محمدابوعبداللہ
محفلین
امجد علی راجا صاحب بہت خوب
واہ واہدل تو میرا اداس ہے لیکن
آنکھ میں میری نم نہیں ہوتا
بہت خوب۔روٹھنے والے بتا لوٹ کے. کب آوگے
تجھ سے ملنے کا ہے ارمان خدا خیر کرے
قسمے... میری نظرسے شعر کیسے رہ گیاواہ واہ
ویسے ایسے بھی ہوتا ہے یا مجھے آشوب چشم ہے؟
بہت خوب۔
حسن محمود جماعتی صاحب اسی کے متعلق لگتا ہے۔
منتظمین اور دیگر افراد کے شکریے کے ساتھ ایک غزل۔
اور کیا ساماں بہم بہرِ تباہی چاہیے
حسنِ لب بستہ سے ذوقِ کم نگاہی چاہیے
جانثاری مشغلہ ہی سمجھیے عشاق کا
روزِ محشر آپ کی لیکن گواہی چاہیے
آبلوں کی جستجو میں دشت گردی خوب، پر
علم کچھ منزل کا بھی نادان راہی چاہیے
ہم لیے پھرتے ہیں کاندھوں پر جہاں داری کا بوجھ
اور ضد یہ ہے، غرورِ کج کلاہی چاہیے
بسکہ طالب اپنے دل پر اختیارِ کل کے ہیں
کب سکندر کی سی ہم کو بادشاہی چاہیے
آرزو یاں کچھ نہیں جز ایک اقرارِ گنہ
اور واں اصرار، تیری بے گناہی چاہیے
شعر گوئی کارِ لاحاصل سہی، پر سچ یہ ہے
مشغلہ آخر کوئی خواہی نخواہی چاہیے
اور مصرع طرح پر میری طبع آزمائی:
قیس کو دشت جنوں میں بڑھ کے ہے زنجیر سے
اک کسک کہ جستجوئے عشق لاحاصل میں ہے
عشق کا ہر مرحلہ پہلے سے ہے دشوار تر
دل خدا جانے کہاں ہے، کون سی منزل میں ہے
چین سے رہنے نہیں دیتی کہیں اک پل مجھے
ایک سیمابی سی کیفیت کہ آب و گل میں ہے
مار ڈالے گی ہمیں پتھر دلی کے باوجود
کچھ ستاروں سی چمک جو دیدۂ سائل میںہے
بحر کی موجوں کو گر بھاتا ہے ساحل کاسکون
بے کراں ہونے کی حسرت موجۂ ساحل میں ہے
بے نیازی کا وہ عالم ہے، تسلی یہ نہیں
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بہت خوب نقوی صاحب، کیا کہنے۔السلام علیکم منتظمین و قارئین کرام ۔۔۔۔
حکم کی تعمیل میں ایک ادنی سی کوشش پیش خدمت ہے ۔۔۔۔
غزل
مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نا رکھ
صدا و صوت کی اندھی قیود میں نا رکھ
میں تیرے حرف ِ دعا سے بھی ماورا ہوں میاں
مجھے تُو اپنے سلام و درود میں نا رکھ
کلیم ِ وقت کے در کو جبیں ترستی ہے
امیر ِ شہر کے بیکل سجود میں نا رکھ
نظام ِ قیصر و کسری کی میں روانی ہوں
وجوب ِ عین ہوں صاحب شہود میں نا رکھ
بچھا یقیں کا مصلی درون ِ ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نا رکھ
پس ِ وجود ِ جہاں میری خاک ہی تو ہے
رموز ِ ہستی ِ دوراں وُرود میں نا رکھ
ذوالفقار نقوی ۔۔ انڈیا
بہت بہت شکریہ برادر ِ گرامی القدر محمد وارث صاحب۔۔۔۔ حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں ۔۔۔۔جزاک اللہبہت خوب نقوی صاحب، کیا کہنے۔
واہ!! کیا خوب فرمایا۔۔ عمدہ کلام!!کفِ قاتل کی شکن بھی تو الگ ہے سب سے
اور مقتول کی ٹوٹی ہوئی تلوار جدا
میری دستار پہ چھینٹے ہیں لہو کے میرے
اے فلک ناز مرے، ہے مری دستار جدا
عشق تیرا وه حقیقت ہے جو میرے دل میں ہے
آب دریا کا اثر کچھ پرده ساحل میں ہے
آہا آہا!! کیا کہنے!! بہت سی دادمجھ سے مت نالان ہونا تجھ سے جب مانگوں ہنسی
پیار کی خواہش ہمیشہ لہجہء سائل میں هے
زبردست غزل ارشاد فرمائی۔۔ بہت سی داد!!دلِ درد آشنا رکھے ہوئے ہیں
بدن میں کربلا رکھے ہوئے ہیں
کسی کے رنگ میں ڈھلتے نہیں ہیں
ہم اپنی کیمیا رکھے ہوئے ہیں
ہمیں تفہیمِ دنیا کے معمے
خلا اندر خلا رکھے ہوئے ہیں
کوئی منزل نہیں منزل ہماری
اِک آتش زیرِ پا رکھے ہوئے ہیں
لڑائی ظلمتِ شب سے ہے جاری
سرِ بام اک دیا رکھے ہوئے ہیں
آئے ہائے ہائے!! کیا بات ہے مریم بہنا!! اتنی لاجواب کاوش پہ بہت سی داد!!اِک شور تھا جو اندر , وہ آج مچ گیا ہے
اُتنا ہی اب عیاں ہُوں, جِتنا کبھی نہاں تھا
بہت شکریہ!!انتساب: سب محفلین کے نام
ایک ایک شعر لاجواب!! کیا بات ہے!! بہت عمدہ!!حُسن کی وہ اِک جھلک جو پردۂ محمل میں ہے
حُسن ایسا نہ کبھی دیکھا مہِ کامل میں ہے
زلف بکھرا کر نہ تُم آیا کرو یُوں سامنے
حوصلہ کب اِتنا تیرے عاشقِ عادل میں ہے؟
عمر ساری چلتا جاؤں,حُسنِ جاناں کی قسم!
ہم سفر تجھ سا ہو تَو پھر رکھا کیا منزل میں ہے؟
تخلیہ! اے ناصحا! مجھ کو اکیلا چھوڑ دے
یاد اُس کی جلوہ فرما آج میرے دل میں ہے
جو صنم کل تھا تراشا وہ خُدا بن بیٹھا آج
زندگی آزر کی اب تَو , ہاں! بہت مشکل میں ہے
مجھ سے آشفتہ مزاجوں کا نہ ہے واں کوئی کام
"ذکر میرا مُجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے"
تُو ہی تُو ہے ہر طرف اور بس تِرا ہی ہے خیال
بس یہی ہے سب سے اُولٰی, جو مِرے حاصل میں ہے
میری فظرت ہے سرِ تسلیم خم کرنے کی خو
ناز پرور تم بتا ئو کیا تمھارے دل میں ہے
جان لی تیغِ تبسم سے کئی عشاق کی
قتل کرنے کا سلیقہ خوب تر قاتل میں ہے
بہت خوب صفی بھائی!!کیا ہے لازم ہاتھ پھیلے بندہ پرور کے حضور
تم سخی ہو دیکھ لو خود کیا طلب سائل میں ہے
محبت ہوئی جن کو المٰی
وہ سود و زیاں سے گئے ہیں
بہت خوب غزل ارشاد فرمائی لا المیٰ بہنا!! بہت سی داد!اگر تو ہے بشر مٹی
پِھراُس کا ہر سفر مٹی
ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی
سراپا خاک کر ڈالا
یہ دِل مٹی جگر مٹی
اٹے ہیں گرد سے منظر
دِکھے شام و سحر مٹی
کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی
صدائےکُن سے پہلے تھے
یہ برگ و گُل ,شجر مٹی
جو اُترے قبر میں الٰمی
ہوئے سارے ہُنر مٹی
واہہہہہہہہہہہ
خوب صورت موسموں میں بارشیں نفاق کی
محو حیرت ہوں کہ پانی کس قدر بادل میں ہے
سوچتا ہے ہر کوئی محفل میں بیٹھا ہے عبث
میں ہوں بہتر مجھ سے بہتر کون اس منزل میں ہے
محفلیں چاہت سے پر ہوں اور باتیں پیار کی
کون جانے کس قدر نفرت تمہارے دل میں ہے
یہ تو ممکن ہی نہیں ہے غیب ہم بھی جان لیں
آج دعوے علم کے، سب قبضہ جاہل میں ہے
گفتگو ہے گفتگو ہے خامشی ہر دل میں ہے
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بدظنی سے بچ کے رہنا رحمتوں کی آس پر
راہ چلنا ان(ص) کی جن ہر ادا کامل میں ہے
اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے
واہ!! بہت خوب!!اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے
بہت خوب!!دم بہ دم اک جستجو، دریا بہ دریا جُو بہ جُو
ہے مزا جو اس تگ و دو میں، کہاں حاصل میں ہے!
پھر نئے طوفاں سے ہونگے برسرِ پیکار ہم
اس توقع کی وجہہ کچھ دوریءِ ساحل میں ہے
بہت خوب غزل کہی۔۔ بہت سی داد قبولیے۔نگاہِ ناز نے بھٹکا دیا تھا تقریباََ
تُو ریگزارِ محبّت سے بال بال بچا !
ذرا سا بیٹھ کے پھر سوچ لے محبّت پر
یہ چند لمحے خرچ کر کے ماہ و سال بچا !
شکار گھات لگائے تھا خود شکاری پر
وہی ہوا کہ شکاری بچا ، نہ جال بچا !
صفِ عدو سے نکل کر تو دوستوں میں ہے اب
جو وار پشت سے ہو، اس کو اب سنبھال ، بچا !
کتابوں میں بہت نقصان اٹھا کر
دکاں پر رکھ لئے جوتے جرابیں
چراغ علم یوں روشن کیا پھر
سر فٹ پاتھ رکھ دیں سب کتابیں
میں تو سمجھا تھا کہ جاں لیوا ہے بیماری مری
موت کا سامان لیکن ڈاکٹر کے بل میں ہے
دیکھئے، رشوت نہیں لایا، سفارش بھی نہیں
ایک بھی خوبی بھلا اس کی پروفائل میں ہے؟
واہہہہہہہہہہہہہہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے
آبلوں کی جستجو میں دشت گردی خوب، پر
علم کچھ منزل کا بھی نادان راہی چاہیے
آرزو یاں کچھ نہیں جز ایک اقرارِ گنہ
اور واں اصرار، تیری بے گناہی چاہیے
شعر گوئی کارِ لاحاصل سہی، پر سچ یہ ہے
مشغلہ آخر کوئی خواہی نخواہی چاہیے
قیس کو دشت جنوں میں بڑھ کے ہے زنجیر سے
اک کسک کہ جستجوئے عشق لاحاصل میں ہے
چین سے رہنے نہیں دیتی کہیں اک پل مجھے
ایک سیمابی سی کیفیت کہ آب و گل میں ہے
واہہہہہہہہہہہہہبے نیازی کا وہ عالم ہے، تسلی یہ نہیں
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نا رکھ
صدا و صوت کی اندھی قیود میں نا رکھ
کلیم ِ وقت کے در کو جبیں ترستی ہے
امیر ِ شہر کے بیکل سجود میں نا رکھ
نظام ِ قیصر و کسری کی میں روانی ہوں
وجوب ِ عین ہوں صاحب شہود میں نا رکھ
بچھا یقیں کا مصلی درون ِ ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نا رکھ
دشت میں دھوپ کی بھی کمی ہے کہاں
پاؤں شل ہیں مگر بے بسی ہے کہاں
میرا سوز ِ دروں مائل ِ لطف ہو
مجھ میں شعلہ فشاں وہ نمی ہے کہاں
زبردستصوت و حرف ِ تمنا سے ہو با خبر
ایسی ادراک میں نغمگی ہے کہاں
بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔۔نوازش ۔۔۔۔جزاک اللہزبردست
بلاشبہ بہت خوب کلام
بہت سی دعاؤں بھری داد
ڈھیروں دعائیں
بہت بہت شکریہ لاریب بہنا!آئے ہائے ہائے!! کیا بات ہے مریم بہنا!! اتنی لاجواب کاوش پہ بہت سی داد!!
بہت شکریہ!!
ایک ایک شعر لاجواب!! کیا بات ہے!! بہت عمدہ!!
بہت شکریہ ۔۔۔ نوازش کہ آپ نے کلام کو پسند کیا ۔۔۔۔بہت خوب صفی بھائی!!
بہت خوب غزل ارشاد فرمائی لا المیٰ بہنا!! بہت سی داد!