فاتح
لائبریرین
آپ نے تمہید میں ایسی رقت کے ساتھ معافیاں مانگی ہیں کہ آپ کے صدق دل پر یقین سا آنے لگا ہے اور اب واقعی معاف کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔عزیزانِ محفل، خصوصاً جنابِ صدر اعجاز عبید صاحب اور مہمانِ خصوصی جناب منیر انور صاحب کی خدمت میں سلام عرض ہے۔
میں شکر گذار ہوں اس مشاعرہ کے منتظمین، خصوصاً خلیل الرحمن صاحب، تابش صدیقی صاحب، عزیزہ مقدس حیات اور حسن محمود جماعتی صاحب کا جنہوں نے مشاعرے میں شرکت کے لیے مجھے لائق سمجھا۔
عرض ہے کہ میں کوئی شاعر نہیں ہوں۔ البتہ خود کو ادب کا ایک سنجیدہ قاری ماننے میں کسی انکسار کو حائل نہیں جانتا۔ چند ہی تک بندیاں کی ہیں جو کہ اس لائق نہیں کہ پیش کی جاسکیں۔ اور اب ایک عرصے سے طبیعت پر انتہا کا جمود طاری ہے جس کا سبب شاید میری غیر ادبی و غیر تخلیقی مشغولیات اور رسمی تعلیم و تعلم کے سلسلوں کا بارِ گراں ہے جو کہ اب بھی مزید کئی سال کا طلبگار ہے۔ لیکن برتر حقیقت یہی ہے کہ یہ اوپر ساری خامہ فرسائی اپنی کم مایگی اور نالائقی کے اعتراف سے بچنے کا حیلہ ہی ٹھہری۔ اور یہ جو "بسمل" اپنے نام کے ساتھ لگا رکھا ہے اس کی وجہ قطعاً یہ نہیں کہ میں شاعر ہوں۔ اس کی اصل وجہ کچھ اور ہے۔ بہر حال، اب چونکہ میرا نام پکارا جا چکا ہے، اور سوائے اس کے کوئی راہِ نجات نہیں کہ کچھ "موزوں سطریں" نذرِ محفل کرکے جان کی امان پاؤں۔ اساتذہ اور پختہ کار شعرا سے درخواست ہے کہ اس ناقص کی یہ گستاخی (جس کا ایک نظم کی صورت میں یہاں ارتکاب کر رہا ہوں) در گزر فرمائیے گا۔
نظم
(مزمل شیخ بسملؔ)
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں نے ہجر کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
اندھیرے میں مصلّے پر دعائیں مانگنا میرا
وہ سارے دن
وہ سب راتیں
تمھاری آرزو کرنا
مرے آنسو کا میرے ”گال“ ہی پر خشک ہو جانا
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میرا جنوری کی سرد اور تاریک راتوں میں
یوں کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے کچھ سوچتے رہنا
کبھی سوچوں میں گم یک دم کوئی آنسو نکل آنا
مری بیچارگی کو تم کبھی آکر کے دیکھو تو
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ جب اپریل آتا ہے
تمہاری یاد لاتا ہے
کبھی موسم نہیں بھی ہو
مگر برسات ہوتی ہے
کبھی یادوں میں تم آکر مجھے بے حد ستاتے ہو
کبھی دن ختم ہوجانے پے بھی یادیں نہیں جاتیں
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ میں کس حال میں ہوں اب
یہ ویرانی ہے کیوں دل پر
مری آنکھوں کے حلقے ہر کسی پر کیوں نمایاں ہیں
مرے چہرے پے لکھی ہر کہانی دکھ بھری کیوں ہے
مری سانسوں سے آہوں کی یہ آوازیں کیوں آتی ہیں
تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
تمہاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
تمہارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
تمہیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
بھلا کیا کیا سنوگے تم؟
تمہیں اب کیا بتاؤں میں؟
مذاق برطرف۔۔۔ بہت خوب نظم ہے میاں۔ جمود و نمود کا سلسلہ تو چلتا ہی رہے گا لیکن اس خوبصورت تخلیق پر بہت سی داد
آخری تدوین: