میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ نیندرتھال کے حوالے سے آپ کو مزید کونسا ثبوت چاہیے ہے؟
نیندرتھال کوئی "سائنسی تھیوری" نہیں ہے کہ جس کے اپرو ہونے کا آپ انتظار کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کے لاکھوں سال پرانے ڈھانچے مل چکےہیں، ان پر تحقیق ہو چکی ہے، انکے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جا چکا ہے جو کہ صاف صاف بتلا رہا ہے کہ یہ انسان سے علیحدہ نسل ہے۔
جبکہ جنابِ آدم کا زمانہ فقط 6 ہزار سال پرانا ہے۔
مگر یورپ میں رہنے والے آج کے انسانوں میں 1 تا 4 فیصد ڈی این اے نیندرتھال کا پایا جاتا ہے جسکا مطلب ہے کہ جناب آدم سے ہزاروں سال پہلے ہی انسانوں اور نیندرتھال میں "انٹربریڈنگ" ہوئی تھی۔
مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے میں کوئی بھی بہانہ کارگر ہو سکتا ہے۔
بہت ڈھونڈنے کے باوجود مجھے مسلمانوں کی طرف سے اسکے متعلق کوئی جواب نہیں مل سکا ہے اور انہوں نے سوائے لنگڑے لولے بہانوں کے اور کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔
یا حیرت!
انتہائی عجیب و غریب بہانہ کیا ہے آپ نے۔ ۔۔۔ آپ نے یہ روایت پیش کی:
مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلْ يَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ۔
(اور آپکا ترجمہ تھا) کہ جو بھی جنت میں داخل ہوگا اسکی صورت بھی سیدنا آدم ؑ جیسی ہو گی اور قدبھی ساٹھ ہاتھ ہوگا۔
آپ نے ترجمہ میں تحریف کی ہے، اور اوپر موجود سرخ رنگ کی عبارت کا ترجمہ نہیں کیا۔ ۔۔۔ کیوں؟
کیا آپ نے جان بوجھ کر یہ تحریف کی ہے؟
مکمل حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ وَهُمْ نَفَرٌ مِنْ الْمَلَائِكَةِ جُلُوسٌ فَاسْتَمِعْ مَايُحیوْنَكَ فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ قَالَ فَذَهَبَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَقَالُوا السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُہُ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ قَالَ فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلْ يَنْقُصُ الْخَلْقُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ۔
(مسنداحمد:۲/۳۱۵۔ بخاری شریف:۳۳۲۶۔ مصنف عبدالرزاق:۱۰/۳۸۴)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کوان کی (بہترین) صورت پرپیدا فرمایا ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا، جب اللہ تعالیٰ نے ان کوپیدا کیا توفرمایا آپ جاکر اس جماعت کوسلام کیجئے یہ فرشتوں کی ایک جماعت تھی جوبیٹھی ہوئی تھی اور (ان سے) سنئے یہ آپ کوکیا جواب دیتے ہیں؛ یہی آپ کا اور آپ کی اولاد کا سلام ہوگا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ حضرت آدم تشریف لے گئے اور فرمایا السلام علیکم، توانہوں نے جواب میں کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ان فرشتوں نے سلام میں ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا اضافہ کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ پس جوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ حضرت آدم علیہ السلام کی شکل وشباہت پرہوگا اس (کے قد کی لمبائی) ساٹھ ہاتھ ہوگی؛ لیکن (حضرت آدم کے) دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سے اب تک حسن وجمال اور قدکاٹھ کم ہی ہوتا جارہا ہے۔
Taken with Webpage Screenshot
بات کو کاٹ کر کیوں پیش کیا پوری پیش کریں نا باجی جی؟
چلیں میں آپ کا کام آسان کردیتا ہوں
: آدم علیہ السلام کی لمبائ سے تعجب ہے
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 246 ) میں یہ ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئ تو ان کی لمبائ تیس ( 30 ) میٹر تھی ۔
میری سمجھہ میں یہ نہیں آرہا یا میں اسے اپنے خیال میں نہیں لاسکتا آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس کی شرح کردیں ۔
الحمد للہ
اول :
یہ الفاظ ابوھریرہ رضي اللہ تعلی عنہ کی حدیث میں ہیں جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ نے فرمایا :
( آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے پیدا فرمیا توان کی لمبائ ساٹھ ھاتھ تھی پھر اللہ تعالی نے انہیں فرمایا کہ جاؤ ان فرشتوں کوسلام کرو توجو وہ جواب دیں اسے سنو کیونکہ وہی تیرااور تیری اولاد کا سلام ہوگا ، توآدم علیہ السلام نے السلام علیکم کہا توانہوں نے جواب میں رحمۃ اللہ کا اضافہ کرکے علیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا توجوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پرداخل ہوگا ، توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے ) صحیح البخاری حدیث نمبر ( 3336 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 7092 ) ۔
اورمسلم کے لفظ یہ ہیں (توجوبھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پرداخل ہوگا اوراس کی لمبائ ساٹھ ھاتھ ہوگی ، توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے )۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ (توآج تک مخلوق گھٹ رہی ہے ) کے بارہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:
یعنی ہرنسل اوردورمیں قد پہلے دور سے کم ہوگا اور قدکی یہ کمی امت محمدیہ پر آکر ختم ہوچکی ہے اور یہ معاملہ یہاں پر آکر ٹھر چکا ہے ۔ ا ھ۔ ۔ فتح الباری ( 6 / 367 ) ۔
تومسلمان پر ضروری اوروجب ہے کہ وہ ہر اس خبر جس کی دلیل قرآن وسنت میں مل جائے اور حدیث بھی صحیح ہو تو اس پر ایمان لائے ، امام شافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :
( میں اللہ تعالی اور جو کچھ اللہ تعالی کے متعلق وارد ہے اللہ تعالی کی مراد کے مطابق ایمان لایا اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورجو کچھ ان کے بارہ میں آیا ہے اس پررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کے مطابق ایمان لایا ) دیکھیں : الارشاد شرح لمعۃ الاعتقاد ص ( 89 ) ۔
تومومن پریہ واجب اورضروری ہے کہ وہ جس چیزکی اللہ تعالی نے خبردی ہے اس پرایمان جازم رکھے اور اسی طرح جس چیزکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے اگروہ صحیح طورپرثابت ہوتواس پربھی ایمان لانا ضروری ہے ، اوراس ایمان میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہونا چاہیے ۔
اورضروری ہےکہ اس خبرکی سمجھ آئے یا نہ آئے اسے اجمالی اورتفصیلی طورپرمانا جائے ان خبروں پرتعجب ہویا نہ ہو اس لیے کہ یقینی طورپرصحیح اور ثابت ہونے والے امر کا عدم کونہ پانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ ثابت ہی نہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ اس کی عقل اس کا احاطہ کرنےاور سمجھنے سے قاصر ہے ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے توہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے اپنے متعلق جو کچھ بتایا ہے یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے بارہ میں جو بتایا اس پرایمان لائيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر پکا ایمان لائیں پھر اس میں شک وشبہ نہ کریں اور اپنے مالوں اوراپنی جانوں سے اللہ تعالی کے راہ میں جہاد کرتے رہیں تویہی لوگ ( اپنے دعوی ایمان میں ) سچے اور راست گوہیں } الحجرات ( 15 ) ۔
اورایمان میں سے ہی ایمان بالغیب بھی ہے ، اوریہ حديث جو اس وقت ہمارے سامنے ہے وہ بھی انہیں غیبی امورمیں سے ہے ، اللہ تعالی نے غیب پرایمان لانے والوں کی تعیرف کرتے ہوئے فرمایا ہے :
{ الم ، اس کتاب میں کوئ شک نہیں ، متقی اورپرہیزگاروں کوراہ دکھانے والی ہے ، جولوگ غیب پرایمان لاتے ہیں اور نماز ۔۔۔ } البقرۃ ( 1 - 3 ) ۔
عزیزبھائ آپ کویہ علم ہونا چاہيے کہ اللہ تبارک وتعالی ہرچيز پرقادر ہے توجس طرح اللہ تعالی نے انسان کواس کی موجودہ شکل میں پیدا فرمایا وہ اس پربھی قادر ہے کہ وہ اسے اس سے بڑی یا چھوٹی شکل میں پیدا فرمائے ۔
تواگر پھر بھی آّپ کواس مسئلہ میں کوئ مشکل پیش آئے توآّپ ان ٹھگنے قد کے لوگوں کوجنہیں ہم بچوں جتنے قد کاٹھ میں دیکھتے ہیں سے عبرت حاصل کریں ، تواگر یہ واقعتا اورحقیقتا موجود ہے توپھر اس میں کیا چيزمانع ہے کہ اس کے برعکس لمبے قد نہ ہوں جن کا قد ساٹھ ھاتھ نہ ہو ، اورتاریخ انسانی اس پرگواہ بھی ہے جیسا کہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بشری تاریخ میں بہت زیادہ لمبے قد کے لوگ پائے جاتے تھے ۔
اوراصل مسئلہ تویہی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اوراللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ کی دی گئ خبروں کوتسلیم کیا جائے اورہم بھی وہی کہيں جس طرح علم میں رسوخ رکھنے والے کہتے ہیں :
{ ہمارا اس پرایمان ہے کہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے } آل عمران ( 7 ) ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں حق کوحق دیکھنے اوراس پرچلنے اور باطل کوباطل سمجھنےاوراس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین یارب العالمین ۔
واللہ تعالی اعلم .