زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
ایرانی فارسی اور افغان فارسی میں ایک دلچسپ فرق یہ ہے کہ اگرچہ ہر دو لہجوں میں 'بِسیار' اور 'خیلی' الفاظ موجود ہیں اور تحریر و تقریر میں میں دونوں کا استعمال نظر آ جاتا ہے، لیکن ایرانی گُفتاری فارسی (یا اگر دقیقاً کہا جائے تو تہرانی گفتاری فارسی) میں 'بسیار' تقریباً کبھی بھی استعمال نہیں ہوتا، بلکہ اُس کی بجائے ہمیشہ 'خیلی' کو کام میں لایا جاتا ہے۔ ایران میں 'بسیار' کا استعمال صرف نَوِشتاری زبان میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف، افغان گُفتاری فارسی میں معمولاً 'بسیار' کو استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ 'خیلی' کو وہاں کتابی تصوّر کیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی، میں آپ کو کمال خُجندی کی ایک بیت روسی خط میں دے رہا ہوں۔ آپ اِسے فارسی خط میں لکھیے اور اِس کا ترجمہ کیجیے:
Чӣ суд, ар ҳамраҳам шуд Хизр сӯи чашмаи ҳайвон?
Маро ҳамроҳии он сарви хушрафтор боистӣ.
 
برادر محمد ریحان قریشی، میں آپ کو کمال خُجندی کی ایک بیت روسی خط میں دے رہا ہوں۔ آپ اِسے فارسی خط میں لکھیے اور اِس کا ترجمہ کیجیے:
Чӣ суд, ар ҳамраҳам шуд Хизр сӯи чашмаи ҳайвон?
Маро ҳамроҳии он сарви хушрафтор боистӣ.
چہ سود ار ہمرہم شد خضر سوی چشمہء حیواں
مرا ہمراہیء آں سروِ خوش رفتار بایستی

چشمہء حیواں کے سفر میں اگر میرا ہمراہ خضر ہوا تو کیا فائدہ؟
مجھے اس خوش رفتار سرو کی ہمراہی چاہیے۔
 
چہ سود ار ہمرہم شد خضر سوی چشمہء حیواں
مرا ہمراہیء آں سروِ خوش رفتار بایستی

چشمہء حیواں کے سفر میں اگر میرا ہمراہ خضر ہوا تو کیا فائدہ؟
مجھے اس خوش رفتار سرو کی ہمراہی چاہیے۔
اضافت کی صورت میں حرف и کو زیر تلفظ کیا جاتا ہے۔۔۔مذکورہ بالا شعر میں сӯи کو "سوئے" خوانا جائے گا۔

برادرم حسان خان ، کیا یہ لفظ بایستے نہیں ہونا چاہیے بجائے بایستی یعنے боистӣ کے بجائے боистe ہونا چاہیے؟
 

حسان خان

لائبریرین
چہ سود ار ہمرہم شد خضر سوی چشمہء حیواں
مرا ہمراہیء آں سروِ خوش رفتار بایستی

چشمہء حیواں کے سفر میں اگر میرا ہمراہ خضر ہوا تو کیا فائدہ؟
مجھے اس خوش رفتار سرو کی ہمراہی چاہیے۔
بسیار خوب! آفرین بر شما! :)
'بایستی'، 'می‌بایست' کا ہم معنی ہے اور یہ زمانۂ ماضی میں اِستِمراری ( = جاری رہنے والا) التزام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی مصرعِ ثانی کا لفظی ترجمہ یہ بن رہا ہے:
مجھے اس خوش رفتار سرو کی ہمراہی چاہیے تھی (یا لازم تھی)۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اضافت کی صورت میں حرف и کو زیر تلفظ کیا جاتا ہے۔۔۔مذکورہ بالا شعر میں сӯи کو "سوئے" خوانا جائے گا۔
اِس لفظ کا معیاری فارسی املا 'سوی' ہی ہے۔ نیز، ماوراءالنہری فارسی میں اِس کا تلفظ 'söi' کیا جاتا ہے۔
برادرم حسان خان ، کیا یہ لفظ بایستے نہیں ہونا چاہیے بجائے بایستی یعنے боистӣ کے بجائے боистe ہونا چاہیے؟
ایرانی فارسی کی طرح ماوراءالنہری فارسی میں بھی عموماً 'بایستی' کو یائے معروف یا ӣ کے ساتھ لکھا اور تلفظ کیا جاتا ہے۔
یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ معاصر فارسی میں 'بایستی' یا 'می‌بایست' کی بجائے بالعموم 'باید' ہی استعمال ہوتا ہے۔
 
در تفکر براى حل یک مسئله ریاضى، یک رشته معلومات ریاضى را باید استخدام نمود که بالاخره به عملیات فن مربوط منتهى شود
سیاق و سباق سے مجھے محاورہ "استخدام نمودن" کا مطلب استفادہ کرنا نظر آتا ہے۔ برادرم حسان خان سے درخواست کرتا ہوں کہ راہنمائی فرمائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
در تفکر براى حل یک مسئله ریاضى، یک رشته معلومات ریاضى را باید استخدام نمود که بالاخره به عملیات فن مربوط منتهى شود
سیاق و سباق سے مجھے محاورہ "استخدام نمودن" کا مطلب استفادہ کرنا نظر آتا ہے۔ برادرم حسان خان سے درخواست کرتا ہوں کہ راہنمائی فرمائیں۔
جی، 'استخدام نمودن' کا یہاں معنی استفادہ کرنا یا استعمال میں لانا ہی ہے۔ بنیادی طور پر 'استخدام' کسی کی خدمات لینے یا تنخواہ کے عوض ملازم رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اصلاً اِس کا لفظی مفہوم'خدمت چاہنا' ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کیا قرار دادن اور قرار داشتن ہردو کا ایک ہی مطلب ہے؟
نہیں، اِن دونوں مرکّب مصدروں کے معانی میں فرق ہے۔

'قرار دادن' رکھنے یا برقرار کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
آینه را رویِ طاقچه قرار داد.
اُس نے آئینے کو طاقچے پر رکھ دیا۔
یک لیوان رویِ میز قرار بده۔
میز پر ایک لِیوان (مگ) رکھ دو۔

بہ علاوہ، فرہنگِ روزِ سخن میں اِس کا ایک معنی 'مقرّر کردن' بھی نظر آیا ہے:
‌برابری‌طلبی و عدالت‌خواهی را سرلوحهٔ کارِ خویش قرار دادند.
اُنہوں نے برابری طلبی و عدالت خواہی کو اپنے کام کا سرمشق مقرّر کیا۔

دوسری جانب، 'قرار داشتن' کے یہ معانی ہیں:

کسی چیز کا کہیں موجود ہونا، پڑا ہوا ہونا، یا واقع ہونا
گلدان بر رویِ میز قرار دار۔
گلدان میز پر موجود ہے/پڑا ہوا ہے۔
یک کلبهٔ قدیمی پشتِ تپّه قرار دارد.
تپّے (پہاڑی) کی پُشت پر ایک قدیم کُلبہ موجود ہے۔

آرامش و آسائش رکھنا
کودکِ بیمار در آغوشِ مادرش قرار نداشت۔
بیمار بچّے کو اپنی مادر کی آغوش میں آرام نہ تھا۔

(گفتاری) وعدۂ ملاقات رکھنا، وعدۂ دیدار رکھنا
من ساعتِ ۱۰ قرار دارم۔ لطف کنید جلسه را یک ساعت دیرتر برگزار کنید۔
میں دس بجے کسی سے وعدۂ ملاقات رکھتا ہوں۔ لطفاً جلسے کو ایک ساعت دیر سے منعقد کیجیے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں اردو والے شادی کے لیے 'عروسی' اور 'جشنِ عروسی' استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن وسطی ایشیائی فارسی میں 'توی' اور تویِ عروسی' بھی مستعمل ہیں۔ توی (toy) ترکی لفظ ہے جس کا معنی بھی جشن ہے۔
ماوراءالنہری فارسی میں مستعمَل یہ لفظ کل مجھے دیوانِ اردوئے غالب کے ایک قطعۂ تاریخ میں بھی نظر آیا:
خُجستہ انجمنِ طُوئے میرزا جعفر
کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ
ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالب
نہ کیوں ہو مادۂ سالِ عیسوی "محظوظ"
× محظوظ = ۱۸۵۴ء


تُرکی زبان کے کئی الفاظ 'ط' اور 'ت' دونوں سے لکھے جاتے رہے ہیں۔
لغت نامۂ دہخدا کے مطابق ترکی الاصل لفظ 'طوی/طو' ایران میں لکھے جانے والے قدیم فارسی متون اور مولانا رومی کی شاعری میں بھی استعمال ہو چکا ہے۔
معنی طوی | لغت‌نامه دهخدا
معنی طو | لغت‌نامه دهخدا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اردو کے معروف ترین شاعر مرزا اسداللہ خان غالب نے اپنے ایک اردو قصیدے میں اپنے ممدوح بہادر شاہ ظفر کا تقابل شاہنامۂ فردوسی کے کرداروں اور پہلوانوں سے کیا ہے:
"وارثِ مُلک جانتے ہیں تجھے
اِیرج و تُور و خسرو و بہرام

زورِ بازو میں مانتے ہیں تجھے
گِیو و گُودرْز و بِیژن و رُہّام"
اِسی قصیدے کی ایک بیت میں میرزا غالب نے شاہنامۂ فردوسی کے تین دیگر کرداروں جمشید، رُستم اور سام کا ذکر بھی کیا ہے:
بزم میں میزبانِ قیصر و جم
رزم میں اوستادِ رُستم و سام

شاہنامۂ فردوسی کے مطابق 'سام' رُستم کا دادا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی، خاقانی شروانی کی اِن ابیات کا ترجمہ کیجیے:
به ره چو پیشِ تو آیم، تو را سلام کنم

به سرد پاسخ گویی علیک و برگردی
بسوختی تر و خشکِ مرا به پاسخِ سرد
که دید هرگز سوزنده‌ای به این سردی؟
(خاقانی شروانی)
 
برادر محمد ریحان قریشی، خاقانی شروانی کی اِن ابیات کا ترجمہ کیجیے:
به ره چو پیشِ تو آیم، تو را سلام کنم

به سرد پاسخ گویی علیک و برگردی
بسوختی تر و خشکِ مرا به پاسخِ سرد
که دید هرگز سوزنده‌ای به این سردی؟
(خاقانی شروانی)
راہ میں چلتے ہوئے جب میں تیرے سامنے آؤں تو تجھے سلام کرتا ہوں۔ تو سرد جواب میں علیک کہتا ہے اور مجھ سے رخ پھیر لیتا ہے۔
میرا خشک و تر(سراپا) سرد جواب سے تو نے جلا دیا ہے۔ کس نے دیکھا کہ تو نے ہر صورت اس سردی سے (مجھے) جلایا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
راہ میں چلتے ہوئے جب میں تیرے سامنے آؤں تو تجھے سلام کرتا ہوں۔ تو سرد جواب میں علیک کہتا ہے اور مجھ سے رخ پھیر لیتا ہے۔
میرا خشک و تر(سراپا) سرد جواب سے تو نے جلا دیا ہے۔ کس نے دیکھا کہ تو نے ہر صورت اس سردی سے (مجھے) جلایا ہے؟
'به سرد' یعنی سرد مِہری و بے اعتنائی سے۔
'سوزنده' اسمِ فاعل ہے یعنی جلانے والا۔
'ھرگز' سوالیہ مصرعے میں 'کسی بھی وقت' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی کب کسی نے ایسا جلانے والا دیکھا؟
'به این سردی' = اِس سردی سے، اِس سردی کے ساتھ، اِس سردی کے ذریعے
'سردی' یہاں پر 'گرمی' کے متضاد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

اِس قطعے کا میں نے یوں ترجمہ کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میر جایی که به نِیرانِ محبت می‌سوخت
صبح دیدیم به جا مانده کفِ خاک آنجا
(میر تقی میر)
'میر' جس جا پر محبت کی آتشوں سے جل رہا تھا، وہاں ہم نے صبح دیکھا کہ [صرف] کفِ خاک باقی رہا ہے۔
میر تقی میر کے مندرجۂ بالا فارسی شعر میں استعمال ہوا عربی الاصل لفظ 'نِیران'، 'نار' (آتش) کی جمع ہے۔ یہ جمعِ شکستہ 'فِعْلان' کے وزن پر ہے، اور عربی زبان میں کئی الفاظ کی جمع اِسی وزن پر بنائی جاتی ہے۔ مثلاً
غَزال > غِزْلان
فتیٰ (جوان) > فِتْیان
جار (ہمسایہ) > جِیران
تاج > تِیجان
حائط (دیوار) > حِیطان
صبی (کُودک، طفل) > صِبْیان
ادبیاتِ فارسی کے طَلَبہ کو اِس وزنِ جمع کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کیونکہ قدیم فارسی متون میں تمام فوق الذکر عربی الفاظ، اور اِس جیسے دیگر الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
جی ہاں عربی زبان میں یہ جموع کا ایک عام وزن ہے۔ (عموما عربی میں ان جموع کو تکسیر یا مکسر کہا جاتا ہے)۔ اردو اور فارسی میں یہ یقینا مقبول ہونی چاہیئے۔اور اردو فارسی کے طلبہ کو یقینا آگاہ ہو نا چاہیئے۔
فار(چوہا)۔ فئران ۔۔۔غلام (لڑکا)۔غلمان۔۔۔ غراب (کوا) غربان۔۔۔حوت (مچھلی) حیتان ۔۔۔ باب (در) بیبان ۔۔۔جدار(دیوار)۔جدران۔۔۔خروف (بھیڑ) خرفان۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ ایک اردو جمع خود طلبہ (جمع طالب) بھی ہے(لام مفتوحہ) جو اردو میں موجود اور مستعمل ہے (طُلاب کے ساتھ )لیکن خود طلبہ میں مقبول نہیں ۔ اس کی ایک مثال عملہ ( جمع عامل)بھی ہے (عُمال کے ساتھ )۔(لیکن اردو بولنے والوں کے عام تلفظ میں کے میم ساکن کے ساتھ ڈھل گئی ہے۔)۔
قرآن مجید میں کافر و فاجر کی جمع کفرۃ اور فجرۃ بھی اسی طرح استعمال ہوئی ہے۔(اؤلئک ھم الکفرۃ الفجرۃ)۔
 
محمد علی جمال زادہ کے افسانے مرکبِ محو سے ایک اقتباس نقل کررہا ہوں۔ان میں سرخ کردہ الفاظ کے معانی تحریر کردیں لطفاََ:

ندای مستطاب رسید که «سخن کوتاه، مختصر و مفید بگویید، ببینم اعمالِ خوب و بدِ او کدام بر دیگری میچربد»-با صدایی که از زورِ احترام در تنبوشهِ حلقومشان مانند آب گره خورده میلرزید، گفتند الهی، با ذره و مثقالِ همه را در ترازوی حساب کشیدیم و جمله را چنانکه موبلای درزش نمیرفت سنجیدیم، تقریباََ مساوی و یکسان بود
ندا رسید«پس این بآن در-قانونِ کلیِ خلقت هم بر همین رویه و منوالست-نه خوبی ببدی میچربد و نه بدی بخوبی بلکه مانندِ دو جویبار ابدی در موازاتِ یکدیگر روانند-پس این آدم را بحالِ خود بگذارید تا در قلزمِ بیکرانِ عدم محو و نابود گردد»
دو ملکِ ثواب و عقاب بیم زده و نفس زنان همانجا ایستاده، عرق از چک و چاکِ شان روان بود و بالهای خود را برسمِ عجز و انکساری بهم میمالیدند چنانکه از آن صدایی بگوش میرسید که صدای بهم ساییدن ساقهای اره مانندِ ملخ را بخاطر میآورد-
 
کلاسیکی فارسی میں دعائیہ کلمات میں فعلِ مضارع کے آخری حرف سے ماقبل الف کا اضافہ کیا جاتا ہے۔۔جیسے خدا اسے روزی دے کو "خدا او را روزی رساناد"۔ بہ ہمیں طور، خدا اسے کامیاب کرے کو "خدا اُو را کامیاب کناد" مستعل ہے۔ کیا یہ فعلِ دعا بھی متروک ہوچکا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
(عموما عربی میں ان جموع کو تکسیر یا مکسر کہا جاتا ہے)۔
فارسی میں اِن جموع کو 'جمعِ مُکَسَّر' اور 'جمعِ شکستہ' دونوں کہا جاتا ہے۔
بہشتی خدمت گارو‌ں کے معنی میں 'غِلْمان' معاصر اردو میں بھی مستعمَل ہے۔
 
Top