حسن محمود جماعتی
محفلین
قبلہ نوازش۔۔ عنایت آپ کی۔بہت خوب حسن محمود جماعتی صاحب
قبلہ نوازش۔۔ عنایت آپ کی۔بہت خوب حسن محمود جماعتی صاحب
بہت خوبغمِ دو جہاں سے گئے ہیں
لو ہم اپنی جاں سے گئے ہیں
ملیں گے کسی کو نہ اب ہم
زمان و مکاں سے گئے ہیں
ہنر تھا نہ خوبی نہ انداز
سو نام و نشاں سے گئے ہیں
اگر تو ہے بشر مٹی
پِھراُس کا ہر سفر مٹی
بے شک بہت عمدہصدائےکُن سے پہلے تھے
یہ برگ و گُل ,شجر مٹی
جو اُترے قبر میں الٰمی
ہوئے سارے ہُنر مٹی
خوب ۔غمگسارو! رنج مجھ کو، نارسائی کا نہیں
میرا کُل سامان ِحسرت، زیست کے حاصل میں ہے
سچ پوچھو تو آنکھوں میں بھی اشکوں کا تھا فقدان
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے
افسوس کہ وہ خود بھی تھے گمراہِ زمانہ
جو راستہ بتلانے زمانے کو چلے تھے
جن سے نہ ہوئی پھولوں کی گلشن میں حفاظت
گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے
تھے
کچھ اور نظر آنے لگا زخم جگر کا
کیا کہتے کہ ہم زخم چھپانے کو چلے تھے
پتھر بھی جو روتے تو تعجب نہیں ہوتا
ہم حالِ شکستہ جو سنانے کو چلے تھے
اپنوں سے تو رکھا نہ تعلق کوئی فائق
رشتہ تو زمانے سے نبھانے کو چلے تھے
کمالاس کی جانب جو گیا وہ لوٹ کر آیا نہیں
بس خدا جانے کشش کیسی تری محفل میں ہے
ہائے ۔۔غیر ممکن ہے وہ آئے گا جنازے پر مرے
اہمیت کوئی کہاں میری دلِ قاتل میں ہے
آہا آہا ۔۔کل بھی ہم مقتول تھے اور آج بھی مقتول ہیں
بوکھلاہٹ پھر بھی آخر کیوں صفِ باطل میں ہے
بہت عمدہ مزہ آیا آپ کی غزل پڑھ کر ۔۔واجباً گرچہ نہیں ہے_احتیاطاً ہے_مگر
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
میں بھی ہوں فائق ذرا شعر و سخن سے آشنا
بے سبب موجودگی میری کہاں محفل میں ہے
اللہ کرے زورِقلم اور ۔محتاجِ دعا
واہ عباسی بھائی اچھی فی البدیہہ غزل کہی آپ نے کچھ اشعار تو کمال کے ہیں ۔مانی اپنے من میں گر جھانکا کروں
عیب اوروں کے نہ یوں ڈھونڈا کروں
لوگ اس قابل نہیں اس دور کے
اب کسی سے میں محبت کیا کروں؟
بولنے مجھ کو پڑیں گے لاکھ جھوٹ
تا کہ ثابت خود کو میں سچا کروں
بک رہا ہوں ایک میٹھے بول پر
یار! خود کو سستا اور کتنا کروں؟
گفتگو سانسوں سے کریں سانسیں اور
لب سے لب پر اک غزل لکھا کروں
دیکھ کر ان میں سنوارو خود کو تم
اپنی آنکھوں کو میں آئينہ کروں؟؟؟
خوں سے لت پت وادئی کشمیر ہے
ایسے میں اب ذکر_گیسو کیا کروں؟
اور کوئی بھاتا نہيں اس الّو کو
دل کا مانی میں کروں تو کیا کروں
چاہتا ہوں گر برے اچھے بنیں
میں بروں کے ساتھ اچھا کروں
بھول جاؤں؟ یاد رکھوں؟ سوچ لوں؟
یوں کروں؟ ایسا کروں؟ ویسا کرو؟
اے خدا اتنی تو مجھ کو چھوٹ دے
میرا جب جی چاھے مر جایا کروں
بہت عمدہپڑا پاؤں ہوں جوڑے ہاتھ بھی ہیں پر نہیں بنتے
ترے کوچے کے پنچھی میرے نامہ بر نہیں بنتے
خبر ان کو ہو کیسے وسعت_افلاک کی ہائے
یہ وہ کرگس ہیں جو پرواز میں شہپر نہیں بنتے
اسے کیا علم ہے کیا قطرۂ نیساں حقیقت میں
شکم میں جس صدف کے عنبر و گوہر نہیں بنتے
کوئی فرعون کہہ دے گا کہ موسیٰ کو ہزیمت دو
بس اک اس خوف سے ہم لوگ جادوگر نہیں بنتے
تھی لطف_وصل تو اوقات سے باہر کی شہ اے دل
مگر کچھ خواب کیوں پلکوں کے ہم بستر نہیں بنتے
بیاں ہے شعبدہ بازی فقط گفتار کے غازی
يہ زاہد گلشن_ ملت کے برگ و بر نہیں بنتے
يہ اہل_عشق اہل_اشک بھی ہوتے ہیں مانی جی
تمہیں کس نے کہا یہ یار_ چشم_ تر نہیں بنتے
خوب است ۔اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے
بلائے ہجر کو یوں تیشۂ فرہاد مت کیجے
یہ کوہِ چشم ہے یاں جوئے اشک ایجاد مت کیجے
اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے
خیالِ مرگ باعث بن گیا ہے دل کی راحت کا
دکھا کر خواب جینے کا اسے نا شاد مت کیجے
ہے اظہارِ فنِ نشتر زنی کا شَوق مژگاں کو
جگر پر تیر ہنس کے کھائیے فریاد مت کیجے
نہیں انکار مانی کو کہ ربط ان کو عدو سے ہے
مگر یہ کیا نصیحت ہے کہ ان کو یاد مت کیجے
محترم صدرِ محفل، محترم مہمانِ خصوصی، محترم انتظامیہ اور تمام محترم محفلین کی خدمت میں آداب
ہرمحفل کے کچھ آداب ہوتے ہیں، محفلِ مشاعرہ کے تو خاص آداب ہوتے ہیں لیکن میرا کلام پڑھتے وقت صرف اس بات کا خیال رکھا جائے کہ آپ کی زوجہ محترمہ کی نظر میرے کلام پر نہ پڑ جائے (بصورتِ دیگر ذمہ داری آپ کی اپنی ہوگی)۔
امید ہے کہ آپ سب میرے اشعار کی گہرائی میں غوطہ زن ہونے کی بجائے صرف داد دینے پر ہی اکتفا کریں گے۔ اشعار کا مطلب آپ بعد میں سمجھتے رہیئے گا۔ سمجھ آگئے تو آپ کے نصیب بصورتِ دیگر یقین کر لیجیئے گا کہ الہامی کلام ہے۔
زلفِ دراز شان ہے حسن و جمال کی
نسوانیت ادھوری ہے اس کو نکال کر
بیگم! اسی کی چھاؤں میں رہتے ہیں عاشقین
رسوا کرو نہ زلف کو سالن میں ڈال کر
کتابوں میں بہت نقصان اٹھا کر
دکاں پر رکھ لئے جوتے جرابیں
چراغ علم یوں روشن کیا پھر
سر فٹ پاتھ رکھ دیں سب کتابیں
چار دفتر میں ہیں، اک گھر میں ہے اور اک دل میں ہے
چھ حسینوں میں گھرا امجد بڑی مشکل میں ہے
ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے
ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے
دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"
میں تو سمجھا تھا کہ جاں لیوا ہے بیماری مری
موت کا سامان لیکن ڈاکٹر کے بل میں ہے
دیکھ کر کل رات فیشن شو میں بوفے حسن کا
آ گئے ہم گھر مگر دل اب بھی اس محفل میں ہے
میری دل جوئی کو آنے لگ پڑیں ہمسائیاں
فائدہ کیا کیا مرا بیگم تری کِلکِل میں ہے
دیکھئے، رشوت نہیں لایا، سفارش بھی نہیں
ایک بھی خوبی بھلا اس کی پروفائل میں ہے؟
آپ جو فائل دبا کر بیٹھے ہیں دو ماہ سے
آپ کا نذرانہ عالی جا! اسی فائل میں ہے
ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے
(So Boring)
ایک جنجال ہے سسرال مرا، سو بورنگ
اس پہ شوہر بھی نہ قابو میں ہوا، سو بورنگ
مر گئے چھوڑ کے دولت کے خزانے دادا
جشن کے بدلے ہوئی قل کی دعا، سو بورنگ
گولڈ کی رنگ، آئی فون، نہ پرفیوم کوئی
پیار میں اس نے بس اک پھول دیا، سو بورنگ
گو کہ افسر ہے مگر ہے وہ بہت نالائق
اپنے خرچے پہ وہ حج کرنے گیا، سو بورنگ
چھ مہینے سے وہ چپکی ہے اسی لڑکے سے
آج کے فاسٹ زمانے میں وفا، سو بورنگ
شعر تو کہتے ہیں بجلی کے اجالے میں مگر
ان کے ہر شعر میں جلتا ہے دیا، سو بورنگ
ڈش کوئی مرغ کی کھائے تو کوئی بات بھی ہو
دال پہ کرتا ہے وہ شکر ادا، سو بورنگ
میں نے لکھا اسے اردو میں محبت نامہ
ہائے، انگریز کی بچی نے کہا، سو بورنگ
میری پرلطف غزل بزم میں سن کر لوگو
کس چھچھورے نے لگائی ہے صدا، ”سو بورنگ“
یہاں میں اپنی بیوی کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہوں گا جس کے تعریفی اور تنقیدی رویے نے اس مشاعرے کے لئے کلام مکمل کرنے میں میری بہت حوصلہ افزائی فرمائی، حالانکہ بحیثیتِ بیوی یہ کافی مشکل کام تھا۔
شکریہ بیگم۔
بہت سی داد اس عمدہ کلام پر...بہت بہت شکریہ مقدس آپ کا۔
صدر محفل کی اجازت سے۔۔۔۔
سب سے پہلے صدر محفل و میر محفل کو آداب اور سلام عرض ہے۔
جملہ محفلین، اراکین، قارئین، ناظرین، حاضرین، وابستگان اور مہمانان کو ہماری ہر دل عزیز اور بہت ہی پیاری "اردو محفل" کی گیارہویں سالگرہ بہت بہت مبارک ہو۔
؎ پھلا پھولا رہے یا رب چمن ہماری امیدوں کادعا ہے باری تعالی ہماری اس اردو محفل کو اسی طرح شاد آباد اور پر رونق رکھے ہمیں اس محفل سے اور آپس میں محبت عطا کرے۔
اجازت کے ساتھ۔۔۔۔
اس شعر سے آغاز کرتا ہوں، عرض کیا ہے کہ۔۔۔
؎ لکھا نہیں جو مقدر میں دینے والے نے
ملا نہیں تو پھر اس پر ملال کیسا ہے
ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
؎ ہاں دل کی تسلی کے لیے بات ٹھیک ہے
یہ اور بات خوف سا چھایا ہے آپ پر
دامن ہمارا چھوڑ کے جی لیں گے آپ بھی
لیکن ہمارا آج بھی سایہ ہے آپ پر
اس قطعہ اور غزل کے ساتھ اجازت۔۔۔۔۔
؎ وسعت ذات میں کھویا ہوں تجھے پایا ہے
جس جگہ دیکھتا ہوں یہ ترا سایہ ہے
میں کہ افلاک کی گردش کو کہاں چھو سکتا
یہ ترا لمس افق پار تلک لایا ہے
لے کے حسن و خمار پہلو میں
کب سے بیٹھا ہے یار پہلو میں
قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں
اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں
عشق کرنے کا ہے مزہ جب ہی
ہو رقابت کا خار پہلو میں
زندگی دیر تک نہیں چلتی
ہجر کا لےکے بار پہلو میں
آگ نفرت کی کیا جلائےہمیں
تیرے غم کی ہے نار پہلو میں
جب محبت کو ہم نےدفنایا
اک بنایا مزار پہلو میں
ہم حسن شوق سے جھکائیں گے سر
وہ سجائے جو دار پہلو میں
والسلام شکریہ
حسن محمود جماعتی
شکریہ ماہی بہن۔ آپ کے خلوص بھری داد پر احسان مند۔۔۔۔بہت سی داد اس عمدہ کلام پر...
سید فصیح احمد بھیا ایسی بھی کی مصروفیات کہ اتنا اچھا مشاعرہ مس کر دے بندہ؟ لائیو کا جو مزہ ہے وہ بعد میں بالکل نہیں آنا.
ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے
لے کے حسن و خمار پہلو میں
کب سے بیٹھا ہے یار پہلو میں
قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں
اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں
عشق کرنے کا ہے مزہ جب ہی
ہو رقابت کا خار پہلو میں
زندگی دیر تک نہیں چلتی
ہجر کا لےکے بار پہلو میں
آگ نفرت کی کیا جلائےہمیں
تیرے غم کی ہے نار پہلو میں
جب محبت کو ہم نےدفنایا
اک بنایا مزار پہلو میں
ہم حسن شوق سے جھکائیں گے سر
وہ سجائے جو دار پہلو میں
عنایت آپ کی محترم۔ بہت بہت شکریہ۔بہت ہی خوب۔ لا جواب۔ جماعتی صاحب۔
چار دفتر میں ہیں، اک گھر میں ہے اور اک دل میں ہے
چھ حسینوں میں گھرا امجد بڑی مشکل میں ہے
ذکر سن کر چھ حسینوں کا نہ گھبرا جانِ من
اک حسینہ کے لئے اب بھی جگہ اس دل میں ہے
ساس کے پہلو میں بیوی کو جو دیکھا، ڈر گیا
یا الہٰی خیر ہو خنجر کفِ قاتل میں ہے
دے رہا تھا لیڈروں کو گالیاں جو جو بھی وہ
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"
میں تو سمجھا تھا کہ جاں لیوا ہے بیماری مری
موت کا سامان لیکن ڈاکٹر کے بل میں ہے
دیکھ کر کل رات فیشن شو میں بوفے حسن کا
آ گئے ہم گھر مگر دل اب بھی اس محفل میں ہے
میری دل جوئی کو آنے لگ پڑیں ہمسائیاں
فائدہ کیا کیا مرا بیگم تری کِلکِل میں ہے
دیکھئے، رشوت نہیں لایا، سفارش بھی نہیں
ایک بھی خوبی بھلا اس کی پروفائل میں ہے؟
آپ جو فائل دبا کر بیٹھے ہیں دو ماہ سے
آپ کا نذرانہ عالی جا! اسی فائل میں ہے
ہے غلط فہمی کہ خوش فہمی مگر لگتا ہے یہ
ذکرِ امجد اب تو اردو کی ہر اک محفل میں ہے
روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
واہ عباسی بھائی اچھی فی البدیہہ غزل کہی آپ نے کچھ اشعار تو کمال کے ہیں ۔
بہت عمدہ
خوب است ۔
بہت عمدہصفِ عدو سے نکل کر تو دوستوں میں ہے اب
جو وار پشت سے ہو، اس کو اب سنبھال ، بچا !
بہت اعلیٰ کاشف بھائیشاخ سے گرتے ہوئے پتّے پہ دل چھوٹا نہ کر
جانے کس کس زندگی کا حل اسی مشکل میں ہے
بہت عمدہ منیب بھائیگم نہ رہ سوچ میں تو دیکھ کے چل کچھ مت سوچ
ذہن کی بھول بھلیوں سے نکل کچھ مت سوچ
روشنی بانٹ اگر سینہ ترا روشن ہے
کیوں ہیں اوروں کے بجھے دل کے کنول کچھ مت سوچ
بیج بو بیج یہ دنیا ہے عمل کی کھیتی
فصل ناکام رہے گی کہ سپھل کچھ مت سوچ
اژدھا ڈر کا مقابل ہو تو تلوار نکال
وہم کے سانپ کو پتھر سے کچل کچھ مت سوچ
زندگی جنگ ہے لمحات سے لڑنا ہے تجھے
جیتنا چاہے تو دورانِ جدل کچھ مت سوچ
خود کو مصروف رکھ اس آج کے عرصے میں منیب
کل کا سوچیں گے جب آ جائے گا کل کچھ مت سوچ
سبحان اللہ !خوبصورت نعتیہ اور حمدیہ اشعارحمدیہ اشعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نورِ سماوی ، تو نور ِ زمانی
نبی سارے تیری ہیں نوری نشانی
محمد ﷺ میں تیری ہے حکمت مکمل
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل
=======
نعتیہ اشعار
مقامِ حرا ، معرفت سے ضُو پائی
نبوت سے ظلمت جہاں کی مٹائی
خشیت سے جسمِ مطہر تھا کانپا
خدیجہ نے کملی سے انہیں تھا ڈھانپا
منور ،منقی تجلی سے سینہ
پیامِ خدا سے ملا پھر سفینہ
چراغِ الوہی جلا مثلِ خورشید
تجلی میں جس کی، خدا کی ملےدید
واہ بہت عمدہمداوا غمِ دل کا ہوگا بھی کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت
بہت خوبغزل
ایک ادھورے خواب کا منظر آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
راتوں کا وہ چاند بنا ہے ، صبحوں کی تعبیر ہوا ہے ۔
درد سے جس کی خوب بنی ہو،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو،
وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے۔
ہجر کی اندھی شش جہتوں میں،ذات کی سجدہ گاہوں میں
عشق ہمارا مرشد ِ اولیٰ ،عشق ہی قبلہ پیر ہوا ہے ۔
کیا کیا منظر دکھلائے ہیں ،وقت کے رستے زخموں نے
دکھ کا گہرا سناٹا اب آنکھوں میں تحریر ہوا ہے ۔
آنکھ کی رتھ پر بیٹھا سپنا ، اس کا نام ہی جپتا ہے ۔
جس غزنی کے ہاتھ سے میرا دل مندر تسخیر ہوا ہے ۔
صرف ِ نظر سے کیسے کیسے کم ظرفوں کو ظرف ملا ہے
اور ہماری آنکھ کا تنکا ہر اِک کو شہتیر ہوا ہے ۔
آج بھی میرے سر کی چادر ،تیرے عشق کا حجرہ ہے ۔
آج بھی تیرا نقش ِ کف ِ پا ، قدموں کی زنجیر ہوا ہے ۔
لفظ بنے ہیں میری شہرت ،عشق ہوا ہے وجہ ِ شہرت
ایک کئیے ہے ہر سو رسوا،ایک مری تشہیر ہوا ہے ۔
عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
لیکن کیا کوئی رانجھا اب تک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے۔
ایماں ایک زمیں زادے کے عشق کا ہے اعجاز فقط
یہ جو ایک سخن دیوی سے شعر نگر تعمیر ہوا ہے ۔
آہا ۔۔شرارتیں بھی ، محبت بھی ، بدگمانی بھی
عجیب سی ہے صنم ! آپ کی کہانی بھی
ائے ہائے ۔۔سنا ہے شوق ہے اسکو پرانے قصوں کا
اسے سنانا کسی دن مری کہانی بھی
واہ واہ بہت عمدہوہ بادلوں کے گرجنے سے ڈر رہی ہے خٹکؔ
مجھے قبول نہیں اب برستا پانی بھی
تمام سخن شناس احباب کو دل کی گہرائیوں سے السلام علیکم
اور اردو محفل کا بہت بہت شکریہ کہ مجھ ناچیز کو اس مشاعرہ میں شرکت کا موقع دیا. اور اب جناب برداشت کی جیے میرا ﭨﻮﭨﺎ ﭘﮭﻮﭨﺎ ﮐﻼﻡ
سب سے پہلے اک نظم
عنوان ہے "شکایت"
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﻓﻘﻂ ﺍﮎ ﮨﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺑﺲ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﮑﻮﮦ
ﮐﺮﻭ ﺗﻢ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺮﻭﺍﮦ
ﻣﮕﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ
ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ
ﮨﻮﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺖ ﺩﯾﻨﺎ
ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ
ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻥ ﮐﺎ ﺗﻮ
ﺗﺼﻮﺭ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻓﻘﻂ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﺑﻬﯽ
ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﮨﻮﮞ
ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ
ﻣﮕﺮ ﺍﮮ ﺟﺎﻥِ ﻣﺤﺒﻮﺑﯽ
ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻓﻘﻂ ﺩﻭ ﺟﺴﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﻋﺮﺻﮯ ﮐﻮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ
ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
اور اب ایک غزل پیشِ خدمت ہے
ﻣﺴﮑﻦ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ
ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﺎﮞ
ﺩﻝ ﮐﺶ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﻤﺎﮞ
ﻣﺤﻔﻞ ﭘﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﻤﺎﮞ
ﻧﻮﺭِ ﺳﺤﺮ ﻭﮦ ﺣﻮﺭ ﺷﻤﺎﺋﻞ ﻣﺮﮮ ﻟﺌﮯ
ﮨﮯ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﺷﻔﻖ ﺑﻬﯽ ﻭﮨﯽ ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﺟﺎﮞ
ﻭﺍﻗﻒ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺮﺏ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺳﮯ ﺟﺐ ﮨﻮﺍ
ﺟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﺰﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﮨﻮﺍ ﻋﯿﺎﮞ
ﺳﺐ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﻏﻢِ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ
ﻗﺼﮯ ﺷﺐِ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﮯ ارشد ﻧﮧ ﮐﺮ ﺑﯿﺎﮞ
اور مزید چند اشعار
ﺑﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺯﺧﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﭘﻬﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺳﺪﺍ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺩﺷﺖ ﮐﯽ ﺳﻤﺖ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺷﺐِ ﻓﺮﻗﺖ ﻧﮧ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮑﻠﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﭘﮧ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
شکریہ احباب برداشت کرنے کا
ﺯﺧﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﭘﻬﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺳﺪﺍ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
واہہہہہہہہہہہﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮑﻠﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
بہت بہت شکریہ بھائی۔ نوازش !!بہت عمدہ
بہت اعلیٰ کاشف بھائی