مرزا غالب کا شعر ہے. ویسے پارسی وکی تو دشمنی و خصومت کردن کے معنی دے رہی ہے.
شعر مکمل ایسے ہے
در ہر مژہ برہم زدن ایں خلق جدید است
نظارہ سگالد کہ ہماں است ہماں نیست
جی، لغت ناموں کے مطابق اِس مصدر کا ایک معنی دشمنی کرنا بھی ہے، لیکن یہ اِس کا ثانوی و نادر مفہوم ہے، اور اِس ذکر شدہ شعر میں یہ مفہوم مراد نہیں ہے۔
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے اِس شعر کی یوں تشریح کی ہے:
در هر مژه برهم زدن این خلق جدید است
نظاره سگالد که همان است و همان نیست
ہر بار آنکھ کے جھپکنے میں یہ کائنات نئی ہوتی ہے۔ ہماری نظریں سمجھتی ہیں کہ یہ کائنات وہی ہے لیکن وہی نہیں ہوتی۔
اس شعر میں مرزا غالب نے ایک نہایت ہی دقیق نفسیاتی نکتہ بیان کیا ہے۔ انسان اپنے ادنیٰ سے ادنیٰ مشاہدے اور تجربے سے بدلتا رہتا ہے اور اس بدلنے پر جب وہ کائنات کو دیکھتا ہے تو وہ بظاہر وہی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں وہ نہیں ہوتی۔
ایک معمولی سی مثال سے قیاس کر لیجیے۔ فرض کیا ہم نے ایک چیز کو پہلی دفعہ دیکھا، اس کے بعد ہم نے آنکھ جھپکائی اور پھر اُس پر نظر پڑی۔ اب کے وہ چیز وہ نہیں ہے جو ایک لحظہ پہلے ہم نے دیکھی۔ اب کے اس کے ادراک میں یہ تجربہ بھی شامل ہو گیا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جسے ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اسی طرح وہ ہر بار دیکھنے پر بدلتی چلی جائے گی۔ پھر کائنات خود بھی تغیر پذیر ہے اگرچہ وہ تغیر نمایاں طور پر نظر نہیں آتا۔