سید شہزاد ناصر
محفلین
کافی دن ہو گئے اس سلسلے کو آگے بڑھائے ہوئے برادرم باباجی نے بھی کئی بار تقاضا کیا مگر برا ہو دفتری مصروفیات کا کہ کچھ سجھائی نہ دیا کہ کیا لکھوں
پچھلے خاکے چھٹیوں کے دوران لکھے تھے جب فراغت ہی فراغت تھی طبعیت میں روانی تھی تخیل میں جولانی تھی اس کے علاوہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ کچھ آمد سے بھی مشروط ہے خیالات کی آمد ہو تو بقول ڈپٹی نذیر احمد کے ریں ریں کا یہ چرخہ روکے نہیں رکتا اور اگر آمد نہ ہو تو اڑیل ٹٹو کی طرح ساکت و جامد ہو جاتا ہے لاکھ قمچیاں رسید کرو مگر ٹس سے مس نہیں ہوتا خیر مذید کچھ لکھا ہے پڑہیں اور اپنی آراء سے مطلع کریں
پردیسی
ایک گرگ باراں دیدہ،سرد و گرم چشیدہ ظاہر میں خوش پوش بیاطن میں بابا ذرد پوش کردار کے اجلےہونے
کےباوجود ظاہر میلا ہونے کا ڈھونگ رچائے گورکھ ناتھ کے چیلے کی طرح دل کی گیتا کے کیرتن کا پاٹھ کرتے ہوئے کوچہ ملنگاں میں دھونی رمائے بیٹھے رہتے ہیں۔ اشفاق احمد فیض احمد فیض کے بارے میں لکھتے ہیں "کر چوری بھن گھر رب دا تےٹھگ اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں" ان کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ ٹھیٹھ لاہورئیے ہیں اور لاہوریوں کے بارے میں جاننے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ وقت ان کے ساتھ گزارا جائے تب ممکن ہے کہ آپ کو وہ راستہ مل جائے جو ان کے دل کی گپھاہ تک جاتا ہے۔
باباجی
خود شناسی کی راہوں پر ریحان ذات سے عرفان ذات کی منزلوں کو کھوجتا ہوصحراِ ذات میں اپنی صدا می مانند بھٹکتا ہواجسے سننے کے لئے دل کو گوش بر آواز کرنا پڑے سرو قد دل آویز سراپاتحیر کا اک جہاں سموئے کھوجتی ہوئی کچھ سوئی ہوئی کچھ جاگتی ہوئی آنکھیں خود شناسی کی تلاش میں حقیقت اور سراب کے درمیان معلق۔
شوکت پرویز
مخنی سا دبلا پتلا وجود شرعی داڑھی چہرے پر مسکراہٹ گفتگو میں ظرافت اور لطافت کی چاشنی لکھنؤ کی نزاکت میرٹھ کی قینچی کی سی تیزی دھلی کی فصاحت و بلاغت کا معجون مرکب بلکہ خمیرہ گاؤ زبان بوورق نقرہ و بیچیدہ۔ غضب کے حاضر جواب نو آموز شاعروں کی اصلاح کے لئے خدائی فوجدار کی طرح ھاتھ میں قینچی لئے کتر بیونت اور بخیہ گری کرنے کئے لئےہر دم کمر بستہ ستم طریفی یہ کہ اس تمام کاروائی کے بعد نبض پر ہاتھ رکھ کر کہیں گے"صحت بری نہیں"
ماھر عروض بحر پرخار کو بحر گلزار بنا دینے والے الفاظ کر تزکیر و تانیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے یہ ہیں ہمارے شوکت پرویز صاحب، من موہنے راج دلارے سب کے پیارے ، ان کی درازیِ عمر اور بلندیِ اقبال کے لئے دعاگو ہیں
پچھلے خاکے چھٹیوں کے دوران لکھے تھے جب فراغت ہی فراغت تھی طبعیت میں روانی تھی تخیل میں جولانی تھی اس کے علاوہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ کچھ آمد سے بھی مشروط ہے خیالات کی آمد ہو تو بقول ڈپٹی نذیر احمد کے ریں ریں کا یہ چرخہ روکے نہیں رکتا اور اگر آمد نہ ہو تو اڑیل ٹٹو کی طرح ساکت و جامد ہو جاتا ہے لاکھ قمچیاں رسید کرو مگر ٹس سے مس نہیں ہوتا خیر مذید کچھ لکھا ہے پڑہیں اور اپنی آراء سے مطلع کریں
پردیسی
ایک گرگ باراں دیدہ،سرد و گرم چشیدہ ظاہر میں خوش پوش بیاطن میں بابا ذرد پوش کردار کے اجلےہونے
کےباوجود ظاہر میلا ہونے کا ڈھونگ رچائے گورکھ ناتھ کے چیلے کی طرح دل کی گیتا کے کیرتن کا پاٹھ کرتے ہوئے کوچہ ملنگاں میں دھونی رمائے بیٹھے رہتے ہیں۔ اشفاق احمد فیض احمد فیض کے بارے میں لکھتے ہیں "کر چوری بھن گھر رب دا تےٹھگ اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں" ان کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ ٹھیٹھ لاہورئیے ہیں اور لاہوریوں کے بارے میں جاننے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ وقت ان کے ساتھ گزارا جائے تب ممکن ہے کہ آپ کو وہ راستہ مل جائے جو ان کے دل کی گپھاہ تک جاتا ہے۔
باباجی
خود شناسی کی راہوں پر ریحان ذات سے عرفان ذات کی منزلوں کو کھوجتا ہوصحراِ ذات میں اپنی صدا می مانند بھٹکتا ہواجسے سننے کے لئے دل کو گوش بر آواز کرنا پڑے سرو قد دل آویز سراپاتحیر کا اک جہاں سموئے کھوجتی ہوئی کچھ سوئی ہوئی کچھ جاگتی ہوئی آنکھیں خود شناسی کی تلاش میں حقیقت اور سراب کے درمیان معلق۔
سالک سے مراد مجھ سا ہو نقش میں
رہزن کو خیال راہرو ہوا خواب میں
اعلٰی پائے کا ادبی ذوق مہذب نعستلیق ان کی بے چین فطرت کے مطعلق میں اتنا ہی کہوں گاضد ہے ساقی سے کہ بھر دے مرا پیمانہ ابھی
شیخ صاحب سیکھئے آدابِ میخانہ ابھی
باغباں توہینِ گلشن ہے چار تنکوں کے لئے
برق سے کہ دے بنا جاتا ہے آشیانہ ابھی
شوکت پرویز
مخنی سا دبلا پتلا وجود شرعی داڑھی چہرے پر مسکراہٹ گفتگو میں ظرافت اور لطافت کی چاشنی لکھنؤ کی نزاکت میرٹھ کی قینچی کی سی تیزی دھلی کی فصاحت و بلاغت کا معجون مرکب بلکہ خمیرہ گاؤ زبان بوورق نقرہ و بیچیدہ۔ غضب کے حاضر جواب نو آموز شاعروں کی اصلاح کے لئے خدائی فوجدار کی طرح ھاتھ میں قینچی لئے کتر بیونت اور بخیہ گری کرنے کئے لئےہر دم کمر بستہ ستم طریفی یہ کہ اس تمام کاروائی کے بعد نبض پر ہاتھ رکھ کر کہیں گے"صحت بری نہیں"
ماھر عروض بحر پرخار کو بحر گلزار بنا دینے والے الفاظ کر تزکیر و تانیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے یہ ہیں ہمارے شوکت پرویز صاحب، من موہنے راج دلارے سب کے پیارے ، ان کی درازیِ عمر اور بلندیِ اقبال کے لئے دعاگو ہیں