صفی حیدر
محفلین
ذرہ نوازی ہے آپ کی ۔۔۔ حوصلہ افزائی کے لیے آپ کا ممنون ہوں ۔۔۔آپ کی کاوش ہر طرح سے قابلِ داد و تحسین ہے۔
ذرہ نوازی ہے آپ کی ۔۔۔ حوصلہ افزائی کے لیے آپ کا ممنون ہوں ۔۔۔آپ کی کاوش ہر طرح سے قابلِ داد و تحسین ہے۔
اب ہم آپ سے جیتتے اچھے لگتے ہیں کیاجی جناب، صرف 2 سال چھوٹے ہیں، لیکن تجربہ میں ہم آپ سے 18 سال بڑے ہیں
عزیزانِ محفل !
آداب.
ہمارے ترکش میں تو چند ناوکِ نیم کش، صورتِ اشعار پڑے ہیں. اگر ہماری یہ مشقِ ستم (مشقِ سخن ) آپ کے ادبی ذوق کو خدا نخواستہ گھائل کر دے تو اس کے لیے پیشگی معذرت قبول فرمائیے.
دو پرانی غزلیں جو مجھے پسند ہیں ، پیشِ خدمت ہیں :
غمِ دو جہاں سے گئے ہیں
لو ہم اپنی جاں سے گئے ہیں
ملیں گے کسی کو نہ اب ہم
زمان و مکاں سے گئے ہیں
ہنر تھا نہ خوبی نہ انداز
سو نام و نشاں سے گئے ہیں
زمیں نکلی پیروں تلے سے
کبھی آسماں سے گئے ہیں
دمِ مرگ جتنے یقیں تھے
مرے وہ گماں سے گئے ہیں
محبت ہوئی جن کو المٰی
وہ سود و زیاں سے گئے ہیں
دوسری غزل ...
اگر تو ہے بشر مٹی
پِھراُس کا ہر سفر مٹی
ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی
سراپا خاک کر ڈالا
یہ دِل مٹی جگر مٹی
اٹے ہیں گرد سے منظر
دِکھے شام و سحر مٹی
کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی
صدائےکُن سے پہلے تھے
یہ برگ و گُل ,شجر مٹی
جو اُترے قبر میں الٰمی
ہوئے سارے ہُنر مٹی
اب ایک نگاه مصرع طرح پر کی گئی اس قافیہ پیمائی پر بھی ڈالیے.
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
شوخیِ گفتارِ جاناں! کہہ ترے جو دل میں ہے
اُس پہ ہے بارِ محبت، صورتِ کوہِ گراں
آہ! دیکھو وہ تن آساں، کس قدر مشکل میں ہے
پہلو میں ہو جامِ ساگر، اور ایسی تشنگی
مے کشی سے یوں کنارہ، کیوں خوئے ساحل میں ہے
اس طرح پائی ہے ہم نے، پائے لغزش کی سزا
اک قدم ہے راستے میں، دوسرا منزل میں ہے
غمگسارو! رنج مجھ کو، نارسائی کا نہیں
میرا کُل سامان ِحسرت، زیست کے حاصل میں ہے
بہت نوازش .
عزیزانِ محفل !
آداب.
ہمارے ترکش میں تو چند ناوکِ نیم کش، صورتِ اشعار پڑے ہیں. اگر ہماری یہ مشقِ ستم (مشقِ سخن ) آپ کے ادبی ذوق کو خدا نخواستہ گھائل کر دے تو اس کے لیے پیشگی معذرت قبول فرمائیے.
دو پرانی غزلیں جو مجھے پسند ہیں ، پیشِ خدمت ہیں :
غمِ دو جہاں سے گئے ہیں
لو ہم اپنی جاں سے گئے ہیں
ملیں گے کسی کو نہ اب ہم
زمان و مکاں سے گئے ہیں
ہنر تھا نہ خوبی نہ انداز
سو نام و نشاں سے گئے ہیں
زمیں نکلی پیروں تلے سے
کبھی آسماں سے گئے ہیں
دمِ مرگ جتنے یقیں تھے
مرے وہ گماں سے گئے ہیں
محبت ہوئی جن کو المٰی
وہ سود و زیاں سے گئے ہیں
دوسری غزل ...
اگر تو ہے بشر مٹی
پِھراُس کا ہر سفر مٹی
ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی
سراپا خاک کر ڈالا
یہ دِل مٹی جگر مٹی
اٹے ہیں گرد سے منظر
دِکھے شام و سحر مٹی
کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی
صدائےکُن سے پہلے تھے
یہ برگ و گُل ,شجر مٹی
جو اُترے قبر میں الٰمی
ہوئے سارے ہُنر مٹی
اب ایک نگاه مصرع طرح پر کی گئی اس قافیہ پیمائی پر بھی ڈالیے.
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
شوخیِ گفتارِ جاناں! کہہ ترے جو دل میں ہے
اُس پہ ہے بارِ محبت، صورتِ کوہِ گراں
آہ! دیکھو وہ تن آساں، کس قدر مشکل میں ہے
پہلو میں ہو جامِ ساگر، اور ایسی تشنگی
مے کشی سے یوں کنارہ، کیوں خوئے ساحل میں ہے
اس طرح پائی ہے ہم نے، پائے لغزش کی سزا
اک قدم ہے راستے میں، دوسرا منزل میں ہے
غمگسارو! رنج مجھ کو، نارسائی کا نہیں
میرا کُل سامان ِحسرت، زیست کے حاصل میں ہے
بہت نوازش .
ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی
کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی
اس طرح پائی ہے ہم نے، پائے لغزش کی سزا
اک قدم ہے راستے میں، دوسرا منزل میں ہے
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
شوخیِ گفتارِ جاناں! کہہ ترے جو دل میں ہے
اُس پہ ہے بارِ محبت، صورتِ کوہِ گراں
آہ! دیکھو وہ تن آساں، کس قدر مشکل میں ہے
پہلو میں ہو جامِ ساگر، اور ایسی تشنگی
مے کشی سے یوں کنارہ، کیوں خوئے ساحل میں ہے
اس طرح پائی ہے ہم نے، پائے لغزش کی سزا
اک قدم ہے راستے میں، دوسرا منزل میں ہے
غمگسارو! رنج مجھ کو، نارسائی کا نہیں
میرا کُل سامان ِحسرت، زیست کے حاصل میں ہے
محترم صفی بھائی بہت حوبصورت کلام۔ عمدہ اشعار۔۔ کیا کہنے جی۔ خوبصورت۔جان لی تیغِ تبسم سے کئی عشاق کی
قتل کرنے کا سلیقہ خوب تر قاتل میں ہے
کیا ہے لازم ہاتھ پھیلے بندہ پرور کے حضور
تم سخی ہو دیکھ لو خود کیا طلب سائل میں ہے
لا تعلق ہوں میں خود سے بے خبر دنیا سے ہوں
بس ترا دیدار میری حسرتِ کامل میں ہے
ایک نقطے میں سمٹتا حسن ایسے ہے صفی
دلکشی بے مثل دیکھی اس کے لب کے تل میں ہے
حسن محمود بھائی بہت شکریہ ۔۔۔ آپ نے داد سے نواز کر حوصلہ افزائی کی ۔۔۔۔محترم صفی بھائی بہت حوبصورت کلام۔ عمدہ اشعار۔۔ کیا کہنے جی۔ خوبصورت۔
سچ پوچھو تو آنکھوں میں بھی اشکوں کا تھا فقدان
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلےتھے
افسوس کہ وہ خود بھی تھے گمراہِ زمانہ
جو راستہ بتلانے زمانے کو چلے تھے
جن سے نہ ہوئی پھولوں کی گلشن میں حفاظت
گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے
کچھ اور نظر آنے لگا زخم جگر کا
کیا کہتے کہ ہم زخم چھپانے کو چلے تھے
پتھر بھی جو روتے تو تعجب نہیں ہوتا
ہم حالِ شکستہ جو سنانے کو چلے تھے
اپنوں سے تو رکھا نہ تعلق کوئی فائق
رشتہ تو زمانے سے نبھانے کو چلے تھے
بات دل کی کیا ہمارے وہ تمہارا ہے اسیر
کوئی وقعت بھی ہماری کیا تمہارے دل میں ہے
اس کی جانب جو گیا وہ لوٹ کر آیا نہیں
بس خدا جانے کشش کیسی تری محفل میں ہے
واجباً گرچہ نہیں ہے_احتیاطاً ہے_مگر
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
میں بھی ہوں فائق ذرا شعر و سخن سے آشنا
بے سبب موجودگی میری کہاں محفل میں ہے
محبت ہوئی جن کو المٰی
وہ سود و زیاں سے گئے ہیں
اگر تو ہے بشر مٹی
پِھراُس کا ہر سفر مٹی
ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی
سراپا خاک کر ڈالا
یہ دِل مٹی جگر مٹی
کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی
ماشاءاللہ۔ مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی دونوں خوب ہیں۔اس طرح پائی ہے ہم نے، پائے لغزش کی سزا
اک قدم ہے راستے میں، دوسرا منزل میں ہے
ماشاء اللہ عمدہ کلام ہے ۔۔۔سچ پوچھو تو آنکھوں میں بھی اشکوں کا تھا فقدان
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے
سچ پوچھو تو آنکھوں میں بھی اشکوں کا تھا فقدان
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے
افسوس کہ وہ خود بھی تھے گمراہِ زمانہ
جو راستہ بتلانے زمانے کو چلے تھے
جن سے نہ ہوئی پھولوں کی گلشن میں حفاظت
گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے
تھے
آرزو خود سے شناسائی کی میرے دل میں ہے
پر کہاں امکان اس کا حال و مستقبل میں ہے
میں بھی ہوں فائق ذرا شعر و سخن سے آشنا
بے سبب موجودگی میری کہاں محفل میں ہے
شکریہ تابش بھائیواہ واہ. بہت خوب. سچے اشعار کہے ہیں فائق بھائی.
ڈھیروں داد