السلام علیکم بوچھی ، فراز کو پڑھ رہی ہیں ان دنوں ؟ یا زندگی کے عنوان پر یہ اشعار منتخب کیے
اور اگر کسی کا واسطہ پرنالے سے بھی پڑا ہو تو تصدیق کر سکتے ہیں
اوہو شعر بھی لکھنا ہے ۔ ۔ ۔ اتنے پیچیدہ اشعار زندگی پر لکھ گئے سب شاعر دیکھیں کسی تخلیق کار نے اتنے آرام سے کہہ دیا :
زندگی کیا ہے
غم کا دریا ہے
ویسے کیا معلوم کسی کے لیے سمندر بھی ہو ، میرا تو خیال ہے کہ دریا اور سمندر دونوں کی رعایت رکھ دیتے ہیں اگر کسی کا واسطہ سمندر سے پڑ گیا ہے تو بے شک دریا کی جگہ سمندر لکھ دیں
کروں نہ یاد مگر کسطرح بھلاُؤں اُسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے ،
اس شعر میں زندگی کہاں ہے
مرے ہمدم یہ کوئی زندگی ہے
جہاں ہر سانس جینے کی سزا ہو
(سرور)
یہ نظم میں پہلے بھی محفل پہ پوسٹ کر چکا ہوں۔
فرحت کی فرمائش پر دوبارہ۔
[align=right:1d2fc98794]
زندگی کیا ہے، جاننے کے لیے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے
آج تک کوئی بھی رہا تو نہیں
ساری وادی اُداس بیٹھی ہے
موسمِ گُل نے خودکشی کر لی
کس نے بارود بُویا باغوں میں
آؤ ہم سب پہن لیں آئینے
سارے دیکھیں گے اپنا ہی چہرہ
سب کو سارے حسیں لگیں گے یہاں
ہے نہیں جو دِکھائی دیتا ہے
آئینے پر چھپا ہوا چہرہ
تجربہ آئینے کا ٹھیک نہیں
ہم کو غالب نے یہ دُعا دی تھی
تم سلامت رہو ہزار برس
یہ برس تو فقط دنوں میں گیا
لب میرے میر نے بھی دیکھے ہیں
پنکھڑی اِک گُلاب کی سی ہے
بات سُنتے تو غالب ہوجاتے
ایسے بکھرے ہیں رات دن جیسے
موتیوں والا ہار ٹوٹ گیا
تم نے مجھ کو پیرو کے رکھا تھا ۔۔۔[/align:1d2fc98794]