سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

نظم
(مزمل شیخ بسملؔ)
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں نے ہجر کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیرے میں مصلّے پر دعائیں مانگنا میرا
وہ سارے دن
وہ سب راتیں
تمھاری آرزو کرنا
مرے آنسو کا میرے ”گال“ ہی پر خشک ہو جانا
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میرا جنوری کی سرد اور تاریک راتوں میں
یوں کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے کچھ سوچتے رہنا
کبھی سوچوں میں گم یک دم کوئی آنسو نکل آنا
مری بیچارگی کو تم کبھی آکر کے دیکھو تو
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ جب اپریل آتا ہے
تمہاری یاد لاتا ہے
کبھی موسم نہیں بھی ہو
مگر برسات ہوتی ہے
کبھی یادوں میں تم آکر مجھے بے حد ستاتے ہو
کبھی دن ختم ہوجانے پے بھی یادیں نہیں جاتیں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں کس حال میں ہوں اب
یہ ویرانی ہے کیوں دل پر
مری آنکھوں کے حلقے ہر کسی پر کیوں نمایاں ہیں
مرے چہرے پے لکھی ہر کہانی دکھ بھری کیوں ہے
مری سانسوں سے آہوں کی یہ آوازیں کیوں آتی ہیں
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
تمہاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
تمہارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
تمہیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
بھلا کیا کیا سنوگے تم؟
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟​
بہت خوبصورت مزمل بھائی، احساسات سے بھرپور نظم۔ ڈھیروں داد
 
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں نے ہجر کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیرے میں مصلّے پر دعائیں مانگنا میرا
وہ سارے دن
وہ سب راتیں
تمھاری آرزو کرنا
مرے آنسو کا میرے ”گال“ ہی پر خشک ہو جانا
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میرا جنوری کی سرد اور تاریک راتوں میں
یوں کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے کچھ سوچتے رہنا
کبھی سوچوں میں گم یک دم کوئی آنسو نکل آنا
مری بیچارگی کو تم کبھی آکر کے دیکھو تو
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ جب اپریل آتا ہے
تمہاری یاد لاتا ہے
کبھی موسم نہیں بھی ہو
مگر برسات ہوتی ہے
کبھی یادوں میں تم آکر مجھے بے حد ستاتے ہو
کبھی دن ختم ہوجانے پے بھی یادیں نہیں جاتیں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں کس حال میں ہوں اب
یہ ویرانی ہے کیوں دل پر
مری آنکھوں کے حلقے ہر کسی پر کیوں نمایاں ہیں
مرے چہرے پے لکھی ہر کہانی دکھ بھری کیوں ہے
مری سانسوں سے آہوں کی یہ آوازیں کیوں آتی ہیں
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
تمہاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
تمہارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
تمہیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
بھلا کیا کیا سنوگے تم؟
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟

واہ واہ واہ محترم مزمل شیخ صاحب کمال کر دیا ہے آپ نے۔ کیا ہی خوب جذبات و احساسات میں ڈوبا ہوا کلام ہے۔ جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ ڈھیروں دعائیں آپ کے لیے۔
 

ہادیہ

محفلین
راحیل فاروق بھائی، ابھی آپ کی آواز میں کلام سنا اور پھر ہمیشہ کی طرح بار بار سنا.
بیگم کو سنایا تو بولیں کہ ان کی آواز تو ضیاء محی الدین سے مل رہی ہے. :)
میں نے بھی یہی لکھا تھا مگر وہ کمنٹ پوسٹ نہیں کیا بیٹری لو تھی لیپ ٹاپ آف ہوگیا تھا ۔واقعی ان کی آواز اور لہجہ دونوں بہت زیادہ ملتے ہیں ۔
 

رات کی خیمہ گاہ میں شمع جلانے آ گئی
آ گئی مہرباں کی یاد، آگ لگانے آ گئی


خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی​


والسلام!
ماشا اللہ۔
خوب غزل ہے۔
راحیل بھائی لطف آ گیا۔
شاد و آباد رہیں !!
 
چھوڑو مے اور مے خانوں کو
ہم تُم محفل ہوجاتے ہیں
واہ !
روتا ہے جب پُھوٹ کے اَمبر
ہم بھی شامِل ہو جاتے ہیں
خوب ! کیا انداز ہے بھائی۔
جلدی منزِل چاہنے والے
جلدی بددِل ہو جاتے ہیں
ماشا اللہ !
بَیچ کھایا جنہوں نے کلِیوں کو
ہائے گُلشن کے پاسباں ٹھہرے!
واہ !
اُس کو دیکھ کے "اچھے اچھے"
تھوڑے لِبرَل ہو جاتے ہیں
کیا کہنے !:p
چھوڑو چُھپ چُھپ کر مِلنے کو
ہم تم لِیگَل ہو جاتے ہیں
بہت خوب !! :D
شعر ہمارے سُن کر بلبل
سَینٹِیمنٹَل ہو جاتے ہیں
ہا ہا ہا ہا -
بھئی ماشا اللہ آپ کا ظریفانہ کلام بھی لاجواب ہے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ !
شاد رہیں !
 
اور اب ایک عرصے سے طبیعت پر انتہا کا جمود طاری ہے جس کا سبب شاید میری غیر ادبی و غیر تخلیقی مشغولیات اور رسمی تعلیم و تعلم کے سلسلوں کا بارِ گراں ہے جو کہ اب بھی مزید کئی سال کا طلبگار ہے۔ لیکن برتر حقیقت یہی ہے کہ یہ اوپر ساری خامہ فرسائی اپنی کم مایگی اور نالائقی کے اعتراف سے بچنے کا حیلہ ہی ٹھہری۔ اور یہ جو "بسمل" اپنے نام کے ساتھ لگا رکھا ہے اس کی وجہ قطعاً یہ نہیں کہ میں شاعر ہوں۔ اس کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ بہر حال، اب چونکہ میرا نام پکارا جا چکا ہے، اور سوائے اس کے کوئی راہِ نجات نہیں کہ کچھ "موزوں سطریں" نذرِ محفل کرکے جان کی امان پاؤں۔ اساتذہ اور پختہ کار شعرا سے درخواست ہے کہ اس ناقص کی یہ گستاخی (جس کا ایک نظم کی صورت میں یہاں ارتکاب کر رہا ہوں) در گزر فرمائیے گا۔

نظم
(مزمل شیخ بسملؔ)
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں نے ہجر کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیرے میں مصلّے پر دعائیں مانگنا میرا
وہ سارے دن
وہ سب راتیں
تمھاری آرزو کرنا
مرے آنسو کا میرے ”گال“ ہی پر خشک ہو جانا
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میرا جنوری کی سرد اور تاریک راتوں میں
یوں کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے کچھ سوچتے رہنا
کبھی سوچوں میں گم یک دم کوئی آنسو نکل آنا
مری بیچارگی کو تم کبھی آکر کے دیکھو تو
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ جب اپریل آتا ہے
تمہاری یاد لاتا ہے
کبھی موسم نہیں بھی ہو
مگر برسات ہوتی ہے
کبھی یادوں میں تم آکر مجھے بے حد ستاتے ہو
کبھی دن ختم ہوجانے پے بھی یادیں نہیں جاتیں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں کس حال میں ہوں اب
یہ ویرانی ہے کیوں دل پر
مری آنکھوں کے حلقے ہر کسی پر کیوں نمایاں ہیں
مرے چہرے پے لکھی ہر کہانی دکھ بھری کیوں ہے
مری سانسوں سے آہوں کی یہ آوازیں کیوں آتی ہیں
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
تمہاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
تمہارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
تمہیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
بھلا کیا کیا سنوگے تم؟
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟​
مزمل بھائی بہت عمدہ نظم پیش کی ہے ما شا اللہ !
طبیعت کے جمود کو توڑیئے !
محفل میں بہت سے لوگ آپ کے نئے اور تازہ کلام کے منتظر رہتے ہیں۔
اللہ آپ کی تعلیمی سلسلے میں آپ کو آسانی عطا فرمائے ! آمین !
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نذرِ آتش کر دیے اوراقِ قرآں آپ نے
اس متن کا کیا کرو گے جو ہمارے دل میں ہے
رحم کن بر حالِ عشاقِ مجازی یا رحیم
کوئی زلفِ فتنہ گر میں گُم ہے کوئی تل میں ہے

❀ غزل

عاشق و موسیٰ میں اب ایسا بھی کیا امتیاز؟
ہم بھی ہیں مشتاق کر، ہم سے بھی راز و نیاز

سود و زیاں سے پرے، صرف خدا کے اسیر
اہلِ تصوف وہ ہیں، جن پہ ہے خالق کو ناز

طیش میں وہ ہیں تو کیا، ایک یہی در تو ہے
اور کہاں پر کریں دستِ سوالی دراز

ذاتِ حبیبِ حزیں، تیری تڑپ کے نثار
سب کے لئے جاں گسل، سب کے تئیں جاں گداز

پیرِ حرم کیا کرے؟ قوم کی دانست میں
نقلِ فرنگی ہے آج کارگر و کارساز

کشمکشِ زندگی سے ہے عروجِِ امم
جہدِ مسلسل میں ہے رفعتِ قومی کا راز

آپ کی مانند سب رند نہیں ہیں شکیب
دیجیے گا کب تلک بادہ کشی کا جواز

دعاگو و دعاجو
فقیر شکیب احمد
واہ واہ !! بہت اعلیٰ شکیب بھائی !! تدبر اور تفکر کی دعوت دیتے ہوئے اشعار ہیں !! قطعہ اچھا لگا !!! سلامت رہیں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ واہ!! کیا غزلیں ہیں راحیل بھائی ! لطف آگیا ! کمال تغزل ہے !
خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی

تیرے وصال کی قسم، تیرے جمال کی قسم
ایک بہار عشق پر آ کے نہ جانے آ گئی

کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی !!! واہ واہ ، بہت اعلیٰ ! کیا بات ہے !
انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے

بہت خوب!! سلامت رہیں !

آپ کی آڈیو بھی سننے کا موقع ملا ۔ ماشاءاللہ اچھا پڑھتے ہیں آپ !! لطف دوبالا ہوگیا ۔ واقعی مشاعرے کا سا مزا آیا ۔ بہت شکریہ ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بے قراری سکوں کی زیریں تہہ
اور سکوں بر بِنائے وحشت تھا
واہ واہ!! کیا گہرائی ہے !! یہ تو آپ نے ہماری طبیعت کا نقشہ کھینچ دیا ۔ سلامت رہیں احمد بھائی ۔ بہت اعلیٰ!
کیا اُسے حالِ دل سناتے ہم
نغمہء دل نوائے وحشت تھا
بہت خوب!! کیا بات ہے !

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹہھرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ

یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ

پوری غزل آبدار ہے ! سبحان اللہ سبحان اللہ ! کیا ردیف لائے ہیں ! اور ایک آئینے پر اتنے متنوع مضامین نکالے ہیں !سلامت رہیں بھائی !!

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

بہت خوب ! احمد بھائی !! کیا بات ہے ! لطف آگیا ۔ کیا تغزل ہے !!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فرق ہے واضح جو لا حاصل میں اور حاصل میں ہے
ہاں وہی جو دورئ منزل میں اور منزل میں ہے

جو کشاکش زندگی بھر خون رُلواتی رہی
کاروانِ زندگی اب تک اُسی مشکل میں ہے

وہ سمجھتے تھے کہ بس اِک ضرب میں قصّہ تمام
جان باقی اب تلک میرے تنِ بسمل میں ہے

حو کے پیروکار ہیں بے خوف اور سینہ سپر
دید کے قابل ہے جو لرزہ صفِ باطل میں ہے

آگئے پیں چھوڑ کر ساحل کو ہم یہ سوچ کر
دیکھتے ہیں لُطف کتنا دورئ ساحل میں پے

پائیے جذب و کشش ایسی بھلا کِس چیز میں
جو کسی کے چمپئ رُخسار کے اِک تِل میں پے

جن کو اپنے حال پر حاصل نہیں کچھ اختیات
وہ بھلا کیا جان سکتے ہیں کو مستقبل میں ہے

دِل میں ہنگامہ ہے برپا اِک ذرا سی بات پر
جو زباں تک آنہ پائی اور ابھی تک دِل میں ہے

کارواں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے مجنوں ہر طرف
کون جانے اُس کی لیلیٰ کون سی محمل میں ہے

حُسن کے جلوے ہیں بکھرے جس برف اُٹھّے نگاہ
جانے کیا تاثیر اِس خطے کے آب و گِل میں ہے

اور کِس منظر میں، کِس جا، ہم کو مِلپائے حفیظ
حُسن اور وہ دلرُبائی ، جو مہِ کامل میں ہے

واہ واہ ! واہ! کیا بات ہے جناب حفیظ الرحمن صاحب !! بہت اعلیٰ !! اتنی اچھی طرحی غزل عطا کرنے پر بہت مبارکباد!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اپنے پیارے ساتھ چلیں تو
رستے منزِل ہو جاتے ہیں

وقت پہ گَر نہ آنکھ کُھلے تو
سپنے قاتِل ہو جاتے ہیں

ڈوب رہا ہے دیکھوکوئی
بڑھ کر ساحِل ہو جاتے ہیں!

جلدی منزِل چاہنے والے
جلدی بددِل ہو جاتے ہیں

دیکھیں جب وہ پیار سے صاحِب!
شِکوے مشکل ہو جاتے ہیں
واہ واہ !! کیا خوبصورت اشعار ہیں !! بہت اعلیٰ !! نوید صاحب بہت داد !!

شیخ بانٹے ہے نفرتیں، رِند بھی!
دل جو ٹھہرے تو اب کہاں ٹھہرے؟
واہ ! کیا حقیقت بیان کی ہے !! بہت خوب!!

آپ کی نظمیں پسند آئیں ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نظم
(مزمل شیخ بسملؔ)
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں نے ہجر کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیرے میں مصلّے پر دعائیں مانگنا میرا
وہ سارے دن
وہ سب راتیں
تمھاری آرزو کرنا
مرے آنسو کا میرے ”گال“ ہی پر خشک ہو جانا
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میرا جنوری کی سرد اور تاریک راتوں میں
یوں کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے کچھ سوچتے رہنا
کبھی سوچوں میں گم یک دم کوئی آنسو نکل آنا
مری بیچارگی کو تم کبھی آکر کے دیکھو تو
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ جب اپریل آتا ہے
تمہاری یاد لاتا ہے
کبھی موسم نہیں بھی ہو
مگر برسات ہوتی ہے
کبھی یادوں میں تم آکر مجھے بے حد ستاتے ہو
کبھی دن ختم ہوجانے پے بھی یادیں نہیں جاتیں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں کس حال میں ہوں اب
یہ ویرانی ہے کیوں دل پر
مری آنکھوں کے حلقے ہر کسی پر کیوں نمایاں ہیں
مرے چہرے پے لکھی ہر کہانی دکھ بھری کیوں ہے
مری سانسوں سے آہوں کی یہ آوازیں کیوں آتی ہیں
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
تمہاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
تمہارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
تمہیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
بھلا کیا کیا سنوگے تم؟
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟​

واہ ! بہت خوب بسمل صاحب!! بہت خوبصورت !! بُنت اچھی ہے اور خیال کی روانی آخر تک قائم ہے !! کامیاب!! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!!
 

ان کہی

محفلین
؎ ہاں دل کی تسلی کے لیے بات ٹھیک ہے
یہ اور بات خوف سا چھایا ہے آپ پر
دامن ہمارا چھوڑ کے جی لیں گے آپ بھی
لیکن ہمارا آج بھی سایہ ہے آپ پر
----------------------------------------

لے کے حسن و خمار پہلو میں
کب سے بیٹھا ہے یار پہلو میں

قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں

اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں

عشق کرنے کا ہے مزہ جب ہی
ہو رقابت کا خار پہلو میں

زندگی دیر تک نہیں چلتی
ہجر کا لےکے بار پہلو میں

آگ نفرت کی کیا جلائےہمیں
تیرے غم کی ہے نار پہلو میں

جب محبت کو ہم نےدفنایا
اک بنایا مزار پہلو میں

ہم حسن شوق سے جھکائیں گے سر
وہ سجائے جو دار پہلو میں
حسن محمود جماعتی بھیا، بہت خوب، بہت اعلیٰ۔ قطعات بہت عمدہ کہے آپ نے اور غزل کے لئے جتنا مشکل ردیف آپ نے منتخب کیا ماشاءاللہ اتنی خوبصورتی سے اسے نبھایا بھی۔ سلامت رہیں۔ اللہ پاک مزید ترقی عطا فرمائے۔
بہت عمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
 

ان کہی

محفلین
واہ واہ،کیا کہنے،بہت عمدہ،بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے...تمام کلام غزل اور اشعار قابل تحسین ہے.................!!
 

محمد وارث

لائبریرین
جنابِ صدر، محترم مہمانِ خصوصی، شعرائے کرام، اور عزیز قارئین، السلام علیکم و رحمتہ اللہ

میں اردو محفل اور محترم جناب محمد تابش صدیقی صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے اس اہم مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی۔ سائبر دنیا میں اتنے طویل عرصہ تک اردو زبان کی بہترین خدمت پر اردو محفل کی انتظامیہ اور متحرک اراکین سبھی بہت سی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس کے ساتھ صاحبِ صدر کی اجازت سے اپنے کلام سے دو غزلیات، دو مختصر نظمیں اور ایک نمکین غزل پیش کرنا چاہوں گا۔

غزل

اپنے پیارے ساتھ چلیں تو
رستے منزِل ہو جاتے ہیں

چھوڑو مے اور مے خانوں کو
ہم تُم محفل ہوجاتے ہیں

وقت پہ گَر نہ آنکھ کُھلے تو
سپنے قاتِل ہو جاتے ہیں

روتا ہے جب پُھوٹ کے اَمبر
ہم بھی شامِل ہو جاتے ہیں

ڈوب رہا ہے دیکھوکوئی
بڑھ کر ساحِل ہو جاتے ہیں!

جلدی منزِل چاہنے والے
جلدی بددِل ہو جاتے ہیں

دیکھیں جب وہ پیار سے صاحِب!
شِکوے مشکل ہو جاتے ہیں

-------------------------------------

غزل

ذِکر تیرا جہاں، وہاں ٹھہرے
درد والے کہاں کہاں ٹھہرے!

اشک راہی ہیں اور تُو منزل
تُو ہی آئے نہ کارواں ٹھہرے

جو بھی کرنا ہے جلد ہی کر لو
وقت کس کے لئے مِیاں ٹھہرے

اپنی وُسعت سے کچھ زمیں والے
آسمانوں کے آسماں ٹھہرے

شیخ بانٹے ہے نفرتیں، رِند بھی!
دل جو ٹھہرے تو اب کہاں ٹھہرے؟

بَیچ کھایا جنہوں نے کلِیوں کو
ہائے گُلشن کے پاسباں ٹھہرے!

کچھ تعلق نہیں تھا دُنیا سے
چار پَل کو مگر یہاں ٹھہرے


--------------------------------------

"بیماری"

پنچھی جو پَلے ہوں پنجروں میں*
پرواز کو سمجھیں بیماری
جو ہونٹ سِلے ہوں صدیوں سے
آواز کو سمجھیں بیماری
جو تار کبھی نہ تڑپے ہوں
وہ ساز کو سمجھیں بیماری!


(* پہلا شعر مصنف اور فلمساز الیگزندرو جودوروسکی کے قول کا ترجمہ ہے)

---------------------------------

"ڈیجیٹل شاعری – فوٹو"

زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں!

----------------------------------

نمکین غزل

اُس کو دیکھ کے "اچھے اچھے"
تھوڑے لِبرَل ہو جاتے ہیں

چھوڑو چُھپ چُھپ کر مِلنے کو
ہم تم لِیگَل ہو جاتے ہیں

سَوتی قوموں کے بالآخر
سپنے رَینٹَل ہو جاتے ہیں

"رایَل" کہنے سے کیا بھیا
پنکھے رایَل ہو جاتے ہیں؟

شعر ہمارے سُن کر بلبل
سَینٹِیمنٹَل ہو جاتے ہیں

سردی میں سویڈن کی صاحب!
شکوے ڈَینٹَل ہو جاتے ہیں


ایک بار پھر اردو محفل کے تمام احباب کا بے حد شکریہ۔

والسلام،

ابنِ مُنیب

بہت خوب جناب نوید صاحب، عمدہ کلام ہے، بہت داد قبول کیجیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عزیزانِ محفل، خصوصاً جنابِ صدر اعجاز عبید صاحب اور مہمانِ خصوصی جناب منیر انور صاحب کی خدمت میں سلام عرض ہے۔
میں شکر گذار ہوں اس مشاعرہ کے منتظمین، خصوصاً خلیل الرحمن صاحب، تابش صدیقی صاحب، عزیزہ مقدس حیات اور حسن محمود جماعتی صاحب کا جنہوں نے مشاعرے میں شرکت کے لیے مجھے لائق سمجھا۔
عرض ہے کہ میں کوئی شاعر نہیں ہوں۔ البتہ خود کو ادب کا ایک سنجیدہ قاری ماننے میں کسی انکسار کو حائل نہیں جانتا۔ چند ہی تک بندیاں کی ہیں جو کہ اس لائق نہیں کہ پیش کی جاسکیں۔ اور اب ایک عرصے سے طبیعت پر انتہا کا جمود طاری ہے جس کا سبب شاید میری غیر ادبی و غیر تخلیقی مشغولیات اور رسمی تعلیم و تعلم کے سلسلوں کا بارِ گراں ہے جو کہ اب بھی مزید کئی سال کا طلبگار ہے۔ لیکن برتر حقیقت یہی ہے کہ یہ اوپر ساری خامہ فرسائی اپنی کم مایگی اور نالائقی کے اعتراف سے بچنے کا حیلہ ہی ٹھہری۔ اور یہ جو "بسمل" اپنے نام کے ساتھ لگا رکھا ہے اس کی وجہ قطعاً یہ نہیں کہ میں شاعر ہوں۔ اس کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ بہر حال، اب چونکہ میرا نام پکارا جا چکا ہے، اور سوائے اس کے کوئی راہِ نجات نہیں کہ کچھ "موزوں سطریں" نذرِ محفل کرکے جان کی امان پاؤں۔ اساتذہ اور پختہ کار شعرا سے درخواست ہے کہ اس ناقص کی یہ گستاخی (جس کا ایک نظم کی صورت میں یہاں ارتکاب کر رہا ہوں) در گزر فرمائیے گا۔

نظم
(مزمل شیخ بسملؔ)
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں نے ہجر کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیرے میں مصلّے پر دعائیں مانگنا میرا
وہ سارے دن
وہ سب راتیں
تمھاری آرزو کرنا
مرے آنسو کا میرے ”گال“ ہی پر خشک ہو جانا
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میرا جنوری کی سرد اور تاریک راتوں میں
یوں کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے کچھ سوچتے رہنا
کبھی سوچوں میں گم یک دم کوئی آنسو نکل آنا
مری بیچارگی کو تم کبھی آکر کے دیکھو تو
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ جب اپریل آتا ہے
تمہاری یاد لاتا ہے
کبھی موسم نہیں بھی ہو
مگر برسات ہوتی ہے
کبھی یادوں میں تم آکر مجھے بے حد ستاتے ہو
کبھی دن ختم ہوجانے پے بھی یادیں نہیں جاتیں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں کس حال میں ہوں اب
یہ ویرانی ہے کیوں دل پر
مری آنکھوں کے حلقے ہر کسی پر کیوں نمایاں ہیں
مرے چہرے پے لکھی ہر کہانی دکھ بھری کیوں ہے
مری سانسوں سے آہوں کی یہ آوازیں کیوں آتی ہیں
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
تمہاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
تمہارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
تمہیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
بھلا کیا کیا سنوگے تم؟
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟​

خوبصورت نظم ہے مزمل صاحب، کیا کہنے، لاجواب۔ بہت داد قبول کیجیے محترم۔
 
Top