جویریہ مسعود نے کہا:
بجا فرمایا
اب ذرا اس شعر کو ملاحظہ کریں۔۔۔
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا
بظاہر تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غالب صحرا کی ویرانی سے گھبرا کر گھر کو یاد کر رہے ہیں مگر اگر صنعتِ تشبیہِ بعید کو مد نظر رکھا جائے تو مطلب یہ بنتا ھے کہ شاعر کو صحرا کی ویرانی سے اپنے گھر کی ویرانی یاد آگئی یعنی میرا گھر بھی اتنا ہی ویران تھا جتنا کہ صحرا اور دشت ویران ہے۔۔۔
غالب کی معنی آفرینی کا کیا کہنے۔۔۔۔
غالب کے بارے میں میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ
غالب علی من کل غالب
ایک غالب کا شعر ہے جس میں بہت دور کی کوڑی لائے ہیں غالب میاں
مگس کو باغ میں اکیلا جانے نہ دیجیئو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
یعنی شہد کی مکھی کو باغ میں جانے نہ دینا ورنہ وہ وہاں جا کر پھولوں سے شہد چوسے گی او شہد کے چھتے سے موم بنے گی جس سے پھر موم شمع بن کر جلے گی اور اس پر پروانے آئیں گے اور یوں بیچارے ناحق مر جائیں گے۔