؎ وسعت ذات میں کھویا ہوں تجھے پایا ہے
جس جگہ دیکھتا ہوں یہ ترا سایہ ہے
میں کہ افلاک کی گردش کو کہاں چھو سکتا
یہ ترا لمس افق پار تلک لایا ہے
لے کے حسن و خمار پہلو میں
کب سے بیٹھا ہے یار پہلو میں
قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں
اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں
عشق کرنے کا ہے مزہ جب ہی
ہو رقابت کا خار پہلو میں
زندگی دیر تک نہیں چلتی
ہجر کا لےکے بار پہلو میں
آگ نفرت کی کیا جلائےہمیں
تیرے غم کی ہے نار پہلو میں
جب محبت کو ہم نےدفنایا
اک بنایا مزار پہلو میں
ہم حسن شوق سے جھکائیں گے سر
وہ سجائے جو دار پہلو میں
والسلام شکریہ
حسن محمود جماعتی