حسان خان
لائبریرین
"اس فقیر کے محدود علم کے مطابق فارسی میں دو مصدر ہیں جو سہ حرفی ہیں: شُدَن (ش د ن) اور زَدَن (ز د ن)۔ بقیہ سب کم از کم چہار حرفی ہیں۔"
[محمد یعقوب آسی]
[محمد یعقوب آسی]
شعر کا ترجمہ: تم آسمان ہو اور تمہارا ہنر عُطارِد ہے، جبکہ تمہارا وہ بے نظیر چہرہ ماہِ آسمان جیسا ہے۔تو آسمانی و هنرِ تو عطارد است
وآن بیقرین لِقای تو چون ماهِ آسمان
(منوچهری)
میر تقی میر نے ایک منقبتی ہفت بند میں 'بے قریں' استعمال کیا ہے:بیقرین
بینزدیک؛ مجازاً بیمانند، بیمثل، بیهمتا.
وارث بھائی بتا چکے ہیں کہ وہ لکھتے وقت اکثر یائے نکرہ و وحدت (متداول پاکستانی رسم الخط میں 'ے') اور یائے مصدری و نسبتی وغیرہ (متداول پاکستانی رسم الخط میں 'ی') میں فرق نہیں کرتے، لیکن جو دوست نہیں جانتے یا جو مبتدیوں کی صنف سے تعلق رکھتے ہیں، اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں مصرعِ ثانی میں 'خار' کے بعد یائے نکرہ نہیں، بلکہ یہاں وہ 'یا' ہے جو '(تو) هستی' کے جانشین کے طور پر الفاظ کے ساتھ پیوستہ کی جاتی ہے اور جس کا اردو میں ترجمہ 'تم ہو' یا 'تو ہے' کیا جاتا ہے۔گُل نسبتے ندارد با روئے دلفریبَت
تو درمیانِ گل ہا چوں گل میانِ خارے
شیخ سعدی شیرازی
پُھول تیرے دلفریب چہرے کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں رکھتا کیونکہ تُو پھولوں کے درمیان ایسے ہی ہے جیسے کہ پھول کانٹوں کے درمیان۔
فارسی میں صفت معمولاً موصوف کے بعد آتی ہے، اور دونوں کے درمیان اضافت ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات شاعری میں، خصوصاً ابتدائی عہد کی شاعری میں، اردو کی طرح موصوف سے قبل صفت کا استعمال بھی نظر آتا ہے جسے 'صفت و موصوفِ مقلوب' کہتے ہیں۔ شاہنامۂ فردوسی میں اِس چیز کا استعمال بارہا ہوا ہے۔(مصرع)
"جز از پاک یزدان نترسم ز کس"
(فردوسی طوسی)
میں خدائے پاک کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔
بَلے، فارسی میں 'شیرِ نر' کی بجائے 'نرّہشیر' کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ شاہنامۂ فردوسی سے اِس کی ایک مثال دیکھیے:اس کی ایک مثال جانوروں کی تذکیر و تانیث میں بھی ہے۔ شیر کی جنسِ تذکیر کو عیاں کرنے کے لئے فارسی میں شیرِ نر بھی کہتے ہیں اور نرہ شیر بھی بہ گفتگو آتا ہے
اِس مصدر کا بنیادی لفظی مفہوم تو 'وزن کرنا' یا 'تولنا' ہے، لیکن اِس کا ایک دیگر معنی 'قیاس کرنا' بھی ہے، اور بیدل کے شعر میں یہ مصدر اِسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اِس شعرِ مزبور کا ترجمہ دیکھیے:مصدر سنجیدن کے کیا معنی ہیں؟
بیدل دہلوی کے اس شعر کی رو سے کیا اس کا مطلب ہم پلہ کرنا ہے
باطنِ این خلقِ کافر کیش با ظاهر مسنج
جمله قرآن در کنارند و صنم در آستین
کتاب "فرهنگِ مصادری" از پرویز صالحی میں تحریر فردوسی کے اس شعر سے اس کا مطلب وزن کرنا(تولنا) لگتا ہے
جوانی هنوز ، این بلندی مجوی
سخن را بسنج و به اندازه گوی
سالُوسگرچہ بر واعظِ شہر ایں سخن آساں نشود
تا ریا ورزد و سالوس مسلماں نشود
حافظ شیرازی
برادر اریب آغا، آپ کو مشق کے لیے شاہنامۂ فردوسی کی ایک بیت دے رہا ہوں۔ اِس کا ترجمہ کیجیے:
سَبُک تیغِ تیز از میان برکشید
برِ پُورِ بیداردل بردرید
ترجمے کے دوران کوئی مسئلہ پیش آئے تو پوچھ لیجیے گا۔
بسیار خوب! آفرین!اس نے میان سے شمشیرِ تیز و سبک نکالی اور اور (اپنے) پسرِ بیداردل کا پہلو چاق کردیا۔
سبک آیا یہاں کم وزن کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے یا کسی اور معنی میں استعمال ہوا ہے؟
گنجور میں یہاں پُور کی جگہ شیر استعمال ہوا ہے۔
برادر اریب آغا، مشق کی لیے شاہنامہ کی اِن ابیات کا ترجمہ کیجیے:
"ز نزدیک چون تَرگِ رُستم بدید
به رُخساره شد چون گُلِ شَنبَلید
به دل گفت، پیکار با ژَندهپیل
چو غوطهست خوردن به دریای نیل"
خوب، برادرم!جب تُرکِ رستم نے قریب سے دیکھا، اس کا رخسار گلِ شنبلید جیسا ہوگیا۔اس نے دل میں کہا کہ فیلِ بزرگ سے جنگ آزما ہونا ایسا ہی ہے جیسے دریائے نیل میں غوطہ زن ہونا۔
ژَندهپِیلبه دل گفت، پیکار با ژَندهپیل
چو غوطهست خوردن به دریای نیل