زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

اگرچہ 'نازم' کا لفظی ترجمہ تو 'میں ناز کروں' یا 'میں ناز کرتا ہوں' ہے، لیکن لغت نامۂ دہخدا کے مطابق، 'نازم!' اور 'بنازم!' کے کلمات 'زہے!'، 'حبّذا' اور 'آفرین!' کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں
نازم آن مشتی که فرقِ زورمندان بشکند
بشکند دستی که بازوی ضعيفان بشکند


یہاں "نازم" ذومعنی ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
نازم آن مشتی که فرقِ زورمندان بشکند
یہاں "نازم" ذومعنی ہے؟
نازم آن مُشتی که مغزِ زورمندان بِشْکند
تُف به آن دستی که دل‌هایِ ضعیفان بِشْکند
(باقی قایل‌زاده)

اُس مُکّے پر آفرین! کہ جو زورمندوں اور طاقتوروں کا سر توڑ دے؛ [جبکہ] اُس دست پر نفرین! کہ جو ضعیفوں کا دل توڑ دے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پاکستانی جامعات میں جس چیز کو 'جلسۂ تقسیمِ اسناد' یا اب 'کانووکیشن' کہتے ہیں اُس کے لیے ایرانی اخبار میں 'جشنِ فارغ‌التحصیلی' نظر آیا ہے، جبکہ یہ معلوم ہوا ہے کہ افغانستان میں اِس کے لیے عموماً 'جشنِ فراغت' مستعمَل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از جان و روان سوختهٔ آلِ رسولم
سوختهٔ چیزی بودن = فریفته، اسیر، عاشق، واله، شیدای او بودن
(لغت‌نامهٔ دهخدا)
ترجمہ:
کسی چیز کا سوختہ ہونا = اُس کا فریفتہ، اسیر، عاشق، والہ، اور شیدا ہونا

و اصحابِ نبی را به دل و دیده خریدار
خریدار = طالب، موافقِ بسیار، مشتاق، علاقه‌مند، خواهنده
(لغت‌نامهٔ دهخدا)


قوامی رازی کے مندرجۂ بالا شعر میں دونوں الفاظ اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔
 
آج اپنے تاجیکستانی استاد سے معلوم ہوا کہ لفظ "گاڑی" کے لئے شمالی تاجیکستان میں تُرکی لفظ "araba" مستعمل ہے جبکہ جنوبی تاجیکستان میں روسی لفظ "мотор " مستعمل ہے۔
افغان گفتاری فارسی میں اغلباََ "موتر" استعمال ہوتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آج اپنے تاجیکستانی استاد سے معلوم ہوا کہ لفظ "گاڑی" کے لئے شمالی تاجیکستان میں تُرکی لفظ "araba" مستعمل ہے جبکہ جنوبی تاجیکستان میں روسی لفظ "мотор " مستعمل ہے۔
افغان گفتاری فارسی میں اغلباََ "موتر" استعمال ہوتا ہے۔
عَرَبَة

عربی میں دو یاچار پہیوں والےچھکڑے کو کہتے ہیں ، جسے گھوڑے یا دوسرے جانور سے چلایا جاتا ہے۔
شاید یہ اسی کی شکل ہے۔

عَرَبَة ( اسم ):​
car ; carriage ; cart ; chariot ; coach ; conveyance ; engine ; locomotive ; means of transport ; trolley ; van ; vehicle ; wagon
 

حسان خان

لائبریرین
لفظ "گاڑی" کے لئے شمالی تاجیکستان میں تُرکی لفظ "araba" مستعمل ہے
یہ لفظ ترکی، عربی اور فارسی میں مشترکہ طور پر استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ترکیہ میں اور، جیسا کہ آپ نے اطلاع دی، شمالی تاجکستان میں یہ موٹری گاڑی کے لیے بھی رائج ہے۔ لیکن اِس لفظ کی اصل کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔

ترکی زبان کی لغت 'قُبّه‌آلتی لغتی' میں اِس لفظ کے ذیل میں یہ درج ہے:
"لفظ کی اصل حتمی طور پر واضح نہیں ہے۔
احتمالاً یہ لفظ ترکی کا ہے جو 'عربه' کے املاء کے ساتھ عربی میں منتقل ہوا ہے اور عثمانی ترکی متون میں یہ لفظ اِس املاء کے ساتھ بھی استعمال ہوا ہے؛ نیز، قفقاز اور بلقان کی زبانوں میں اور روسی میں بھی یہ لفظ داخل ہوا ہے۔"


فارسی فرہنگوں میں 'عربه' اور 'عرابه' بھی مندرج ہیں، لیکن فارسی میں اِس لفظ کے لیے 'ارابه' املاء استعمال ہوتا ہے۔ اِس املاء کے ساتھ یہ لفظ اردو فرہنگوں کا بھی حصہ ہے۔ لفظِ مذکورہ کا فارسی الاصل ہونا بھی بعید نہیں ہے۔

ایک دو جگہوں میں یہ نظر آیا ہے کہ یہ لفظ ایک عربی الاصل لفظ 'عرّادہ' کی مُحرّف ترکی شکل ہے، جو اپنی معنائی تبدیلی کے ساتھ بعد میں عربی، فارسی اور اردو زبانوں کا بھی حصّہ بن گیا۔

دستی گاڑی کے معنی میں لفظِ 'ارابه' تاجک معیاری فارسی میں بھی رائج ہے۔ جبکہ موٹری گاڑی کے لیے ایرانی فارسی کی طرح 'ماشین' مستعمَل ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی سے اردو میں ترجمے کے دوران یہ لغزش عام دیکھنے میں آتی ہے کہ مترجمین صوتی مماثلت کے باعث اکثر جگہوں پر 'تویی' کا ترجمہ 'تو ہی ہے' یا 'تم ہی ہو' کرتے ہیں۔ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ فارسی میں 'تویی' کا مفہوم 'تو هستی' یا 'تم ہو' ہے، 'تم ہی ہو' نہیں۔ 'ہی' کا مفہوم فارسی میں 'فقط' یا 'تنها' وغیرہ سے آتا ہے۔

"تو را چنان که تویی هر نظر کجا بیند"
ترجمہ: تم کو، جس طرح تم ہو، ہر نظر کہاں دیکھ سکتی ہے؟

"تویی خورشید و ما پیشت چو ذرّه"
ترجمہ: تم خورشید ہو اور ہم تمہارے پیش ذرّے کی مانند۔۔۔

"شمسِ تبریزی تویی سلطانِ سلطانانِ جان"
ترجمہ: اے شمسِ تبریزی! تم سلطانِ سلطانانِ جاں ہو۔۔۔


بیا بیا که حیات و نجاتِ خلق تویی
بیا بیا که تو چشم و چراغِ یعقوبی

ترجمہ: آ جاؤ، آ جاؤ، کہ خَلق کی حیات و نجات تم ہو۔۔۔ آ جاؤ، آ جاؤ، کہ تم چشم و چراغِ یعقوب ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از شَکَرانگورِ سمرقندیان
سیبِ زنخدانِ تو شیرین‌تر است
(کمال خُجندی)
سمرقندیوں کے انگورِ شیریں سے تمہارا سیبِ زنخدان شیریں تر ہے۔
× زَنَخدان = ٹھوڑی
شَکَراَنگُور = انگورِ سفیدرنگِ لوندهٔ دانک‌دار (سفید، گول اور بیج دار انگور)
[فرهنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی]

یہ نادر لفظ ایرانی فرہنگوں میں کہیں نظر نہ آیا، بلکہ ماوراءالنہر کی دونوں زبانوں تاجک فارسی اور ازبکی ترکی کی فرہنگوں ہی میں نظر آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماوراءالنہر کا ایک علاقائی لفظ ہے۔

مولانا رومی کی ایک غزل میں یہ لفظ ایک بار استعمال ہوا ہے:
"بفشاریم شیره از شکرانگورِ باغِ تو"
مولانا رومی کے خانوادے کا شہرِ سمرقند سے بھی تعلق رہا تھا، اور میں نے ایک مضمون میں خوانا (پڑھا) ہے کہ رومی کی شاعری میں کئی مقامی سمرقندی الفاظ موجود ہیں۔

تاجکستانی شاعر نورمحمد نیازی کی ایک دوبیتی میں بھی یہ لفظ نظر آیا ہے:
"شکرانگورِ باغِ ما ندارد
همان شهدی، که دارد دو لبِ یار"


پس نوشت: انگور کی یہ نوع ماوراءالنہر ہی میں پائی جاتی ہو گی، جبھی بیرونِ ماوراءالنہر یہ لفظ رائج نہیں ہے۔
شَکَراَنگُور = انگورِ سفیدرنگِ لوندهٔ دانک‌دار
'لونده' (گول، گِرد، مُدوّر) اور 'دانک' (سخت بیج) بھی ماوراءالنہر میں استعمال ہونے والے مقامی الفاظ ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نبود يارم از شرمِ دوستان گريان
نکرد يارم از بيمِ دشمنان شيون
(مسعود سعد سلمان لاهوری)
مجھے دوستوں کی شرم کے باعث گریاں ہونے کا یارا نہیں ہے؛ مجھے دشمنوں کے خوف کے باعث نالہ کرنے کا یارا نہیں ہے۔

نبود یارم = نیارم بود
یارستن = یارا ہونا، توانائی ہونا، کر سکنا، توانستن
نیارم = میں نہ کر سکوں، مجھے یارا نہیں ہے، نتوانم
بود = یہاں مصدرِ مُرخّم استعمال ہوا ہے
نیارم بود = مجھے ہونے کا یارا نہیں ہے، میں ہو نہیں سکتا
نبود یارم... گریان = نیارم گریان بود = میں گریاں نہیں ہو سکتا؛ مجھے گریاں ہونے کا یارا نہیں ہے

نکرد یارم = نیارم کرد
یارستن = یارا ہونا، توانائی ہونا، کر سکنا، توانستن
نیارم = میں نہ کر سکوں، مجھے یارا نہیں ہے، نتوانم
کرد = یہاں مصدرِ مُرخّم استعمال ہوا ہے
نیارم کرد = مجھے کرنے کا یارا نہیں ہے، میں کر نہیں سکتا
نکرد یارم... شیون = نیارم شیون کرد = میں شیون نہیں کر سکتا، مجھے شیون کرنے کا یارا نہیں ہے


[با استناد از: گزیدهٔ اشعار مسعود سعد: با شرح لغات و ترکیبات]

پس نوشت: 'نبود یارم...' اور 'نکرد یارم...' کو 'نه بود یارم...' اور 'نه کرد یارم...' بھی خوانا جا سکتا ہے، جس صورت میں شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہو گا:
نہ میں دوستوں کی شرم کے باعث گریاں ہو پاؤں؛ نہ میں دشمنوں کے خوف کے باعث نالہ کر سکوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر اریب آغا، مشق کے برائے ناصر خسرو کے ایک قصیدے کی اِن ابیات کا اردو میں مفہوم بیان کیجیے:
پسنده‌ست با زهدِ عمّار و بوذر

کند مدحِ محمود مر عنصری را؟
من آنم که در پایِ خوکان نریزم
مر این قیمتی دُرِّ لفظِ دری را
(ناصر خسرو)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی، سعدی شیرازی کی ایک غزل کی اِن ابیات کا اردو میں ترجمہ کیجیے:
چشمِ گریانِ مرا حال بگفتم به طبیب

گفت یک بار ببوس آن دهنِ خندان را
گفتم آیا که در این درد بخواهم مردن
که مُحال است که حاصل کنم این درمان را
(سعدی شیرازی)
 
آخری تدوین:
برادر محمد ریحان قریشی، سعدی شیرازی کی ایک غزل کی اِن ابیات کا اردو میں ترجمہ کیجیے:
چشمِ گریان مرا حال بگفتم به طبیب

گفت یک بار ببوس آن دهنِ خندان را
گفتم آیا که در این درد بخواهم مردن
که مُحال است که حاصل کنم این درمان را
(سعدی شیرازی)
میری چشمِ گریان نے میرا حال طبیب کو سنایا۔ اس نے کہا کہ ایک بار اس ہنستے چہرے کا بوسہ لے۔
میں نے کہا کہ کیا مجھے اس درد میں مرنے کی خواہش کرنی چاہیے؟
کہ اس درمان کا حاصل کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔
 
پسنده‌ست با زهدِ عمّار و بوذر
کند مدحِ محمود مر عنصری را؟
من آنم که در پایِ خوکان نریزم
مر این قیمتی دُرِّ لفظِ دری را
(ناصر خسرو)

ایک ویب سائٹ پر اس شعر کے پسِ منظر میں لکھا ہوا تھا کہ ناصرخسرو کسی بھی بادشاہ و جاناں کے لئے قصیدہ خوانی اور غزل سرائی کو پسند نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ایسے شعر کو پسند کرتے تھے جو شُنوَندہ (سننے والا) کو سوچنے کی ترغیب دے۔ اب اس پسِ منظر کو رکھتے ہوئے پہلے شعر کا کچھ ایسا ترجمہ لگ رہا ہے:۔
(نظم) حضرت ابوذر اور حضرت عمار کے زہد کے ساتھ مقبول ہے۔کیا عنصری مخصوصاََ محمودِ غزنوی کی مدح کرتا ہے؟

دوسرے شعر کا ترجمہ یوں ہے:۔
میں وہ ہوں جو خنزیر کے پاؤں میں لفظِ فارسی کا قیمتی گوہر نہیں رکھتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
میری چشمِ گریان نے میرا حال طبیب کو سنایا۔ اس نے کہا کہ ایک بار اس ہنستے چہرے کا بوسہ لے۔
میں نے کہا کہ کیا مجھے اس درد میں مرنے کی خواہش کرنی چاہیے؟
کہ اس درمان کا حاصل کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔
خوب!

میں 'گریان' اور 'مرا' کے درمیان زیرِ اضافت ڈالنا بھول گیا تھا۔ اُس مصرعے کا ترجمہ یہ ہو گا: میں نے اپنی چشمِ گریاں کا حال طبیب کو بتایا۔۔۔
'چشمِ گریانِ مرا حال' = حالِ چشمِ من = میری چشمِ گریاں کا حال۔
یہاں رائے اضافت کا استعمال ہوا ہے۔

بخواهم مردن = خواھم مرد = میں مر جاؤں گا
مصرعِ ثالث کا ترجمہ یہ ہونا چاہیے: میں نے کہا کہ کیا میں اِس درد میں مر جاؤں گا؟
یہاں مستقبل کے لیے کام میں لائے جانے والے کُمَکی فعل 'خواهم' کے ساتھ مصدرِ تامّ استعمال ہوا ہے، ورنہ عموماً مصدرِ مُرخّم استعمال ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک ویب سائٹ پر اس شعر کے پسِ منظر میں لکھا ہوا تھا کہ ناصرخسرو کسی بھی بادشاہ و جاناں کے لئے قصیدہ خوانی اور غزل سرائی کو پسند نہیں کرتے تھے
ناصر خسرو نے اپنے قصیدوں میں فاطمی خلیفہ مستنصر کی ستائش کی ہے۔ یہ درست ہے کہ مستنصر اسماعیلیوں کے امام بھی تھے، لیکن اُنہیں پادشاہوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ :)
ہاں، انہوں نے عبّاسیوں اور اُن کے ماتحت امیروں یعنی غزنویوں اور سلجوقیوں کو شدید اللحن تنقید کا نشانہ بنایا ہے، کیونکہ وہ فاطمیوں اور اسماعیلیوں کے دشمن تھے۔

پہلے شعر کا کچھ ایسا ترجمہ لگ رہا ہے:۔
(نظم) حضرت ابوذر اور حضرت عمار کے زہد کے ساتھ مقبول ہے۔کیا عنصری مخصوصاََ محمودِ غزنوی کی مدح کرتا ہے؟

دوسرے شعر کا ترجمہ یوں ہے:۔
میں وہ ہوں جو خنزیر کے پاؤں میں لفظِ فارسی کا قیمتی گوہر نہیں رکھتا۔
بیتِ اول میں تعقید لفظی ہے۔ یعنی بیت میں کلمات خلافِ ترتیبِ طبیعی آئے ہیں۔
بیت کی نثر یہ ہو گی: مر عنصری را پسنده است با زهدِ عمّار و بوذر مدحِ محمود كند؟
بیت میں استفہامِ انکاری استعمال ہوا ہے، لیکن کلمۂ استفہام 'آیا' محذوف ہے۔
بیتِ اول کا ترجمہ یہ ہو گا: کیا عنصری کو زیب دیتا ہے (یا کیا عنصری کے لیے سزاور ہے) کہ وہ عمّار اور ابوذر کے زہد و تقویٰ کی موجودگی میں محمود غزنوی کی مدح کرے؟

دوسری بیت کا ترجمہ درست ہے۔
میں نے بیتِ ہٰذا کا ترجمہ یہ کیا ہے:
میں وہ ہوں کہ میں خنزیروں کے پاؤں میں سخنِ فارسی کے اِس قیمتی گوہر کو افشاں نہیں کرتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی، بیدل دہلوی کے مندرجۂ ذیل شعر کا ترجمہ کیجیے:
کسی به فهم‌ِ کمالم دگر چه پردازد

ز فرق تا به قدم عیبم این هنر دارم
(بیدل دهلوی)

برادر اریب آغا، بیدل دہلوی کے مندرجۂ ذیل شعر کا ترجمہ کیجیے:
دعویِ مردانِ این عصر انفعالی بیش نیست

شیر می‌غُرّند و چون وامی‌رسی بُزغاله‌اند
(بیدل دهلوی)
 
برادر محمد ریحان قریشی، بیدل دہلوی کے مندرجۂ ذیل شعر کا ترجمہ کیجیے:
کسی به فهم‌ِ کمالم دگر چه پردازد

ز فرق تا به قدم عیبم این هنر دارم
(بیدل دهلوی)
کوئی میرے کمال کے فہم میں اور کیا وضاحت کرتا ہے؟
میں سر سے پاؤں تک عیب ہوں یہ ہنر رکھتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
کوئی میرے کمال کے فہم میں اور کیا وضاحت کرتا ہے؟
میں سر سے پاؤں تک عیب ہوں یہ ہنر رکھتا ہوں۔
خوب!

به چیزی پرداختن = کسی چیز میں مشغول ہونا، کسی چیز پر توجہ کرنا، کسی چیز کی جانب التفات کرنا

مصرعِ اول کا درست مفہوم:
کوئی شخص میرے کمال کو فہم کرنے پر اب کیا توجہ کرے؟
 
آخری تدوین:
بیدل دہلوی کے مندرجۂ ذیل شعر کا ترجمہ کیجیے:
دعویِ مردانِ این عصر انفعالی بیش نیست

شیر می‌غُرّند و چون وامی‌رسی بُزغاله‌اند
(بیدل دهلوی)
[/


اس زمانے کے مردوں کا دعویٰ پشیمانی سے زیادہ نہیں ہے۔شیر غراتے ہیں اور جب تو آگاہ ہوتا ہے تو (معلوم ہوتا ہے) وہ بزغالہ (یعنے بکرے کے بچے ہوتے) ہیں
 
Top