سوات ڈیل مبارک ہو

عسکری

معطل
اس طرح تو نمرود ہامان قارون شداد کو قیامت کے دن سزا نہیں ہونی چاہیے یار ان کو تو ایک سال کیا 2000 سال ہو گئے گناہ کیے ہوئے۔یزید بھی معاف خون رسول بہا کر کیونکہ اس بات کو 1370 سال ہو گئے ۔واق بھئی واہ اگر قیامت 1000 سال بعد ہے تو میں بھی معاف کیونکہ 1 سال بعد خود بخود جرم جرم نہیں رہتا۔
 

قمراحمد

محفلین
لڑکے کو لڑکی کے گھر جاتے دیکھا گیا تھا

عبدالحئی کاکڑ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور

صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں طالبان نے مبینہ طور پر جس لڑکی کو سرعام کوڑوں کی سزا دی تھی اس کی شناخت ہوگئی ہے اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ واقعہ امن معاہدے کے بعد پیش آیا ہے جبکہ طالبان نے سزا دینے کے بعد لڑکے اور لڑکی کا زبردستی نکاح بھی پڑھاوا دیا ہے۔

موبائل فون پر بنائی گئی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بی بی سی نے واقعہ کے بارے میں تحقیات کرکے اس کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کی ہیں۔ اس سلسلے میں تین عینی شاہدوں اور لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پرناجائز تعلقات قائم کرنے کے الزام کے تحت طالبان کی سزا بگھتنے والے لڑکے کے دو قریبی رشتہ داروں سے بات کی گئی ہے تاہم انہوں نے پشتون روایات اور بدنامی کے پیش نظر اپنے، لڑکی، لڑکے اور ان کے خاندان والوں کے نام افشاں نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

عینی شاہدین اور لڑکے کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ صوبائی حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد یعنی آج سے تقریباً بیس دن قبل تحصیل کبل کے کالا کلی گاؤں میں پیش آیا ہے۔ لڑکے کے رشتہ دار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا کزن ایک دن بھاگتے ہوئے حواس باختہ حالت میں اپنے دوسرے رشتہ دار کے گھر میں داخل ہوا اور گھر والوں کو کہنے لگا کہ طالبان اس کا پیچھا کررہے ہیں۔ ان کے مطابق طالبان لڑکے کو پکڑ کر زبردستی اپنے ساتھ قریب ایک بنگلے میں لے گئے۔

ان کے بقول یہ بنگلہ ایک مقامی خان کا ہے جنکا نام عنایت اللہ خان ہے اور طالبان کی خوف سے علاقے چھوڑنے کے بعد طالبان نے ان کے مکان پر قبضہ کرلیا ہے جہاں اب بھی وہ بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ان کے بقول اس کے بعد طالبان لڑکی کو گھر سے نکال کر لے آئے اور اس پر الزام لگایا کہ دونوں نے مبینہ طر پر جنسی تعلق قائم کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دراصل واقعہ یہ تھا کہ لڑکی کا گھر لڑکے کے پڑوس میں واقع ہے اور لڑکا پیشے کے لحاظ سے الیکٹریشن ہے۔ ان کے مطابق لڑکی کے خاندان والوں نے اس سے گھر کی بجلی ٹھیک کر انے کے لیے بلایا تھا کہ اس دوران راستے سےگزرنے والے ایک طالب نے اس سے گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر طالبان کو مطلع کر دیا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ طالبان نے لڑکے اور لڑکی کو کالا کلی کے شاہ ڈھیرئی روڈ پر لا کر پہلے لڑکے اور پھر لڑکی کو کوڑے مارے۔

لڑکے کے رشتہ دار نے مزید بتایا کہ سزا دینے کے بعد طالبان نے دونوں کا زبردستی نکاح پڑھوایا دیا اورلڑکے کومتنبہ کیا کہ وہ لڑکی کو طلاق نہ دیں۔ لڑکے کے ایک اور رشتہ دارنے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعہ اور زبردستی شادی کے بعد لڑکا ایک قسم کا ذہنی مریض بن چکا ہے اور واقعہ کے پیش آنے کے بعد سے وہ پریشانی اور شرم کے مارے گھر سے نہیں نکلا ہے۔

ان کے مطابق انہوں نے لڑکے سے ملاقات کی ہے اور وہ اکثر خاموش رہتا ہے اور ان سے نشہ آور ادویات کا تقاضہ کرتا رہتا ہے مگر اس نے ہمیشہ گولیاں مہیا کرنے سے انکار کیا ہے۔

لڑکی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اسکی عمر تقریباً سولہ سال ہے اور اسکے والد فوت ہوگئے ہیں اور اسکے دو بھائی ہیں جن میں سے ایک سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتا ہے۔

جبکہ لڑکے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے جہانزیب کالج مینگورہ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا ہے جسکے بعد اس نے سوات میں قائم پولی ٹیکنک کالج سے الیٹرانکس میں ڈپلومہ کیا اور آجکل الیٹریشن کے پیشے سے منسلک ہے۔

یاد رہے کہ طالبان کی جانب سے ایک لڑکی کو سرعام سزا دینے کی ویڈیو بدھ کو منظر عام پر آئی تھی جس میں طالبان سرخ کپڑوں میں ملبوس ایک جواں سال لڑکی کو الٹا لٹا کر کوڑے مار رہے ہیں۔

طالبان ترجمان مسلم خان نے اس خاص واقعہ کے پیش آنے سے انکار کیا ہے البتہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا کہ ماضی میں طالبان سربراہ مولانا فضل اللہ نے خواتین کو سرعام نہیں بلکہ کمرے کے اندر سزائیں دی ہیں۔

صوبائی حکومت کا بھی دعوی ہے کہ امن معاہدے کے بعد اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
ابھی ابھی جیوپر طالبان کے نمائندے ًمسلم خان سے اسی موضوع پر بات کی گئی اور انہوں‌نے بتایا کہ یہ وڈیو دراصل طالبان کے جنگ کے زمانے کی ہے اور تقریباً ایک سال پرانی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سزا تو بہرحال ملنا ہی تھی، مگر یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔
اور یہ بھی کہ جن مردوں نے اس لڑکی کو پکڑ رکھا تھا، وہ اسکے اپنے گھر کے محرم لوگ تھے۔
انکا کہنا تھا کہ گو کہ طریقہء کار غلط تھا، مگر یہ اسوقت کے طالبان نے تحقیق کر کے سزا دی۔ اگر یہی کام موجودہ وقت کے قاضی عدالتوں کے ذریعے ہوا ہوتا تو شائید اس لڑکی کو سنسار کر دیا جاتا۔
اسکے ساتھ ساتھ انہوں‌نے یہ بھی بتایا کہ یہ لڑکی اپنے سسر کے ساتھ باہر پھرتی رہی جو کہ اسکے لئے نامحرم ہے۔ اور اس کے سُسسر کو بھی سزا دی گئی جس کی وڈیو نہیں‌دکھائی گئ اور چھُپا لی گئی۔
یہ یاد رہے کہ یہ وڈیو موبائیل کیمرہ کے ذریعے بنائی گئی ہے اور خود طالبان نے نہیں‌بنائی۔

اب امن معاہدے اور قاضی عدالتوں کے قیام کے بعد، طالبان ان عدالتوں کے فیصلوں‌کے پابند ہیں اور خود سے ایسی حرکت نہیں‌کرتے۔
مسلم خان نے یہ بھی کہا ہے یہ سزا مجرموں کہ اعتراف کہ بعد دی گئی ہے تو میرا سوال یہ جب کہ مجرم نے اعتراف کرلیا اپنے جرم کا تو پھر مسلم خان اور اسکے خواری کون ہوتے ہیں حدوداللہ میں کمی بیشی کرنے والے ۔ جب کہ حقیقت میں تو وہ کسی بھی شرعی حدود کو نافذ کرنے کہ مجاز ہی نہیں مگر چلو مان لیا کہ وہ خود کو مجاز سمجھتے ہیں مگر یہ کیا جب مجرم اقرار جرم کرلے اور اس کا جرم حد کہ ضمرے میں آتا ہو مگر ہم اپنی نام نہاد شریعت کہ بل بوتے پر اس کو چالیس کوڑوں کی سزا سنائیں یہ کونسا اسلام اور کہاں کی شریعت ہے جبکہ حدود اللہ میں کوئی بھی کمی بیشی نہیں کرسکتا ۔ ۔ ۔
 

زین

لائبریرین
بی بی سی کی خبر اور طالبان کے موقف میں تو بہت فرق ہے ۔
طالبان سسر کا کہہ رہے ہیں جبکہ بی بی سی کے کاکڑ صاحب اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لڑکے کا کہہ رہے ہیں ۔
 

ساجد

محفلین
اس طرح تو نمرود ہامان قارون شداد کو قیامت کے دن سزا نہیں ہونی چاہیے یار ان کو تو ایک سال کیا 2000 سال ہو گئے گناہ کیے ہوئے۔یزید بھی معاف خون رسول بہا کر کیونکہ اس بات کو 1370 سال ہو گئے ۔واق بھئی واہ اگر قیامت 1000 سال بعد ہے تو میں بھی معاف کیونکہ 1 سال بعد خود بخود جرم جرم نہیں رہتا۔
کیا پتہ یہ لوگ دین میں بھی این آر او لے آئے ہوں۔
خدا غارت کرے ان جاہلوں کو۔
 

قمراحمد

محفلین
سپریم کورٹ نے سوات کے واقعہ کا نوٹس لے لیا
روزنامہ جنگ

اسلام آباد…چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جیو ٹی وی پر ایک لڑکی کو کوڑے مارے جانے کی فوٹیج پر عوامی مفاد میں نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹیری داخلہ کو متاثرہ لڑکی کو6 اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے17 سالہ لڑکی کو کوڑے مارے جانے سے متعلق جیو ٹی وی پر چلنے والی ویڈیو فلم کا سخت نوٹس لیتے ہوئے آٹھ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے جو اس معاملہ کی6 اپریل کو سماعت کرے گا۔ لارجر بینچ کی سربراہی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کریں گے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو فلم میں صحیح جگہ کا تعین، واقعہ کا مقام، اور حالات جس کے تحت سزا دی گئی معلوم نہیں ہے تاہم یہ قانون اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آئین کے آرٹیکل184 تین کے تحت6 اپریل کومعاملہ لارجر بنچ کے سامنے پش کرنے کا حکم دیا ہے ۔

اس حوالے سے سیکرٹیری داخلہ، حکومت پاکستان، چیف سیکرٹیری سرحد اور آئی جی سرحد کو ذاتی طور پر6 اپریل کو پیش ہونے کے لئے نوٹسز جاری کردیئے گئے ہیں ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سیکرٹیری داخلہ کو متاثرہ لڑکی کو بھی6 اپریل کو پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ سپریم کورٹ کے پریس ریلیز کے مطابق عدالت کی معاونت کے لئے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سرحد، صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سرحد کو بھی نوٹس کردیئے گئے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے علاوہ جسٹس جاوید اقبال، جسٹس سردار محمد رضا خان، جسٹس خلیل الرحمان رمدے، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس میاں شاکر اللہ جان، جسٹس راجا فیاض احمد اور جسٹس چوہدری اعجاز احمد شامل ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جیو ٹی وی کو اس حوالے سے واقعہ کی سی ڈی فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے
 

عسکری

معطل
یہ شاید یو ٹیوب کی ٹارچر نا دکھانے کی پالیسی کی وجہ سے ہو۔پر یہ بچوں کمزور دل والون اور عورتوں کو دکھانے سے گریز اچھا ہے۔ویسے بھی یہ ہمارا گند ہے اسے اور مت پھیلائیں تو ہی اچھا ہے۔
 
آپ یقین کریں یا نہ کریں مگر ظالمان کے زیر کنٹرول مساجد میں سے ہرہنہ تصاویر ملی تھیں اور ایک دوسری جگہ ایک عورت برآمد ہوئی جس کو مردان سے اغوا کیا گیا تھا اور اس بچاری کے ساتھ جو حالت کرتے تھے وہ اللہ جانتا ہے میرے پاس وہ الفاظ نہیں جو اس عورت نے ایک جرگے کے سامنے بیان کیے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے اوپر یہ پڑھا ہے کہ سسر کو محرم مانا جا رہا ہے۔

شریعت کی رُو سے سسر، دیور، جیٹھ یہ سب نامحرم ہوتے ہیں۔

عورت کے محرم میں صرف اور صرف باپ، بھائی، دودھ شریک بھائی، شوہر اور بیٹا ہی ہیں۔
اگر کسی لڑکے نے کسی لڑکی کی ماں کا دودھ پیا ہے تو وہ محرم ہے لیکن اس لڑکے کے دوسرے بھائی نامحرم ہوں گے۔
اگر کسی لڑکی نے کسی لڑکے کی ماں کا دودھ پیا تو اس عورت کے تمام بیٹے محرم ہیں۔
 

طالوت

محفلین
مجھے ان تبصروں سے لشکر جھنگوی /طالبان کی طرف سے اہل تشیع کو دئیے گئے دھمکی آمیز خط والا دھاگہ یاد آ گیا ۔۔۔

توبہ ہے نفرت میں اس قدر بھی اندھا نہ ہونا چاہیے ، کسی نے کچھ بھی کہیں سے بھی اٹھا کر لگا دیا اور ہم ہو گئے شروع ۔۔۔۔
اگرچہ اس ویڈیو کے بخیے ادھیڑے جا سکتے ہیں مگر طالبان کے حمایتی ہونے کا الزام لگا دیں گے ۔۔

وسلام
 

فرخ

محفلین
مجھے دراصل لوگوں کے اسطرح مشتعل ہو کے جوابات دینے کا اندیشہ تھا۔ بہرحال میں‌یہاں‌صرف اس خبر سے متعلق حالات اور واقعات پر تبصرہ جات اور تحقیق کی نیت سے آیا تھا، مگر لوگوں‌نے میری باتوں کو کسی اور رنگ میں لیا۔

میں‌نے یہاں‌جو باتیں‌لکھی، وہ جیو کے ذریعے حاصل ہوئیں۔ اب بی بی سی نے بھی ایک دم ہی تحقیقات کر ڈالیں اور ایک نئی کہانی سامنے آئی

کچھ لوگ ایسی کہانیاں بھی گھڑ لائے جنکا کوئی وسیلہ بھی موجود نہیں‌ہو گا انکے پاس۔ ملا ازم اور قبائیلوں‌کے خلاف بھڑاس نکالنے والے بھی شروع ہو گئے۔

حالانکہ بات اس خبر کے حقائق سے متعلق تھی، کیونکہ اچانک جیو اور دوسرے چینلز نے اسے بار بار دکھانا شروع کر دیا تھا اور ظاہر ہے لوگوں‌میں‌تشویش دوْڑ گئی۔

بہرحال، ایسے معاملات پر بحث تو بہت لمبی کی جاسکتی ہے، مگر اسکا کوئی نتیجہ برآمد نہیں‌ہوگا۔
 

فرخ

محفلین
مسلم خان نے یہ بھی کہا ہے یہ سزا مجرموں کہ اعتراف کہ بعد دی گئی ہے تو میرا سوال یہ جب کہ مجرم نے اعتراف کرلیا اپنے جرم کا تو پھر مسلم خان اور اسکے خواری کون ہوتے ہیں حدوداللہ میں کمی بیشی کرنے والے ۔ جب کہ حقیقت میں تو وہ کسی بھی شرعی حدود کو نافذ کرنے کہ مجاز ہی نہیں مگر چلو مان لیا کہ وہ خود کو مجاز سمجھتے ہیں مگر یہ کیا جب مجرم اقرار جرم کرلے اور اس کا جرم حد کہ ضمرے میں آتا ہو مگر ہم اپنی نام نہاد شریعت کہ بل بوتے پر اس کو چالیس کوڑوں کی سزا سنائیں یہ کونسا اسلام اور کہاں کی شریعت ہے جبکہ حدود اللہ میں کوئی بھی کمی بیشی نہیں کرسکتا ۔ ۔ ۔
السلام و علیکم
بہت مدت بعد آپ سے بات ہو رہی ہے محترم، کدھر ہوتے ہو؟

بھائی جی، کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر مجرم، اقرار جرم کر لے تو اسکی سزا معاف ہو جاتی ہے؟ یا یہ کہنا چاہ رہے ہیں‌کہ انکو اصل سزا کیوںنہیں ‌دی گئی؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرا خیال ہے، حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا رہا۔ بات تو یہ ہو رہی ہے،کہ اس معاملے کی سچائی کیا ہے اور اصل کہانی کیا ہے

ہاں شوق سے کرومعاملے کی چھان بین۔ لیکن ایسے معاملات کو درست طور پر سمجھنے کے لیے کافی مشاہدے اور تاریخ کے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے جو سطحی ذہن کے لوگوں میں نہیں پایا جاتا۔ جولوگ طالبان کے دفاع کی کوشش میں دہرے ہو رہے ہیں انہیں افٍغانستان کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈال لینی چاہیے۔ کیا انہوں نے افغان عوام کے ساتھ یہی ظلم روا نہیں رکھا تھا؟ جس طرح پیر سمیع اللہ کی لاش کو لٹکایا گیا تھا کیا اسی طرح نجیب اللہ کی لاش کئی دن تک نہیں لٹکتی رہی تھی؟ اور افغانستان کے کونے کونے میں طالبان عورتوں اور مردوں کو اسی طرح کی سزائیں دیتے تھے جیسے اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے، لیکن جہاں حقیقت سے رخ پھیر کر نامعلوم حقائق ڈھونڈنے کا شور مچا دیا جائے وہاں سچائی کی تلاش ہی جاری رہتی ہے۔
 

طالوت

محفلین
اور حقائق سے اس طرح بھی منہ نہیں پھیر لینا چاہیےکہ ہر حقیقت کو جھٹلایا جائے۔

تو جناب اس کی حقیقت بھی تو بیان کیجیے ۔۔ ایک وڈیو بنائی اٹھائی طالبان اور سوات کے نام پر لگا دی ۔۔ اور موضوع شروع کرنے والی ہستی نے اسے حکومتی ڈیل کے عنوان سے نواز دیا ۔۔

یوں تو ساری محفل ثبوت ، ربط ثبوت ربط کا راگ الاپتی ہے ، یہاں کا ثبوت کہاں ہے ؟ میرے پاس بھی ایک وڈیو تھی جس کا میں نے ایک دھاگے میں ذکر بھی کیا تھا کہ اس میں ایک لڑکی کو ایک مجمعے نے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا اور دینے والے موصوف کا کہنا تھا کہ یہ ایران کی ویڈیو ہے جہاں ایک لڑکی کو سنی ہونے پر اس بے دردی سے قتل کر دیا ، تو بنا ثبوت کہ میں نے کونسا واویلا کیا ؟ یا کس کی مذمت کی ؟ یہاں تو انداز ایسے ہے جیسے مذمت کرنے والے خود سوات میں براہ راست یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔۔

بلاشبہ حقائق کو نہیں جھٹلانا چاہیے ۔۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
نبیل افغانستان یا طالبان کا خواتین کو سزائیں دینے کا عمل اور یہ عمل بھی بہت کچھ اپنے اندر رکھتا ہے ، ذرا اس پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے ؟

دہرا کون ہو رہا ہے اندازہ ہو جائے گا ۔۔
وسلام
 
Top