فاتح بھائی۔۔۔۔ آپ کی داد مجھے نہال کر دیتی ہے۔واہ واہ واہ بلال کیا کہنے۔ تمہاری اکثر غزلیں لا جواب ہوتی ہیں۔ زورِ قلم ہمیشہ بڑھتا رہے۔
نقش بندِ حرَم آ دیکھ ذرا
اصلِ تاریخ مَقاتِل میں ہے
ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے
تُند خو بحر ہوں وارث، مرا چین
وُسعتِ بازوئے ساحِل میں ہے
وہ دعا ، لب پہ جو نہیں آتی
یا الہی! !!!قبول ہو جائے
تیرے ہاتھوں جو سنگ بھی نکلے
آتے آتےوہ پھول ہو جائے
واہ واہ واہ!! بہت خوب!! کیا اچھا کہا ہے عاطف بھائی ! آتے آتے وہ پھول ہوجائے !! واہ واہ!!کس غریب شہر کی چھت سے گزر آیا ہے آج
کرب کی کیسی جھلک دیکھ اس مہ کامل میں ہے
بہت ہی اعلیٰ ! واہ واہ!! کیا خوب گرہ لگائی ہے عاطف بھائی ! سلامت رہیں !!نام میرا ؟۔ ان کے لب؟۔ یہ کیا کہا ؟۔ پھر کہہ ندیم!
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
شکریہ فاتح بھیا۔واہ واہ امجد صاحب اور آپ کی بیگم کا شکریہ بھی
سبحان اللہ، واہ، بہت خوب کلام۔ آپ نے تو ایک ہی غزل میں طرحی اور غیر طرحی کلام پیش کر دیا۔ بہت لطف آیا۔ اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔السلام علیکم،
سب سے پہلے تو اس لاجواب محفل کے خوبصورت مشاعرے کے مشفق و مہربان و سلیقہ و ہنر مند منتظمین محترم خلیل صاحب، مقدس بہن، تابش صدیقی صاحب، جماعتی صاحب اور بلال صاحب کو مبارکباد۔
اب چونکہ مجھے یاد فرمایا گیا ہے، منتظمین کی مہربانی سے، تو عرض کروں کہ بلا مبالغہ سات آٹھ سال بعد کچھ کہنے کی کوشش کی ہے۔ دو چار غزلوں سے خود پر شاعر ہونے کی تہمت لگوا رکھی ہے اور اب تو طبیعت بالکل بھی ادھر نہیں آتی لیکن حکم حاکم۔۔۔۔۔۔ پرانی غزلیں اور رباعیاں سنانے کا فائدہ نہیں کہ ہیں ہی کتنی سو مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق نئی غزل کہنی ہی پڑی۔ مصرع طرح کی بحر میرے مزاج سے ہٹ کر تھی سو بدل دی بلکہ بدل گئی اور قافیہ بھی الف کی قید سے آ گیا، ردیف بہرحال وہی ہے اور شعر پانچ ہی ہیں گویا فرض ہی پورا کیا ہے
سوختنی ہی سہی لیکن سُن لیجیے۔ صدرِ مشاعرہ محترم و معظم جنابِ اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے:
عرض کیا ہے
ذکرِ عُقبیٰ ہی محافِل میں ہے؟
فکرِ دُنیا بھی تو حاصِل میں ہے
نقش بندِ حرَم آ دیکھ ذرا
اصلِ تاریخ مَقاتِل میں ہے
تیر و توپ و تبَر اور چنگ و رباب
معرکہ کیسا مقابِل میں ہے
ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے
تُند خو بحر ہوں وارث، مرا چین
وُسعتِ بازوئے ساحِل میں ہے
والسلام
صدرمشاعرہ اعجاز صاحب محترم مہمانِ خصوصی منیر انور صاحب ،تمام شعرائے کرام، اور عزیز قارئین، السلام علیکم و رحمتہ اللہ
اپنی معذرت بھی پیش کرتا ہوں کچھ ذاتی مسائل اورمصروفیات کے سبب اور یہاں حج کی سرگرمیوں کے آغاز کی وجہ سے جو تاخیر کا سبب بنے۔
مبارکباد خلیل صاحب کو ، مقدس بہن کو، تابش صدیقی صاحب کو ، جماعتی صاحب کو اور بلال صاحب کو او دیگر وابستگان محفل کو کہ ایسی موقر ادب کی محفل سجا ئی کہ تشنہ لبوں کو سیراب کیا اور بہتیرے رنجوروں کو مسرور کرنے کا سامان کیا ۔
میری شرکت باعث صد مسرت ہے کہ اس کا اہل نہیں ،سو احباب کی ایسی تکریم کے شکریئے کا حق ادا کرنے قاصر ہوں۔
کچھ نہ کچھ پیش کرنا بھی کیوں کہ مسرت کا ایک لاینفلک حصہ تھا سو اپنے حصے کے پراگندہ خیالات پیش کرنے کا ارادہ بھی کیا۔ اور اسی نسبت سے ماحضر پیش خدمت کرنے کی جسارت اجازت کے ساتھ کرتا ہوں۔
عرض ہے کہ۔
ایک ان سے جو بھول ہو جائے-
اپنی محنت وصو ل ہوجائے
-
وہ دعا ، لب پہ جو نہیں آتی
یا الہی !!!!! قبول ہو جائے
-
جس کو مل جائے عشق کا پیغام
وہ وفا کا رسول ہوجائے
-
بے جنوں، جو چلے ترا رستہ
اپنے قدموں کی دھول ہوجائے
-
تیرے ہاتھوں جو سنگ بھی نکلے
آتے آتےوہ پھول ہو جائے
-
میرا ہونا بھی تیرے ہونے کا
رمز شان نزول ہو جائے
-
زخم دل مندمل ہوا چاہے
تجھے دیکھے تو پھول ہو جائے
-
دیکھ کر تیرے عارض گلگوں
گل سے شبنم خجول ہا جائے
ایک طرحی جسارت بھی اہل محفل کی نذرعرض کر کے اجازت چاہوں گا۔
۔
کیا ہوئے وہ قافلے کیا ناقہ و محمل میں ہےآداب و تسلیمات ۔
اک یہی نو حہ برابر میرے آب و گل میں ہے
۔
کس غریب شہر کی چھت سے گزر آیا ہے آج
کرب کی کیسی جھلک دیکھ اس مہ کامل میں ہے
۔
چکھ لیا فردوس میں ممنوع پھل جس کے سبب
اک وہی شعلہ فروزاں آج بھی ہر دل میں ہے
۔
چھوڑ کر صحرا سمندر پر برستا ہے یہ ابر
دل ازل سے آج تک الجھا سی مشکل میں ہے
۔
ڈوبتے سورج ! مجھے بھی ساتھ لیکر ڈوب جا
آج کیسا درد یہ نظارہء ساحل میں ہے
۔
تیرے ہاتھوں ایک جام آتشیں سے ہے وہ حال
نہ تو وہ ماضی میں ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہے
۔
مارو کژدم کیا ہیں ثعبان و عصا کے سامنے
آزمالو زور کتنا بازوئے باطل میں ہے
۔
جانتے ہیں وہ جو رہتے ہیں سدا گرم سفر
راستے ہوں پر خطر تو کیا دھرا منزل میں ہے
۔
میر و مرزا کیوں نہ ہوں نازاں وہاں فردوس میں
"آپ" جیسا اک سخنور جب یہاں محفل میں ہے
۔
نام میرا ؟۔ ان کے لب؟۔ یہ کیا کہا ؟۔ پھر کہہ ندیم!
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"
اجازت چاہوں گا۔
نوازش آپ کی راجا صاحب محترم۔سبحان اللہ، واہ، بہت خوب کلام۔ آپ نے تو ایک ہی غزل میں طرحی اور غیر طرحی کلام پیش کر دیا۔ بہت لطف آیا۔ اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔
واہ واہ استاد محترم، کیا کہنے بہت خوب سر۔۔۔!! کمال ہے۔۔!!میں اشکبارہوں نا ممکنہ کی خواہش میں
نمک مثال گھلے جارہا ہوں بارش میں
دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع
مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں
صدرِ مشاعرہ محترمی و مکرمی استادِ گرامی جنابِ اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں ۔
پہلے ایک تازہ غزل ۔
قریہء سیم و زر و نام و نسب یاد آیا
پھر مجھے ترکِ تعلق کا سبب یاد آیا
ہجر میں بھول گئے یہ بھی کہ بچھڑے تھے کبھی
دور وہ دل سے ہوا کب ،ہمیں کب یاد آیا
کارِ بیکار جسے یاد کہا جاتا ہے
بات بے بات یہی کارِ عجب یاد آیا
۔ق ۔
پارہء ابر ہٹا سینہء مہتاب سے جب
عشوہء ناز سرِ خلوتِ شب یاد آیا
عارضِ شب ہوئے گلنار ، صبا شرمائی
جب ترا غمزہء غمازِ طلب یاد آیا
پھر مری توبہء لرزاں پہ قیامت گزری
پھر مجھےرقصِ شبِ بنتِ عنب یاد آیا
یاد آئے ترےکم ظرف بہکنے والے
جامِ کم کیف بصد شور و شغب یاد آیا
۔
چاندنی ، جھیل ، ہوا ، زلفِ پریشاں ، بادل
دل و جاں ہم نے کہاں کھوئے تھے اب یاد آیا
کیا لکھے کوئی بجز نوحہء قرطاس کہ حیف
بے ادب خامہء ارزاں کو ادب یاد آیا
آپ کی اجازت سے ایک اور تازہ غزل پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
میں اشکبارہوں نا ممکنہ کی خواہش میں
نمک مثال گھلے جارہا ہوں بارش میں
دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع
مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں
خمارِ شام، غمِ تیرگی ، امیدِ سحر
عجیب عکس ہیں بجھتے دیئے کی تابش میں
بجا ہے طعنہء باطل مری دلیلوں پر
ہزار جہل بھی شامل ہیں میری دانش میں
یہ جبرِ راہ گزر ہے ، سفر نہیں میرا
کہ دل شریک نہیں منزلوں کی کاوش میں
وہ عکس ہوں جو کسی آنکھ سے بچھڑ کے ظہیر
بھٹک رہا ہے وصالِ نظر کی خواہش میں
ایک دو غزلوں کے کچھ منتخب اشعار پیش ِ خدمت ہیں ۔
راز درپردہء دستار و قبا جانتی ہے
کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے
کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں
کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے
اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر
فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے
اور کیا دیتی محبت کے سوا ارضِ وطن
ماں تو بیٹوں کے لئے صرف دعا جانتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں سرے ہی کھوگئے ، بس یہ سرا ملا
اپنی خبر ملی ہے نہ اُس کا پتہ ملا
اُس کو کمالِ ضبط ملا ، مجھ کو دشتِ ہجر
لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو کیا ملا
رو رو کے مٹ گیا ہوں تو مجھ پر ہوئی نظر
بینائی کھوگئی تو مجھے آئنہ ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب آخر میں مصرعِ طرح پر کچھ طبع آزمائی ۔
گھر بسانے کی تمنا کوچہء قاتل میں ہے
زندگی مصروف اک تحصیلِ لاحاصل میں ہے
شورِ طوفاں قلقلِ مینا ہے پیاسوں کے لئے
اک پیالے کی طرح ساگر کفِ ساحل میں ہے
چاک کو دیتے ہیں گردش دیکھ کر گِل کا خمیر
اک پرانی رسم ہم کوزہ گرانِ گِل میں ہے
مرکزِ دل سے گریزاں ہے محیطِ روزگار
دائرہ کیسے بنے ، پرکارِ جاں مشکل میں ہے
دے گیا ہے ڈوبتا سورج اجالے کی نوید
ایک تازہ دن کہیں تقویم کی منزل میں ہے
عیب اُنہی کی آنکھ میں ہو عین ممکن ہے ظہیر
جو سمجھتے ہیں کہ خامی جوہرِ کامل میں ہے
ایک بار پھر بہت شکریہ راجا صاحب، نوازش آپ کی۔نقش بندِ حرَم آ دیکھ ذرا
اصلِ تاریخ مَقاتِل میں ہے
ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے
تُند خو بحر ہوں وارث، مرا چین
وُسعتِ بازوئے ساحِل میں ہے
محمد وارث بھیا! کیا غزل عطا کی ہے، اور یہ اشعار پڑھ کر تو بےساختہ ہی منہ سے واہ واہ نکل رہی ہے۔ بہت خوب، بہت اعلیٰ۔ سلامت رہیں۔
محترم شرکاءِ محفل السلام علیکم!
سب سے پہلے تو اس خوبصورت محفل ِ مشاعرہ کو سجانے کے لئے منتظمین جناب خلیل صاحب، مقدس صاحبہ، تابش صدیقی ، حسن محمود اور بلال اعظم صاحبان کا ازحد شکریہ لازم ہے ۔ اتنی خوبصورت محفل بہت دنوں کے بعد کہین نظر آئی ۔ اللہ تعالیٰ سلامت رکھے ۔ بہت ممنون ہوں کہ مجھے اس میں شرکت کا موقع دیا گیا ۔
صدرِ مشاعرہ محترمی و مکرمی استادِ گرامی جنابِ اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں ۔
پہلے ایک تازہ غزل ۔
قریہء سیم و زر و نام و نسب یاد آیا
پھر مجھے ترکِ تعلق کا سبب یاد آیا
ہجر میں بھول گئے یہ بھی کہ بچھڑے تھے کبھی
دور وہ دل سے ہوا کب ،ہمیں کب یاد آیا
کارِ بیکار جسے یاد کہا جاتا ہے
بات بے بات یہی کارِ عجب یاد آیا
۔ق ۔
پارہء ابر ہٹا سینہء مہتاب سے جب
عشوہء ناز سرِ خلوتِ شب یاد آیا
عارضِ شب ہوئے گلنار ، صبا شرمائی
جب ترا غمزہء غمازِ طلب یاد آیا
پھر مری توبہء لرزاں پہ قیامت گزری
پھر مجھےرقصِ شبِ بنتِ عنب یاد آیا
یاد آئے ترےکم ظرف بہکنے والے
جامِ کم کیف بصد شور و شغب یاد آیا
۔
چاندنی ، جھیل ، ہوا ، زلفِ پریشاں ، بادل
دل و جاں ہم نے کہاں کھوئے تھے اب یاد آیا
کیا لکھے کوئی بجز نوحہء قرطاس کہ حیف
بے ادب خامہء ارزاں کو ادب یاد آیا
آپ کی اجازت سے ایک اور تازہ غزل پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
میں اشکبارہوں نا ممکنہ کی خواہش میں
نمک مثال گھلے جارہا ہوں بارش میں
دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع
مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں
خمارِ شام، غمِ تیرگی ، امیدِ سحر
عجیب عکس ہیں بجھتے دیئے کی تابش میں
بجا ہے طعنہء باطل مری دلیلوں پر
ہزار جہل بھی شامل ہیں میری دانش میں
یہ جبرِ راہ گزر ہے ، سفر نہیں میرا
کہ دل شریک نہیں منزلوں کی کاوش میں
وہ عکس ہوں جو کسی آنکھ سے بچھڑ کے ظہیر
بھٹک رہا ہے وصالِ نظر کی خواہش میں
ایک دو غزلوں کے کچھ منتخب اشعار پیش ِ خدمت ہیں ۔
راز درپردہء دستار و قبا جانتی ہے
کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے
کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں
کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے
اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر
فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے
اور کیا دیتی محبت کے سوا ارضِ وطن
ماں تو بیٹوں کے لئے صرف دعا جانتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں سرے ہی کھوگئے ، بس یہ سرا ملا
اپنی خبر ملی ہے نہ اُس کا پتہ ملا
اُس کو کمالِ ضبط ملا ، مجھ کو دشتِ ہجر
لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو کیا ملا
رو رو کے مٹ گیا ہوں تو مجھ پر ہوئی نظر
بینائی کھوگئی تو مجھے آئنہ ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب آخر میں مصرعِ طرح پر کچھ طبع آزمائی ۔
گھر بسانے کی تمنا کوچہء قاتل میں ہے
زندگی مصروف اک تحصیلِ لاحاصل میں ہے
شورِ طوفاں قلقلِ مینا ہے پیاسوں کے لئے
اک پیالے کی طرح ساگر کفِ ساحل میں ہے
چاک کو دیتے ہیں گردش دیکھ کر گِل کا خمیر
اک پرانی رسم ہم کوزہ گرانِ گِل میں ہے
مرکزِ دل سے گریزاں ہے محیطِ روزگار
دائرہ کیسے بنے ، پرکارِ جاں مشکل میں ہے
دے گیا ہے ڈوبتا سورج اجالے کی نوید
ایک تازہ دن کہیں تقویم کی منزل میں ہے
عیب اُنہی کی آنکھ میں ہو عین ممکن ہے ظہیر
جو سمجھتے ہیں کہ خامی جوہرِ کامل میں ہے
خواتین و حضرات بصر خراشی کے لئے معذرت چاہتا ہوں ۔ برداشت کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔ السلام علیکم ۔
میں جتنی بارآپ کا کلام پڑھوں گا اتنی بار ہی آپ کی خدمت میں داد پیش کروں گا کہ کلام ہی اتنا عمدہ ہے۔ایک بار پھر بہت شکریہ راجا صاحب، نوازش آپ کی۔
واہ واہ استاد محترم، کیا کہنے بہت خوب سر۔۔۔!! کمال ہے۔۔!!
واہ واہ ظہیر بھائی. لاجواب. بڑی کوشش کی کہ چند اشعار منتخب کر سکوں مگر قاصر رہا، کہ کوئی شعر اقتباس سے چھوڑنے والا ہی نہ تھا.
کمال پختگی ہے فکر و فن کی، اور تخیل لاجواب.
سراسر خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسے سخن ور سے فیض حاصل کرنے کا موقع مل رہا ہے.
اللہ تعالیٰ آپ کو ایمان و صحت کے ساتھ بھرپور زندگی عطا فرمائے. آمین
وارث بھائی ! میں انتہائی ممنون ہوں آپ کے ان گرانقدر الفاظ کے لئے ! یہ صرف اور صرف آپ کا حسنِ نظر ہے اور اعلیٰ ظرفی ہے ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔ آپ نے بہت دل بڑھادیا میرا ۔ مولا شاد رکھے آباد رکھے ۔کیا کہنے ظہیر صاحب قبلہ، آپ کی غزلیات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ایک ایک شعر لاجواب ہے۔
طرحی غزل تو بس یوں سمجھیں حاصلِ مشاعرہ ہے، فقط آخری شعر لکھنے پر توقف کر رہا ہوں، وگرنہ تو سارے اشعار ہی انتخاب ہیں:
عیب اُنہی کی آنکھ میں ہو عین ممکن ہے ظہیر
جو سمجھتے ہیں کہ خامی جوہرِ کامل میں ہے
واہ واہ واہ