے، جن کے درمیان ایک گل ہے۔ البتہ، اِس نکتے کو حتمی نہ سمجھا جائے کیونکہ اِس میں غلطی کا احتمال موجود ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کُلبه

۱. خانه‌چه، خانهٔ خُردِ تیره و تاریک، حُجره.

کُلبه‌ام مطلعِ خورشید شد از آمدنت،
شوخِ مه‌پیکرِ خورشید‌عِذارم، بنشین!
(سودا)

۲. دوکان.

روباه گفت: اگر فرمان بَری، تو را به مرْغْزاری بَرَم، که زمینِ او چون کلبهٔ گوهر‌فروش به الوانِ جواهر مُزیًّن است.
(کلیله و دِمنه)

به این مُشکین نَفَس دل‌ها ربودی،
مگر در کلبهٔ عطّار بودی؟
(هلالی)

* کُلبهٔ احزان کنایه از خانهٔ یعقوب، که ایامِ خود را در فراقِ پسرش یوسف در آن جا با غم و اندوه می‌گذراند؛ کنایه از خانهٔ تنهانشینی در وقتِ جدایی؛ غم‌خانه.

یوسفِ گُم‌گشته باز آید به کنعان، غم مخور،
کلبهٔ احزان شود روزی گلستان، غم مخور.
(حافظ)

آمدی دامن‌کَشان در کلبهٔ احزانِ من،
شرم می‌دارم، که جانِ عاریت سازم نثار.
(مشفقی)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی، جلدِ اول، صفحه ۵۷۱]

۱. خانهٔ کوچک؛ خانه.
۲. خانهٔ روستایی.
۳. [قدیمی] دکان.

[فرهنگِ عمید]

خانه‌ای بسیار کوچک و فقیرانه معمولاً دارای یک اتاق.
[فرهنگِ روزِ سخن، صفحه ۹۶۵]

۱. خانهٔ خُردِ حقیرانه و تیره و تاریک، حُجره. ۲. کتابی دوکان؛ * کلبهٔ احزان غم‌خانه، جای غم و اندوه.
[فرهنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی، جلدِ اول، صفحه ۶۵۹]

× 'کلبہ' اور 'کلبۂ احزان' کا استعمال اردو ادب میں بھی عام ہے۔


کلبۂ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت
(علامہ اقبال)


یعقوب کے نہ کلبۂ احزاں تلک گئے
سو کاروان مصر سے کنعاں تلک گئے
(میر تقی میر)

ہمارے کلبۂ احزاں میں حاتم
شبِ ہجراں ہے یا افسانۂ عشق
(شاہ حاتم دہلوی)

آئی کنعاں سے بادِ مصر ولے
نہ گئی تا بہ کلبۂ یعقوب
(میر تقی میر)


رُوکشِ دشت و جبل قصرِ سلاطیں ہوں گے
ہمسرِ بامِ فلک کلبۂ دہقاں ہو گا
(جوش ملیح آبادی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گذشتہ زمانوں میں مولوی رومی رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے پیرو بھی بلادِ اسلامیہ میں زبانِ فارسی کی ترویج کا سبب رہے ہیں:
"دیگر عثمانی سرزمینوں کی طرح بوسنیا و ہرزیگووینا میں بھی صوفیانِ مولویہ مثنویِ معنوی کی ہمیشہ اُس کی اصلی زبان میں قرائت کرتے تھے؛ اُنہوں نے نہ صرف فارسی کو ایک نیم عباداتی زبان بنا دیا تھا، بلکہ تعلیم یافتہ اشرافیہ کے درمیان اِس کے عام رواج میں بھی بسیار زیاد کردار ادا کیا تھا۔"
(ماخذ: دانش نامۂ ایرانیکا)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
"جز از پاک یزدان نترسم ز کس"

(فردوسی طوسی)

میں خدائے پاک کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔
فارسی میں صفت معمولاً موصوف کے بعد آتی ہے، اور دونوں کے درمیان اضافت ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات شاعری میں، خصوصاً ابتدائی عہد کی شاعری میں، اردو کی طرح موصوف سے قبل صفت کا استعمال بھی نظر آتا ہے جسے 'صفت و موصوفِ مقلوب' کہتے ہیں۔ شاہنامۂ فردوسی میں اِس چیز کا استعمال بارہا ہوا ہے۔

شاہنامہ ہی سے ایک اور مثال:
شد ایوان به کردارِ خُرّم بهار
ترجمہ: ایوان بہارِ خُرّم کی مانند ہو گیا۔

اِس کی مزید مثالیں بعد میں دوں گا۔
 
آخری تدوین:
اس کی ایک مثال جانوروں کی تذکیر و تانیث میں بھی ہے۔ شیر کی جنسِ تذکیر کو عیاں کرنے کے لئے فارسی میں شیرِ نر بھی کہتے ہیں اور نرہ شیر بھی بہ گفتگو آتا ہے
 

حسان خان

لائبریرین
اس کی ایک مثال جانوروں کی تذکیر و تانیث میں بھی ہے۔ شیر کی جنسِ تذکیر کو عیاں کرنے کے لئے فارسی میں شیرِ نر بھی کہتے ہیں اور نرہ شیر بھی بہ گفتگو آتا ہے
بَلے، فارسی میں 'شیرِ نر' کی بجائے 'نرّہ‌شیر' کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ شاہنامۂ فردوسی سے اِس کی ایک مثال دیکھیے:
"تنش زور دارد به صد نرّه‌شیر"
ترجمہ: اُس کا تن سو نر شیرو‌ں جتنا زور رکھتا ہے۔

اور اِسی طرح 'پیرمرد' و 'پیرزن' وغیرہ جیسے مرکّب الفاظ میں بھی صفت موصوف سے پہلے آتی ہے۔

سبکِ خراسانی کے شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری کے ایک قصیدے سے دو مزید مثالیں دیکھیے:
بنگر چه سودمند شكارم كه هیچ وقت
از چنگِ روزگار نیارم شدن رها

× سودمند شکار = شکارِ سودمند
ترجمہ: دیکھو کہ میں کیسا سودمند شکار ہوں کہ مجھے کبھی بھی زمانے کے چنگل سے رہا ہونے کا یارا نہیں ہے۔
با غم رقیق طبعم از آن سان گرفت اُنس
كز در چو غم درآید گویدْش مرحبا

× رقیق طبع = طبعِ رقیق
ترجمہ: غم کے ساتھ میری طبعِ رقیق اِس طرح مانوس ہو گئی ہے کہ جب غم دروازے سے اندر آتا ہے تو وہ اُسے مرحبا کہتی ہے۔


پس نوشت: شاہنامۂ فردوسی میں ایک اور مثال نظر آ گئی ہے:
بدو سُرخه گفت: ای سرافراز شاه
چرا کُشت خواهی مرا بی‌گناه؟

× سرافراز شاه = شاهِ سرافراز
ترجمہ: سُرخہ نے اُس سے کہا: اے شاہِ سرفراز، کیوں مجھے بے گناہ قتل کرنا چاہتے ہو؟
 
آخری تدوین:
مصدر سنجیدن کے کیا معنی ہیں؟
بیدل دہلوی کے اس شعر کی رو سے کیا اس کا مطلب ہم پلہ کرنا ہے
باطنِ این خلقِ کافر کیش با ظاهر مسنج
جمله قرآن در کنارند و صنم در آستین


کتاب "فرهنگِ مصادری" از پرویز صالحی میں تحریر فردوسی کے اس شعر سے اس کا مطلب وزن کرنا(تولنا) لگتا ہے
جوانی هنوز ، این بلندی مجوی
سخن را بسنج و به اندازه گوی
 

حسان خان

لائبریرین
مصدر سنجیدن کے کیا معنی ہیں؟
بیدل دہلوی کے اس شعر کی رو سے کیا اس کا مطلب ہم پلہ کرنا ہے
باطنِ این خلقِ کافر کیش با ظاهر مسنج
جمله قرآن در کنارند و صنم در آستین


کتاب "فرهنگِ مصادری" از پرویز صالحی میں تحریر فردوسی کے اس شعر سے اس کا مطلب وزن کرنا(تولنا) لگتا ہے
جوانی هنوز ، این بلندی مجوی
سخن را بسنج و به اندازه گوی
اِس مصدر کا بنیادی لفظی مفہوم تو 'وزن کرنا' یا 'تولنا' ہے، لیکن اِس کا ایک دیگر معنی 'قیاس کرنا' بھی ہے، اور بیدل کے شعر میں یہ مصدر اِسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اِس شعرِ مزبور کا ترجمہ دیکھیے:
اِن کافر کیش مردم کے باطن کو [اِن کے] ظاہر کے ساتھ قیاس مت کرو۔۔۔۔ اِن سب کے پہلوؤں میں تو قرآن، لیکن آستینوں میں بُت ہیں۔
مصرعِ اول کا یہ مفہومی ترجمہ بھی کیا جا سکتا ہے: اِن کافر کیش مردم کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے اِن کے باطن کا اندازہ مت لگاؤ۔۔۔۔

جبکہ فردوسی کے شعر میں یہ مصدر 'تولنا' ہی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے:
تم ہنوز جوان ہو، اِتنی بلندی مت طلب کرو۔۔۔ سخن کو تولو اور حد میں بولو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گرچہ بر واعظِ شہر ایں سخن آساں نشود
تا ریا ورزد و سالوس مسلماں نشود


حافظ شیرازی
سالُوس

۱. ریاکار، فِریب‌گر.

هر آه که عاشق به سحرگاه کند،
از نالهٔ زاهدانِ سالوس بِه است.
(خیام)

همچو تو بسیار سالوسان بُدند،
عاقبت در مصرِ ما رسوا شدند.
(رومی)

به اِغوای یکی از شیخانِ زرّاق و سالوس هوسِ تسخیرِ بَلْدهٔ هِرات در ضمیرِ او جای‌گیر شد.

(روضة‌الصفا)

۲. ریا؛ فِریب، مکر.

اگر شوخ‌چشمی و سالوس کرد،
الا، تا نپنداری افسوس کرد!
(سعدی)

دلم ز صومعه بگرفت و خرقهٔ سالوس،
کجاست دیرِ مغان و شرابِ ناب کجا؟
(حافظ)

گرچه رَخشِ همّتش جولان برون زین عرصه داشت،
خویش را بستم به صد سالوس بر فتراکِ او.
(جامی)

سالُوسی


ریاکاری، فِریب‌گری، مکّاری.

گفت: اکنون برو و باده خور و شاد بزی،
دور باش از رهِ سالوسی و از دلقِ کبود.
(شمسِ تبریزی)

به دُزدی و سالوسی و ره‌زنی
نمایند مردی و مرد‌افکنی.
(نظامی)


[فرهنگِ زبانِ تاجیکی، جلدِ دوم، صفحه ۲۵۹]
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اِنضِباط
فارسی میں 'نظم و ضبط' یا 'ڈسپلن' کے لیے 'انضباط' استعمال ہوتا ہے:
"سرانجام مسایلِ انضباطی آنچنان بالا گرفت که تدریس عملاً ناممکن شد و او در جستجوی شُغلی مناسب‌تر همراهِ رفیقه و پسرش رهسپارِ رُم شد."
آخرکار نظم و ضبط کے مسائل اِس قدر بڑھ گئے کہ تدریس عملاً ناممکن ہو گئی اور وہ مناسب تر پیشے کی جستجو میں اپنی رفیقہ اور پسر کے ہمراہ روم کی جانب روانہ ہو گیا۔

علاوہ بریں، اِسی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے 'نظم و انضباط' کی ترکیبِ عطفی بھی استعمال ہوتی ہے:
تربيتِ صحيح و آموختنِ نظم و انضباط به فرزندان در كودكى، نقشى بس بزرگ در منضبط شدنِ آنان دارد.
فرزندوں کی طفلی میں صحیح تربیت اور اُنہیں نظم و ضبط سکھایا جانا اُن کے مُنَظَّم و مُنضَبِط بننے میں ایک بسیار اہم کردار ادا کرتا ہے۔


ضمناً، فارسی میں مستعمَل عربی الاصل الفاظ کی تعداد اردو کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مآلاً
ایک کتاب کی خوانِش کے دوران 'آخرکار، انجامِ کار، سرانجام، بالآخر، عاقبت الامر وغیرہ' کے مفہوم میں 'مآلاً' بهی استعمال ہوتے نظر آیا ہے:
"کوشش‌هایِ اگوستین مآلاً مُنجر به هماهنگ‌سازیِ مکتبِ نوافلاطونی و آموزش‌هایِ انجیلی شد."
بالآخر آگستین کی کوششوں کا نتیجہ نوافلاطونی مکتبۂ فکر اور انجیلی تعلیمات کے درمیان ہم آہنگ سازی کی صورت میں نکلا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر اریب آغا، آپ کو مشق کے لیے شاہنامۂ فردوسی کی ایک بیت دے رہا ہوں۔ اِس کا ترجمہ کیجیے:
سَبُک تیغِ تیز از میان برکشید

برِ پُورِ بیداردل بردرید
ترجمے کے دوران کوئی مسئلہ پیش آئے تو پوچھ لیجیے گا۔
 
برادر اریب آغا، آپ کو مشق کے لیے شاہنامۂ فردوسی کی ایک بیت دے رہا ہوں۔ اِس کا ترجمہ کیجیے:
سَبُک تیغِ تیز از میان برکشید

برِ پُورِ بیداردل بردرید
ترجمے کے دوران کوئی مسئلہ پیش آئے تو پوچھ لیجیے گا۔

اس نے میان سے شمشیرِ تیز و سبک نکالی اور اور (اپنے) پسرِ بیداردل کا پہلو چاق کردیا۔
سبک آیا یہاں کم وزن کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے یا کسی اور معنی میں استعمال ہوا ہے؟

گنجور میں یہاں پُور کی جگہ شیر استعمال ہوا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اس نے میان سے شمشیرِ تیز و سبک نکالی اور اور (اپنے) پسرِ بیداردل کا پہلو چاق کردیا۔
سبک آیا یہاں کم وزن کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے یا کسی اور معنی میں استعمال ہوا ہے؟

گنجور میں یہاں پُور کی جگہ شیر استعمال ہوا ہے۔
بسیار خوب! آفرین!

یہاں 'سَبُک' صفت نہیں بلکہ تمیز (ایڈوَرب) کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یعنی: اُس نے تیزی سے/بہ سُرعت/فوراً تیغِ تیز میان سے بیرون نکالی۔۔۔۔

یہاں 'بَر' کا ترجمہ 'پہلو' بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن میری نظر میں 'سینہ' بہتر ہے۔

شاہنامۂ فردوسی کے مختلف نسخوں میں اِس جیسے کئی اختلافات ہیں اور مختلف تصحیح کنندوں نے اپنی اپنی تحقیق اور ذوق کے مطابق متن شائع کیا ہے۔ میں نے جس نسخے سے بیت کا متن لیا ہے، اُس میں 'شیر' کی بجائے 'پُور' ہے، اور مجھے یہی نسخہ بدل بہتر لگا ہے۔


'چاق' فارسی میں 'فربہ' یا 'تندرست' کو کہتے ہیں۔ ترجمے میں یہاں 'چاک' آئے گا۔

× نُسخہ بَدَل = کسی کتاب کے کسی دیگر نسخے میں کسی لفظ یا کلام کی کوئی دیگر صورت
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر اریب آغا، مشق کے لیے شاہنامہ کی اِن ابیات کا ترجمہ کیجیے:
"ز نزدیک چون تَرگِ رُستم بدید

به رُخساره شد چون گُلِ شَنبَلید
به دل گفت، پیکار با ژَنده‌پیل
چو غوطه‌ست خوردن به دریای نیل"
 
آخری تدوین:
برادر اریب آغا، مشق کی لیے شاہنامہ کی اِن ابیات کا ترجمہ کیجیے:
"ز نزدیک چون تَرگِ رُستم بدید

به رُخساره شد چون گُلِ شَنبَلید
به دل گفت، پیکار با ژَنده‌پیل
چو غوطه‌ست خوردن به دریای نیل"

جب تُرکِ رستم نے قریب سے دیکھا، اس کا رخسار گلِ شنبلید جیسا ہوگیا۔اس نے دل میں کہا کہ فیلِ بزرگ سے جنگ آزما ہونا ایسا ہی ہے جیسے دریائے نیل میں غوطہ زن ہونا۔
 

حسان خان

لائبریرین
جب تُرکِ رستم نے قریب سے دیکھا، اس کا رخسار گلِ شنبلید جیسا ہوگیا۔اس نے دل میں کہا کہ فیلِ بزرگ سے جنگ آزما ہونا ایسا ہی ہے جیسے دریائے نیل میں غوطہ زن ہونا۔
خوب، برادرم!

چند نکات عرض کرتا چلوں:

'تَرْگ/تَرْک' فارسی میں جنگی آہنی کلاہ کو کہتے ہیں جس کے لیے فارسی اور اردو میں ایک لفظ 'خود' (تلفظ: xôd) بھی موجود ہے۔ نیز، دونوں زبانوں کی فرہنگوں میں اِس چیز کے لیے 'مِغفَر' بھی ملتا ہے۔ مصرعِ اول کا درست ترجمہ یہ ہے: اُس نے جب نزدیک سے رستم کی آہنی کلاہ دیکھی۔۔۔۔

اگرچہ میری نظر میں 'گلِ شنبلید' ایک بالکل درست اردو ترکیب ہے، اور میرے نزدیک یہ چیز سُتُودَنی (قابلِ ستایش) ہے کہ آپ نے فارسی زبان کا، جس کا ہر لفظ مجھے شیریں لگتا ہے، ایک نادر لفظ اردو میں استعمال کیا ہے، لیکن لفظِ شنبلید (تلفظ: شَمْبَلِید) اردو میں رائج نہیں ہے، جس کی بنا پر ایک عام اردو خواں قاری مصرعے کے مفہوم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ لہٰذا یا تو اِس کی جا پر کوئی ایسا لفظ یا عبارت استعمال کرنا چاہیے جو مفہوم کا ابلاغ کر دے، یا پھر قوسین میں یا متن کے زیر میں اِس لفظ کی توضیح کرنا ضروری یے۔ 'شنبلید' ایک گیاہ (پودے) کا نام ہے جس کا گل زرد رنگ کا ہوتا ہے۔ اِس گیاہ کے لیے معاصر ایرانی فارسی میں 'شنبلیله' استعمال ہوتا ہے، جبکہ متداول اردو میں اِسے 'میتھی' پکارتے ہیں۔ شاعر بیتِ اول میں کہہ رہا ہے کہ جب رستم کے عدو نے نزدیک سے اُس کی آہنی کلاہ دیکھی تو ہیبت سے اُس کا چہرہ گلِ شنبلید کی مانند یعنی زرد ہو گیا۔


بیتِ دوم کا ترجمہ آپ نے درست کیا ہے۔
به دل گفت، پیکار با ژَنده‌پیل
چو غوطه‌ست خوردن به دریای نیل
ژَنده‌پِیل
۱. کتابی فیلِ بزرگ، فیلِ کلانِ هیبت‌ناک. ۲. مجازاً پهلوان، دلاور.

[فرهنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی، جلدِ اول، صفحه ۵۱۶]
 
آخری تدوین:
Top