سوات ڈیل مبارک ہو

مغزل

محفلین
ساقی صاحب، شکریہ میں آئندہ پورا جملہ لکھوں گا آپ کا دیا ہوا نوالہ چبا رہا ہوں سو آئندہ تک ۔۔ تمہید ہی میں زندہ ہوں
 

آبی ٹوکول

محفلین
امریکہ سب کے خیال میں یہ سب تماشہ خاموشی سے دیکھ رہا ہے ۔ جبکہ ہر دوسرے روز الزہری اور طالبان کی طرف سے امریکہ پر کسی اور نئے حملے کی نوید دی جاتی ہے ۔ 911 کے بعد امریکہ میں‌ اب اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ کسی اور 911 کو جنم ہوتا دیکھتا رہے ۔۔ ۔ :idontknow:
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

مہوش علی

لائبریرین
:
اقتباس:
اصل پيغام ارسال کردہ از: ظفری پيغام ديکھيے

امریکہ سب کے خیال میں یہ سب تماشہ خاموشی سے دیکھ رہا ہے ۔ جبکہ ہر دوسرے روز الزہری اور طالبان کی طرف سے امریکہ پر کسی اور نئے حملے کی نوید دی جاتی ہے ۔ 911 کے بعد امریکہ میں‌ اب اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ کسی اور 911 کو جنم ہوتا دیکھتا رہے ۔۔ ۔
rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

مجھے یوں لگتا ہے کہ میری قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہ وہ ابھی تک اپنے تابناک ماضی کے قصوں میں رہ رہی ہے اور اسے آج کی حقیقتوں‌ کاانکار ہے بلکہ یہ 'ًمسلسل انکار'‌ کی حالت میں ہے-

ورلڈ ٹریڈ سنٹر تو دور کی بات ہے، ذرا سوچئے کہ اگر امریکہ میں اب بمبئی کی طرز پر کوئی حملہ ہوتا ہے یا پھر واہ فیکٹری یا پولیس اکیڈمی جیسے خؤد کش حملے ہوتے ہیں اور انکا منبع پاکستان کے علاقے پائے جاتے ہیں تو پھر اسکا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے؟

اب 'مسلسل انکار'‌کی عادی قوم اس چیز کا انکار نہ شروع کر دے کہ یہ مذہبی جنونی صرف فاٹا تک ہی محدود ہیں‌اور امریکہ نہیں پہنچ سکتے۔

پہلے انہوں نے ہمیں بھی یہ کہہ کر تسلی دی کہ یہ صرف افغآنستان تک محدود ہیں پھر یہ فاٹا میں پھیلے۔ پھر سوات آئے، اب پشاور، اسلام آباد و لاہور وغیرہ مسلسل ان کی زد میں ہیں، مگر قوم پھر بھی حآلت انکار میں‌ ہے۔

ان قوموں کو باہر سے نہیں توڑآ جا سکتا جو کہ اندر سے مضبوط ہیں۔ آپ کو امریکی ڈرونے کے حملے روکنے ہیں تو صڑف ایک کام کر لیں اور وہ یہ کہ سب سے پہلے اپنے ملک میں‌اپنے قانون کی عملداری نافذ کیجئے اور اندر سے مضبوط ہوں۔ اس کے بعد کوئی ہم پر باہر سے آ کر ڈرونے حملے نہیں کر سکتا۔
مگر جب تک دہشتگردی کے یہ اڈے پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں‌ اور ہماری اپنی ہی عملداری اپنی ہی سرزمین پر نہیں، اُس وقت تک ہم کمزور قوم ہیں اور باہر والےہم پر حملے کرتے رہیں گے۔

قوم اس حالت انکار سے باہر آئے۔ ہمارا اولین اور بنیادی مسئلہ ہماری اپنی صفوں میں دہشتگردوں کی موجودگی اور ریاست کی عملداری کا نہ ہونا ہے۔ جبکہ امریکی ڈرونز ثانوی مسئلہ ہے۔مگر ادھر شور اور ہاہا کار صرف امریکی ڈرونے کے ثانوی مسئلے پر مچی ہوتی ہے مگر اولین اور بنیادی مسئلے کہ جس کی وجہ سے ہزاروں معصوم خود کش حملوں میں جان گنوا چکے ہیں اس کے خلاف کوئی ریلی نہیں‌ نکلتی بلکہ منور حسن صاحب تو ان کی سائیڈ لیتے ہیں
 

آبی ٹوکول

محفلین
مجھے یوں لگتا ہے کہ میری قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہ وہ ابھی تک اپنے تابناک ماضی کے قصوں میں رہ رہی ہے اور اسے آج کی حقیقتوں‌ کاانکار ہے بلکہ یہ 'ًمسلسل انکار'‌ کی حالت میں ہے
-
اور میں یہ سوچتا ہوں کہ نہ جانے کب ہماری قوم کو ان روشن خیال تجزیہ نگاروں سے معافی ملے گی کہ جن کہ نزدیک قوم میں بصیرت ہی نہیں اور خود ان کا اپنا یہ عالم ہے کہ بڑے ب۔ڑے زمینی حقائق ان کی بصارتوں سے اوجھل ہیں وڑ گیا کھڈے میں امریکہ اور اسکے حواری اور طالبان وہ خود تو ایک نائن الیون کروا کر مزے کررہا ہے جب کہ میرے ملک میں آئے دن نائن الیون کبھی اسکہ ہاتھوں اور کبھی نام نہاد طالبان کہ ہاتھوں روز ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔
 

ساقی۔

محفلین
-
اور میں یہ سوچتا ہوں کہ نہ جانے کب ہماری قوم کو ان روشن خیال تجزیہ نگاروں سے معافی ملے گی کہ جن کہ نزدیک قوم میں بصیرت ہی نہیں اور خود ان کا اپنا یہ عالم ہے کہ بڑے ب۔ڑے زمینی حقائق ان کی بصارتوں سے اوجھل ہیں وڑ گیا کھڈے میں امریکہ اور اسکے حواری اور طالبان وہ خود تو ایک نائن الیون کروا کر مزے کررہا ہے جب کہ میرے ملک میں آئے دن نائن الیون کبھی اسکہ ہاتھوں اور کبھی نام نہاد طالبان کہ ہاتھوں روز ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔

میں آپ سے 200 فیصد متفق ہوں.


اس فقرے نے تو مزے کو چوبالا کر دیا.
 

مہوش علی

لائبریرین
بات یہ ہے جناب سب اپنے غرض کے بندے ہیں ، سیاست چمکا رہے ہیں۔ اہلیان سوات کے ساتھ کسی بھی سیاستدان کی کوئی ہمدردی نہیں۔ یہ الطاف، یہ قاضی، یہ نواز یہ مولانا ڈیزل اس وقت کہاں تھے جب سوات کی آدھی آبادی ہجرت کر چکی تھی۔ جو بچےتھے وہ طالبان اور فوجیوں کے رحم و کرم پھر تھے۔ مجھے تو وہ شام نہیں بھولتی کہ بھرے بازار میں ہماری گاڑی پر ایک فوجی نے گولی چلائی میں اور میرا بچہ اس گاڑی میں موجود تھے۔ یہ بھی پوچھنے کی اجازت نہ ملی کہ کرفیو نہیں ہے تو گولی کیوں چلائی گئی۔ اب جو سوات امن معاہدہ ہوا ہے ہم نے تھوڑی سی سکون کی سانس لی ہے تو ان سیاستدانوں کےکے پیٹ میں مروڑ اٹھا ہے۔ ان کو تو بس ایشو چاہئے کہ سیاست چلتی رہے ۔۔۔۔ پشتو کہاوت ہے "اخوند کے لئے تو دودھ چاہئے چاہے کتیا کا ہو یا گدھی کا۔
ویڈیو جعلی ہے یا نقلی اس سے مجھے غرض نہیں مگر اس کو منظر عام پر ایسے وقت لاگیا ہے جو کہ معنی خیز ہے
فرض کریں ویڈیو جعلی بھی ہو تو کیا یہ بات بھی جھوٹ ہے کہ آئے دن بازاروں میں خواتین پر درے اور بیلٹ برسائے جا رہے ہیں جو اپنے محرم کے ساتھ بازار میں گزرتے ہیں یا کسی دکان سے پردے میں شاپنگ کرتے ہیں۔ پرسوں کیوں ایک خاتون کو رکشے سے اتار کر ماراگیا۔ صرف اسی وجہ سے کہ وہ ماں کے ہاں جا رہی تھی۔۔۔۔

یہ پوسٹ‌پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
جیہ سسٹر، اپنا خٰیال رکھئیے گا اور اپنی خیریت کا اطلاع اگر ہو سکے تو ہمیں مسلسل دیتی رہئیے گا کیونکہ اب اگر آپ نے طویل عرصے کی بغیر بتائے غیر حاضری کی ہم لوگ تشویش میں‌لازما مبتلا ہوں گے۔
اللہ تعالی آپ کو آپکی تمام فیملی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ امین۔



۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس ميں کوئ شک نہيں کہ ان علاقوں ميں امن کا قيام حکومت پاکستان کی اہم ترجيحات ميں شامل ہے اور حاليہ حالات کے تناظر ميں يہ بالکل درست ہے ليکن کيا امن قائم کرنے کا يہی موثر طريقہ ہے کہ جو گروہ انتہا پسندی اور دہشت گردی جيسے سنگين جرائم ميں ملوث ہيں، امن کی ضمانت کے عوض پاکستان کے کچھ علاقے ان کی تحويل ميں دے ديے جائيں تا کہ وہ وہاں پر اپنی مرضی کا نظام قائم کر سکيں؟

جہاں تک ايک "جعلی" ويڈيو کے ذريعے طالبان کو بدنام کرنے کا سوال ہے تو اس کے ليے کسی سازش يا ماہرانہ تجزيے يا تبصرے کی ضرورت نہيں ہے۔ اس ويڈيو کے ضمن ميں آپ طالبان کے ترجمان مسلم خان کے جيو ٹی وی پر ديے گئے انٹرويو کو ديکھ ليں۔ ديگر بہت سی باتوں کے علاوہ انھوں نے يہ بھی کہا کہ ويڈيو ميں دکھائ جانے والی لڑکی خوش قسمت ہے کہ يہ واقعہ اس وقت پيش آيا جب وہ حالت جنگ ميں تھے، اگر يہ واقعہ اب پيش آتا (امن معاہدے کے بعد) تو اس لڑکی کو سنگسار کر ديا جاتا۔

http://www.friendskorner.com/forum/f170/reaction-video-taliban-floging-17-years-old-girl-104232/

يہ انٹرويو ان لوگوں کی آنکھيں بھی کھول دينے کے لیے کافی ہے جو اس کو جعلی قرار دينے کے ليے ايڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہيں۔ مسلم خان نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح کيا کہ لڑکی کو سزا دينے والے محرم تھے جس کا مطلب ہے کہ وہ نہ صرف اس واقعے سے واقف تھے بلکہ اس ويڈيو ميں موجود افراد کو بھی جانتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 
4 مئی کو میری پوسٹ سے ایک اقتباس:


اے این پی کی سرحد حکومت اور سرحد کی پولیس

سرحد پولیس کے آئی جی اور دیگر افسران کی بیانات میں تضاد ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ میں دیے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے انہیں تنبیہ بھی کی ہے کیونکہ بعض اس واقعہ کا سرے سے انکار کر رہے ہیں اور کچھ تین مہینے پرانا اور کچھ نو مہینے پرانا۔ اور وفاقی حکومت کا موقف ان سے الگ ہے۔
اے این پی کے رویے کے متعلق میری پچھلی تحریر سے اقتباس


اب صورتحال یہ ہے کہ
سرحد کی اے این پی کی حکومت اور اسکے پولیس افسران [کہ جن میں سے کوئی بھی بذات خود اس علاقے میں طالبان کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا] کے برخلاف ہیومن رائیٹس کی مس ثمر اور میڈیا کے نمائندے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ پیش آیا ہے۔

ڈان اخبار کی خبر



اور بی بی سی کی اردو خبر تو آپ پڑھ ہی چکے ہیں جہاں انہوں نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔ اس لیے اسے دوبارہ یہاں نہیں لگا رہی۔

’’’’

ابن حسن اور ساقی وغیرہ سارے الزام کا رخ لبرل فاسشٹ کے نام پر ہماری طرف کر رہے ہیں، جبکہ:

۱۔ یہ آپکی غیر لبرل فاسشٹ پاکستانی طالبان کا مسلم خان ہی تھا جس نے جھوٹ پر جھوٹ بولے ہیں۔
اسی نے کہا تھا کہ یہ عورت واقعی زنا کی مرتکب اور سنگسار کیے جانے کے قابل ہے۔
اسی نے کہا تھا کہ یہ اپنے سسر کے ساتھ تین سال سے رہ رہی ہے اور اس لیے اسے سزا دی گئی۔
اسی نے اعتراف کیا تھا کہ فضل اللہ کی غیر لبرل فاشسٹ تنظیم خواتین کے ساتھ ماضی میں ایسی سزائیں دینے کا ارتکاب کر چکی ہے۔

مگر آپ کا سارا زور لبرل فاشسٹ [جس کا مفہوم مجھے ابھی تک نہیں پتا] پر ہے اور یہ سب کچھ ہضم کر گئے۔
حالانکہ جب ایسے متضاد بیانات آتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ شکوک و شبہات میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔


۲۔ جب فرخ نے اس واقعہ کا لنک پوچھا تھا تو میں نے انہیں گارجین اخبار کا لنک دیا تھا۔ اس پر فرخ نے اعتراض کیا تھا کہ اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ امن معاہدے سے قبل پیش آیا ہو۔

اس پر میں نے فرخ کی تردید کی اور نہ تائید، بلکہ بذات خود میں مزید اطلاعات کی منتظر تھی۔

اور گارجین کے بعد مزید اطلاعات پاکستانی میڈیا سے جو آئیں وہ بھی اس واقعے کی تائید کر رہی تھیں کہ یہ امن معاہدے کے بعد ہوا ہے۔

ایسے میں اگر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوں تو کیا وہ واقعی لبرل فاشسٹ بن جاتے ہیں؟

اور اس بات کی اہمیت زیادہ نہیں کہ یہ واقعہ سوات ڈیل کے بعد پیش آیا یا بعد میں، مگر اس ویڈیو کو جھوٹا بیان کرنا صرف قیاسات ہیں جن کے بل بوتے پر اتنا اچھلنا ٹھیک نہیں۔

اور سوات ڈیل کے بعد کیا واقعی طالبان سدھر گئے ہیں؟ کیا واقعی انہوں نے اسکے بعد کوئی غیر قانونی کاروائی نہیں کی ہے؟َ
کیا ان قاضی عدالتوں نے طالبان کے زمرد کی کانوں پر غیر قانونی قبضوں پر ایکشن لیا ہے؟ بلکہ کیا قاضی عدالتوں نے کسی بھی معاملے میں طالبان کے خلاف ایکشن لیا ہے؟ اس لڑکی کا واقعہ ڈیل سے پہلے کا ہو یا بعد کا، مگر حقیقت بات یہ ہے کہ طالبان اپنی تمام تر دہشتگرد کاروائیوں کو یونہی جاری رکھیں گے اور کوئی قانون کوئی قاضی عدالت انہیں کٹہرے میں نہیں لا سکتی بلکہ اب وہ ایک طریقے سے قانونی طور پر قانون سے بالاتر ہو گئے ہیں۔

اس واقعے سے متعلق جو ایک سے زیادہ بیانات سامنے آرہے ہیں اس وجہ یہ نظر آتی ہے کہ اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ پہلے بھی پیش آچکا تھا جیسا کہ کمشنر مالاکنڈ کے بیان سے ظاہر ہے اور اس کی تفصیل کے لیے کمشنر کا بیان دوبارہ پڑھا جا سکتا ہے لیکن خاص یہ واقعہ جو چاند بی بی کا ہے جیسا کہ کہا جارہا ہے ، اپنے اندر کافی شکوک لیے ہوئے ہیہ جو ڈان کی نیوز شیئر کی گئی ہے جس میں ایک چشم دید گواہ کے مطابق یہ واقعہ دو ہفتے قبل پیش آیا تو یہ بات بھی کچھ تضاد بیانیوں کو جنم دے رہی ہے کیوں کہ اسی فورم پر کہا جا چکا ہے کہ اس قسم کا ایک ایس ایم ایس سوات میں فروری سے گردش کر رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ ثمر من اللہ کا وہ انٹرویو جو اردو پوائنٹ پر شائع ہوا اس میں جب اردو پوئنٹ کی ٹیم نے ثمر سے سوال کیا کہ اس ویڈیو کو چھ سے آٹھ ماہ بعد کیوں ریلیز کیا گیا اور آپ خود اقرار کر چکی ہیں کہ یہ سوات میں پہلے سے ریلیز ہوئی تھی؟ تو اس سوال کے جواب میں ثمر اس بات کو رد نہیں کرتیں کہ یہ واقعہ اتنا پرانا نہیں‌ہے بلکہ وہ یہ کہتی ہیں‌کہ جب وہ لوگ ہم تک پہنچے تو ہم نے انہیں‌تحفظ کی یقین دہانی کروائی ۔۔۔۔۔ کیا ثمر کا یہ بیان ڈان کے آئی قٹنس سے صریحا مختلف نہیں؟ ایسے میں اس چشم دید گواہ کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟

تاہم اب سرحد کی حکومت کا جو بیان چیف جسٹس کے سامنے آیا ہے وہ اس پورے واقعے کے نفی کرتے ہیں۔ مزید باتیں اگلی پیشی پر مزید صاف ہو جائیں گی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس ميں کوئ شک نہيں کہ ان علاقوں ميں امن کا قيام حکومت پاکستان کی اہم ترجيحات ميں شامل ہے اور حاليہ حالات کے تناظر ميں يہ بالکل درست ہے ليکن کيا امن قائم کرنے کا يہی موثر طريقہ ہے کہ جو گروہ انتہا پسندی اور دہشت گردی جيسے سنگين جرائم ميں ملوث ہيں، امن کی ضمانت کے عوض پاکستان کے کچھ علاقے ان کی تحويل ميں دے ديے جائيں تا کہ وہ وہاں پر اپنی مرضی کا نظام قائم کر سکيں؟

جہاں تک ايک "جعلی" ويڈيو کے ذريعے طالبان کو بدنام کرنے کا سوال ہے تو اس کے ليے کسی سازش يا ماہرانہ تجزيے يا تبصرے کی ضرورت نہيں ہے۔ اس ويڈيو کے ضمن ميں آپ طالبان کے ترجمان مسلم خان کے جيو ٹی وی پر ديے گئے انٹرويو کو ديکھ ليں۔ ديگر بہت سی باتوں کے علاوہ انھوں نے يہ بھی کہا کہ ويڈيو ميں دکھائ جانے والی لڑکی خوش قسمت ہے کہ يہ واقعہ اس وقت پيش آيا جب وہ حالت جنگ ميں تھے، اگر يہ واقعہ اب پيش آتا (امن معاہدے کے بعد) تو اس لڑکی کو سنگسار کر ديا جاتا۔

http://www.friendskorner.com/forum/f170/reaction-video-taliban-floging-17-years-old-girl-104232/

يہ انٹرويو ان لوگوں کی آنکھيں بھی کھول دينے کے لیے کافی ہے جو اس کو جعلی قرار دينے کے ليے ايڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہيں۔ مسلم خان نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح کيا کہ لڑکی کو سزا دينے والے محرم تھے جس کا مطلب ہے کہ وہ نہ صرف اس واقعے سے واقف تھے بلکہ اس ويڈيو ميں موجود افراد کو بھی جانتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov

افسوس کہ میری قوم حالت انکار میں ہے۔

میں‌نے اپنی قوم کو اُس وقت بھی حالت انکار میں دیکھا تھا جب واہ فیکٹری کے خود کش حملے کے بعد بذات خود ملا عمر پاکستانی میڈیا پر اعتراف جرم کر رہا تھا مگر قوم پھر بھی کسی ان دیکھی انجانی قوت کی طرف الزام تراشی کر رہی تھی۔

یہی حالت انکار بار بار بار بار اور ہر بار ہر ہر واقعے کے بعد سامنے آتی ہے۔

اور اس ویڈیو کے بعد بھی اوریا جان مقبول صاحب محترم نے جس طرح اس ویڈیو کا انکار کیا ہے وہ بہت قابل افسوس ہے۔

افسوس کہ ہمارا اردو میڈیا خصوصی طور پر رائیٹ ونگ کے زیر اثر ہے۔ اگرچہ کہ ویڈیو جعلی نہیں مگر جس قدر پروپیگنڈہ اردو میڈیا میں‌ہو چکا ہے اور جس طرح شکوک و شبہات کے بادل پھیلا دیے گئے ہیں اسکے بعد حق بات بالکل چھپ چکی ہے اور الٹا یہ چیز لبرل فاشسٹ نامی گروہ کے کھاتے میں ڈالا جا چکا ہے۔
 
اب اوریا جان مقبول اور انصار عباسی وغیرہ کے شبہات کے جواب میں نذیر ناجی کا کالم:



اوریا جان مقبول نے اعتراض کیا ہے کہ یہ کوڑے ڈرامہ تھے، اور لڑکی کو کوئی تکلیف ان سے نہیں پہنچی اور وہ صرف چیخنے کا ڈرامہ کر رہی تھی۔

ْابن حسن، اس ویڈیو کو پھر غور سے دیکھیں، اور جواب دیں:

۔ کیا اس میں کوڑا یا بید آپ کو جعلی نظر آ رہا ہے؟
۔ کیا اس میں مارنے والا آہستہ رفتار سے کوڑا مار رہا ہے؟
۔ اور بے چاری لڑکی کی بے حرمتی ایسے ہو رہی ہے کہ بید کھاتے ہوئے اسکے اوپر والے کپڑے تک اپنی جگہ سے ہل گئے ہیں اور اگر نیچے اس نے لکڑی یا لوہے کی کوئی ڈھال رکھی ہوتی تو وہ صاف محسوس ہو جاتی۔ مگر کیا واقعی آپ کو ایسی لکڑی یا لوہے کی ڈھال محسوس ہو رہی ہے؟
ْ۔ اور کیا بید لگنے سے واقعی ایسی آواز آ رہی ہے جیسے لکڑی یا لوہے پر لگنے سے آتی ہے؟

تو کس بنیاد پر پھر اوریا جان مقبول کہہ رہے ہیں کہ لڑکی کو کوئی تکلیف نہیں ہو رہی اور وہ بس ڈرامہ کر رہی ہے؟

ابن حسن تو جواب دیں یا نہ دیں، مگر آپ سب لوگوں کو پھر ایک بار دعوت ہے کہ آپ اس ویڈیو کو پھر سے دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ صرف لڑکی کے خوف کے مارے سزا کے بعد فورا اٹھ کر کھڑے ہو جانے کی بنیاد پر اوریا جان مقبول کا یہ الزام لگانا واقعی درست ہے کہ لڑکی کو کوڑے پڑنے کی کوئی تکلیف نہیں ہو رہی اور یہ سب ڈرامہ ہے؟

اسی طرح اوریا جان مقبول کا دوسرا اعتراض بھی لغو ہے کہ کسی کی تصویر نہیں دکھائی دی، جبکہ کوڑے مارنے والے اور تین پکڑنے والوں کی بالکل صاف اور واضح تصاویر موجود ہیں۔

بہتر تھا کہ آپ اس حوالے سے باتیں اوریا کے کالم کو مد نظر رکھ کر کرتیں ۔
نذیر ناجی کا کالم دوبارہ پڑھیئے وہ صرف ایک بات کا جواب دیتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ اتنے ڈنڈے کھانے کے بعد انسان اپنے پیروں پر چل کر جائے وہ کہتے ہیں کہ
مردمومن مرد حق‘ ضیاالحق‘ جب صحافیوں‘ وکیلوں‘ مزدور لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کو کوڑے لگا رہے تھے‘
اور ان میں سے
بیشتر لوگ اسٹریچر پر جاتے۔ مگر کئی ایسے ہوتے تھے‘ جو یہ کوڑے کھانے کے بعد بھی اپنے پیروں پر ہسپتال کی طرف چل دیتے
اب آپ بتائیے کہ مزدور لیڈر اور خصو صا سیاسی کارکنا ن بھی جب زیادہ تر اسٹریچر پر واپس جاتے ہوں تو پھر ایک سترہ سالہ لڑکی کا یوں اٹھ کا اس سزا کے بعد بھاگنا تعجب خیز نہیں ؟ بہر کیف یہ باتیں صرف قیاس آرائیاں ہیں اور اس میں ہونے اور نہ ہونے دونوں کا امکان ہے۔مگر اوریا صرف اس ہی حوالے سے بات نہیں کر رہے بلکہ کچھ اور بھی کہ رہے ہیں جن کا جواب ابھی حل طلب ہے۔
آپ جو سوالات اس حوالے سے اٹھا رہی ہیں تو اب میں بھلا اس حوالے سے کیا کہوں اس جدید تریں ٹیکنالوجی کے عہد میں ایسی مووی کلپ تو شاید کوئی اپنے پی سی پر بھی بیٹھ کر تیا کر سکتا ہو جس پر حقیقت کا گمان ہو۔
 
آپ کا یہ اعتراض لغو ہے۔
جنگ اخبار میں جو یہ تین واقعات بیان ہوئے ہیں اس پر ہیومن رائیٹ تنظیمیں کام کر رہی ہوتی ہیں، مگر جنگ اخبار ایسی چیزوں کی چھوٹی سے خبر ہی چھاپتا ہے۔

مگر اس میں اور سوات کے واقعے میں فرق ملحوظ خاطر رکھیں:

1۔ جنگ میں بیان کردہ یہ واقعات انفرادی ہیں اور پورا معاشرہ اسکی لپیٹ میں نہیں بلکہ معاشرے کا ہر طبقہ اسکی مذمت کرے گا۔

2۔ جبکہ جب طالبان اس لڑکی کو کوڑے مار رہی ہے تو اسکا بہت ہی بڑا پس منظر ہے اور آنے والے وقتوں میں بھی بہت زیادہ اثر ہے۔
یہ انفرادی واقعہ نہیں، بلکہ طالبان کی جاہل شریعت کی وہ پوری تصویر ہے جو کہ ہر ہر اُس علاقے میں نافذ ہو گی جہاں جہاں طالبان طاقت حاصل کرتے جائیں گے۔
اور اوپر والے واقعات کے برعکس، طالبان کے انتہا پسند مذہبی جنونی حمایتی ہر ہر جگہ موجود ہیں جو اس واقعے کی مذمت کرنے کی بجائے طالبان کی حمایت کر رہے ہوں گے۔

*************

عافیہ صدیقی کا واقعہ کیوں اچھلا اور جنگ اخبار کی ان تین خواتین کا کیوں نہیں؟

اب ثابت کیجئے کہ آپ دو رخے نہیں ہیں۔

ذرا بتائیے کہ عافیہ صدیقی سے پہلے سینکڑوں خواتین پر ظلم ہو اور انہیں قتل تک کر دیا گیا۔ مگر اس پر میڈیا پر اتنا شور نہیں اٹھا، مگر عافیہ صدیقی کے واقعہ پر اتنا شور اٹھا کہ جس کی مثال نہیں ہے۔ کیوں؟

کیا اس وقت بھی آپ نے یہ اعتراض کیا تھا کہ قوم و میڈیا عافیہ صدیقی کے واقعہ کو کیوں اتنا اٹھا رہی ہے اور ان دیگر سینکڑوں عورتوں کا واقعہ قوم و میڈیا نے اتنا کیوں نہیں اٹھایا؟ نہیں، اس وقت تو آپ کے منہ سے اس کے خلاف ایک لفظ نہیں نکلا بلکہ بذات خود اس شور مچانے والی صفوں میں کھڑے تھے، مگر جب طالبان کے ظلم کی بات آئی تو آپ کو قوم و میڈیا کے ظلم کے خلاف اس احتجاج اور شور پر اعتراض ہے۔

اور افسوس کہ انصار عباسی اور اوریا جان مقبول اور دیگر لوگ بھی یہاں اسی دوغلے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ ظلم ہے اور چاہے کسی کی طرف سے ہو اگر اس پر شور ہو رہا ہے تو دوسرے واقعات کی آڑ لے کر اس کو دبانا اس سے بڑا جرم ہے۔
جی جی میں بھی یہی سننا چاہ رہا تھا جو گل افشانی آپ فرما رہی ہیں وہ واقعات انفرادی ہیں اور ہوتے رہتے ہیں اور طالبان کا یہ مبینہ واقعہ انوکھا کیوں ہے کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کیا وہ عورتیں نہیں‌جن کی ناک کاٹ دی گئی یا یہ عورت نہیں جس کو کوڑے کی سزا دی گئی؟ ظاہر ہے دونوں واقعات میں عورتیں‌نشانہ بنی ہیں‌ہاں فرق یہ ہے کہ ایک واقعہ میں اچھالنے لیے میڈیا کے پاس کچھ نہیں جبکہ دوسرے واقعے میں طالبان کی صورت میں‌من پسند ہدف موجود ہے یہ یہی فرق میں بتانا چارہا ہوں جس ایک طرح سے اعتراف آُ پ کر رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اس وقت بھی آپ نے یہ اعتراض کیا تھا کہ قوم و میڈیا عافیہ صدیقی کے واقعہ کو کیوں اتنا اٹھا رہی ہے
بہترین کیا زبردست بات آپ نے کی ہے محترمہ بس اس وقت کی پوزیشن بدل لیجئے اس وقت یہ اعتراض آپ نے کیا تھا کہ کیوں عافیہ کا وقعہ اچھالا جا رہا ہے اور کیوں‌اس سلسلے میں جلد بازی کی جارہی ہے ؟ کہیے تو میں آپ کی اس پوسٹ کا ربط حاضر کر دوں ۔ تو اب یہی سوال آپ سے ہے کہ عافیہ کے سلسلے میں دھرج کی تلقین کرنے والی ہستی آج اس معاملے میں اتنی بے چین کیوں ہے؟؟حالانکہ کہ عافیہ کا معاملہ کہیں زیادہ باثبوت اور درد ناک تھا۔
جو بات اس سلسلے میں میں نے کہی تھی وہ سمجی نہیں گئی دیکھئے واقعات تو اس قبل کے ہوتے ہیں اور کچھ واقعات اچھالے بھی جاتے ہیں عموما ایسے واقعات جو اچھالے جاتے ہیں وہ یا تو زیادہ سنگین ہوتے ہیں جیسا عافیہ کا معاملہ یا جیسا کہ مختاراں مائی کا واقعہ یا جیسا کہ بلوچستان میں خواتیں‌کو زندہ درگور کر دینے کا واقعہ اور یا ان کے پیچھے خاص مقاصد ہوتے ہیں جیسا کہ یہ واقعہ اس دن یہ رپورٹ آئی کہ ایک عورت کی ناک کاٹ دی گئی یا زیادتی کا شانہ بنائی گئی عورت انصاف سے محروم تو ناک کاٹ دینا یا زیادتی کا نشانہ بنانا اگر کوڑوں کی سزا سئ زیادہ اہم نہیں تو کم اہم بھی نہیں ہیں مگر اس واقعے کا مقصد ہی کچھ اور ہے اور اسی لیے اس کا چھالا گیا۔ یہی میں کہنا چاہ رہا تھا۔
 
سوات کی ویڈیو نا جانے حقیقی ہے یا نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سوات کو امن کی سخت ضرورت ہے اور اس کا ضامن فی الحال سوات کا امن معاہدہ ہے جتنا عرصہ یہ معاہدہ قائم رہے اتنا ہی اچھا ہے۔ لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا سوات کا امن معاہدہ سب سے زیادہ امریکا کو ہی کھٹک رہا ہے امریکی وزیر دفاع نے مطالبہ کر دیا ہے کہ سوات امن معاہدہ ختم کیا جائے
1100597676-1.jpg
 
افسوس کہ اوپر بیان کردہ دھاگے کو بند کر دیا گیا۔ مگر اس بند تھریڈ کے باوجود میں قارئین کو دعوت دیتی ہوں کہ وہ اس کا ضرور سے مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ:

1۔ کہ دھاگہ سعودیہ میں 75 سالہ بوڑھی عورت پر زنا کاری کا الزام تھا جب کہ اسکے مرحوم شوہر کا بھانجا اسکے لیے روٹی لیکر آیا۔
اس سلسلے میں سعودی اتھارٹیز نے کوئی گواہی طلب نہیں کی [جس کا ذکر اوپر جناب عمر ابن الخطاب کے واقعے میں ہے]

2۔ اور یہ تھریڈ گواہ ہے کہ جن لوگوں کے ضمیر پاک صاف اور تعصب سے پاک ہیں، انہوں نے اس پر فورا سعودیہ کے نظام عدل پر تنقید کی اور اسے غیر اسلامی فیصلہ قرار دیا۔

3۔ مگر جن لوگوں کی رگوں میں تعصب کا زہر دوڑ رہا ہے، انہیں ایک مرتبہ بھی اس واقعہ کی مذمت کرنے کی توفیق نہ ہوئی، بلکہ انہوں نے فورا اسے فرقہ وارانہ رنگ دیا اور فورا آج سے سات آٹھ سال قبل ایران میں ہونے والے واقعات کو لا کر واقعات کی بجائے ایران اور اہل تشیع پر تنقید شروع کر دی۔

4۔ اور یہ تھریڈ گواہ ہے کہ میں نے کھل کر ایرانی نظام عدل میں موجود ان انتہا پسندوں کی مسلسل مذمت کی۔

5۔ مگر یہ سب کچھ ہو گیا، مگر یہ صاحب ابن حسن وہ ہیں جنہیں اس پورے تھریڈ کے شروع ہونے والے دن سے لیکر آج کے دن تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ سعودیہ میں ہونے والے اس واقعہ کی مذمت کر دیں۔


میں ایک طرف ان پاک ضمیر والوں کو دیکھتی ہوں جنہوں نے بنا کسی تفریق کے غلط کام کی مذمت کی، اور دوسری طرف تعصب سے زہر آلودہ ان لوگوں کو دیکھتی ہوں جن کے نزدیک دوسروں کے عیوب بیان کر دینا کافی ہیے کہ اپنے گریبان کی صفائی نہ کی جائے اور اسے ویسا کا ویسا ہی غلیظ چھوڑ دیا جائے۔

اور انہیں اعتراض ہے کہ میں خدا کا شکر ادار کر رہی ہوں کہ ان میں سے ایک ایرانی لڑکی نازین ان ایرانی انتہا پسندوں کے اس غلط فیصلے سے ایرانی معاشرے کے احتجاج کی وجہ سے بچ گئی۔
پتا نہیں یہ حضرت تعصب کے زہر کے کتنے انجیکشن کے روزآنہ کا نسخہ لیتے ہیں، ورنہ اس تھریڈ میں سعودیہ میں اس 75 سالہ بوڑھی عورت کا واقعہ پیش کرنے کے بعد اسی پہلے پوسٹ میں میں نے یہ لکھا تھا:



اگلی پوسٹ میں میں نے لکھا تھا:




اور اگلی پوسٹ میں میں نے لکھا تھا:



مزید پوسٹیں آپ اسی تھریڈ میں پڑھ سکتے ہیں اور فیصلہ کر سکتے ہیں کہ میں تو بار بار ان مظالم پر تنقید کر رہی ہوں چاہے یہ ایران سے ہوں یا میرے سگے بھائی سے، مگر ان حضرت کو اس پورے تھریڈ میں بے تحاشہ مراسلے بھیجنے سے لیکر آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ایک مرتبہ بھی سعودیہ میں پیش آنے والے اس واقعہ کی مذمت کر دیں۔ اور آج بھی اگر ان کا کوئی فعل ہے تو وہ یہ کہ میرے اللہ تعالی کے اس شکر کرنے پر اعتراض کریں کہ کسی حد تک ہی صحیح مگر ان انتہا پسند ایرانی ملاووں کے ہاتھوں ہونے والے عدالتی جرم سے ان لڑکیوں کو کچھ حد تک نجات ملی۔

کاش یہ حضرت بھی اسی طرح روشن ضمیر ہو سکتے جیسا کہ ان سے قبل کے کچھ برادران کہ جنہوں نے بنا کسی تعصب میں پڑے عصر حاضر میں سعودیہ میں ہونے والے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا اور اسے غیر اسلامی قرار دیا۔

والسلام

پی ایس: پہلی لڑکی نازنین تو رہا ہو گئی، اور دوسری لڑکی جو نہیں بچ سکی اسکی وجہ یہ تھی کہ اس نے کئی مردوں کے ساتھ اپنے سونے کے واقعات بیان کیے تھے اور پھر عدالت اور قانون اور ملک کے خلاف بیان بازی شروع کر دی تھی۔
اور یہ چوتھی مرتبہ تھا کہ وہ اس جرم میں ملوث پائی گئی تھی۔ مجھے نہیں پتا کہ اس کیس میں اسلام کے تقاضے کتنے پورے ہوئے اور اس کے ساتھ سونے والے مرد کو 95 کوڑے کی سزا کتنے فیصد اسلامی تھی، مگر اتنا ضرور سے پتا ہے کہ ایران میں ہونے والے ان تمام واقعات سے سعودیہ میں ہونے والے اس 75 سالہ بوڑھی عورت پر ہونے والے ظلم کا مداوا نہیں ہیں اور نہ اس سے یہ ظلم مٹ رہا ہے۔ مگر ایسی چیزوں کو دیکھنے کے لیے انسان کو روشن ضمیر ہونا پڑتا ہے بجائے تعضب کے زہر میں تیرنے کے۔

ایران کے معاملے میں آپ اپنی رائے واضح نہیں کر پارہی ہیں ایک طرف تو آپ کہتی ہیں
ایران ہو یا میرے میرے اپنے والد گرامی، اگر کوئی بھی اسلام کے نام پر اپنی انتہا پسندی کا شکار ہوتے ہوئے اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں تو انہیں دور کا سلام۔ نہ چاہیے مجھے انکا اسلام اور نہ انکا اسلامی معاشرہ۔
اور دوسری طرف ایران میں ہونے والے ہر ناروا واقعہ کی آپ تاویل بھی پیش کرتی ہیں تو کیسے کوئی آپ کے اس پاک ضمیر اور صاف طینت کی گواہی دے اور اس پر یقین کرے۔ میں سعودیہ میں ہونے والے اس سلوک کی مذمت کرتا ہوں لیکن آپ کا ایک بیان تعجب میں ڈالتا ہے ایک طرف آپ مجھ سے اس واقعہ کی مذمت کا مطالبہ کر رہی ہیں دوسری طرف اس 70 سالہ بوڑھے کو جسے کتا باہر ٹھلانے پر 4 ماہ قید اور 30 کوڑوں کی سزا سنائی جاتی ہے یہ نصحیت کرتی ہیں
دوسری طرف اگر ملک میں قانون بن گیا ہے کہ کتوں کو پبلک پلیس پر نہیں لے جایا جا سکتا تو پھر عوام کو اس قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔
اب اس پر کوئی کیا کہے؟؟؟؟؟
ایران میں جس لڑکی کو موت کی سزا سنائی گئی میں نے اس پر عرض کیا تھا کہ ٹھیک ہے اس کے ناجائز تعلقات ثابت تھے لیکن وہ ایرانی سپاہی جس نے اس کا ریپ کیا تھا اسے یہ سزا کیوں نہیں سنائی گئی اس پر آپ نے پہلے کوئی جواب نہیں دیا تھا اور اب آپ یہ فرما رہی ہیں
مجھے نہیں پتا کہ اس کیس میں اسلام کے تقاضے کتنے پورے ہوئے اور اس کے ساتھ سونے والے مرد کو 95 کوڑے کی سزا کتنے فیصد اسلامی تھی
یہ وہی مہوش علی کہ رہی ہیں جو عموما مختلف اسلامی مسائل کے معاملے میں اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لیے بے شمار دلائل اور کتب تفسیر، حدیث اور اور تاریخ کے حوالے نقل کرتی ہیں ؟؟؟؟؟؟؟ جہاں آُ پ کو اپنا کوئی عقیدہ منوانا ہوں وہاں تو ایسے عذر آپ پیش نہیں کرتیں اور یہاں اتنی لا پروہی کے مجھے نہیں معلوم کہ یہ سزا کتنے فیصد اسلامی ہے؟؟؟؟ محترمہ یہ ہے در حقیقت وہ دہرا معیار جس کا آُپ شکار ہیں۔اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے خصو صا ثنا خوان تقدیس مشرق کے لیے کہ ایران میں بھی عورت کو بر سر عام ایک کرین پر لٹکا کر پھانسی دی گئی ، غالبا ایسے ہی واقعات پرایک گروہ کو لعان طعان کی جاتی ہے۔ فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
 
اور افسوس کہ انصار عباسی اور اوریا جان مقبول اور دیگر لوگ بھی یہاں اسی دوغلے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ ظلم ہے اور چاہے کسی کی طرف سے ہو اگر اس پر شور ہو رہا ہے تو دوسرے واقعات کی آڑ لے کر اس کو دبانا اس سے بڑا جرم ہے۔
مہوش ایک بات میں آپ سے پوچھنا چاہ رہا تھا وہ تمام صحافی یا افراد جن سے آپ کے خیالات نہیں ملتے آپ انہیں فورا منافق، ایجنٹ، بکے ہوئے اور دوغلے وغٍیرہ کہنا کیون‌شروع کر دیتی ہیں؟؟؟ آپ کی ایسی فہرست روز بروز طویل ہوتی جارہی ہے، حامد میر، انصار عباسی، شاہد مسود، جاوید چوہدری، حمید گل اور اب اوریا مقبول جان جو ایک انتہائی سینئر پاک باز بیوروکریٹ اور تجربہ کار صحافی بھی ہیں وہ بھی آپ کی زد میں آگئے ہیں ۔حالانکہ پہلے آپ ان کو قابل احترام قرار دے چکی ہیں۔ ویسے میں نے اس خطرے کا اظہار چند دن قبل ایک اپنی پوسٹ میں کیا تھا کہ عنقریب اوریا مقبول جان بھی آپ کی لپیٹ میں آئیں گئے اور وہی ہوا۔ افسوس صد افسوس۔
 

arifkarim

معطل
ابن حسن، دراصل ہمیں‌بچپن سے ہی دوسروں کی رائے کو تسلیم نہ کرنا اور اختلافی رائے پر پھٹنا سکھایا جاتا ہے۔ اسلئے مہوش بہن سے اس طرح کا رویہ ایک فطری عمل ہے۔
 
Top