سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مشاعرہ میں غیر ضروری وقفہ کا احساس منتظمین کو اگر شرکاء سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے.
اور اسی کوشش میں ہیں کہ جلد از جلد اس تعطل کو ختم کیا جائے. :)
تابش بھائی اور خلیل بھائی مجھے علم نہیں کہ مشاعرے میں تعطل کی کیا وجوہات ہیں لیکن مشاعرے کا جو ماحول بن گیا ہے اسے قائم رہنا چاہیئے ۔ تشنگی بڑھتی جارہی ہے ۔ اگر شاعر حضرات کی بروقت دستیابی کا مسئلہ ہے تو مجھے اجازت دیجئے میں اپنے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں ۔ کچھ پرانا کلام بھی ہے اور اب تو ایک طرحی غزل بھی لکھ ڈالی ہے ۔ اگر آپ حکم کریں تو پیشِ خدمت کرتا ہوں ۔ یہ صرف ایک مشورہ ہے ۔ آپ کے انتظام و انصرام میں کوئی خلل ڈالنا نہیں چاہتا ۔ آپ اس معاملے کوبہتر جانتے ہیں ۔ :):):)
 
تابش بھائی اور خلیل بھائی مجھے علم نہیں کہ مشاعرے میں تعطل کی کیا وجوہات ہیں لیکن مشاعرے کا جو ماحول بن گیا ہے اسے قائم رہنا چاہیئے ۔ تشنگی بڑھتی جارہی ہے ۔ اگر شاعر حضرات کی بروقت دستیابی کا مسئلہ ہے تو مجھے اجازت دیجئے میں اپنے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں ۔ کچھ پرانا کلام بھی ہے اور اب تو ایک طرحی غزل بھی لکھ ڈالی ہے ۔ اگر آپ حکم کریں تو پیشِ خدمت کرتا ہوں ۔ یہ صرف ایک مشورہ ہے ۔ آپ کے انتظام و انصرام میں کوئی خلل ڈالنا نہیں چاہتا ۔ آپ اس معاملے کوبہتر جانتے ہیں ۔ :):):)
ان شاء اللہ کل سے سلسلہ آگے بڑھائیں گے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کے کلام سے محروم رہ جائیں۔ ضرور مستفید ہوں گے ان شاء اللہ۔ :)
 
سب سے پہلے تو معذرت چاہوں گا کہ دیر میں حاضر ہوا۔ منتظمین اور میرا وقت مختلف ہونے کی وجہ سے یہ زحمت ہوئی۔ تمام شعراء کے کلام سے لطف اندوز ہوا۔ محمد بلال اعظم بھائی کی غزل تو سفر میں گنگناتے ہوئے پڑھی گئی۔ اور امجد علی راجا بھائی کے پہلے دو طرحی شعر تو فورا یاد ہو گئے۔ ہم تو اب بھی دہرا کر مزہ لیے جا رہے ہیں۔ فردا فردا سب کے کلام پر تبصرہ ان شاء اللہ تبصروں کی لڑی میں کرتا ہوں۔
طرحی مصرع پر سوچا تو تھا کہ طبع آزمائی کروں گا، لیکن وقت ہی نہیں نکل پایا۔ یہ سفر کے دوران چند اشعار موزوں ہوئے تھے، جس میں سے کچھ بھی زیرِ غور ہیں۔ چنانچہ دو ہی اشعار پیش کر رہا ہوں۔ بقیہ ان شاء اللہ پھر سہی۔
نذرِ آتش کر دیے اوراقِ قرآں آپ نے
اس متن کا کیا کرو گے جو ہمارے دل میں ہے
رحم کن بر حالِ عشاقِ مجازی یا رحیم
کوئی زلفِ فتنہ گر میں گُم ہے کوئی تل میں ہے
اور ایک عدد تازہ غزل آپ کی باذوق سماعتوں کی نذر
❀ غزل

عاشق و موسیٰ میں اب ایسا بھی کیا امتیاز؟
ہم بھی ہیں مشتاق کر، ہم سے بھی راز و نیاز

سود و زیاں سے پرے، صرف خدا کے اسیر
اہلِ تصوف وہ ہیں، جن پہ ہے خالق کو ناز

طیش میں وہ ہیں تو کیا، ایک یہی در تو ہے
اور کہاں پر کریں دستِ سوالی دراز

ذاتِ حبیبِ حزیں، تیری تڑپ کے نثار
سب کے لئے جاں گسل، سب کے تئیں جاں گداز

پیرِ حرم کیا کرے؟ قوم کی دانست میں
نقلِ فرنگی ہے آج کارگر و کارساز

کشمکشِ زندگی سے ہے عروجِِ امم
جہدِ مسلسل میں ہے رفعتِ قومی کا راز

آپ کی مانند سب رند نہیں ہیں شکیب
دیجیے گا کب تلک بادہ کشی کا جواز

دعاگو و دعاجو
فقیر شکیب احمد
بہت ہی عمدہ بہت ہی خوبصورت۔ کلاسیکل انداز بیاں۔۔۔۔۔۔لاجواب۔۔۔ ڈھیر داد۔۔۔!!
 
بہت بہت شکریہ، تابش بھائی۔
سب سے پہلے تو میں منتظمین کو اس نادرالوقوع مشاعرے کے انعقاد پر، جس کے دوسالہ ہونے کے قوی امکانات ہیں، دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اگلی سالگرہ پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
میرا خوب صورت کلام (بقولِ محمد تابش صدیقی ، دروغ بر گردنِ راوی) پیشِ خدمت ہے۔
پہلے ایک غیرطرحی غزل:

میرے طبیب کی قضا میرے سرھانے آ گئی
چارہ گرانِ عشق کی عقل ٹھکانے آ گئی

رات کی خیمہ گاہ میں شمع جلانے آ گئی
آ گئی مہرباں کی یاد، آگ لگانے آ گئی

بندہ نواز، کیا کروں؟ مجھ کو تو خود نہیں خبر
فرش میں عرش کی کشش کیسے نجانے آ گئی؟

جس کے وجود کا پتا موت کو بھی نہ مل سکا
اس کی گلی میں زندگی شور مچانے آ گئی

خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی

تیرے وصال کی قسم، تیرے جمال کی قسم
ایک بہار عشق پر آ کے نہ جانے آ گئی​

فاتح بھائی کے حکم کی تعمیل میں یہ غزل اب میری آواز میں بھی سنیے:


اور اب طرحی غزل ملاحظہ فرمائیے:

عشق مشکل میں ہے، ضبط اس سے بڑی مشکل میں ہے
دل تمنا میں گیا، پھر بھی تمنا دل میں ہے

کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے، آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے؟

جس کے باعث حسن ہے بدنام ازل سے، غافلو!
وہ خرابی اصل میں عاشق کے آب و گل میں ہے

انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے

خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے

نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"​

عموماً شاعر کمی کوتاہی کی معافی نہیں مانگتے، مگر کوئی ہو گئی ہو تو مجھے، تابش بھائی اور فاتح بھائی کو معاف فرمائیے گا۔
والسلام!
قبلہ استاد من! راحیل بھائی کیا ہی عمدہ کلام ہیں۔ آپکی شخصیت کی طرح بہت ہی خوبصورت۔ کیا ہی خوب خیال اور اس پر آپ کا انداز بیاں۔۔۔۔ آواز ابھی سنی نہیں کہ اس پر رائے دینے سے معذور ہوں۔۔۔۔استاد من! بہت ہی اعلی۔۔۔۔۔!!
 
بہت عمدہ وارث بھائی۔ لاجواب۔
خاص طور پر درج ذیل اشعار نے تو خوب مزا دیا۔

ذکرِ عُقبیٰ ہی محافِل میں ہے؟
فکرِ دُنیا بھی تو حاصِل میں ہے

ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے
کیا کہنے جناب۔
 
عشق اک دشت ہائے وحشت تھا
دل بنَا ہی برائے وحشت تھا

بے قراری سکوں کی زیریں تہہ
اور سکوں بر بِنائے وحشت تھا

اشک قطرہ نہ تھا، سمندر تھا
غمِ دل آبنائے وحشت تھا

تھی ازل سے ہی بے قرار ہوا
اس کی فطرت میں پائے وحشت تھا

اک تڑپ بانسری کی لے میں تھی
ساز گویا صدائے وحشت تھا

کیا اُسے حالِ دل سناتے ہم
نغمہء دل نوائے وحشت تھ
محترم احمد بھائي۔۔۔۔۔۔۔ کیا وحشت پھیلائی ہے۔۔۔۔ اتنی عمدہ وحشت، جی چاہتا ہے یہ وحشت اپنا لی جائے۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔!!

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹہھرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ

یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ
واہ واہ واہ۔۔۔۔۔۔ قبلہ کیا آئینہ دکھایا ہے۔۔۔۔۔ بہت اعلی۔ اس پر محسن نقوی صاحب فرماتے ہیں۔
تمام رسمیں ہی توڑ دی ہیں، کہ میں نے آنکھیں ہی پھوڑ دی ہیں
زمانہ اب مجھ کو آئینہ بھی، مرا دکھائے تو کچھ نہ پائے
 
جنابِ صدر، محترم مہمانِ خصوصی، شعرائے کرام، اور عزیز قارئین، السلام علیکم و رحمتہ اللہ

میں اردو محفل اور محترم جناب محمد تابش صدیقی صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے اس اہم مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی۔ سائبر دنیا میں اتنے طویل عرصہ تک اردو زبان کی بہترین خدمت پر اردو محفل کی انتظامیہ اور متحرک اراکین سبھی بہت سی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس کے ساتھ صاحبِ صدر کی اجازت سے اپنے کلام سے دو غزلیات، دو مختصر نظمیں اور ایک نمکین غزل پیش کرنا چاہوں گا۔

غزل

اپنے پیارے ساتھ چلیں تو
رستے منزِل ہو جاتے ہیں

چھوڑو مے اور مے خانوں کو
ہم تُم محفل ہوجاتے ہیں

وقت پہ گَر نہ آنکھ کُھلے تو
سپنے قاتِل ہو جاتے ہیں

روتا ہے جب پُھوٹ کے اَمبر
ہم بھی شامِل ہو جاتے ہیں

ڈوب رہا ہے دیکھوکوئی
بڑھ کر ساحِل ہو جاتے ہیں!

جلدی منزِل چاہنے والے
جلدی بددِل ہو جاتے ہیں

دیکھیں جب وہ پیار سے صاحِب!
شِکوے مشکل ہو جاتے ہیں

-------------------------------------

غزل

ذِکر تیرا جہاں، وہاں ٹھہرے
درد والے کہاں کہاں ٹھہرے!

اشک راہی ہیں اور تُو منزل
تُو ہی آئے نہ کارواں ٹھہرے

جو بھی کرنا ہے جلد ہی کر لو
وقت کس کے لئے مِیاں ٹھہرے

اپنی وُسعت سے کچھ زمیں والے
آسمانوں کے آسماں ٹھہرے

شیخ بانٹے ہے نفرتیں، رِند بھی!
دل جو ٹھہرے تو اب کہاں ٹھہرے؟

بَیچ کھایا جنہوں نے کلِیوں کو
ہائے گُلشن کے پاسباں ٹھہرے!

کچھ تعلق نہیں تھا دُنیا سے
چار پَل کو مگر یہاں ٹھہرے


--------------------------------------

"بیماری"

پنچھی جو پَلے ہوں پنجروں میں*
پرواز کو سمجھیں بیماری
جو ہونٹ سِلے ہوں صدیوں سے
آواز کو سمجھیں بیماری
جو تار کبھی نہ تڑپے ہوں
وہ ساز کو سمجھیں بیماری!


(* پہلا شعر مصنف اور فلمساز الیگزندرو جودوروسکی کے قول کا ترجمہ ہے)

---------------------------------

"ڈیجیٹل شاعری – فوٹو"

زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں!

----------------------------------

نمکین غزل

اُس کو دیکھ کے "اچھے اچھے"
تھوڑے لِبرَل ہو جاتے ہیں

چھوڑو چُھپ چُھپ کر مِلنے کو
ہم تم لِیگَل ہو جاتے ہیں

سَوتی قوموں کے بالآخر
سپنے رَینٹَل ہو جاتے ہیں

"رایَل" کہنے سے کیا بھیا
پنکھے رایَل ہو جاتے ہیں؟

شعر ہمارے سُن کر بلبل
سَینٹِیمنٹَل ہو جاتے ہیں

سردی میں سویڈن کی صاحب!
شکوے ڈَینٹَل ہو جاتے ہیں


ایک بار پھر اردو محفل کے تمام احباب کا بے حد شکریہ۔

والسلام،

ابنِ مُنیب
واہ واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوید بھائي پہلی بار آپ کا کلام پڑھا اور بک مارک۔۔۔۔ بہت ہی عمدہ۔۔۔ کیا خوبصورت روانی پائی ہے۔۔!!
 
ذکرِ عُقبیٰ ہی محافِل میں ہے؟
فکرِ دُنیا بھی تو حاصِل میں ہے

نقش بندِ حرَم آ دیکھ ذرا
اصلِ تاریخ مَقاتِل میں ہے

تیر و توپ و تبَر اور چنگ و رباب
معرکہ کیسا مقابِل میں ہے

ہیچ ہے راحتِ منزل یارو
لطف سارا تو مراحِل میں ہے

تُند خو بحر ہوں وارث، مرا چین
وُسعتِ بازوئے ساحِل میں ہے
حضرت آپ کو کہا تھا نا۔۔۔۔ آپ واقعی استاد ہیں۔۔۔۔۔ تو آپ واقعی استاد ہیں۔۔۔۔ قبلہ برا نا مانیے گا، بہت ہی مشکل بحر جو میرے اتنا رواں پڑھنے پر مجھ سے نہیں پڑھی جا رہی۔۔۔۔۔!! اگر اس کی آڈیو بھی دے دیں تو عنایت ہوگی فقیر پر۔۔۔!! ہم تو یہی کہیں گے۔۔۔
" اے عاماں دے سمجھن والی گل نئیں۔۔۔ تے خاصاں تو وی اگے دی گل اے۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حضرت آپ کو کہا تھا نا۔۔۔۔ آپ واقعی استاد ہیں۔۔۔۔۔ تو آپ واقعی استاد ہیں۔۔۔۔ قبلہ برا نا مانیے گا، بہت ہی مشکل بحر جو میرے اتنا رواں پڑھنے پر مجھ سے نہیں پڑھی جا رہی۔۔۔۔۔!! اگر اس کی آڈیو بھی دے دیں تو عنایت ہوگی فقیر پر۔۔۔!! ہم تو یہی کہیں گے۔۔۔
" اے عاماں دے سمجھن والی گل نئیں۔۔۔ تے خاصاں تو وی اگے دی گل اے۔۔۔۔
ذرہ نوازی ہے آپ کی محترم۔ اور آڈیو، شاید میرے لیے ممکن نہیں ہے، اس طرح کے کام میں کم ہی کرتا ہوں، کبھی قسمت نے آپ سے ملوایا تو آپ کو سنا دونگا :)
 
یہ بڑی کم بخت چیز ہے بھیا، اس کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا :)
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس پر رہے تو اس نے ملوا دیا ہمیں۔۔۔ ان شاء اللہ ہم خود کوئی سبیل نکالیں گے۔ نارووال جاتے ہوئے سیالکوٹ جانا رہتا ہے اپنا۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ تابش بھائی!
سب سے پہلے تو اردو محفل اور تمام منتظمین کو گیارہویں سالگرہ کے موقع پر عالمی اردو مشاعرہ کے کامیاب انعقاد پر دلی مبارکباد!
میں اپنی پہلی غزل , اپنے شاعری کے سب سے پہلے استاد کے نام کرتی ہوں, جنہوں نے مجھے غزل لکھنا سکھایا اور علمی و ادبی میدان میں ہمیشہ میرا ساتھ دیا . میری پہلی غزل محمد بلال اعظم بھائی کے نام!

عرض کِیا ہے:
اِک شور تھا جو اندر , وہ آج مچ گیا ہے
اُتنا ہی اب عیاں ہُوں, جِتنا کبھی نہاں تھا

مَیں تیری زندگی میں, اخبار گُزرے دِن کا
یُونہی پڑا یہاں تھا, یُونہی پڑا وہاں تھا

اتنا نہ ہو سکا تُم, میری خبر ہی لَیتے
میرا پتا وہی تھا, میرا وہی مکاں تھا

لو آگئی خبر یہ, وہ شخص مر رہا ہے
اور جب مَیں مر رہا تھا, وہ شخص تب کہاں تھا؟

ہاں! بدنصِیب ہُوں مَیں اور کب کا مر گیا ہُوں
ویسے بھی باغیوں کو, کب راس یہ جہاں تھا؟

آیا نہ راس مُجھ کو , اپنا ہی آپ, ہائے!
'تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا'

تھے اور بھی سخن ور, محفل میں آ کے بیٹھے
لیکن جو سب سے سادہ, میرا ہی وہ بیاں تھا
****----------------------

اور اب دوسری غزل مصرع طرح کی زمین میں:
انتساب: سب محفلین کے نام:)


حُسن کی وہ اِک جھلک جو پردۂ محمل میں ہے
حُسن ایسا نہ کبھی دیکھا مہِ کامل میں ہے

زلف بکھرا کر نہ تُم آیا کرو یُوں سامنے
حوصلہ کب اِتنا تیرے عاشقِ عادل میں ہے؟

عمر ساری چلتا جاؤں,حُسنِ جاناں کی قسم!
ہم سفر تجھ سا ہو تَو پھر رکھا کیا منزل میں ہے؟

تخلیہ! اے ناصحا! مجھ کو اکیلا چھوڑ دے
یاد اُس کی جلوہ فرما آج میرے دل میں ہے

جو صنم کل تھا تراشا وہ خُدا بن بیٹھا آج
زندگی آزر کی اب تَو , ہاں! بہت مشکل میں ہے

مجھ سے آشفتہ مزاجوں کا نہ ہے واں کوئی کام
"ذکر میرا مُجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے"

تُو ہی تُو ہے ہر طرف اور بس تِرا ہی ہے خیال
بس یہی ہے سب سے اُولٰی, جو مِرے حاصل میں ہے

شکریہ!
ارے واہ مریم تم تو چھپی رستم نکلیں۔ بہت خوب بھئی۔ جیتی رہو
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ تابش بھائی ۔۔۔۔ تمام محفلین و منتظمین کو محفل کی گیارہویں سالگرہ مبارک ہو ۔۔۔
مرزا اسد اللہ خان غالب کی غزل کی زمین میں مصرع طرح پر ایک تخلیقی کاوش پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں ۔۔۔۔ عرض کیا ہے ۔۔۔

یاد میری شمع بن کر اس کی بزمِ دل میں ہے
" ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے "
غیر کا پہلو نشیں وہ خوش ادا محفل میں ہے
کچھ کمی تو ہے جو میرے عشقِ لا حاصل میں ہے
میری فظرت ہے سرِ تسلیم خم کرنے کی خو
ناز پرور تم بتا ئو کیا تمھارے دل میں ہے
اس لیے پھرتا ہوں میں رستے میں مانندِ غبار
جو مسافت میں مزہ ہے وہ کہاں منزل میں ہے
جان لی تیغِ تبسم سے کئی عشاق کی
قتل کرنے کا سلیقہ خوب تر قاتل میں ہے
کیا ہے لازم ہاتھ پھیلے بندہ پرور کے حضور
تم سخی ہو دیکھ لو خود کیا طلب سائل میں ہے
لا تعلق ہوں میں خود سے بے خبر دنیا سے ہوں
بس ترا دیدار میری حسرتِ کامل میں ہے
ایک نقطے میں سمٹتا حسن ایسے ہے صفی
دلکشی بے مثل دیکھی اس کے لب کے تل میں ہے
کیا خوب غزل ہے صفی صاحب۔ بہت سی داد
 

فاتح

لائبریرین
عزیزانِ محفل !
آداب.
ہمارے ترکش میں تو چند ناوکِ نیم کش، صورتِ اشعار پڑے ہیں. اگر ہماری یہ مشقِ ستم (مشقِ سخن ) آپ کے ادبی ذوق کو خدا نخواستہ گھائل کر دے تو اس کے لیے پیشگی معذرت قبول فرمائیے. :)

دو پرانی غزلیں جو مجھے پسند ہیں ، پیشِ خدمت ہیں :

غمِ دو جہاں سے گئے ہیں
لو ہم اپنی جاں سے گئے ہیں

ملیں گے کسی کو نہ اب ہم
زمان و مکاں سے گئے ہیں

ہنر تھا نہ خوبی نہ انداز
سو نام و نشاں سے گئے ہیں

زمیں نکلی پیروں تلے سے
کبھی آسماں سے گئے ہیں

دمِ مرگ جتنے یقیں تھے
مرے وہ گماں سے گئے ہیں

محبت ہوئی جن کو المٰی
وہ سود و زیاں سے گئے ہیں

دوسری غزل ...



اگر تو ہے بشر مٹی
پِھراُس کا ہر سفر مٹی

ڈھلی ہے جب سے قالب میں
ہوئی ہے در بدر مٹی

سراپا خاک کر ڈالا
یہ دِل مٹی جگر مٹی

اٹے ہیں گرد سے منظر
دِکھے شام و سحر مٹی

کوئی تخلیق رہ میں ہے
جدھر دیکھو اُدھر مٹی

صدائےکُن سے پہلے تھے
یہ برگ و گُل ,شجر مٹی

جو اُترے قبر میں الٰمی
ہوئے سارے ہُنر مٹی


اب ایک نگاه مصرع طرح پر کی گئی اس قافیہ پیمائی پر بھی ڈالیے.



ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
شوخیِ گفتارِ جاناں! کہہ ترے جو دل میں ہے

اُس پہ ہے بارِ محبت، صورتِ کوہِ گراں
آہ! دیکھو وہ تن آساں، کس قدر مشکل میں ہے

پہلو میں ہو جامِ ساگر، اور ایسی تشنگی
مے کشی سے یوں کنارہ، کیوں خوئے ساحل میں ہے

اس طرح پائی ہے ہم نے، پائے لغزش کی سزا
اک قدم ہے راستے میں، دوسرا منزل میں ہے

غمگسارو! رنج مجھ کو، نارسائی کا نہیں
میرا کُل سامان ِحسرت، زیست کے حاصل میں ہے


بہت نوازش .
واہ واہ اچھے اشعار ہیں۔ بہت سی داد لا المیٰ
 
Top