سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

عباس اعوان

محفلین
مگر یورپ میں رہنے والے آج کے انسانوں میں 1 تا 4 فیصد ڈی این اے نیندرتھال کا پایا جاتا ہے جسکا مطلب ہے کہ جناب آدم سے ہزاروں سال پہلے ہی انسانوں اور نیندرتھال میں "انٹربریڈنگ" ہوئی تھی۔
مجھے نہیں لگتا کہ اس معاملے میں کوئی بھی بہانہ کارگر ہو سکتا ہے۔
بہت ڈھونڈنے کے باوجود مجھے مسلمانوں کی طرف سے اسکے متعلق کوئی جواب نہیں مل سکا ہے اور انہوں نے سوائے لنگڑے لولے بہانوں کے اور کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔
کیا صرف 4 فیصد ڈی این اے کی مماثلت کی بنا پر آپ نے ان دونوں کو انٹر بریڈ کروا دیا ؟
اس رُو سے تو گویا انسان، کیلے کے ساتھ انٹر بریڈنگ کرتا رہا ہے، کیوں کہ انسان اور کیلے کا جینوم تقریباً پچاس فیصد مماثل ہے۔
http://genecuisine.blogspot.hk/2011/03/human-dna-similarities-to-chimps-and.html
 

زیک

مسافر
کیا صرف 4 فیصد ڈی این اے کی مماثلت کی بنا پر آپ نے ان دونوں کو انٹر بریڈ کروا دیا ؟
اس رُو سے تو گویا انسان، کیلے کے ساتھ انٹر بریڈنگ کرتا رہا ہے، کیوں کہ انسان اور کیلے کا جینوم تقریباً پچاس فیصد مماثل ہے۔
http://genecuisine.blogspot.hk/2011/03/human-dna-similarities-to-chimps-and.html
آپ یہاں مماثلت کو غلط سمجھ رہے ہیں۔
 

T.K.H

محفلین
مختصراً سائنس میں کچھ چیزیں "تھیوری" کی سٹیج پر ہوتی ہیں۔ یہ تھیوریز نئی تحقیقات اور مشاہدات کی بنیاد پر تبدیل ہو سکتی ہیں۔
کیا آپ یہ مانتی ہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالٰی کا قول اور کائنات اسکا فعل ہے اور اللہ تعالٰی کے قول و فعل میں تضاد محال ہے جبکہ انسان کی سائنسی تحقیقات میں غلطی کا ہونا محال نہیں بلکہ نہ ہونا محال ہے۔اس لیے اگر قرآن مجید کے بیان کردہ حقائق اور سائنسی تحقیق میں تضاد ہو تو یہ سائنسی تحقیق بھی تو انسانی سوچ کا نتیجہ ہے جو کہ محدود ہے جبکہ اللہ تعالٰی کے بیان کردہ حقائق تضادات سے پاک ہے۔ کیا آپ اس بات کو مانتی ہیں ؟اگر ہاں تو قرآن مجید کو تختہ ٔ مشق بنانے اور اسکو سائنس کی عدالت میں کھڑا کرنے کا کیا مقصد ہے ؟
لیکن کچھ چیزیں ہیں جو سائنس نے ثبوتوں کے ساتھ "حق الیقین" تک پہنچا دی ہیں۔
قرآن مجید علم الیقین، حق الیقین اور عین الیقین ہے۔
اگر آپ ایک مرتبہ "حدیث" پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں، تو پھر آپ کو تمام کی تمام حدیث کا انکار کرنا پڑے گا۔
حدیث کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے حدیث کو جاننے والوں سے پوچھ لینا چاہیے یہی علمی رویہ ہر دور میں اپنایا گیا ہے ۔ کسی بھی چیز کے متعلق سرسری مطالعہ کرنا اور پھر اسکا فیصلہ کر دینا کوئی مستحسن طریقہ نہیں ہے ۔

کیا آپ قرآن مجید اور اسکی اس حیثیت کو جو خود قرآن نے پیش کی ہیں ،مانتی ہیں ؟ اگر ہاں تو یہ بحث بے کار ہے اور اگر نہیں مانتی تو بہت اچھا ہے۔ اگر آپ قرآن مجید کو مان کر اس کے حقائق کو مشکوک سمجھتی ہیں تو یہ بہت خطرناک بات ہے۔پہلے اس اُصولی بات کا فیصلہ کر لیا جائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کیا صرف 4 فیصد ڈی این اے کی مماثلت کی بنا پر آپ نے ان دونوں کو انٹر بریڈ کروا دیا ؟
اس رُو سے تو گویا انسان، کیلے کے ساتھ انٹر بریڈنگ کرتا رہا ہے، کیوں کہ انسان اور کیلے کا جینوم تقریباً پچاس فیصد مماثل ہے۔
http://genecuisine.blogspot.hk/2011/03/human-dna-similarities-to-chimps-and.html

نہیں، انسان اور نیندرتھال کا ڈی این اے 99.88 فیصد سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے

https://en.wikipedia.org/wiki/Neanderthal
The Neanderthals or NeandertalsUK /niˈændərˌtɑːlz/, us also /neɪ/-, -/ˈɑːndər/-, -/ˌtɔːlz/, -/ˌθɔːlz/)[3][4] (from Neandertaler) are a
extinct species of human in the genusHomo. They are closely related to modern humans,[5][6] differing in DNA by just 0.12%.[7]

لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ افریقہ کے انسانوں کو چھوڑ کر بقیہ یورپ اور ایشیا کے انسانوں میں نیندرتھال کے ڈی این اے پایا جاتا ہے، تو وہ "گنوم genome " کے زاویے سے بات ہو رہی ہوتی ہے۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Archaic_human_admixture_with_modern_humans
Neanderthal-derived DNA accounts for an estimated 1–4% of the Eurasian genome, but it is significantly absent or uncommon in the genome of most Sub-Saharan African people. In Oceanian and Southeast Asian populations, there's a relative increase of Denisovan-derived DNA. An estimated 4–6% of theMelanesian genome is derived from Denisovans.​

پہلے پہل سائنسدانوں کو انسانوں اور نیندرتھال کے مابین "انٹربریڈنگ" کے 100 فیصدی یقینی ثبوت نہیں ملے تھے۔ مگر پھر 2002 میں رومانیہ کی ایک غار سے ایک جبڑے کی ہڈی برآمد ہوئی اور اسکے گنوم میں موجود ڈی این اے کے مطالعہ سے بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہو گیا کہ انٹربریڈنگ ہوئی ہے (لنک

چنانچہ فقط جناب آدم کی اولاد ہونے کا مسئلہ اور زیادہ پھنس گیا ہے کیونکہ یہ انٹربریڈنگ جناب آدم سے ہزاروں سال قبل ہوئی تھی۔
 

ظفری

لائبریرین
میری تو سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ مذہب اور سائنس کا آخر ٹکراؤ کہاں ہوتا ہے ۔ مذہب ( اسلام ) اخلاقی وجود کو سنوارنے آیا ہے ۔ مذہب آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے وجود کو کیسےPurifyکیا جائے۔ اور جب قیامت آئے تو آپ کو کن باتوں کے لیئے جوابدہ ہونا ہے ۔ ہمیں چاہیئے کہ پہلے مذہب کا موضوع متعین کرلیں ۔ ورنہ ایسی ابحاث میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی کسی وکیل کے پاس ہارٹ سرجری کے لیئے پہنچ گیا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایسی چیزو ں کو سائنس سے متعلق کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جو سائنس کا موضوع ہی نہیں ہے ۔ سائنس کی کوئی اعلی کتاب کی ورد گرانی کیجئے ۔ وہ سب سے پہلے یہی کہے گی کہ سائنس ان چیزوں سے متعلق ہے ۔ جو اس کے حواس کی گرفت میں آتی ہے ۔ سائنس کا ایک دائرہ ہے بلکل اسی طرح مذہب کی بھی ایک جگہ ہے ۔ آپ جب سائنس کے معاملات ، مذہب سے اور مذہب کے سائنس سےملائیں گے تو تصادم ناگزیر ہوگا ۔ پہلے ہم ایک مسئلے کو مذہب کا مسئلہ بناتے ہیں ۔ پھر کچھ سائنسی انکشافات کے بعد کہتے ہیں کہ اس میں تبدیلی کیوں آگئی ہے ۔
مابعدت طبعیات سائنس کے دائرے سے باہر کی چیز ہے ۔سائنس کا یہ کام نہیں ہے کہ انسانی شخصیت کیا ہے اور کہاں سے آتی ہے ۔اس شخصیت کی حقیقت کیا ہے ۔ سائنس کا موضوع یہ ہے کہ یہ شخصیت جسم میں کیسے کام کرتی ہے ۔اس کے لیئے وہ جسمانی بیرونی اور اندورنی اعضاء کا جائزہ لے گی ۔ اور ان اعضاء کے فنکشنز کو سمجھنے کی کوشش کرے گی ۔ یہ اس کا دائرہ ہے اور اس پر سائنس نے بہت کام بھی کیا ہے ۔جہاں مذہب کا دائرہ شروع ہوتا ہے تو وہ آپ کو بتاتا ہے ۔کہ یہ شخصیت اللہ کی دی ہوئی ہے ۔ اس شخصیت کو وہ باقی رکھے گا ۔ اور ایک دن اس شخصیت کیساتھ آپ کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ اس کے لیئے مذہب آپ کو وہ اصول اور ضابطے بتاتا ہے کہ وہاں کیسے سرخرو ہونا ہے ۔

جیسا کہ اس موضوع پر قرآن کے حوالے سے کچھ ایسی سائنسی تو جہات کا حوالہ دیا گیا ہے کہ جیسے قرآن نے انہیں باقاعدہ موضوع بنا کر ان کا تذکرہ کیا ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں سائنسی بات اس وقت زیرِ بحث آتی ہے جب قرآن توحید اور آخرت پر دلائل دے رہا ہوتا ہے ۔یعنی اس کے ضمن میں یہ بات زیرِ بحث آتی ہے ۔ کسی چیز کے" موضوع " ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس چیز کو باقاعدہ " موضوع " بنا کر اس پر گفتگو کی جا رہی ہے ۔قرآن نے یہ کہیں نہیں کیا ۔
میں کسی تفصیلی بحث میں جانا نہیں چاہتا ۔ ( وقت کی کمی کا مسئلہ ہے ) ۔ مگر ایک بات مذہب اور سائنس کے بارے میں وضع کرنے کی جسارت کروں گا کہ مذہب اور سائنس کے موضوعات کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں بنتا ۔سائنس کا موضوع یہ ہے کہ وہ کائنات کا مطالعہ کرے ۔ اس کے قوانین اور اصولوں کا مطالعہ کرے ۔ پھر ان کی بنیاد پر چیزوں کو ایجاد کرے ۔ اور اس کی بنیاد پر زندگی میں آسانیاں پیدا کرے۔ مذہب کا موضوع یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی کی صفات کیا ہیں۔قیامت میں کیا پیش آنے والا ہے ۔ اور ہمیں اس کی کیا اور کیسے تیاری کرنی ہے ۔
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
کیا آپکو نہیں لگتا کہ آپکو یہ سوال تو مسلمانوں سے کرنا چاہیے کہ انکا مذہب فقط قران تک محدود ہے یا پھر قرآن و حدیث پر؟

نیز، قرآن کہہ رہا ہے کہ زمین فرش کی طرح ہے، اور سورج اور چاند تارے اسکے گرد گھوم رہے ہیں۔
اسی وجہ سے اسلام کی 1400 سالہ تاریخ میں کوئی قران فہم عالم ایسا نہیں گذرا جس نے قرآن کی بنیاد پر کہا ہو زمین گول ہے۔
کیوں؟
ہاں آج ذاکر نائیک جیسے حضرات لنگڑے لولے بہانے بناتے نظر آتے ہیں تاکہ قرآن کو سائنس کے مطابق ثابت کر سکیں۔ تو ذاکر نائیک کے یہ بہانے تو فقط وہی لوگ قبول کر سکتے ہیں جو مذہب کی ناموس کی خاطر جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کر اندھا و بہرا بننا چاہیں۔ وگرنہ جو بھی انصاف کے ساتھ حقائق پر نظر ڈالے گا، اسکے لیے ذاکر نائیک کے بہانے قبول کرنا ناممکن ہے۔

اس اقتباس کو کوٹ کرنے کی ضرورت اس لیئے پیش آئی کہ میں اوپر اس حوالے سے تبصرہ کرچکا تھا ۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ پہلے ہم ایک مسئلے کو مذہب کا مسئلہ بنا دیتے ہیں اور پھر اس پر بحث کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا۔ قرآن کا اسلوب ایک ادبی اسلوب ہے ۔ جس آیت کا یہاں تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔ وہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ اسے بیان کیا جارہا ہے ۔یہاں غیر معمولی بات کہی جا رہی ہے ۔اس آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ کس طرح نظامِ شمسی چل رہا ہے ۔ یہ سب اللہ کے اذن سے ہے ۔ یہاں وہ بیان ہی نہیں جسے سائنس سے منسوب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہاں بیان کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالی نے کس طرح ان چاند ، ستاروں ، سیاروں کو ایک نظام میں باندھ دیا ہے ۔ یہ سب اس کے تحت کام کر رہے ہیں ۔ زمین چپٹی یا چاند ستاروں کا اس کے گرد گھومنا کوئی سائنسی توجہیہ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے زمین کوتمہارے لیئے آسان بنادیا ہے ۔ جس پر تم آسانی سے چل پھر سکتے ہو ۔یہ سب سجدہ ریز ہیں اور اللہ کے اذن سے کام کر رہے ہیں ۔ چونکہ اللہ زمین پر رہنے والوں کو مخاطب کر رہا ہے تو اس بابت میں اس زمین سے انسانی آنکھ سے کائنات کا جو مشاہدہ ہوتا ہے ۔ اس کو مدِنظر رکھ کر ایک ادبی اسلوب اپنایا گیا ہے ۔ اب ایک خالص ادبی اسلوب کو سائنس سے متعلق کردینے کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے ۔
 
آخری تدوین:

تجمل حسین

محفلین
۔ اور سائنسی اعتبار سے ٹھگنے قد کا ہونا 2 وجوہات کی بنا پر ہے۔ یا تو کسی بیماری کی وجہ سے، یا پھر چائنیز نسل۔
چنانچہ بیماری کے شکار لوگوں کو بطور ثبوت پیش کرنا انتہائی احمقانہ فعل ہے۔
جبکہ چائنیز اور جاپان وغیرہ میں جو انسانی ڈھانچے 1400 سال سے قبل کے ملے ہیں، انکے قد ایسے ہی چھوٹے ہیں۔
جو پہلا چینی یا جاپانی انسان چھوٹے قد کا دنیا میں آیا تھا وہ کہاں سے آیا تھا۔ ؟
کیا وہ بھی کسی بیماری سے چھوٹا ہوا تھا؟؟
یا اللہ کی قدرت سے چھوٹا رہ گیا تھا؟؟
 

عباس اعوان

محفلین
آپ یہاں مماثلت کو غلط سمجھ رہے ہیں۔

نہیں، انسان اور نیندرتھال کا ڈی این اے 99.88 فیصد سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے

https://en.wikipedia.org/wiki/Neanderthal
The Neanderthals or NeandertalsUK /niˈændərˌtɑːlz/, us also /neɪ/-, -/ˈɑːndər/-, -/ˌtɔːlz/, -/ˌθɔːlz/)[3][4] (from Neandertaler) are a
extinct species of human in the genusHomo. They are closely related to modern humans,[5][6] differing in DNA by just 0.12%.[7]

لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ افریقہ کے انسانوں کو چھوڑ کر بقیہ یورپ اور ایشیا کے انسانوں میں نیندرتھال کے ڈی این اے پایا جاتا ہے، تو وہ "گنوم genome " کے زاویے سے بات ہو رہی ہوتی ہے۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Archaic_human_admixture_with_modern_humans
Neanderthal-derived DNA accounts for an estimated 1–4% of the Eurasian genome, but it is significantly absent or uncommon in the genome of most Sub-Saharan African people. In Oceanian and Southeast Asian populations, there's a relative increase of Denisovan-derived DNA. An estimated 4–6% of theMelanesian genome is derived from Denisovans.​

پہلے پہل سائنسدانوں کو انسانوں اور نیندرتھال کے مابین "انٹربریڈنگ" کے 100 فیصدی یقینی ثبوت نہیں ملے تھے۔ مگر پھر 2002 میں رومانیہ کی ایک غار سے ایک جبڑے کی ہڈی برآمد ہوئی اور اسکے گنوم میں موجود ڈی این اے کے مطالعہ سے بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہو گیا کہ انٹربریڈنگ ہوئی ہے (لنک

چنانچہ فقط جناب آدم کی اولاد ہونے کا مسئلہ اور زیادہ پھنس گیا ہے کیونکہ یہ انٹربریڈنگ جناب آدم سے ہزاروں سال قبل ہوئی تھی۔
معلومات کا شکریہ
آداب
 

عباس اعوان

محفلین
میں ظفری بھائی کی بات سے متفق ہوں کہ مذہب تمام سائنس کا احا طہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی مذہب کا مطلوب و مقصود یہ ہے۔ مذہب حرفِ آخر ہے، سوائے ان جگہوں/ مسائل پر جو پرانے زمانے میں نہیں تھے اور موجودہ زمانے میں سامنے آئے ہیں، جس کے لیے اجتہاد کا راستہ موجود ہے۔سائنس وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرے گی/ کر رہی ہے اور اپنی پچھلی باتوں کو نئے شواہد کی بنا پر آسانی سے رد کر دیتی ہے۔ اسکی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جیسا کہ مادے کی اکائی کے بارے میں، کہ پرانے زمانے میں ایٹم کو مادی کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا تھا، پھر بات، نیوٹرون، پروٹون، الیکٹرون وغیرہ سے ہوتی ہوئی کوارک(quark) تک جا پہنچی ہے۔ اور ابھی بھی کوئی بندہ اس دریافت کو حرفِ آخر نہیں کہہ سکتا۔ مذہب نے جو سائنسی حوالہ جات دیے ہیں، ان کو بطورِ نشانیاں لیا جائے اور اپنے عقائدو اعمالات میں بہتری لائی جائے۔ جو حضرات موجودہ سائنس کو یہ کہہ کر نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ چیز تو مذہب نے صدیوں پہلے ہی بیان کر دی تھی، میں ان کو بھی درست نہیں سمجھتا کہ کل کو سائنس اپنے بیان سے پِھر جائے گی، تو کیا آپ مذہب کو بھی رد کر دیں گے ؟
اور میں اس بات سے بھی غیر متفق ہوں کہ مذہب اور سائنس کا کوئی ٹکراؤ ہے، مذہب جب ہمیں خود کائنات میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے، تو ہمیں یہ چیز یکسر بھول جانی چاہیے کہ مذہب سائنس کو نہیں مانتا۔ مذہب خود سائنس کی ترویج کرتا ہے۔
مذہب کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس بات پر بحث کرے کہ بلیک ہول کیوں وجود میں آتے ہیں، بلیک ہول سے معلومات (information) کا نکلنا ممکن ہے کہ نہیں، اور کیا وورم ہول واقعی میں ٹائم سپیس میں سفر کو ممکن بناتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ کام انسانوں پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ ان نظاموں (زندہ خلیوں تک خوراک کی ترسیل کے نظام سے لے کر ستارے بنانے والے پِلرز آف کری ایشن تک) کا مطالعہ کریں تاکہ ان کی بصیرت میں اضافہ ہو اور ان سب چیزوں کے پیدا کرنے والے پر ایمان مزید پختہ ہو۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مجھے بحث آسان بنانی ہے۔ چنانچہ مختصراً عرض ہے:


یہ سراسر انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے کہ ہم مذہب کی حقانیت کو جانچنا چاہیں، مگر ہم پر "قید" لگا دی جائے کہ مذہب کو پہلے "حق" تسلیم کرو اور اسکے بعد اسکی حقانیت کو جانچو۔
اگر کوئی غیر مسلم مذہب پر یہی اعتراض کرے گا تو کیا اسکو بھی براہ راست جواب دینے کی بجائے اس پر بھی قید لگائیں گے کہ پہلے وہ مذہب کی حقانیت کو تسلیم کرے اور پھر اسکے بعد حقانیت جانچنے کے لیے تنقید کرے؟
اگر مذہب عالمگیر ہے تو اس میں اتنی استعداد ہونی چاہیے کہ وہ ہر پہلو سے اٹھتے ہوئے تنقیدی اعتراضات کا جواب دے سکے۔
چنانچہ مجھے آپکے یہ سٹینڈرڈز قبول نہیں کیونکہ یہ انصاف کے کسی اصول پر پورے نہیں اترتے۔


آج سے قبل ہزاروں بار ہمیں یہ کہا جاتا رہا کہ مذہب زندگی کی ہر ہر فیلڈ کا احاطہ کرتا ہے، چاہے وہ روحانیت ہو، یا پھر دنیاوی امور جیسے نظام حکومت، سزائیں، لین دین وغیرہ۔
پھر یہ بات ہمارے ذہنوں میں بٹھانے کے لیے قرآنی آیت کی رٹ لگائی جاتی رہی کہ ہر خشک و تر کا علم قرآن میں موجود ہے۔
لَارَطْبٌ وَ لَایَابِٔسَ الِاَّفِی کِتَابٍ مُبِیْنٍ (سورۃ انعام آیت ۵۹ )
کوئی خشک و تر نہیں ہے مگر یہ کہ کتابِ مبین میں موجود ہے۔
مگر آج یہ سب چیزیں الٹ گئیں۔
آج مذہب پر سائنس کے حوالے سے تنقید کرنے پر ہمیں کہا جا رہا ہے کہ مذہب سائنس ثابت کرنے نہیں آیا بلکہ خدا اور روحانیت کی طرف رہنمائی کرنے آیا ہے۔

جو پہلا چینی یا جاپانی انسان چھوٹے قد کا دنیا میں آیا تھا وہ کہاں سے آیا تھا۔ ؟
کیا وہ بھی کسی بیماری سے چھوٹا ہوا تھا؟؟
یا اللہ کی قدرت سے چھوٹا رہ گیا تھا؟؟

یہ بہت بعد کا ثانوی سوال تھا۔ اس سے قبل آپ کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے تھا کہ یوریشیا کے انسانوں میں نیندرتھال کے ڈی این اے سے منسلک جنوم کہاں سے آئے۔
نیز سوال کرنے سے قبل آپ کو خود غور کرنا چاہیے۔

چینی اور جاپانیوں کے چھوٹے قد کی وجہ "بیماری" نہیں ہے۔
بلکہ اسکی بنیادی وجہ "غذا" اور شائد آب و ہوا ہے۔
چائنیز اور جاپانی کی غذا بہت مخصوص ہے جو کہ دنیا کے بقیہ حصوں میں نہیں کھائی جاتی۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پچھلی صدیوں میں جاپان اور چین میں بچہ صرف ڈیڑھ یا 2 سال تک ماں کا دودھ پیتا تھا اور اسکے بعد پوری زندگی وہ کسی قسم کا گائے کا دودھ یا کوئی اور دوسرا دودھ استعمال نہیں کرتا تھا اور نہ ہی دودھ سے بنی کوئی اور پروڈکٹ۔ شاید اسی وجہ سے انکے قد چھوٹے رہ گئے۔

بہرحال، آج امریکہ میں جاپانیوں اور چینیوں کے جو چوتھی نسلیں آ رہی ہیںِ، جنکی غذا امریکیوں جیسی ہی ہے، انکا قد ایسے ہی دراز ہو گیا ہے جیسا کہ امریکیوں کا ہوتا ہے، اور انکی آنکھیں بھی بڑی بڑی ہوتی جا رہی ہیں جیسے کہ امریکیوں کی ہوتی ہیں۔

اس آرٹیکل کو غور سے پڑھئے۔ یہاں آپکے سوال کا جواب موجود ہے
http://www.naturalheightgrowth.com/...japanese-women-and-girls-in-the-last-century/
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
میں ظفری بھائی کی بات سے متفق ہوں کہ مذہب تمام سائنس کا احا طہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی مذہب کا مطلوب و مقصود یہ ہے۔ مذہب حرفِ آخر ہے، سوائے ان جگہوں/ مسائل پر جو پرانے زمانے میں نہیں تھے اور موجودہ زمانے میں سامنے آئے ہیں، جس کے لیے اجتہاد کا راستہ موجود ہے۔سائنس وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرے گی/ کر رہی ہے اور اپنی پچھلی باتوں کو نئے شواہد کی بنا پر آسانی سے رد کر دیتی ہے۔ اسکی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جیسا کہ مادے کی اکائی کے بارے میں، کہ پرانے زمانے میں ایٹم کو مادی کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا تھا، پھر بات، نیوٹرون، پروٹون، الیکٹرون وغیرہ سے ہوتی ہوئی کوارک(quark) تک جا پہنچی ہے۔ اور ابھی بھی کوئی بندہ اس دریافت کو حرفِ آخر نہیں کہہ سکتا۔ مذہب نے جو سائنسی حوالہ جات دیے ہیں، ان کو بطورِ نشانیاں لیا جائے اور اپنے عقائدو اعمالات میں بہتری لائی جائے۔ جو حضرات موجودہ سائنس کو یہ کہہ کر نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ چیز تو مذہب نے صدیوں پہلے ہی بیان کر دی تھی، میں ان کو بھی درست نہیں سمجھتا کہ کل کو سائنس اپنے بیان سے پِھر جائے گی، تو کیا آپ مذہب کو بھی رد کر دیں گے ؟
اور میں اس بات سے بھی غیر متفق ہوں کہ مذہب اور سائنس کا کوئی ٹکراؤ ہے، مذہب جب ہمیں خود کائنات میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے، تو ہمیں یہ چیز یکسر بھول جانی چاہیے کہ مذہب سائنس کو نہیں مانتا۔ مذہب خود سائنس کی ترویج کرتا ہے۔
مذہب کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس بات پر بحث کرے کہ بلیک ہول کیوں وجود میں آتے ہیں، بلیک ہول سے معلومات (information) کا نکلنا ممکن ہے کہ نہیں، اور کیا وورم ہول واقعی میں ٹائم سپیس میں سفر کو ممکن بناتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ کام انسانوں پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ ان نظاموں (زندہ خلیوں تک خوراک کی ترسیل کے نظام سے لے کر ستارے بنانے والے پِلرز آف کری ایشن تک) کا مطالعہ کریں تاکہ ان کی بصیرت میں اضافہ ہو اور ان سب چیزوں کے پیدا کرنے والے پر ایمان مزید پختہ ہو۔

ایسا نہیں ہے کہ مذہب ( اسلام )تمام سائنس کا احاطہ نہیں کرسکتا ۔ اصل میں اسلام نے سائنس کو موضوع ہی نہیں بنایا ہے ۔ اور جو بھی سرسری طور پر سائنسی توجہیات پیش کیں ہیں ۔ وہ صرف اس وجہ سے سائنس سے متعلق بنیں کہ وہاں اللہ کو اپنی بات سمجھانی مقصود تھی ۔ سائنس وہاں موضوعِ بحث ہی نہیں ہے۔ بلکہ توحید اور مخلوق سے متعلق اللہ کی صفات کا بیان کیا جاناتھا ۔
 

عثمان

محفلین
مذہب کا ٹکراؤ سائنس سے نہیں ہے؟ میرا تو کیا خیال ہے کہ یہ ایک understatement ہے۔ ورنہ مذہب کا ٹکراؤ تو ہر اس علم کے ساتھ ہے جس کی بنیاد محض اعتقاد نہیں ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ پہلے ہمیں مذہب اور سائنس کے مقدمے کا تعین کر لینا چاہیئے ۔ مذہب کا بنیادی مقصد اخلاقی کردار کو پاکیزگی سے متعارف کروانا ہے ۔ جبکہ سائنس انسان کے اُس مادی وجود کو اپنی فلاح کا مقصد سمجھتی ہے ۔ جو مظاہر فطرت کی منطقی توجہہ کرنے کے بعد زندگی میں جمالیاتی وسائل کی جستجو کرسکے ۔ مگر یہ مسلم ہے کہ کچھ ایسے معاملات ہیں جن پر سائنس اور مذہب یکساں موقوف نہیں رکھتے ۔مگر اس کی سائنسی نہیں بلکہ اخلاقی وجوہات ہیں ۔

رہی بات understatementکی تو یہ مختلف ادوار میں مختلف لوگ اپنے حاضر علم کے اسیر ہوکر ہر اس بات کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جو ان کی تحقیق اور علم کی دسترس سے دور تھی ۔دوسری وجہ دین کو سمجھنے کا وہ زاویہِ نظر ہے۔ جو عموماً آج بھی ہمیں اپنے گرد نظر آتا ہے کہ قرآن کو اپنے محدود علم اور ایک مخصوص سوچ کے ذہن سے سمجھتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک عرصے تک قرآن کی ایک آیت کہ " ماں کے پیٹ میں جو کچھ ہے ۔اس کا علم صرف اللہ کو ہے " اس کو مرد اور عور ت کی جنس سے منسلک کردیا اور کہا جاتا رہا ہے ۔ ماں کے پیٹ میں بچہ لڑکا ہے یا لڑکی اس کا علم صرف اللہ کو ہے ۔ اس حوالے سے ہزاروں ایسے فتوے بھی آئے ۔ جن کے تحت والدین کو اس بات سے سخت منع کردیا کہ وہ سائنسی طور پر بچے کی جنس جاننے کی کوشش نہ کریں ۔ اور بارہا ایسے تبصرے یہاں اس فورم پر بھی نظر سے گذرے ۔ جن میں اسی بات کی تکرار کی گئی ۔ مگر جب صحیح طور پر آیت کا جائزہ لیا گیا تو وہ جنس کا تو سرے سے ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ اللہ نے انسانی شخصیت کے حوالے سے یہ فرمایا کہ مادرِ رحم میں کیا شخصیت ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے ۔یعنی یہ بچہ کل کا آئن اسٹائن بنے گا یا علامہ اقبال ۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہے ۔ اور یہ بات ہر اس شخص کے لیئے منطق کی حیثیت رکھتی ہے ۔ جو اللہ پر کسی طور پر یقین رکھتا ہے ۔

اسی طرح 1982 میں ایک سعودی مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز نے اسی آیت پر ( جو یہاں کوٹ کی جاچکی ہے ) کہ زمین چپٹی ہے ۔ اور کوئی اس سے اختلاف کرے گا تو وہ کفر کا مرتکب ہوگا ۔اب اس محدود علم پر ان کے حق میں دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی جو تعبیر مختلف اور مخصوص ذہن اپنی علمیت کو بنیاد بنا کر کرتے ہیں ۔ اس کو لوگ دین او ر مذہب سے جوڑ دیتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح سائنس بھی اپنے حاضر علم کی اسیر ہوکر کچھ ایسے نظریات پیش کردیتی ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوجاتے ہیں ۔جیسا کہ قرآن میں کہا گیا کہ ہم انسانی شکل کو مراحل سے گذارتے ہوئے پہلے ہڈیا ں اور پھر ان پرمسلز چڑھاتے ہیں ۔ سائنس اس سے ایک عرصے تک اختلاف کرتی رہی کہ نہیں ۔۔۔ دونوں عمل ایک ساتھ ہوتے ہیں ۔ مگر جدیدتحقیق نے ثابت کردیا کہ قرآن کی بات صحیح ہے ۔
لہذا سائنس اور مذہب کو ٹکراؤ دونوں طرف سے اسی وقت ممکن ہے جب دونوں طرف سے اس طرح کی تو جہات پیش کی جائیں۔ اگر کوئی کسی کے فتوے اور علم کو لیکر اسے مذہب کا نام دیکر سائنس یا سائنس کو مذہب سے متصادم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ میری نظر میں ایکunderstatementہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
مجھے بحث آسان بنانی ہے۔ چنانچہ مختصراً عرض ہے:


آج سے قبل ہزاروں بار ہمیں یہ کہا جاتا رہا کہ مذہب زندگی کی ہر ہر فیلڈ کا احاطہ کرتا ہے، چاہے وہ روحانیت ہو، یا پھر دنیاوی امور جیسے نظام حکومت، سزائیں، لین دین وغیرہ۔
پھر یہ بات ہمارے ذہنوں میں بٹھانے کے لیے قرآنی آیت کی رٹ لگائی جاتی رہی کہ ہر خشک و تر کا علم قرآن میں موجود ہے۔
لَارَطْبٌ وَ لَایَابِٔسَ الِاَّفِی کِتَابٍ مُبِیْنٍ (سورۃ انعام آیت ۵۹ )
کوئی خشک و تر نہیں ہے مگر یہ کہ کتابِ مبین میں موجود ہے۔
مگر آج یہ سب چیزیں الٹ گئیں۔
آج مذہب پر سائنس کے حوالے سے تنقید کرنے پر ہمیں کہا جا رہا ہے کہ مذہب سائنس ثابت کرنے نہیں آیا بلکہ خدا اور روحانیت کی طرف رہنمائی کرنے آیا ہے۔
بحث کو آسان بنانے کے لیئے میں آپ کا ساتھ دیتا ہوں ۔
پہلے تو آپ دو چیزوں کو الگ کردیں ۔
1- قرآن
2- علماء کے فتاوات

اگر آپ فتاوات کے حوالےس ے بات کریں گی تو میری پاس زیادہ کچھ کہنے کو نہیں کہ میں اس بارے میں اپنے بات وضع کرچکا ہوں ۔
اگر آپ قرآن کی کسی آیت کو کسی مخصوصInterpretationسے متاثر ہوکر یہاں اس کو بحث کا حصہ بنائیں گی تو شاید اس پر کوئی علمی بحث ہوسکے ۔
آپ کے جس کے اقتباس کو میں نے کوٹ کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ مجھے مخاطب کررہیں ہیں ۔

اگر میں کہتا ہوں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اخلاقی وجود کو پاک کرنے آیا ہے کہ ہمیں کس طرح قیامت میں سرخرو ہونا ہے ۔ جب میں یہ بات کہتا ہوں تو میرا مدعا واضع ہو جاتا ہے ۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں اس میں یہ اضافہ کردوں کہ یہ ایک "مکمل کتاب " ہے۔ تو اس بات کا کیا مطلب لیا جائے گا ۔ یہی کہ یہ کتاب جس تناظر میں اتاری گئی ہے ۔ اس میں ایک مکمل کتاب کی حیثیت کررکھتی ہے ۔ اب اگر کوئی اس میں سے سائنس اور دیگر علوم برآمد کرنا شروع کردے تو کیا کیا جاسکتا ہے ۔ قرآن ان معاملات میں ایک مکمل کتاب ہے ۔جس میں ہمیں اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ۔ آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے کمیپوٹرایجاد کرلیا ۔ آپ نے کیوں نہیں کیا ۔
میں کہہ چکا ہوں کہ قرآن میں کوئی سائنسی چیز اس وقت زیرِ بحث آتی ہے ۔ جب قرآن توحید پر یا آخرت پر دلائل دے رہا ہوتا ہے ۔ اس کے ضمن پر وہ بات زیرِ بحث آتی ہے ۔ کسی بات کے " موضوع" ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس " چیز" کو موضوع " بنا کر بات کی جائے ۔ آپ سائنس کے حوالے سے پورا قرآن پڑھ جائیں ۔ قرآن نے یہ کہیں نہیں کیا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ فہقاء کی آراء کو قرآن و حدیث کا مسلک بنا کر پیش نہ کریں ۔اگر فہقاء کی ایسی آراء موجود ہیں ( جن کو آپ بنیاد بنا کر اعتراض کر رہیں ہیں ) تو ہم ان کے استدلا ل اور ماخذ کا جائزہ لیں گے ۔اور اگر اس میں آج کے علم کے مطابق کوئی کمی ہوگی تو اس کا احاطہ کریں گے ۔ دیکھیں 1500 صدی تک یہودی ، عیسائی اور مسلمان یہ سب زمین کو چپٹا سمجھتے تھے ۔ مگر جب آج تحقیقی علم اور شواہد سامنے آئے تو انہیں توریت ، انجیل اور قرآن کی سائنسی توجہات سمجھنے میں آسانی میسر آئی ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہوا کہ مذہب اپنی ذات میں غلط توجہات پیش کررہا تھا ۔ بلکہ اس دور کے لوگ اپنے حاضر علم کے تحت ان آیتوں کا مطلب یہی اخذ کرتے تھے ۔ آج سے 500 سال بعد انسان کہاں کھڑا ہوگا اور ہماری کسی بات پر ہنس رہا ہوگا ۔ یہ کسے معلوم ہے ۔لہذا مذہب پر تنقید فقہاء کی آراء پر نہ کریں ۔ اور مذہب کو مذہب کی جگہ اور سائنس کو سائنس کی جگہ رہنے دیں ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش آپ کے نزدیک مذہب کی تعریف کیا ہے اوراس کی اساس کیا ہے؟

بہت زبردست سوال ہے ۔

میرے نزدیک یہ موضوع سے غیر متعلق ہے۔
اگر آپکے نزدیک یہ موضوع سے متعلق ہے، تو مجھ سے سوال پوچھنے کی بجائے آپکو خود مذہب اور اسکی اساس کی تعریف کر کے اسکا تعلق قرآن و حدیث پر اٹھنے والے سائنسی سوالات سے ثابت کرنا چاہیے۔
میں بحث کو آسان بنانا چاہتی ہوں اور میرا مطالبہ سادہ سا ہے کہ میرے سوالات کے براہ راست جوابات دیے جائیں بجائے اسے مذہب کی تشریحات کے نام پر الجھانے کے۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ ایک مخصوص مذہبی فکر ہے جسے مذہب پر جنرلائز نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں مذہب سے مراد " اسلام " ہے اور اسی حوالے سے قرآن وحدیث کو سامنے رکھ کر اس پر بحث ہو رہی ہے ۔ اور اس حوالے سے اسلام کی بنیادی تعلیم یہی اخلاقی کردار کی پاکیزگی ہے ۔(کم از کم اسلام کی تعلیمات یہی ہے )باقی مذہب پر یہ فکر لاگو نہیں ہوتی ۔ یہ آپ بہتر طورجانتے ہونگے کہ آپ شاید ان کا زیادہ علم رکھتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:
Top