کاشف اسرار احمد
محفلین
واہ۔سنا ہے شوق ہے اسکو پرانے قصوں کا
اسے سنانا کسی دن مری کہانی بھی
کیا خوب واسطی صاحب !وہ بادلوں کے گرجنے سے ڈر رہی ہے خٹکؔ
مجھے قبول نہیں اب برستا پانی بھی
ماشا اللہ عمدہ کلام ہے !
واہ۔سنا ہے شوق ہے اسکو پرانے قصوں کا
اسے سنانا کسی دن مری کہانی بھی
کیا خوب واسطی صاحب !وہ بادلوں کے گرجنے سے ڈر رہی ہے خٹکؔ
مجھے قبول نہیں اب برستا پانی بھی
حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ بھیا۔ سلامت رہیں۔راجا صاحب کمال کر دیا ہے آپ نے۔ بہت خوب۔
بہت اچھی کاوش ارشد بھیا، داد قبول فرمائیں۔ اللہ کرے زورِقلم اور زیادہتمام سخن شناس احباب کو دل کی گہرائیوں سے السلام علیکم
اور اردو محفل کا بہت بہت شکریہ کہ مجھ ناچیز کو اس مشاعرہ میں شرکت کا موقع دیا. اور اب جناب برداشت کی جیے میرا ﭨﻮﭨﺎ ﭘﮭﻮﭨﺎ ﮐﻼﻡ
سب سے پہلے اک نظم
عنوان ہے "شکایت"
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﻓﻘﻂ ﺍﮎ ﮨﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺑﺲ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﮑﻮﮦ
ﮐﺮﻭ ﺗﻢ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺮﻭﺍﮦ
ﻣﮕﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ
ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ
ﮨﻮﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺖ ﺩﯾﻨﺎ
ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ
ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻥ ﮐﺎ ﺗﻮ
ﺗﺼﻮﺭ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻓﻘﻂ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﺑﻬﯽ
ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﮨﻮﮞ
ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ
ﻣﮕﺮ ﺍﮮ ﺟﺎﻥِ ﻣﺤﺒﻮﺑﯽ
ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻓﻘﻂ ﺩﻭ ﺟﺴﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﻋﺮﺻﮯ ﮐﻮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ ﻣﯿﮟ
ﻓﺮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
اور اب ایک غزل پیشِ خدمت ہے
ﻣﺴﮑﻦ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﺘﺎﻉِ ﺟﺎﮞ
ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﺎﮞ
ﺩﻝ ﮐﺶ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﻤﺎﮞ
ﻣﺤﻔﻞ ﭘﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﻤﺎﮞ
ﻧﻮﺭِ ﺳﺤﺮ ﻭﮦ ﺣﻮﺭ ﺷﻤﺎﺋﻞ ﻣﺮﮮ ﻟﺌﮯ
ﮨﮯ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﺷﻔﻖ ﺑﻬﯽ ﻭﮨﯽ ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﺟﺎﮞ
ﻭﺍﻗﻒ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺮﺏ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺳﮯ ﺟﺐ ﮨﻮﺍ
ﺟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﺰﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﮨﻮﺍ ﻋﯿﺎﮞ
ﺳﺐ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﻏﻢِ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ
ﻗﺼﮯ ﺷﺐِ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﮯ ارشد ﻧﮧ ﮐﺮ ﺑﯿﺎﮞ
اور مزید چند اشعار
ﺑﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺯﺧﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﭘﻬﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺳﺪﺍ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺩﺷﺖ ﮐﯽ ﺳﻤﺖ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺷﺐِ ﻓﺮﻗﺖ ﻧﮧ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮑﻠﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﭘﮧ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
شکریہ احباب برداشت کرنے کا
شکریہ یوسف بھائی خوش رہیںبہت خوب
بے شک بہت عمدہ
خوب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام
واہ واہ کیا کہنے فائق بھائی ۔
کمال
ہائے ۔۔
آہا آہا ۔۔
بہت عمدہ مزہ آیا آپ کی غزل پڑھ کر ۔۔
اللہ کرے زورِقلم اور ۔
میری طرف سے معذرت، مشاعرے کی لڑی میں کچھ تبصرے پہلے سے موجود تھے اس لئے مجھے پتہ نہ چل سکا کہ یہ مشاعرے والی لڑی ہے۔سب مشاعرے والی لڑی میں کیوں تبصرے کر رہے ہیں؟ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ تبصرہ جات کے لیے یہ لڑی مخصوص ہے.
بہت شکریہ صائمہ اپیا! آپ کی داد میرے لیے بہت معنی رکھتی ہے. سدا خوش رہئیے.کیا سماں باندھا ہے محفل کے شعرا نے واہ
مریم افتخار بہت عمدہ کلام تھا آپ کا بہت سی داد
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮑﻠﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
کیا ہی خوب ہدیہ عقیدت ہے۔ جزاک اللہ۔جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
کیا اتنی اجازت ہے مرے پیارے محمدﷺ
جو کچھ بھی ملا ہے، ترےؐ صدقے میں ملا ہے
کافی یہی نسبت ہے میرے پیارے محمدﷺ
بہت خوب۔۔۔پھر وہی شامِ غریباں کا دھواں آنکھوں میں
پھر وہی ہاتفِ غیبی کی صدا، جانے دے
میری دریوزہ گری بھی مجھے اب راس نہیں
سو مرے کوزہ گرِ حرفِ دعا! جانے دے
واہ واہ۔۔۔ لاجوابتم چاند کی کرنوں کو سنبھالے ہوئے رکھو
وہ نور کی صورت سرِ محرابِ دعا آئے
لفظوں کا اجالا ہے جو تم دیکھ رہے ہو
خوشبو سی سماعت ہے، تمہیں کون بتائے
کیا کہنے منے۔۔۔ شانداریہی ہیں وہ، جنہیں زعمِ شناوری تھا بہت
کنارِ نیل جو پہنچے تو ناؤ چاہتے ہیں
یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں
پھر غزل کے ساتھ اجازت ملی؟اور آخر میں ایک غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا
بہت لاجواب۔۔۔ شاندارکرب کی خاک سے خلوت میں تراشے ہوئے جسم
خون تھوکیں سرِ بازار، سرِ دار جدا
کیا کہنے۔۔۔ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا
ہم سے ہی پہلی غلطی ہوئی، مراسلہ لکھ کے کاپی کرنا بھول گئے۔ اور اُدھر ہی ارسال فرما دیا.. مراسلے سے بہتیرا کہا کہ بھائی ارسال مت ہونا اِدھر، لیکن پھر بھی ہو کے رہا، فوراً سے بیشتر مراسلہ رپورٹ کر دیا تھا۔سب مشاعرے والی لڑی میں کیوں تبصرے کر رہے ہیں؟ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ تبصرہ جات کے لیے یہ لڑی مخصوص ہے.
کیا بات۔دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی
آہاہاہا۔ کیا بات ہے۔۔۔۔ التزاما یاد رکھنا چاہیے۔ بہت داد قبول کیجیے۔اتفاقاً بھول جاتے ہیں تجھے
التزاماً یاد رکھنا چاہیے
بہت عمدہ صاحب۔ہار کر بھی پالیا اُن کو خلیلؔ
فائدہ ہی فائدہ نقصان میں
نذرِ آتش کر دیے اوراقِ قرآں آپ نے
اس متن کا کیا کرو گے جو ہمارے دل میں ہے
عاشق و موسیٰ میں اب ایسا بھی کیا امتیاز؟
ہم بھی ہیں مشتاق کر، ہم سے بھی راز و نیاز
ذاتِ حبیبِ حزیں، تیری تڑپ کے نثار
سب کے لئے جاں گسل، سب کے تئیں جاں گداز
کشمکشِ زندگی سے ہے عروجِِ امم
جہدِ مسلسل میں ہے رفعتِ قومی کا راز
کیا جھومنے والی ردیف چنی ہے بلال بھائی۔ سبحان اللہ۔جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
کیا اتنی اجازت ہے مرے پیارے محمدﷺ
یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں
اف!کرب کی خاک سے خلوت میں تراشے ہوئے جسم
خون تھوکیں سرِ بازار، سرِ دار جدا
کیا کہیے صاحب۔میری دستار پہ چھینٹے ہیں لہو کے میرے
اے فلک ناز مرے، ہے مری دستار جدا
کیا تخیل ہے، کیا تعلی ہے۔یوں تو مسند پہ بھی اطوار نرالے تھے مگر
سرمدِ شعر کی سج دھج ہے سرِ دار جدا
مجھے محفل کا ٹیلینٹ پُول دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اردو ادب کا مستقبل روشن ہے ، محفل کے ایک اور ینگ شاعر عباد اللہ بھی خوب خوش سخن ہیں ان کے کلام کا بھی انتظار ہے ۔بہت شکریہ صائمہ اپیا! آپ کی داد میرے لیے بہت معنی رکھتی ہے. سدا خوش رہئیے.
And I am waiting for your turn [/QUOT
سب سے پہلے تو معذرت چاہوں گا کہ دیر میں حاضر ہوا۔ منتظمین اور میرا وقت مختلف ہونے کی وجہ سے یہ زحمت ہوئی۔ تمام شعراء کے کلام سے لطف اندوز ہوا۔ محمد بلال اعظم بھائی کی غزل تو سفر میں گنگناتے ہوئے پڑھی گئی۔ اور امجد علی راجا بھائی کے پہلے دو طرحی شعر تو فورا یاد ہو گئے۔ ہم تو اب بھی دہرا کر مزہ لیے جا رہے ہیں۔ فردا فردا سب کے کلام پر تبصرہ ان شاء اللہ تبصروں کی لڑی میں کرتا ہوں۔
طرحی مصرع پر سوچا تو تھا کہ طبع آزمائی کروں گا، لیکن وقت ہی نہیں نکل پایا۔ یہ سفر کے دوران چند اشعار موزوں ہوئے تھے، جس میں سے کچھ بھی زیرِ غور ہیں۔ چنانچہ دو ہی اشعار پیش کر رہا ہوں۔ بقیہ ان شاء اللہ پھر سہی۔
نذرِ آتش کر دیے اوراقِ قرآں آپ نےاور ایک عدد تازہ غزل آپ کی باذوق سماعتوں کی نذر
اس متن کا کیا کرو گے جو ہمارے دل میں ہے
رحم کن بر حالِ عشاقِ مجازی یا رحیم
کوئی زلفِ فتنہ گر میں گُم ہے کوئی تل میں ہے
❀ غزل ❀
عاشق و موسیٰ میں اب ایسا بھی کیا امتیاز؟
ہم بھی ہیں مشتاق کر، ہم سے بھی راز و نیاز
سود و زیاں سے پرے، صرف خدا کے اسیر
اہلِ تصوف وہ ہیں، جن پہ ہے خالق کو ناز
طیش میں وہ ہیں تو کیا، ایک یہی در تو ہے
اور کہاں پر کریں دستِ سوالی دراز
ذاتِ حبیبِ حزیں، تیری تڑپ کے نثار
سب کے لئے جاں گسل، سب کے تئیں جاں گداز
پیرِ حرم کیا کرے؟ قوم کی دانست میں
نقلِ فرنگی ہے آج کارگر و کارساز
کشمکشِ زندگی سے ہے عروجِِ امم
جہدِ مسلسل میں ہے رفعتِ قومی کا راز
آپ کی مانند سب رند نہیں ہیں شکیب
دیجیے گا کب تلک بادہ کشی کا جواز
دعاگو و دعاجو
فقیر شکیب احمد
خوب اشعار ہیں شکیب بھائی !پیرِ حرم کیا کرے؟ قوم کی دانست میں
نقلِ فرنگی ہے آج کارگر و کارساز
کشمکشِ زندگی سے ہے عروجِِ امم
جہدِ مسلسل میں ہے رفعتِ قومی کا راز