لڑکے کو لڑکی کے گھر جاتے دیکھا گیا تھا
عبدالحئی کاکڑ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں طالبان نے مبینہ طور پر جس لڑکی کو سرعام کوڑوں کی سزا دی تھی اس کی شناخت ہوگئی ہے اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ واقعہ امن معاہدے کے بعد پیش آیا ہے جبکہ طالبان نے سزا دینے کے بعد لڑکے اور لڑکی کا زبردستی نکاح بھی پڑھاوا دیا ہے۔
موبائل فون پر بنائی گئی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بی بی سی نے واقعہ کے بارے میں تحقیات کرکے اس کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کی ہیں۔ اس سلسلے میں تین عینی شاہدوں اور لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پرناجائز تعلقات قائم کرنے کے الزام کے تحت طالبان کی سزا بگھتنے والے لڑکے کے دو قریبی رشتہ داروں سے بات کی گئی ہے تاہم انہوں نے پشتون روایات اور بدنامی کے پیش نظر اپنے، لڑکی، لڑکے اور ان کے خاندان والوں کے نام افشاں نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔
عینی شاہدین اور لڑکے کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ صوبائی حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد یعنی آج سے تقریباً بیس دن قبل تحصیل کبل کے کالا کلی گاؤں میں پیش آیا ہے۔ لڑکے کے رشتہ دار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا کزن ایک دن بھاگتے ہوئے حواس باختہ حالت میں اپنے دوسرے رشتہ دار کے گھر میں داخل ہوا اور گھر والوں کو کہنے لگا کہ طالبان اس کا پیچھا کررہے ہیں۔ ان کے مطابق طالبان لڑکے کو پکڑ کر زبردستی اپنے ساتھ قریب ایک بنگلے میں لے گئے۔
ان کے بقول یہ بنگلہ ایک مقامی خان کا ہے جنکا نام عنایت اللہ خان ہے اور طالبان کی خوف سے علاقے چھوڑنے کے بعد طالبان نے ان کے مکان پر قبضہ کرلیا ہے جہاں اب بھی وہ بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ان کے بقول اس کے بعد طالبان لڑکی کو گھر سے نکال کر لے آئے اور اس پر الزام لگایا کہ دونوں نے مبینہ طر پر جنسی تعلق قائم کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دراصل واقعہ یہ تھا کہ لڑکی کا گھر لڑکے کے پڑوس میں واقع ہے اور لڑکا پیشے کے لحاظ سے الیکٹریشن ہے۔ ان کے مطابق لڑکی کے خاندان والوں نے اس سے گھر کی بجلی ٹھیک کر انے کے لیے بلایا تھا کہ اس دوران راستے سےگزرنے والے ایک طالب نے اس سے گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر طالبان کو مطلع کر دیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ طالبان نے لڑکے اور لڑکی کو کالا کلی کے شاہ ڈھیرئی روڈ پر لا کر پہلے لڑکے اور پھر لڑکی کو کوڑے مارے۔
لڑکے کے رشتہ دار نے مزید بتایا کہ سزا دینے کے بعد طالبان نے دونوں کا زبردستی نکاح پڑھوایا دیا اورلڑکے کومتنبہ کیا کہ وہ لڑکی کو طلاق نہ دیں۔ لڑکے کے ایک اور رشتہ دارنے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعہ اور زبردستی شادی کے بعد لڑکا ایک قسم کا ذہنی مریض بن چکا ہے اور واقعہ کے پیش آنے کے بعد سے وہ پریشانی اور شرم کے مارے گھر سے نہیں نکلا ہے۔
ان کے مطابق انہوں نے لڑکے سے ملاقات کی ہے اور وہ اکثر خاموش رہتا ہے اور ان سے نشہ آور ادویات کا تقاضہ کرتا رہتا ہے مگر اس نے ہمیشہ گولیاں مہیا کرنے سے انکار کیا ہے۔
لڑکی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اسکی عمر تقریباً سولہ سال ہے اور اسکے والد فوت ہوگئے ہیں اور اسکے دو بھائی ہیں جن میں سے ایک سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتا ہے۔
جبکہ لڑکے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے جہانزیب کالج مینگورہ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا ہے جسکے بعد اس نے سوات میں قائم پولی ٹیکنک کالج سے الیٹرانکس میں ڈپلومہ کیا اور آجکل الیٹریشن کے پیشے سے منسلک ہے۔
یاد رہے کہ طالبان کی جانب سے ایک لڑکی کو سرعام سزا دینے کی ویڈیو بدھ کو منظر عام پر آئی تھی جس میں طالبان سرخ کپڑوں میں ملبوس ایک جواں سال لڑکی کو الٹا لٹا کر کوڑے مار رہے ہیں۔
طالبان ترجمان مسلم خان نے اس خاص واقعہ کے پیش آنے سے انکار کیا ہے البتہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا کہ ماضی میں طالبان سربراہ مولانا فضل اللہ نے خواتین کو سرعام نہیں بلکہ کمرے کے اندر سزائیں دی ہیں۔
صوبائی حکومت کا بھی دعوی ہے کہ امن معاہدے کے بعد اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔