زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
فارسی نثر کی comprehension کیسے بہتر بنائی جا سکتی ہے؟ شعر سے تو اب کچه نہ کچه مطلب نکال ہی لیتے ہیں.
فارسی نثر کا ادراک بہتر کرنے کے لیے آپ روزانہ فارسی نثر خوانی کی مشق کا آغاز کر دیجیے۔ ہر روز کچھ پڑھنے کی کوشش کیجیے، خواہ وہ ایک سطر ہی کیوں نہ ہو۔ پھر جو الفاظ نئے نظر آئیں اُن کے لیے لغت ناموں کی طرف رجوع کیجیے اور اگر کہیں کوئی مسئلہ ہو تو وہ پوچھ لیجیے۔
فارسی کے دستورِ زبان کا مطالعہ بھی جاری رکھیے کیونکہ فارسی قواعد اور اس کی باریکیوں سے واقفیت فارسی کے خوب ادراک کے لیے ضروری ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
افغان گفتاری فارسی میں گُرِسنہ کو گُشنہ کہا جاتا ہے۔
'گُشنه' تہرانی گفتاری فارسی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تہرانی گفتاری فارسی میں اگر کہنا ہو کہ 'مجھے بھوک لگی ہے' یا 'مجھے پیاس لگی ہے' تو بالترتیب 'گُشنمه' اور 'تِشنمه' استعمال ہوتا ہے۔ 'گُشنمه' اور 'تِشنمه' در اصل 'گُشنه‌ام است' اور 'تِشنه‌ام است' کی مخفف گفتاری شکلیں ہیں اور اِن کا وہاں تلفظ 'goshname' اور 'teshname' ہے۔

مثالیں:
"منم تِشنمه. بیا بریم دنبالِِ یه چشمه بگردیم."

مجھے بھی پیاس لگی ہے۔ آؤ چلیں ایک چشمہ ڈھونڈیں۔

"من گُشنمه، خوراکی خوش‌مزه می‌خوام. من سردمه، از تُو اتاق برام پَتُو بیار."

مجھے بھوک لگی ہے، مجھے کوئی خوش مزہ خوراک چاہیے۔ مجھے سردی لگی ہے، کمرے میں سے میرے لیے لحاف لے آؤ۔

لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'گُشنه' ادبی فارسی میں بھی استعمال ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:
پزمان شدن
تاجیکی فارسی میں مستعمل اس محاورے کا مطلب ہے "(کسی کو) یاد کرنا"۔

шумо-ро хеле пазмон шудам

شما را خیلے پزمان شدم۔
میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔


(ӯ рафиқон-аш-ро пазмон шуда буд)
اُو رفیقانش را پزمان شدہ بود۔
اس نے اپنے دوستوں کو یاد کیا۔

онҳо пазмон-и ватан шуда буданд
آن ھا پزمانِ وطن شدہ بودند۔
وہ لوگ وطن کو یاد کررہے تھے۔

ماخذ:

A Tajik Persian Reference Grammar by John R. Perry
 

حسان خان

لائبریرین
پزمان شدن
تاجیکی فارسی میں مستعمل اس محاورے کا مطلب ہے "(کسی کو) یاد کرنا"۔

шумо-ро хеле пазмон шудам

شما را خیلے پزمان شدم۔
میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔


(ӯ рафиқон-аш-ро пазмон шуда буд)
اُو رفیقانش را پزمان شدہ بود۔
اس نے اپنے دوستوں کو یاد کیا۔

онҳо пазмон-и ватан шуда буданд
آن ھا پزمانِ وطن شدہ بودند۔
وہ لوگ وطن کو یاد کررہے تھے۔

ماخذ:

A Tajik Persian Reference Grammar by John R. Perry

اِس ماوراءالنہری فارسی محاورے کے استعمال کی چند ادبی مثالیں:

کجایی و کجایی، عشقِ اول؟
مرا پزمانِ خود کردی، دریغا!

دگر چون نوبهارِ نوجوانی
به سویم برنمی‌گردی، دریغا!
(زیبای ختلانی)


شدم پزمانِ آبِ چشمه‌ساران،
روم، در کوه‌ساران خانه سازم.
شوم یک لحظه بی‌قید و سَبُک‌روح،
به خود یک عالَمِ افسانه سازم.
(لایق شیرعلی)


"ما بسیار پزمانِ شنیدنِ آوازِ تو شده‌ایم، از تو می‌خواهیم بامدادان برای ما اذان بگوی."

یہ محاورہ کسی چیز کا منتظر ہونے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
"پزمانِ جوابِ شما می‌باشم."

ایران میں یہ محاورہ بالکل استعمال نہیں ہوتا اور شاید عام ایرانی مردم اس کا مفہوم بھی نہ سمجھ پائیں۔ افغانستان میں بھی اس محاورے کے استعمال کے شواہد نہیں ملے۔

کہنہ ادبی فارسی میں مغموم و غمگین کے معنی میں لفظِ 'پژمان' کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ مذکورۂ بالا ماوراءالنہری فارسی لفظ اسی سے تعلق رکھتا ہو۔
در بخارا دلی مدان امروز
که نه در فرقتِ تو پژمان است

(سوزنی سمرقندی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کَژدُم
فارسی زبان میں 'بچھو' کو 'عقرب' کے علاوہ 'کژدم' بھی کہتے ہیں۔ مثلاً:

نه از مار و نه از کژدم نه زین پیمان‌شکن مردم
از آن شاهنشهِ بی‌دینِ خلق‌آزار می‌ترسم
(ایرج میرزا)

ترجمہ: میں نہ سانپ سے (ڈرتا ہوں)، نہ کژدم سے اور نہ اِن پیمان شکن مردم سے، (بلکہ) میں تو اُس بے دین و خلق آزار شہنشاہ سے ڈرتا ہوں۔

کژ، کج ہی کی ایک شکل ہے۔
 

طالب سحر

محفلین
امیر خسرو دیباچہ غرۃ الکمال (تقریباً 1315ء) میں لکھتے ہیں:

جہاں تک اُس فارسی زبان کا تعلّق ہے جو اہل زبان کے واسطے سے (یہاں) پہنچی ہے، سوائے ماوراء النہر کی فارسی کے جو ہندوستان کی فارسی کے موافق ہے، کسی اور خطّے کی (فارسی) عبارت درست نہیں ہے- خراسانی "چہ" کو "چی" کہتا ہے اور بعض "کجا" کو "کجو" بولتے ہیں لیکن کتاب میں چہ لکھتے ہیں چی نہیں لکھتے، کجا لکھتے ہیں کجو نہیں لکھتے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو تلفّظ کتاب میں ہے وہی درست ہوتا ہے- اِن لوگوں کے یہاں ایسے کلمات کی مثالیں بہت زیادہ ہیں کہ جو تلفّظ زبان سے ادا کرتے ہیں وہ تلفّظ تحریر میں نہیں ہوتا- میں نے بہ سببِ طوالت اس بیان کو مختصر کر دیا ہے-

(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نظارہ سگالد کہ ہماں است ہماں بیست

کیا اس کا ترجمہ ایسے ہوگا کہ نظارہ دشمنی کرتا ہے کہ وہ ہے بهی اور نہیں بهی؟
سِگالیدن کا بنیادی معنی سوچنا اور فکر کرنا ہے۔ ہم اردو میں بھی خیرسگالی جیسی تراکیب استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے اس مصرعے کا لفظی ترجمہ یہ بن رہا ہے: 'نظارہ سوچتا ہے کہ وہی ہے اور وہی نہیں ہے'۔
ویسے یہ مصرع کس شاعر کا ہے؟
 
سِگالیدن کا بنیادی معنی سوچنا اور فکر کرنا ہے۔ ہم اردو میں بھی خیرسگالی جیسی تراکیب استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے اس مصرعے کا لفظی ترجمہ یہ بن رہا ہے: 'نظارہ سوچتا ہے کہ وہی ہے اور وہی نہیں ہے'۔
ویسے یہ مصرع کس شاعر کا ہے؟
مرزا غالب کا شعر ہے. ویسے پارسی وکی تو دشمنی و خصومت کردن کے معنی دے رہی ہے.
شعر مکمل ایسے ہے
در ہر مژہ برہم زدن ایں خلق جدید است
نظارہ سگالد کہ ہماں است ہماں نیست
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سگالیدن ۔ اندیشہ اور گمان کے معنی میں بھی ہے۔یہاں وہی مراد لگتا ہے ۔ویسے سوچنا اور دشمنی بھی مذکور ہے۔واللہ اعلم
 

حسان خان

لائبریرین
مرزا غالب کا شعر ہے. ویسے پارسی وکی تو دشمنی و خصومت کردن کے معنی دے رہی ہے.
شعر مکمل ایسے ہے
در ہر مژہ برہم زدن ایں خلق جدید است
نظارہ سگالد کہ ہماں است ہماں نیست
جی، لغت ناموں کے مطابق اِس مصدر کا ایک معنی دشمنی کرنا بھی ہے، لیکن یہ اِس کا ثانوی و نادر مفہوم ہے، اور اِس ذکر شدہ شعر میں یہ مفہوم مراد نہیں ہے۔

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے اِس شعر کی یوں تشریح کی ہے:
در هر مژه برهم زدن این خلق جدید است
نظاره سگالد که همان است و همان نیست

ہر بار آنکھ کے جھپکنے میں یہ کائنات نئی ہوتی ہے۔ ہماری نظریں سمجھتی ہیں کہ یہ کائنات وہی ہے لیکن وہی نہیں ہوتی۔
اس شعر میں مرزا غالب نے ایک نہایت ہی دقیق نفسیاتی نکتہ بیان کیا ہے۔ انسان اپنے ادنیٰ سے ادنیٰ مشاہدے اور تجربے سے بدلتا رہتا ہے اور اس بدلنے پر جب وہ کائنات کو دیکھتا ہے تو وہ بظاہر وہی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں وہ نہیں ہوتی۔
ایک معمولی سی مثال سے قیاس کر لیجیے۔ فرض کیا ہم نے ایک چیز کو پہلی دفعہ دیکھا، اس کے بعد ہم نے آنکھ جھپکائی اور پھر اُس پر نظر پڑی۔ اب کے وہ چیز وہ نہیں ہے جو ایک لحظہ پہلے ہم نے دیکھی۔ اب کے اس کے ادراک میں یہ تجربہ بھی شامل ہو گیا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جسے ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اسی طرح وہ ہر بار دیکھنے پر بدلتی چلی جائے گی۔ پھر کائنات خود بھی تغیر پذیر ہے اگرچہ وہ تغیر نمایاں طور پر نظر نہیں آتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سَرهَنگ
فارسی زبان میں، بالخصوص ایرانی فارسی زبان میں، تمام عسکری عہدوں کے لیے بھی فارسی اصطلاحیں ہی استعمال ہوتی ہیں مثلاً 'کرنل' کو فارسی میں 'سرہنگ' کہتے ہیں اور اسی لیے 'کرنل قذافی' کو فارسی میں 'سرہنگ قذافی' کہا جاتا رہا ہے۔
اِن عسکری عہدوں کے لیے عموماً افغان فارسی میں پشتو اور تاجک فارسی میں روسی اصطلاحیں مرسوم ہیں، اور وہاں 'کرنل' کے لیے بالترتیب 'دَگَروال' اور 'پالکاونیک' کی اصطلاحیں بھی استعمال ہوتی نظر آتی ہیں۔ لیکن ایرانی فارسی کے اثر کی وجہ سے اب وہاں بھی اصطلاحِ 'سرہنگ' رائج ہو چکی ہے۔
لفظِ 'سرہنگ' کہنہ ادبی فارسی میں 'پہلوان، سردارِ لشکر، قائد، نگاہبانِ قلعہ، رئیس، فرماندہِ سپاہ' وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے، اور اِس ترکیب میں 'ہنگ' کا لفظی مفہوم 'سپاہ و لشکر' ہے۔
یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہوا ہے:
http://urdulughat.info/words/15288-سرہنگ
 
آخری تدوین:

Ali.Alvin

محفلین
نودہ/navda/навда
اکادمیِ علومِ تاجکستان کی شائع کردہ فارسی لغت میں اس لفظ کا یہ مطلب درج ہے: درخت کی چھوٹی اور نوجواں شاخ۔۔۔ (شاخچۂ نورسِ درخت)
یہ لفظ آج تک ایران اور افغانستان میں لکھی گئی تحریروں میں نظر نہیں آیا۔ ماوراءالنہر میں بھی اس کا استعمال نادر ہے اور مجھے کل پہلی بار یہ لفظ نظر آیا ہے۔ البتہ چونکہ یہ لفظ تاجکستان کی ایک معتبر لغت میں مندرج ہے، لہٰذا یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لفظ وہاں عامیانہ کی سطح سے بلند ہو کر ادبی وقار پا چکا ہے۔
نیٹ پر تلاش کے دوران اس لفظ کے ازبکی زبان میں استعمال کیے جانے کی بھی اطلاع ملی ہے۔

فیس بُک سے اس لفظ کے استعمال کی ایک مثال:
آدمان یک عالمِ بزرگ را با خوبی تقسیم کرده نمی‌توانند، اما پرنده‌ها با مهر و محبت در یک نوده قامت راست می‌کنند۔
ترجمہ: انسان ایک اتنی بڑی دنیا کو خوب طریقے سے تقسیم نہیں کر پاتے، لیکن پرندے مہر و محبت کے ساتھ ایک ہی شاخ پر بیٹھتے ہیں۔
شاخچہ یہ لفظ افغانستان میں رہنے والے ہزارہ قوم کا لفظ ہے شاخچہ جب میں چھوٹا تھا تب میری ماں کہاں کرتی تھی بیٹا بل شاخچہ درخت پاہ خود نیلو اس کے معنی ہے کہ بیٹا درخت کی باریک شاخ پر پاوں مت رکھو یعنی بچپن سے لے کر آج تک ہم لوگ یہی جملہ استعمال کرتے آ رہے ہیں اور میں اپنے چھوٹے بھائی کو یا بہن کو اسی طرح کہتا ہوں جب وہ درخت کو ہاتھ لگاتے ہیں تو میں کہتا ہوں توخ شاخچہ شی میدہ نکنی یعنی درخت کی جو شاخ ہے اسے مت توڑو
 

Ali.Alvin

محفلین
نودہ/navda/навда
اکادمیِ علومِ تاجکستان کی شائع کردہ فارسی لغت میں اس لفظ کا یہ مطلب درج ہے: درخت کی چھوٹی اور نوجواں شاخ۔۔۔ (شاخچۂ نورسِ درخت)
یہ لفظ آج تک ایران اور افغانستان میں لکھی گئی تحریروں میں نظر نہیں آیا۔ ماوراءالنہر میں بھی اس کا استعمال نادر ہے اور مجھے کل پہلی بار یہ لفظ نظر آیا ہے۔ البتہ چونکہ یہ لفظ تاجکستان کی ایک معتبر لغت میں مندرج ہے، لہٰذا یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لفظ وہاں عامیانہ کی سطح سے بلند ہو کر ادبی وقار پا چکا ہے۔
نیٹ پر تلاش کے دوران اس لفظ کے ازبکی زبان میں استعمال کیے جانے کی بھی اطلاع ملی ہے۔

فیس بُک سے اس لفظ کے استعمال کی ایک مثال:
آدمان یک عالمِ بزرگ را با خوبی تقسیم کرده نمی‌توانند، اما پرنده‌ها با مهر و محبت در یک نوده قامت راست می‌کنند۔
ترجمہ: انسان ایک اتنی بڑی دنیا کو خوب طریقے سے تقسیم نہیں کر پاتے، لیکن پرندے مہر و محبت کے ساتھ ایک ہی شاخ پر بیٹھتے ہیں۔
شاخچہ لفظ ہزارگی زبان کا ہے جس کے معنی ہے درخت کا باریک شاخ
 

حسان خان

لائبریرین
اردو کے معروف ادیب مولوی نذیر احمد کا خیال تھا کہ فارسی کے بغیر اردو کی تکمیل نہیں ہو سکتی:
"۔۔۔ چھ برس میں اس کی فارسی کی استعداد ایسی ہو گئی تھی کہ مکتب کے لڑکے تو کیا خود میاں جی، باوجودیکہ اچھے جیّد فارسی دان تھے اور درسی کتابیں بھی اُن کو خوب مستحضر تھیں، اس کو سبق دیتے ہوئے بھنّاتے تھے۔ مبتلا کو مکتب کی تعلیم نے اتنا فائدہ تو پہنچایا کہ اُس کو ایک دوسرے ملک کی زبان، جس کے بدون اردو کی تکمیل نہیں ہو سکتی، اچھی خاصی آ گئی۔"
(فسانۂ مبتلا)
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی کو خطۂ آذربائجان اور ترکیہ کا عالی ترین ترکی گو شاعر مانا جاتا ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن کی فارسی غزلوں کی تعداد اُن کی ترکی غزلوں سے زیادہ ہے۔ اگر اِس مضمون سے استناد کیا جائے، تو اُن کے ترکی دیوان میں ۳۰۱، جبکہ فارسی دیوان میں ۴۰۹ غزلیں مندرج ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
اغلب ایرانی مردم مغربی ادیبوں کے ناولوں کو بھی فارسی زبان ہی میں پڑھتے ہیں۔ اِس بات کا اندازہ اِس تصویر کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جو تہران میں جاری سالانہ کتابی نمائش کے دوران کھینچی گئی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top