درج ذیل اقتباس ایک دوسرے تھریڈ سے ماخوذ ہے، موزونیت کے باعث اسے یہاں پوسٹ کر رھا ہوں۔
میرے گاؤں کا نام امرہوا ہے جو کہ صوبہ اتر پردیش کے بلرام پور ضلع میں آتا ہے۔ یہ لکھنؤ شہر سے تقریباً 200 کلو میٹر دور واقع ہے۔ نیپال کی سرحد سے کافی قریب۔
گاؤں کے قریب سے ایک پہاڑی نالہ بہتا ہے جو کہ برسات کے دنوں میں انتہائی غضبناک ہو جاتا ہے جبکہ گرمی کے دنوں میں بمشکل پانی کی ایک باریک سی لکیر بہتی نظر آتی ہے اور کبھی کبھار تو وہ بھی نہیں۔ نالے کے پاس سے گزرتے ہوئے اگر پیاس لگ جائے تو نالے کی ریتیلی زمین میں ہاتھ سے تقریباً 1 فٹ گہرا گڑھا کھود کر صاف اور نتھرا ہوا پانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جسے عموماً ہاتھ اور گھٹنے ٹیک کر چوپایوں کی مانند پینا پڑتا ہے۔
تقریباً 12 کلو میٹر کی دوری پر پہاڑی سلسلوں کا آغاز ہو جاتا ہے، اس سے قبل گھنے جنگلات کا سلسلہ ہے جن میں ساںبھر، چیتل، ہرن، نیل گائے وغیرہ کے شکار بکثرت دستیاب ہوتے ہیں۔
گاؤں کی اکثریت گنے کی کھیتی کرتی ہے، اس کے علاوہ ذاتی استعمال کے لئے دھان، گیہوں، چنا، مٹر، مسور، اڑد، جوار، باجرہ، مکئی اور سبزیوں وغیرہ کی کاشت بھی کی جاتی ہے۔ غریبی عام ہے پڑھائی لکھائی کا کوئی خاص نظم نہیں ہے لہٰذا نو عمروں کا رجحان گائے اور بکری جیسے مویشی پالنا یا تلاش معاش کی خاطر ممبئی جیسے شہروں کی طرف کوچ کر جانا ہے۔ میرا گاؤں ابھی مشینی دور کی بجلی جیسی سہولت سے بھی نا آشنا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اب سے کوئی 4-5 سال قبل مجھے گاؤں میں موبائل فون کے استعمال کے لئے گاڑیوں میں لگنے والی 12 وولٹ کی بیٹری کا استعمال کرنا پڑتا تھا اور ہر ہفتے اس بیٹری کو تشحین کے لئے قریبی قصبے تک بھیجنا پڑتا تھا۔
میں ایسے ماحول سے نکل کر انجنیئرنگ تک کیسے آ پہوںچا یہ ایک الگ داستان ہے جسے کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔