سوات ڈیل مبارک ہو

مہوش علی

لائبریرین
ْ۔ میں یہ جانتی ہوں کہ اس فورم تک وہی لوگ پہنچتے ہیں جو کہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔
ورنہ باہر پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک جاہل بیٹھا ہوا ہے اور ملینز کی تعداد میں بیٹھا ہوا ہے۔

۔ مگر سندھ جیل کے واقعے کے بعد میں اسی فورم کے کچھ پڑھے لکھوں کو دیکھتی ہوں جو کہ Mob Justice کی کھل کر بھرپور حمایت کر رہے ہوتے ہیں۔

۔ پھر اخبار پڑھتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ اس مجبور لڑکی کی ویڈیو کی حمایت کرنے کے اگلے دن این جی اوز کی تین خواتین کی لاشیں جنگل میں پائی جاتی ہیں۔

۔ جس وحشی اور بربریت والے مذہبی جنونیوں کے سامنے بے نظیر قتل ہونے سے نہیں بچ سکی وہاں اگر مس ثمر جان کے خوف سے روپوش ہے تو اس میں حیرانی کیسی۔
جاؤ اور جا کر پہلے اپنے ملک کا حلیہ درست کرو، اور پھر اسکی روپوشی پر سوال کرو [اگر مرد ہو تو]۔

مگر سالہا سال گذر گئے اور ان مذہبی جنونیوں کے خود کش حملہ آوروں اور ان کے حملوں سے مرنے والے ہزاروں معصوم جانوں کا تحفظ یہ سالہا سال گذرنے کے باوجود تو کر نہ سکے اور آج اس ایک عورت کی جان کی خوف سے روپوشی پر اچھل اچھل کر تالیاں بجا رہے ہو۔
 

فخرنوید

محفلین
سچا کام کیا ہے تو حکومت سے مدد مانگے اور دنیا کو بتلائے ۔ یہ کیا انگلی لگا کر خود چپ


اسی بات پر لطیفہ یاد آگیا ہے

ایک بندہ حلوائی کی دکان پر جاتا ہے۔ وہاں وہ مٹھائی کو ہاتھ لگا کر ہاتھ سامنے دیوار پر پونچھ دیتا ہے۔
دیوار پر میٹھا لگ جاتا ہے تو اس پر مکھی بیٹھ جاتی ہے۔ مکھی کو بیٹھے دیکھ کر چھپکلی اسے کھانے کو آجاتی ہے۔ چھپکلی دیکھ کر
بلی کا بھی جی للچا جاتا ہے۔اور بلی کی تاڑ میں موٹا تازہ کتا بھی ہوتا ہے۔ چھپکلی مکھی کھانے کے لئے لپکتی ہے۔ بلی چھپکلی پر جھپٹ پڑتی ہے۔
اور کتا بلی پر جھپٹ پڑتا ہے۔ اور سبھی حلوائی کی مٹھائی کی شرینی والے کڑاہے میں گر جاتے ہیں۔ حلوائی اس بندے کو پکڑ لیتا ہے۔؎

بندہ کہتا ہے بھائی جان میں نے تو بس انگلی لگائی ہے۔


باقی آپ خود سمجھدار ہیں
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہ سب کالم ایک ہی تھریڈ میں بھی پوسٹ ہو سکتے ہیں۔ ہر مرتبہ الگ تھریڈ‌ شروع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ْ۔ میں یہ جانتی ہوں کہ اس فورم تک وہی لوگ پہنچتے ہیں جو کہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔
ورنہ باہر پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک جاہل بیٹھا ہوا ہے اور ملینز کی تعداد میں بیٹھا ہوا ہے۔

۔ مگر سندھ جیل کے واقعے کے بعد میں اسی فورم کے کچھ پڑھے لکھوں کو دیکھتی ہوں جو کہ mob justice کی کھل کر بھرپور حمایت کر رہے ہوتے ہیں۔

۔ پھر اخبار پڑھتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ اس مجبور لڑکی کی ویڈیو کی حمایت کرنے کے اگلے دن این جی اوز کی تین خواتین کی لاشیں جنگل میں پائی جاتی ہیں۔

۔ جس وحشی اور بربریت والے مذہبی جنونیوں کے سامنے بے نظیر قتل ہونے سے نہیں بچ سکی وہاں اگر مس ثمر جان کے خوف سے روپوش ہے تو اس میں حیرانی کیسی۔
جاؤ اور جا کر پہلے اپنے ملک کا حلیہ درست کرو، اور پھر اسکی روپوشی پر سوال کرو [اگر مرد ہو تو]۔

مگر سالہا سال گذر گئے اور ان مذہبی جنونیوں کے خود کش حملہ آوروں اور ان کے حملوں سے مرنے والے ہزاروں معصوم جانوں کا تحفظ یہ سالہا سال گذرنے کے باوجود تو کر نہ سکے اور آج اس ایک عورت کی جان کی خوف سے روپوشی پر اچھل اچھل کر تالیاں بجا رہے ہو۔
یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ریپ کا شکار ہونے والی عورتوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور جن کے نزدیک وہ پنچایتیں زیادہ معتبر ہیں جو یہ فیصلے سناتی ہیں کہ اتنے آدمی اس عورت کو ریپ کریں۔ اور بعد میں یہی لوگ ہجوم میں کھڑے ہو کر اس عورت پر طعنے برستے ہیں۔ ان سے آپ کیا انسانیت کی توقع رکھتی ہیں؟
 

ساقی۔

محفلین
حقوق نسواں کے علمبرداروں کا اصل چہرہ
(Saleem Ullah Shiakh, Karachi)


حقوق نسواں کےعلمبرداروں نے سوات کے واقعے پر جس طرح فوری رد عمل کا اظہار کیا، اور جس طرح اس کی مذمت کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کے خلاف فوری طور پر مظاہروں اور منظم مذمت کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔ یہ بہت ہی مستحسن قدم تھا جو کہ اٹھایا گیا تھا ہم اس بات کے حامی ہیں کہ ظلم کہیں بھی ہو اس کی مذمت اور بیخ کنی ہونی چاہیے اس لیے ہمیں اس پر بڑی خوشی ہے کہ کوئی ظلم کے آگے ڈھال بن جاتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ اگرچہ یہ مبینہ واقعہ جس انداز میں پیش آیا وہ غلط ہے لیکن شریعت میں سر عام سزاؤں کا ہی ذکر ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایک خاتون کاذ کر ملتا ہے کہ جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں رجم کیا گیا تھا۔ وہ سر عام کیا گیا تھا نہ کہ کسی بند کمرے میں یا ڈھکی چھپی جگہ ۔اسی طرح اسلام میں قاتل کا سر قلم اور چور کے ہاتھ کاٹنے کی جو سزا ہے وہ سر عام دی جاتی ہے تاکہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہو، اور اگر کسی کے دماغ میں کوئی فتور یا فاسق اراد ہو تو وہ وہیں رک جاتا ہے۔ یہ ان سزاؤں کی حکمت ہوتی ہے اس لیے سر عام سزا کو غلط نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایک ضمنی بات تھی۔ ہم بات کر رہے تھے کہ سوات کے واقعے پر حقوق انسانی اور حقوق نسوان کے علمبرداروں نے تقدیس مشرق کے ثنا خوانوں نے بہت شور مچایا اور اس کی مذمت کی گئی۔ یہ مشکوک واقعہ پاکستان میں پیش آیا اور اس میں مبینہ طور پر طالبان اس میں ملوث ہیں۔اس لیے سب نےدل کی بھڑاس خوب نکالی ۔ لیکن یہ ثناء خوان تقدیس مشرق امریکی ڈرون حملوں اور امریکہ کی حراست میں موجود بے گناہ ،مظلوم ڈاکٹر عافیہ کے معمالے پر بالکل خاموش تھے۔ وہ ذہین خاتون جس کو اپنے ہی ملک سے اغواء کیا گیا، اور جو قریباً پانچ سال سے امریکہ اور افغانستان کی قید میں ہے جس کے تین میں سے ایک بیٹے کا پتہ ہے باقی دو بچوں کا کچھ اتا پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں گمان غالب ہے کہ ان کے بچوں کو عیسائی مشنری اداروں یا یہودیوں کے پاس بھیج دیا گیا ہے اور ان مسلمان بچوں کو یہودی یا عیسائی بنا دیا گیا ہے، البتہ اس مظلوم خاتون کے لیے ان روشن خیالوں کے بقول دقیانوسی خیالات رکھنے والے مذہبی انتہا پسندوں نے اور نو مسلم برطانوی خاتون صحافی مریم ریڈلے نے آواز اٹھائی تھی۔ یاد رہے یہ وہی نو مسلم خاتون ہیں جو چند دن افغانستان میں طالبان کی قید میں رہی تھیں اور ان وحشی درندوں اور تنگ نظر ملاؤں اور جدید تہذیب سے بے بہرہ جاہل طالبان کے حسن سلوک اور اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا۔اس سے یہ بات سامنے آئی کہ اول تو اب طالبان کے نام کو استعمال کر کے اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ان نام نہاد حقوق کے علمبرداروں کو صرف اسلام کو بدنام کرنے کا موقع ملنا چاہیئے۔

آیئے ذرا جائزہ لیتے ہیں ان کی حقوق انسانی سے محبت: انتیس جنوری دو ہزار آٹھ کو شمالی وزیرستان میں ایک میزائل حملے میں بارہ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، پورا ملک میں اس کی مذمت کی گئی البتہ یہ ثناء خوان تقدیس مشرق خاموش تھے۔

چودہ مئی دوہزار آٹھ کو ڈمہ ڈولا میں امریکی مزائل حملہ بچوں سمیت سات افراد ہلاک: حقوق انسانی کے چیمپینز کو اس واقعے کی خبر شاید نہیں پہنچی اس لیے ان کی طرف سے خاموشی چھائی رہی۔

گیارہ اگست دوہزار آٹھ باجوڑ میں گھر پر بمباری سات افراد ہلاک،مرنے والوں میں دو عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں: ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں تھے ؟

دو ستمبر دو ہزار آٹھ کو باجوڑ ایجنسی میں سیکورٹی فورسز کی گولہ باری سے نو افراد ہلاک،مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ثناء خوان تقدیس مشرق کو شائد اس واقعے کی اطلاع نہیں ہوئی

تین ستمبر دو ہزار آٹھ کوافغانستان کے قریب ایک پاکستانی سرحدی گاؤں انگور اڈاہ میں امریکی اور اتحادی افواج کے کمانڈوز ہیلی کاپٹر کے ذریعے باقاعدہ اتر کر ایک گھر میں داخل ہوئے اور فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں بیس افراد ہلاک ہوگئے۔ان میں تین خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔ ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں تھے؟؟

اس کے دو دن بعد ہی شمالی وزیرستان میں امریکی میزائل حملوں میں تین بچے اور دو خواتین ہلاک۔ثناء خوان تقدیس مشرق خاموش کیوں تھے؟؟

بارہ ستمبر دو ہزار آٹھ کو وزیرستان میں امریکی میزائل حملہ، بارہ ہلاک ہلاک شدگان میں تین بچے اور دو خواتین بھی شامل ہیں۔ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں تھے؟؟

تین اکتوبر دو ہزار آٹھ کو امریکی میزائل حملے میں پندرہ ہلاک، ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں:ثناء خوان تقدیس مشرق خاموش کیوں تھے ؟؟؟

اور اتفاق کی بات ہے کہ جس وقت یہ ثنا خوان تقدیس مشرق، یہ نام نہاد حقوق کے علمبرادر، یہ آزادی نسواں کے حامی، یہ عورتوں کے حقوق کے چیمپئین سوات کے واقعے پر شور مچا ہے تھے،ایک عورت کی بے حرمتی پر آنسو بہا بہا کر ذمہ داران کی پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عین اسی دن شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں ایک مکان تباہ ہوگیا،جس میں تیرہ اور بعض اطلاعات کے مطابق نو افراد جاں بحق ہوگئے، جن میں تین خواتین اور چار بچے بھی شامل تھے۔ یہ ثناء خوان مشرق اس وقت بھی ایک لفظ بھی اس واقعے کی مذمت میں نہ کہہ سکے کیوں؟؟ کیا اس لیے کہ یہ حملہ امریکہ نے، گوری چمڑی والوں نے کیا تھا اور مرنے والے پاکستانی تھے۔اور کیا یہ خواتین جو ہلاک ہوئیں ہیں کیا یہ اس ملک کی بیٹیاں، بہنیں نہیں تھیں کہ ان کے لیے بھی آواز اٹھائی جاتی۔

اور سنیے تیئس اگست دو ہزار آٹھ کو بلوچستان میں تین خواتین کو زندہ درگور کیا گیا،اس واقعے میں بلوچستان کے بڑے بڑے سردار ملوث تھے۔سوات کے ذمہ دارارن کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنے والوں نے اس واقعے کے ذمہ داران کے خلاف کیا ایکشن لیا؟ حالانکہ وہاں تو حکومت کی رٹ قائم ہے۔اور یہ تمام لوگ جو سوات واقعے کی مذمت کرنے میں پیش پیش ہیں یہ لوگ بھی تو حکومت کے اتحادی ہیں پھر اس واقعے کے ذمہ داران آزاد کیوں اور اس ممبر قومی اسمبلی کو ابھی تک نااہل کیوں نہیں قرار دیا گیا جس نے اس بہیمانہ واقعے کو اپنی قبائلی روایات کا حصہ قرار دیا تھا؟۔ ثناء خوان تقدیس مشرق نے اس حوالے سے کیا کام کیا ہے ؟؟؟کچھ نہیں

اور تو اور ابھی دو ہی دن پہلے سندھ میں ایک فرد نے شک کی بنیاد پر اپنی بیوی کی ناک کاٹ لی اس پر کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ کیوں؟؟؟

مندرجہ بالا تمام خبریں اور حقائق یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ ان دین بے زار لوگوں کو کسی قسم کے انسانی حقوق یا حقوق نسواں کی کوئی فکر نہیں ہے نہ ہی یہ لوگ پاکستان اور اسلام کے خیر خواہ ہیں۔بلکہ امریکی اور مغربی ممالک کی امداد پر پلنے والے ان لوگوں کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ یہ دین اور ملک دشمن عناصر کے ایجنڈے کے مطابق عمل کرتے ہیں اگر یہ ملک کے خیر خواہ ہوتے تو ان ڈرون حملوں پر بات کرتے، لال مسجد کے ظلم پر آواز آٹھاتے، زندہ درگور کی گئی بچیوں کے قتل پر آواز اٹھاتے، کتوں کے آگے ڈال کر، کتوں سے بھنبھوڑ کر اور سر عام ایک مظلوم بچی کا حمل گرانے کے بعد اس کو قتل کرنے والے سندھ کے وڈیرے اور ظالموں کے خلاف آواز آٹھاتے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا سب خاموش رہے۔

ہماری عوام سے یہی گزارش ہے کہ وہ ان سے ہوشیار رہیں اور ان کی باتوں میں نہ آئیں۔
 
سچا کام کیا ہے تو حکومت سے مدد مانگے اور دنیا کو بتلائے ۔ یہ کیا انگلی لگا کر خود چپ


اسی بات پر لطیفہ یاد آگیا ہے

ایک بندہ حلوائی کی دکان پر جاتا ہے۔ وہاں وہ مٹھائی کو ہاتھ لگا کر ہاتھ سامنے دیوار پر پونچھ دیتا ہے۔
دیوار پر میٹھا لگ جاتا ہے تو اس پر مکھی بیٹھ جاتی ہے۔ مکھی کو بیٹھے دیکھ کر چھپکلی اسے کھانے کو آجاتی ہے۔ چھپکلی دیکھ کر
بلی کا بھی جی للچا جاتا ہے۔اور بلی کی تاڑ میں موٹا تازہ کتا بھی ہوتا ہے۔ چھپکلی مکھی کھانے کے لئے لپکتی ہے۔ بلی چھپکلی پر جھپٹ پڑتی ہے۔
اور کتا بلی پر جھپٹ پڑتا ہے۔ اور سبھی حلوائی کی مٹھائی کی شرینی والے کڑاہے میں گر جاتے ہیں۔ حلوائی اس بندے کو پکڑ لیتا ہے۔؎

بندہ کہتا ہے بھائی جان میں نے تو بس انگلی لگائی ہے۔


باقی آپ خود سمجھدار ہیں

بہت زبردست لطیفہ ہے ۔ بھائی نیچے والا نہیں بلکہ سرخ روشنائی میں لکھا ہوا ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
سوات کی ویڈیو نا جانے حقیقی ہے یا نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سوات کو امن کی سخت ضرورت ہے اور اس کا ضامن فی الحال سوات کا امن معاہدہ ہے جتنا عرصہ یہ معاہدہ قائم رہے اتنا ہی اچھا ہے۔ لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا سوات کا امن معاہدہ سب سے زیادہ امریکا کو ہی کھٹک رہا ہے امریکی وزیر دفاع نے مطالبہ کر دیا ہے کہ سوات امن معاہدہ ختم کیا جائے
1100597676-1.jpg

امریکہ امریکہ امریکہ۔

امریکہ سے پہلے اپنی عوام کے خدشات تو پوچھ لو۔

امریکہ تو ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھا ہے، مگر یہ طالبانی فتنہ [جسے آپ لوگ خود افغانی طالبان کے مقابلے میں خود برا کہتے ہو] یہ تو ہمارے سروں پر آیا بیٹھا ہے۔

پہلے مذہبی جنونیوں کے یہ حمایتی کہتے تھے کہ یہ عذاب صرف افغان عوام کو آ رہا ہے اور پاکستانی عوام کو کوئی خطرہ نہیں۔

مگر پھر ہم نے یہ عذاب فاٹا میں آتا دیکھا۔

پھر فاٹا سے یہ سوات میں آیا۔

پھر یہاں سے آہستہ آہستہ پورے ملک میں یہ فتنہ پھیل رہا ہے۔


اور کل جو بونیز میں طالبان اور مقامی رضا کاروں میں مسلح خونی جنگ ہوئی ہے، اسکے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ امن معاہدے کے بعد طالبان دوبارہ تازہ دم ہو گئی ہے اور پھر سے منظم اور Reorganize ہو کر انہوں نے اب سوات کے آس پاس کے علاقوں کو فتح کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔

اور نظام عدل اور یہ سوات ڈیل دو مختلف چیزیں ہیں۔

۔ نظام عدل بے شک رائج ہو جائے، مگر جن شرائط پر سوات کی یہ ڈیل کی گئی ہے، وہ بہت خطرناک ہیں۔

۔ ان شرائط کے تحت تمام پابندیاں فقط پاک فوج کے لیے ہیں اور فضل اللہ کی طالبان ہر قید سے آزاد ہے۔

۔ اے این پی عجیب جماعت ہے کہ جو پھر بھی دعوی کرتی ہے کہ اس سوات ڈیل کے بعد پوری سوات وادی میں حکومت کی رٹ بحال ہو گئی ہے۔

۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جو جیہ سسٹر نے بتلائی تھی کہ ڈیل سے قبل تو طالبان 75 فیصد علاقوں پر قبضہ کیے ہوئے تھے، مگر ڈیل کے بعد اب سو فیصدی علاقے پر انکا قبضہ ہو گیا ہے اور اب عوام سو فیصدی انکے رحم و کرم پر ہیں۔

۔ اور اے این پی کے دعوے کے متضاد کہ حکومت کی رٹ سوات ڈیل کے بعد پورے علاقے میں بحال ہو گئی ہے، ہم تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ طالبانی فتنہ اس ڈیل سے اتنا مضبوط ہوا ہے کہ تازہ دم ہو کر اور پھر سے منظم ہو کر اب آس پاس کے علاقوں کو اپنے فتنے کی لپیٹ میں لینے کے چکر میں ہے۔

نجانے میڈیا میں موجود یہ مذہبی جنونیوں کے حامی ٹی وی اینکرز اور کالم نویس کب تک قوم کو یونہی کنفیوژن میں مبتلا کر کے دھوکہ دیتے رہیں گے اور کب ہمارے میڈیا میں میں وہ رجل پیدا ہوں گے جو ان تمام دھوکہ بازیوں کی پول کھول کر قوم کو صحیح راستے کی نشاندہی کریں گے۔


۔ اور حالت یہ ہے کہ طالبان کے حامی جو کہتے تھے کہ طالبان اگر افغان عوام پر ظلم کر رہے ہیں تو ہم پاکستانیوں کو شور مچانے کی کیا ضرورت، اور جب پاڑہ چنار میں ظلم پر شور ہوتا تھا تو پھر چیخ چیخ کر پاکستان سے غداری کے فتوے لگاتے تھے، آج جب طالبان ان کے علاقوں پر قبضہ کرنے والی ہے تو یہی لوگ پاک فوج سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ طالبان کو نکیل ڈالیں کیونکہ بونیز کے بعد اگلا انہی کے گھر والا علاقہ طالبان کی زد میں ہے۔
ابن حسن اور دیگر طالبان کی حمایتی پڑھیں یہ تھریڈ۔ اس میں ان کے لیے عبرت کا بہت سامان ہے۔
 
اطہر من اللہ ہو ثمر من اللہ۔ ان سیکولر لوگوں کو اگر موقع ملے گاتو یہ ہر اس ادمی کو پکڑ کر کھمبے سے لٹکادیں گے جس کی داڑھی ہوگی۔ یہ عمل ایران اور وسط ایشیا کی ریاستوں میں‌ہوچکا ہے۔ مگر ایرانی ملا زیادہ ہشیار تھے انھوں‌نے سیکولر لوگوں کو پہلے لٹکادیا۔
یہی عمل اسپین میں‌ہوچکا ہے ادھر سیکولرز عیسائیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے۔ پاکستان میں‌اس عمل کا دھرانا کوئی نئی بات نہیں۔ مجھے تو ایران کی کہانی یہاں‌دھرائی جاتی لگ رہی ہے ۔ یہاں بھی ملا زیادہ چالاک دکھ رہا ہے۔

اطہر من اللہ اور چوہدری افتخار کی بحالی اور کالے کوٹ والے وکلا کی تحریک یہ سب ایک کڑی سے جڑے ہیں‌جو ثمر من اللہ کے اقاوں کی جڑی ہے۔ یہ سیکولر طبقہ کی بالادستی کی تحریک تھی جو کالے کوٹ والے وکلا چلارہے تھے۔

ابھی تو مزید مٹکے سے برامد ہوگا مگر سب سے بد مزہ اور برا وہ برامد ہے جو الطاف کے منہ سے ہوتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
ساقی صاحب انہیں صرف اپنے مطلب کی بات آتی ہے ۔
این جی اوز کا کردار یہ ہے کہ زلزلہ زدگان کو بے پردہ کریں
کیٹ واک کروائیں، برہنہ کر کے رسائل اور ہورنگز کی زینت بنائیں۔
اور بس ۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
اچھا بھائی ۔۔۔۔ میں کہتا ہوں صحیح کوڑے مارے ہیں اور صحیح کیا ہے ایک عورت کی ناک کاٹ کر تو ۔۔
امریکہ اور اس کے کاسہ لیسو ں کے پیٹ میں کی درد ہے ۔؟؟
 
یہی بات تو شاید فواد صاحب کو میں بھی کہ چکا ہوں ۔ حضرت ہم آپس میں جتنا بھی لڑیں جھگڑیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں مگر آپ عنایت کر کے ایسے موضوعات سے اپنی رائے محفوظ ہی رکھیں تو بہتر ہے ۔ کیونکہ آپ کی رائے اور امریکی اعمال کاؤنٹر پراڈکٹیو ہوتے ہیں
 

ساجد

محفلین
اطہر من اللہ ہو ثمر من اللہ۔ ان سیکولر لوگوں کو اگر موقع ملے گاتو یہ ہر اس ادمی کو پکڑ کر کھمبے سے لٹکادیں گے جس کی داڑھی ہوگی۔ یہ عمل ایران اور وسط ایشیا کی ریاستوں میں‌ہوچکا ہے۔ مگر ایرانی ملا زیادہ ہشیار تھے انھوں‌نے سیکولر لوگوں کو پہلے لٹکادیا۔
یہی عمل اسپین میں‌ہوچکا ہے ادھر سیکولرز عیسائیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے۔ پاکستان میں‌اس عمل کا دھرانا کوئی نئی بات نہیں۔ مجھے تو ایران کی کہانی یہاں‌دھرائی جاتی لگ رہی ہے ۔ یہاں بھی ملا زیادہ چالاک دکھ رہا ہے۔

اطہر من اللہ اور چوہدری افتخار کی بحالی اور کالے کوٹ والے وکلا کی تحریک یہ سب ایک کڑی سے جڑے ہیں‌جو ثمر من اللہ کے اقاوں کی جڑی ہے۔ یہ سیکولر طبقہ کی بالادستی کی تحریک تھی جو کالے کوٹ والے وکلا چلارہے تھے۔

ابھی تو مزید مٹکے سے برامد ہوگا مگر سب سے بد مزہ اور برا وہ برامد ہے جو الطاف کے منہ سے ہوتا ہے۔
اگرچہ کچھ باتوں میں میرا نقطہ نظر مختلف ہے لیکن ایک بات ہے جو بہت سارے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ انتہا پسندی صرف مذہبی ہی نہیں ہوتی۔ سیکولر و جمہوری انتہا پسند بھی ہوتے ہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میں نے آج صبح ہی یہ نیوز سنی ۔ ۔ ۔ چلو حقوق نسواں کہ نام پر این جی اووز کو جو مروڑ اٹھا تھا وہ تو نتیجہ خیز ثابت ہوا
 

جیہ

لائبریرین
بی بی سی اور جنگ کے خبروں میں صرف یہ ہے کہ مولوی صاحب دستبردار ہو کر سوات سے چلے گئے ہیں مگر یہاں سوات میں جو خبریں گرم ہیں ان کے مطابق عملا معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔ اور طالبان خوشی منا رہے ہیں
 
Top