سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

السلام علیکم منتظمین و قارئین کرام ۔۔۔۔
حکم کی تعمیل میں ایک ادنی سی کوشش پیش خدمت ہے ۔۔۔۔

غزل
مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نا رکھ
صدا و صوت کی اندھی قیود میں نا رکھ

میں تیرے حرف ِ دعا سے بھی ماورا ہوں میاں
مجھے تُو اپنے سلام و درود میں نا رکھ

کلیم ِ وقت کے در کو جبیں ترستی ہے
امیر ِ شہر کے بیکل سجود میں نا رکھ

نظام ِ قیصر و کسری کی میں روانی ہوں
وجوب ِ عین ہوں صاحب شہود میں نا رکھ

بچھا یقیں کا مصلی درون ِ ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نا رکھ

پس ِ وجود ِ جہاں میری خاک ہی تو ہے
رموز ِ ہستی ِ دوراں وُرود میں نا رکھ

ذوالفقار نقوی ۔۔ انڈیا

بہت خوب کلام۔۔ روح کے تار چھیڑتا، پر لذت۔۔۔۔ واہ واہ واہ کیا کہنے محترم بہت خوب۔

السلام علیکم ۔۔۔ تاخیر کے لئے معذرت ۔۔۔میرا نیٹ ایک مسئلہ تھا ۔۔۔۔
بہر حال حکم کی تعمیل میں ایک اور غزل پیش ِ خدمت ہے ۔۔۔۔۔

دشت میں دھوپ کی بھی کمی ہے کہاں
پاؤں شل ہیں مگر بے بسی ہے کہاں

لمس ِ دشت ِ بلا ہی کی سوغات ہے
میرے اطراف میں بے حسی ہے کہاں

خاک میں خاک ہوں ، بے مکاں بے نشاں
میرا ملبوس ِ تن خسروی ہے کہاں

میرا سوز ِ دروں مائل ِ لطف ہو
مجھ میں شعلہ فشاں وہ نمی ہے کہاں

پھونک دے بڑھ کے جو تیرگی کا بدن
میری آنکھوں میں وہ روشنی ہے کہاں

صوت و حرف ِ تمنا سے ہو با خبر
ایسی ادراک میں نغمگی ہے کہاں

ذوالفقار نقوی ۔۔۔ انڈیا
محترم بہت ہی عمدہ لاجواب۔ بہت خوبصورت۔ آپ کی نظر محسن نقوی صاحب کے یہ اشعار

مری محبت تو اک گہر ہے تری وفا بے کراں سمندر
تو پھر بھی مجھ سے عظیم تر ہے کہاں گہر اور کہان سمندر

وفا کی بستی میں رہنے والوں سے ہم نے محسن یہ طور سیکھا
لبوں پہ صحرا کی تشنگی ہو مگر دلوں میں نہاں سمندر
بہت خوب سر۔ اللہ رسول و آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے مزید برکتیں عطا فرمائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم ۔۔۔ تاخیر کے لئے معذرت ۔۔۔میرا نیٹ ایک مسئلہ تھا ۔۔۔۔
بہر حال حکم کی تعمیل میں ایک اور غزل پیش ِ خدمت ہے ۔۔۔۔۔

دشت میں دھوپ کی بھی کمی ہے کہاں
پاؤں شل ہیں مگر بے بسی ہے کہاں

لمس ِ دشت ِ بلا ہی کی سوغات ہے
میرے اطراف میں بے حسی ہے کہاں

خاک میں خاک ہوں ، بے مکاں بے نشاں
میرا ملبوس ِ تن خسروی ہے کہاں

میرا سوز ِ دروں مائل ِ لطف ہو
مجھ میں شعلہ فشاں وہ نمی ہے کہاں

پھونک دے بڑھ کے جو تیرگی کا بدن
میری آنکھوں میں وہ روشنی ہے کہاں

صوت و حرف ِ تمنا سے ہو با خبر
ایسی ادراک میں نغمگی ہے کہاں

ذوالفقار نقوی ۔۔۔ انڈیا
واہ واہ کیا کہنے نقوی صاحب، یہ بھی خوبصورت غزل ہے، لاجواب۔
 

صفی حیدر

محفلین
اور کیا ساماں بہم بہرِ تباہی چاہیے
حسنِ لب بستہ سے ذوقِ کم نگاہی چاہیے
جانثاری مشغلہ ہی سمجھیے عشاق کا
روزِ محشر آپ کی لیکن گواہی چاہیے
آبلوں کی جستجو میں دشت گردی خوب، پر
علم کچھ منزل کا بھی نادان راہی چاہیے
ہم لیے پھرتے ہیں کاندھوں پر جہاں داری کا بوجھ
اور ضد یہ ہے، غرورِ کج کلاہی چاہیے
بسکہ طالب اپنے دل پر اختیارِ کل کے ہیں
کب سکندر کی سی ہم کو بادشاہی چاہیے
آرزو یاں کچھ نہیں جز ایک اقرارِ گنہ
اور واں اصرار، تیری بے گناہی چاہیے
شعر گوئی کارِ لاحاصل سہی، پر سچ یہ ہے
مشغلہ آخر کوئی خواہی نخواہی چاہیے
واہ خوبصورت کلام ہے ۔۔۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نا رکھ
صدا و صوت کی اندھی قیود میں نا رکھ

میں تیرے حرف ِ دعا سے بھی ماورا ہوں میاں
مجھے تُو اپنے سلام و درود میں نا رکھ

کلیم ِ وقت کے در کو جبیں ترستی ہے
امیر ِ شہر کے بیکل سجود میں نا رکھ

نظام ِ قیصر و کسری کی میں روانی ہوں
وجوب ِ عین ہوں صاحب شہود میں نا رکھ

بچھا یقیں کا مصلی درون ِ ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نا رکھ

پس ِ وجود ِ جہاں میری خاک ہی تو ہے
رموز ِ ہستی ِ دوراں وُرود میں نا رکھ
واہ واہ سر ۔۔۔ خوبصورت اور لا جواب کلام ہے ۔۔۔۔۔
 

لاریب مرزا

محفلین
بہت بہت شکریہ لاریب!
اتنے دن ہو گئے کہ اب تَو میں بھول بھال گئی تھی :D
آپ کو میرا لکھا پسند آیا , یہ آپکی اعلٰی ذوقی کا منہ بولتا ثبوت ہے.:laughing::laughing:
سدا خوش رہو:love:
یہ تو اچھا ہوا کہ آپ کو اپنا بھولا ہوا کلام یاد آ گیا۔ :p
آپ بھی ہنستی مسکراتی رہیں :love:
 
ہا ہا ہا ہاہا !!!!! آپ نے تو سچ مچ ہنسادیا امجد صاحب !! کیا زعفران زار لائے ہیں آپ !! کیا مسکراہٹیں بکھیری ہیں ۔ باچھیں مرجھانے کا نام نہیں لے رہیں ۔ :):):)
خدا آپ کو سلامت رکھے ۔ تروتازہ رکھے ۔ آپ نے مشاعرے مین جان ڈال دی ۔ سلامت رہیں ۔
حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ ظہیر بھائی۔ دعاؤں کے لئے ممنون ہوں۔
 
امجد بھائی ماشا اللہ ۔
کیا خوبصورت کلام سے نوازا ہے جناب۔
لطف آ گیا۔
بس ایک ہی مشکل ہے کہ داد دیتے وقت تھوڑا "کنفیوزڈ" ہوں کہ آپ کو دوں کہ بھابھی کو ؟:p
بہترین کلام کے لئے ڈھیروں داد !!
حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ کاشف اسرار بھیا۔
بھابی کو آپ شاباشی دے دیں، میں فقط داد سے ہی کام چلا لوں گا ;)
 

لاریب مرزا

محفلین
کیوں چلوں طے کردہ راہوں پر مثال گوسفند
جستجو دل کی تلاش رہبر کامل میں ہے
بہت خوب!! عمدہ کاوش ہے۔

سب حاضرین کو السلام علیکم

میں کچھ متفرق اشعار پیش کرنا چاہوں گی ۔۔۔ نیا تو کچھ خاص لکھ نہیں پائی ہوں اس لیے پرانا کلام ہی حاضر خدمت ہے ۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام!!
بہت خوب کاوش ہے نور بہنا۔ لفظوں کے موتی بکھیرتی رہیں۔

میں اُسکو بھولنا چاہوں تو گونج کی صورت ،
وہ مجھ کو روح کی پاتال میں دکھائی دے ۔
غزل
ایک ادھورے خواب کا منظر آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
راتوں کا وہ چاند بنا ہے ، صبحوں کی تعبیر ہوا ہے ۔
درد سے جس کی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے۔
ہجر کی اندھی شش جہتوں میں،ذات کی سجدہ گاہوں میں
عشق ہمارا مرشد ِ اولیٰ ،عشق ہی قبلہ پیر ہوا ہے ۔
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔
صرف ِ نظر سے کیسے کیسے کم ظرفوں کو ظرف ملا ہے
اور ہماری آنکھ کا تنکا ہر اِک کو شہتیر ہوا ہے ۔
آج بھی میرے سر کی چادر ،تیرے عشق کا حجرہ ہے ۔
آج بھی تیرا نقش ِ کف ِ پا ، قدموں کی زنجیر ہوا ہے ۔
لفظ بنے ہیں میری شہرت ،عشق ہوا ہے وجہ ِ شہرت
ایک کئیے ہے ہر سو رسوا،ایک مری تشہیر ہوا ہے ۔
عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
لیکن کیا کوئی رانجھا اب تک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے۔
ایماں ایک زمیں زادے کے عشق کا ہے اعجاز فقط
یہ جو ایک سخن دیوی سے شعر نگر تعمیر ہوا ہے ۔
واہ!! کیا خوب غزل کہی ہے۔ بہت سی داد!!
 

لاریب مرزا

محفلین
ﺷﺮﺍﺭﺗﯿﮟ ﺑﻬﯽ ، ﻣﺤﺒﺖ ﺑﻬﯽ ، ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﮨﮯ ﺻﻨﻢ ! ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﺷﻮﻕ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻗﺼﻮﮞ ﮐﺎ
ﺍﺳﮯ ﺳﻨﺎﻧﺎ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﻣﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
ﻭﮦ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﺮﺟﻨﮯ ﺳﮯ ﮈﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ خٹکؔ
ﻣﺠﮭﮯ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﻬﯽ
اوئے ہوئے!!
کیا بات ہے جناب واسطی خٹک صاحب!! بہت عمدہ!!

محو حیرت ہوں کہ پانی کس قدر بادل میں ہے
واہ!! کیا کہنے۔۔ اعلیٰ
محفلیں چاہت سے پر ہوں اور باتیں پیار کی
کون جانے کس قدر نفرت تمہارے دل میں ہے
بہت خوب فیصل بھائی!! عمدہ کلام ہے۔
 
مانی عباسی بھائی، عمدہ کلام۔ اور سچ میں منفرد لب و لہجہ۔ یہ غزل بہت پسند آئی:
اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے
بلائے ہجر کو یوں تیشۂ فرہاد مت کیجے
یہ کوہِ چشم ہے یاں جوئے اشک ایجاد مت کیجے
اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے
خیالِ مرگ باعث بن گیا ہے دل کی راحت کا
دکھا کر خواب جینے کا اسے نا شاد مت کیجے
ہے اظہارِ فنِ نشتر زنی کا شَوق مژگاں کو
جگر پر تیر ہنس کے کھائیے فریاد مت کیجے
نہیں انکار مانی کو کہ ربط ان کو عدو سے ہے
مگر یہ کیا نصیحت ہے کہ ان کو یاد مت کیجے
---
ہمارے پیارے بھائی، خوب صورت شاعر کاشف اسرار احمد کی رمزیں وہی سمجھے جو ہماری طرح ان کا نیازمند ہو۔ سب کلام عمدہ، انوکھا مگر یہ شعر دل پر نقش ہو گئے، کاشف بھائی!
شاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے

عالمِ امکاں میں سب نقشِ قدم ہیں معتبر !
اور اسبابِ سفر کاشف رہِ منزل میں ہے
---
منیب احمد فاتح بھائی، پہلی مرتبہ آپ کا کلام نظر سے گزرا۔
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے!​
دل خوش ہو گیا۔ پھر جناب کی آواز کی مدھرتا، سبحان اللہ!
دل اندھیرے کا تری آگ سے ہو جائے گا موم
موم بتی کی طرح چپکے پگھل کچھ مت سوچ
روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
معرفت ڈھونڈ سرِ راہِ طلب زیرِ شجر
میرے گوتم! پسِ دیوارِ محل کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
---
نور سعدیہ شیخ ، باقی باتیں ایک طرف۔ ہماری نظر میں یہ شعر اب تک یہاں پیش کیے جانے والے چند عمدہ ترین اشعار میں سے ایک ہے:
مداوا غمِ دل کا ہوگا بھی کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت
---
ایمان قیصرانی صاحبہ ، کیا ہی کہنے آپ کی سخن آرائیوں کے۔ پہلے آپ کی شاعری پر رشک آیا، پھر پروفائل میں عمر (99 سال) دیکھی تو تجربے سے حسد ہو گیا۔
مذاق برطرف، آپ کی یہ غزل بھولنے والی نہیں:
ایک ادھورے خواب کا منظر آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
راتوں کا وہ چاند بنا ہے ، صبحوں کی تعبیر ہوا ہے ۔
درد سے جس کی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے۔
ہجر کی اندھی شش جہتوں میں،ذات کی سجدہ گاہوں میں
عشق ہمارا مرشد ِ اولیٰ ،عشق ہی قبلہ پیر ہوا ہے ۔
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔
صرف ِ نظر سے کیسے کیسے کم ظرفوں کو ظرف ملا ہے
اور ہماری آنکھ کا تنکا ہر اِک کو شہتیر ہوا ہے ۔
آج بھی میرے سر کی چادر ،تیرے عشق کا حجرہ ہے ۔
آج بھی تیرا نقش ِ کف ِ پا ، قدموں کی زنجیر ہوا ہے ۔
لفظ بنے ہیں میری شہرت ،عشق ہوا ہے وجہ ِ شہرت
ایک کئیے ہے ہر سو رسوا،ایک مری تشہیر ہوا ہے ۔
عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
لیکن کیا کوئی رانجھا اب تک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے۔
ایماں ایک زمیں زادے کے عشق کا ہے اعجاز فقط
یہ جو ایک سخن دیوی سے شعر نگر تعمیر ہوا ہے ۔
---
امجد علی راجا بھائی، آپ کو تو ہم داد دینے سے بھی عاجز آ گئے۔ کس کس شعر پہ دیں؟ حق کیونکر ادا کریں؟
یہ ضرور کہوں گا کہ مشاعرہ جناب کے بغیر واقعتاً ادھورا رہتا۔
بیگم! اسی کی چھاؤں میں رہتے ہیں عاشقین
رسوا کرو نہ زلف کو سالن میں ڈال کر​
ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے
ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے​
دریں چہ شک؟ ہونا بھی چاہیے!
---
نمرہ بی بی کے تو پھر ہم پرانے گھائل ہیں۔ نثر اور نظم دونوں میں محترمہ کو جو ایک منفرد لہجہ مبدءِ فیض سے ارزانی ہوا ہے اس پر رشک ہی کیا جا سکتا ہے۔
ذیل کے اشعار بالخصوص دلنشین ہو گئے:
عشق کا ہر مرحلہ پہلے سے ہے دشوار تر
دل خدا جانے کہاں ہے، کون سی منزل میں ہے
چین سے رہنے نہیں دیتی کہیں اک پل مجھے
ایک سیمابی سی کیفیت کہ آب و گل میں ہے
بحر کی موجوں کو گر بھاتا ہے ساحل کاسکون
بے کراں ہونے کی حسرت موجۂ ساحل میں ہے
---
قبلہ ذوالفقار نقوی صاحب، آپ کی پختگئِ کلام کو سلام۔ کیا ہی اچھے شعر کہے ہیں۔
بچھا یقیں کا مصلی درون ِ ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نا رکھ
ہائے ہائے!
 
Top