سوات ڈیل مبارک ہو

زینب

محفلین
کل سوات کے لوگوں نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا کہ ویڈیو جعلی ہے پھر ہم کیا کریں
 

ساقی۔

محفلین
سوات میں وڈیو کے خلاف مظاہرہ

صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں ہزاروں لوگوں نے لڑکی کو کوڑے مارنے کی سزا کے حوالے سے چند دن پہلے منظر عام پر آنے والی وڈیو کو جعلی قرار دیتے ہوئے اور اس کے آڑ میں سوات میں امن کے عمل کو متاثر کرنے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

پیر کو سوات قومی امن جرگہ کے زیراہتمام گرین چوک مینگورہ میں ایک بڑا احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس میں ضلع بھر سے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں ہزاروں لوگوں نے لڑکی کو کوڑے مارنے کی سزا کے حوالے سے چند دن پہلے منظر عام پر آنے والی وڈیو کو جعلی قرار دیتے ہوئے اس کے آڑ میں سوات میں امن کے عمل کو متاثر کرنے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

مظاہرین نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے مطالبہ کیا ہے کہ وڈیو پر کارروائی کرنے کی بجائے سوات میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ہونے والے واقعات کا ازخود نوٹس لیا جائے اور متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جائے۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سوات قومی امن جرگہ کے سربراہ انعام الرحمان اور دیگر مقررین نے الزام لگایا کہ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں نے جان بوجھ کر ایک جعلی وڈیو کو منظر عام پر لاکر سوات میں امن کے عمل کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوات میں گزشتہ ڈیڑھ سال تک تشدد کے واقعات ہوتے رہے، لوگوں کے گلے کاٹے گئے اور انہیں سرِ عام چوکوں اور چوراہوں میں لٹکایا گیا لیکن اس وقت انسانی حقوق کی یہ سب تنظمیں خاموشی تماشائی بنے ہوئے تھے اور کسی نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ اب جب کہ سوات میں امن کا عمل شروع ہوچکا ہے تو ایسے میں بعض تنظیمیں امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔

ان کے مطابق کوڑے مارنے کے واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اس کی آڑ میں امن کے عمل کو خراب کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔


مقررین نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پر بھی کڑی تنقید کی اور کہا کہ جب سوات میں لاشیں گررہی تھیں تو الطاف حسین اس وقت کہاں تھے کہ اب انہوں نے جعلی وڈیو کو مسئلہ بنا کر سوات کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کررکھا ہے۔

جلسے کے اختتام پر ہزاروں لوگوں نے قومی امن جرگہ کے سربراہ انعام الرحمان کی قیادت میں امن مارچ کیا اور شہر کے مختلف بازاروں سے ہوتے ہوئے مظاہرین پُرامن طور پر منتشر ہوئے۔

مقامی صحافیوں کے مطابق بارش کے باوجود جلسہ میں ایک اندازے کے مطابق دو سے تین ہزار افراد نے شرکت کی۔ شرکاء ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔

مظاہرین نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف نعرے بازی کی

بی بی سی



 

مہوش علی

لائبریرین
اسلام میں زنا کی حد جاری کرنے کے لیے چار گواہوں اور اس سے متعلقہ دیگر شرائط بہت سخت ہیں۔
عملی طور پر یہ بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ شرائط پوری ہو پائیں [تاوقتیکہ کوئی کھلے عام یہ بے حیائی نہ کر رہا ہو]

اس چیز کو سمجھنے کے لیے ذیل کا واقعہ اہم ہے:

ریاست کہاں ہے۔ ادارے کہاں ہیں....عرض حال…نذیر لغاری

یہ خلیفہ ثانی کا دور تھا۔ الکامل ابن اثیر جلد سوم میں مرقوم ہے کہ گورنر بصرہ کی رہائش کے بالمقابل ابوبکرہ کا گھر تھا۔ دونوں گھروں کے بالاخانوں کے درمیان ایک کھڑکی تھی۔ ابوبکرہ‘ زیاد بن ابوسفیان کے سوتیلے بھائی تھے۔ دونوں کی ماں ایک اور باپ الگ الگ تھے۔ بصرہ کے گورنر کے گھر کے سامنے واقع گھر میں ابوبکرہ‘ نافع بن کلاہ، ثبل بن سعید البجلی اور زیاد بن ابوسفیان بیٹھے ہوئے تھے، زیاد اور ابوبکرہ کی والدہ کا نام سمعیہ تھا، (زیاد کو زیاد بن ابیعہ بھی کہا جاتا تھا)۔
چاروں میں باتیں ہورہی تھیں کہ اچانک ہوا کا تیز جھونکا آیا اور کھڑکی کے پٹ کھل گئے۔ ابوبکرہ نے کھڑکی کو بند کرنا چاہا تو سامنے قابل اعتراض منظر تھا۔ سامنے والے گھر میں گورنر مغیرہ بن شعبہ اور ایک عورت ام جمیل قابل اعتراض حالت میں موجود تھے۔ ابوبکرہ نے اپنے چوبارے میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا کہ ”کھڑے ہوجاؤ اور دیکھو“ چنانچہ وہ تینوں بھی کھڑے ہوکر دیکھنے لگے۔ پھر ابوبکرہ نے ان سے کہا کہ ”تم گواہ رہو“ چوبارے میں موجود افراد نے سوال کیا کہ یہ عورت کون ہے۔ ابوبکرہ نے کہا کہ یہ عورت قبیلہ صعصعہ کی ام جمیل ہے۔ پھر جب وہ عورت کھڑی ہوئی تو سب نے اسے پہچان لیا۔ اس واقعہ کے بعد جب مغیرہ بن شعبہ مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے گئے تو ابوبکرہ نے کہا کہ ”تم ہمیں نماز پڑھانے کے قابل نہیں رہے“، ساتھ ہی ابوبکرہ نے یہ واقعہ خلیفہ ثانی حضرت عمر کو لکھ بھیجا خلیفہ راشد ثانی نے ابوبکرہ کا خط ملنے پر گورنر مغیرہ بن شعبہ کو معزول کردیا اور ابو موسٰی اشعری کو بلاکر ان سے کہا!
”میں تمہیں ایسی جگہ عامل بناکر بھیج رہا ہوں جہاں ابلیس نے انڈے اور بچے دئیے ہیں، تم سنت کی پیروی کرنا اگر تم نے اسے تبدیل کیا تو اللہ تمہیں تبدیل کردے گا“۔ ابو موسٰی اشعری نے صوبے کے امور چلانے کیلئے 19صحابہ کی فہرست خلیفہ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ ”ان صحابہ کو میرے ساتھ کردیجئے کیونکہ میں نے ان لوگوں کو کھانے میں نمک کی مانند پایا ہے“۔ ابو موسٰی اشعری کی درخواست منظور کرتے ہوئے 19صحابہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ ان جید صحابہ میں انس بن مالک، عمران بن حصین اور ہشام بن عامر بھی شامل تھے۔
اب حضرت عمر نے مغیرہ بن شعبہ اور گواہان کو طلب کرلیا۔ طلبی کے خط میں کہا گیا ”امابعد! میں نے ایک ایسی سنگین خبر موصول کی ہے جس کی وجہ سے میں ابو موسٰی اشعری کو امیر بنا رہا ہوں۔ تم اپنے اختیارات ان کے حوالے کرکے فوراً حاضر ہوجاؤ“۔ مغیرہ بن شعبہ حاضر ہوئے تو ان کا بیان لیا گیا تو انہوں نے جرح کرتے ہوئے کہا ”آپ ان لوگوں سے پوچھیں کہ انہوں نے مجھے کس طرح دیکھا، کیا انہوں نے مجھے سامنے سے دیکھا یا پھر پیچھے سے دیکھا، کیا ان لوگوں نے عورت کو پہچانا یا نہیں۔ اگر وہ میرے سامنے تھے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ میں نے ان سے پردہ نہ کیا ہو اور اگر وہ میرے پیچھے تھے تو ان کیلئے میرے گھر کے اندر میری بیوی کو دیکھنا کیسے جائز ہوگیا۔ خدا کی قسم میں نے یہ فعل اپنی بیوی کے ساتھ کیا“۔ مغیرہ بن شعبہ کے بیان کے بعد ابوبکرہ نے اپنی گواہی میں کہا کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ کو ام جمیل کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھا اور انہیں آگے پیچھے سے دیکھا، نافع بن کلاہ اور ثبل بن معبد نے بھی وہی گواہی دی جو ابوبکرہ دے چکے تھے۔ جب ابوبکرہ کے بھائی زیاد کی گواہی کی باری آئی تو انہوں نے لگ بھگ ویسی ہی گواہی دی حتٰی کہ انہوں نے یہ تک بتادیا کہ خاتون کے پیروں میں مہندی لگی تھی تاہم انہوں نے کہا کہ میں نے خاتون کو نہیں پہچانا۔
یہ خلیفہ ثانی کا دور تھا۔ سوات کے طالبان کا دور نہیں تھا۔ طالبان کو اتنی شہادتیں نہیں ملیں جتنی شہادتیں حضرت عمر کے روبرو دی گئیں۔ حضرت عمر نے طالبان سے ہراساں کسی نوجوان کو کسی رشتہ دار کے گھر میں داخل ہونے کے بعد گھر کے اندر جاکر نہیں پکڑا تھا۔ بلکہ انہوں نے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے گورنر کے خلاف شکایت پر انہیں معزول کرکے بصرہ سے مدینہ طلب کیا۔ شرعی طور پر گواہیاں طلب کیں، شرعی ضرورت سے صرف ایک گواہ کم ہوگیا۔ ایک گواہ نے عورت کو نہیں پہچانا۔ اب فیصلہ سنئے، حضرت عمر نے مغیرہ بن شعبہ کے خلاف گواہی دینے والے تینوں افراد کو تہمت لگانے کی سزا سنائی اور انہیں تہمت کے جرم میں کوڑے لگائے گئے۔ جب ابوبکرہ، نافع اور ثبل کو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا تو مغیرہ نے خلیفہ سے کہا کہ ”آپ مجھے ان غلاموں سے بچائیں“ حضرت عمر نے تیز آواز میں کہا کہ ”خاموش ہوجاؤ! تمہیں اللہ نے بچالیا۔ اگر شہادت مکمل ہوجاتی تو میں تمہیں سنگسار کر دیتا“۔ 14سو سال پہلے جو ریاست موجود تھی۔ اس نے اپنا انصاف کیا۔ آج جو ریاست موجود ہے اور ریاست میں جن لوگوں کی عملداری موجود ہے۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ ایک 17سالہ بچی ستم کا شکار ہوئی ہے۔ ”اس کی چیخیں کروڑوں انسانوں کے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ کوئی ہے جو سوات کے کوڑے بردار طالبان اور ان کے تہمت باز حامیوں کو پکڑے اور ان کی پیٹھوں کو داغدار کردے۔
 

زینب

محفلین
اور یہاں سب لوگون نے رولا ڈالا ہوا ہے کہ واقعہ سچا ہے ۔۔۔۔بھئی وہاں‌کے اتنے سارے لوگ اب جھوٹے تو نہیں نا ۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محترم ذرا لبرل فاشسٹ کی تعریف کر دیں تو عنایت ہوگی ۔ میرا سوال تو وہیں ہے آپ دو کالم نگاروں کے کالم اٹھا کر لے آئے ۔ میں نے آپ لوگوں کی رائے پوچھی تھی دوسروں کے کالم نہیں ۔ میرے سوال ذرا غور سے پڑھئیے اور جواب دیجئے

دوسری بات جہاں تک اس واقعے کی حقیقت ہونے یا نہ ہونے کی تو اگر یہ جھوٹا ہے ( جیسے بہت سے ظالمان نواز افراد اور ادارے بشمول نام نہاد حکومت سرحد کا فرمان عالیشان ہے ) تو ایسی مذموم کوشش کرنے والوں کو منظر عام پر لائیے ۔ لیکن حکومت اور ظالمان کی پھرتیوں پر قربان جائیے جو انہوں نے کوشش کی اس سے کچھ مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں

پہلا سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ ڈرامہ اسٹیج کیا گیا تھا تو پھر ظالمان ترجمان کو کیا ضرورت تھی اس سلسلے میں پہلے تصدیقی اور پھر تردیدی اور پھر تصدیقی بیان دینے کی ۔ ۔ ۔ ؟
حکومت کو کیسے خواب آیا کہ یہ فلم کسی چاند بی بی نامی خاتون کی تھی ۔۔؟ اور پھر آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ظالمان کے زیر سایہ رہنے والے وہ لوگ جنہیں پہلے ہی دن رات انجانے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اس واقعے کو جبکہ یہ واقعہ عالمی نظروں میں آچکا ہے اور اس ویڈیو کے عام ہونے کے بعد ان کے گھروں میں ظالمان حاضری بھی لگا چکے ہیں اور اعلیٰ حکومتی اہلکار بھی ، اس واقعے کو تسلیم کریں گے ۔ جب کہ وہ جانتے ہیں کہ ظالمان ایک ہی بات جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف اور جو ہمارے خلاف ہے واجب القتل ہے ۔

فیصل برادر،

یہ اے این پی کی سرحد حکومت وہی ہے جو دعوی کرتی ہے کہ امن معاہدے کے بعد 80 فیصد علاقے میں حکومت کی مکمل رٹ بحال کرا دی گئی ہے۔

جبکہ جیا اور دیگر سوات کے اراکین کے مطابق امن معاہدے سے قبل تو صرف 75 فیصد پر طالبان کا قبضہ تھا، مگر امن معاہدے کے بعدوہ پورے 100 فیصد علاقے پر قابض ہو گئے ہیں۔

اور مزہ تو وہ بیان پڑھنے کا آیا جب سرحد حکومت کی پولیس اور دیگر افسران بالا سپریم کورٹ میں بیان دے رہے تھے کہ سوات کے اس علاقے میں جانا خطرہ ہے کیونکہ وہاں حکومت کی رٹ نہیں ہے۔ :)
 

مہوش علی

لائبریرین
ایک اور سوال جس تاریخ کو جنگ اخبار اپنی ویب سائٹ پر سوات واقعے کے متعلق خبریں اپڈیٹ کر رہا تھا یعنی http://www.jang.com.pk/jang/apr2009-daily/03-04-2009/index.htmlتو اس نے ایسی تین خبریں بھی مزید دی تھیں جن میں تین عورتیں ظلم کا شکار ہونا بتائی گئیں تھی ایک خبر میں ایک عورت کی ناک کاٹ دی گئی ایک خبر کے مطابق زیادتی کاشکار ہونے والی عورت تاحال انصاف سے محروم اور تیسری خبر کے مطابق شکار پور میں ایک 8 سالہ بچی جرگے کے فیصلے کے مطابق بطور تاوان نکاح میں دے دی گئی۔ یہ خبریں کیا این جی اور ہمارے میڈیا اور ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو فکھائی نہیں دیں کیا یہ عورتیں نہیں یا ان پر ظلم نہیں‌ہوا ایک ہی تاریخ ایک ہی دن مظالم کی خبر چھپی جنگ پر چار عورتوں کے بارے میں تین عورتیں تو میڈیا اور این جی اوز کو دکھائی نہیں دیں نہ ان کا اتنا پرو پیگنڈہ بنا حالانکہ عدلیہ ایک واقعہ کا بھی نوٹس لی چکی ہے لیکن میڈیا اس پر واویلا نہیں مچا رہا جنگ میں کو نے کھدرے میں یہ خبریں کیوں پڑی رہ گئیں؟؟؟یہ سوات ہی کی لڑکی کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟/ بلاشبہ یہ لڑکی بھی اب تک مظلوم ہی لگتی ہے اس کو بھی انصاف ملنا چاہیے لیکن لیکن پھر بقیہ تینوں کے لیے آخر ہمارا میڈیا خاموش کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
[
more.jpg

آپ کا یہ اعتراض لغو ہے۔
جنگ اخبار میں جو یہ تین واقعات بیان ہوئے ہیں اس پر ہیومن رائیٹ تنظیمیں کام کر رہی ہوتی ہیں، مگر جنگ اخبار ایسی چیزوں کی چھوٹی سے خبر ہی چھاپتا ہے۔

مگر اس میں اور سوات کے واقعے میں فرق ملحوظ خاطر رکھیں:

1۔ جنگ میں بیان کردہ یہ واقعات انفرادی ہیں اور پورا معاشرہ اسکی لپیٹ میں نہیں بلکہ معاشرے کا ہر طبقہ اسکی مذمت کرے گا۔

2۔ جبکہ جب طالبان اس لڑکی کو کوڑے مار رہی ہے تو اسکا بہت ہی بڑا پس منظر ہے اور آنے والے وقتوں میں بھی بہت زیادہ اثر ہے۔
یہ انفرادی واقعہ نہیں، بلکہ طالبان کی جاہل شریعت کی وہ پوری تصویر ہے جو کہ ہر ہر اُس علاقے میں نافذ ہو گی جہاں جہاں طالبان طاقت حاصل کرتے جائیں گے۔
اور اوپر والے واقعات کے برعکس، طالبان کے انتہا پسند مذہبی جنونی حمایتی ہر ہر جگہ موجود ہیں جو اس واقعے کی مذمت کرنے کی بجائے طالبان کی حمایت کر رہے ہوں گے۔

*************

عافیہ صدیقی کا واقعہ کیوں اچھلا اور جنگ اخبار کی ان تین خواتین کا کیوں نہیں؟

اب ثابت کیجئے کہ آپ دو رخے نہیں ہیں۔

ذرا بتائیے کہ عافیہ صدیقی سے پہلے سینکڑوں خواتین پر ظلم ہو اور انہیں قتل تک کر دیا گیا۔ مگر اس پر میڈیا پر اتنا شور نہیں اٹھا، مگر عافیہ صدیقی کے واقعہ پر اتنا شور اٹھا کہ جس کی مثال نہیں ہے۔ کیوں؟

کیا اس وقت بھی آپ نے یہ اعتراض کیا تھا کہ قوم و میڈیا عافیہ صدیقی کے واقعہ کو کیوں اتنا اٹھا رہی ہے اور ان دیگر سینکڑوں عورتوں کا واقعہ قوم و میڈیا نے اتنا کیوں نہیں اٹھایا؟ نہیں، اس وقت تو آپ کے منہ سے اس کے خلاف ایک لفظ نہیں نکلا بلکہ بذات خود اس شور مچانے والی صفوں میں کھڑے تھے، مگر جب طالبان کے ظلم کی بات آئی تو آپ کو قوم و میڈیا کے ظلم کے خلاف اس احتجاج اور شور پر اعتراض ہے۔

اور افسوس کہ انصار عباسی اور اوریا جان مقبول اور دیگر لوگ بھی یہاں اسی دوغلے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ ظلم ہے اور چاہے کسی کی طرف سے ہو اگر اس پر شور ہو رہا ہے تو دوسرے واقعات کی آڑ لے کر اس کو دبانا اس سے بڑا جرم ہے۔
 

ساقی۔

محفلین
رولا ڈالنے والے صرف اپنی دانشمندی کا چرچا چاہتے ہیں. لیکن اب ان کی دانشمندی کے غبارے کی ہوا خود سوات والوں نے نکال دی ہے .
 

مہوش علی

لائبریرین
از ابن حسن:
سب سے مزیدار حرکت ان محترمہ کی ہے جنھوں نے اپنے ازلی بغض کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف یہ دھاگا کھولا بلکہ ایسی ایسی گل افشانیاں فرمائیں ہیں کہ عقل دنگ رہ رہ جاتی ہے بہت ان کو عورت کی تکریم کا خیال ہے ایک مظلوم لڑکی کی آہ سے ان کا بڑا جذبہ ہمدردی بیدار ہو گیا ہے شاید وہ بھول گئیں کہ اس دھاگے میں جب میں نے ایک تصویر پوسٹ کی تھی جس میں ایران میں ایک عورت کو کرین کے ذریعے لٹکا دیا گیا تھا کیوں کہ اس پر بے راہ روی کا الزام تھا اور ایک اور لڑکی کو موت کی سزا کا حکم تھا جو بعد ازاں ایرانی منصف بین الاقوامی دباو کے بعد بدلنے پر مجبور ہو گیا تو وہاں موصوفہ نے ارشاد فرمایا تھا
اقتباس:
شکر ہے کہ دونوں کیسز میں احتجاج یا کسی بھی اور وجہ سے انصاف کے تقاضے کسی حد تک تو پورے ہوئے

افسوس کہ اوپر بیان کردہ دھاگے کو بند کر دیا گیا۔ مگر اس بند تھریڈ کے باوجود میں قارئین کو دعوت دیتی ہوں کہ وہ اس کا ضرور سے مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ:

1۔ کہ دھاگہ سعودیہ میں 75 سالہ بوڑھی عورت پر زنا کاری کا الزام تھا جب کہ اسکے مرحوم شوہر کا بھانجا اسکے لیے روٹی لیکر آیا۔
اس سلسلے میں سعودی اتھارٹیز نے کوئی گواہی طلب نہیں کی [جس کا ذکر اوپر جناب عمر ابن الخطاب کے واقعے میں ہے]

2۔ اور یہ تھریڈ گواہ ہے کہ جن لوگوں کے ضمیر پاک صاف اور تعصب سے پاک ہیں، انہوں نے اس پر فورا سعودیہ کے نظام عدل پر تنقید کی اور اسے غیر اسلامی فیصلہ قرار دیا۔

3۔ مگر جن لوگوں کی رگوں میں تعصب کا زہر دوڑ رہا ہے، انہیں ایک مرتبہ بھی اس واقعہ کی مذمت کرنے کی توفیق نہ ہوئی، بلکہ انہوں نے فورا اسے فرقہ وارانہ رنگ دیا اور فورا آج سے سات آٹھ سال قبل ایران میں ہونے والے واقعات کو لا کر واقعات کی بجائے ایران اور اہل تشیع پر تنقید شروع کر دی۔

4۔ اور یہ تھریڈ گواہ ہے کہ میں نے کھل کر ایرانی نظام عدل میں موجود ان انتہا پسندوں کی مسلسل مذمت کی۔

5۔ مگر یہ سب کچھ ہو گیا، مگر یہ صاحب ابن حسن وہ ہیں جنہیں اس پورے تھریڈ کے شروع ہونے والے دن سے لیکر آج کے دن تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ سعودیہ میں ہونے والے اس واقعہ کی مذمت کر دیں۔


میں ایک طرف ان پاک ضمیر والوں کو دیکھتی ہوں جنہوں نے بنا کسی تفریق کے غلط کام کی مذمت کی، اور دوسری طرف تعصب سے زہر آلودہ ان لوگوں کو دیکھتی ہوں جن کے نزدیک دوسروں کے عیوب بیان کر دینا کافی ہیے کہ اپنے گریبان کی صفائی نہ کی جائے اور اسے ویسا کا ویسا ہی غلیظ چھوڑ دیا جائے۔

’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’

اور انہیں اعتراض ہے کہ میں خدا کا شکر ادار کر رہی ہوں کہ ان میں سے ایک ایرانی لڑکی نازین ان ایرانی انتہا پسندوں کے اس غلط فیصلے سے ایرانی معاشرے کے احتجاج کی وجہ سے بچ گئی۔
پتا نہیں یہ حضرت تعصب کے زہر کے کتنے انجیکشن کے روزآنہ کا نسخہ لیتے ہیں، ورنہ اس تھریڈ میں سعودیہ میں اس 75 سالہ بوڑھی عورت کا واقعہ پیش کرنے کے بعد اسی پہلے پوسٹ میں میں نے یہ لکھا تھا:

اسلام اور اسلامی معاشرہ شاید ہم سب کا خواب ہے۔ مگر سعودیہ ہو یا ایران، یا پھر طالبان، کبھی کبھار انتہا پسندی کی وہ مثالیں سامنے آتی ہیں جب ڈر لگنے لگتا ہے کہ اگر یہی اسلامی معاشرہ ہے تو اسے دور سے سلام۔

اگلی پوسٹ میں میں نے لکھا تھا:

اور باتوں کی بات یہ ہے کہ ایران ہو یا میرے میرے اپنے والد گرامی، اگر کوئی بھی اسلام کے نام پر اپنی انتہا پسندی کا شکار ہوتے ہوئے اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں تو انہیں دور کا سلام۔ نہ چاہیے مجھے انکا اسلام اور نہ انکا اسلامی معاشرہ۔
علی ابن ابی طالب کا قول ہے کہ معاشرہ شرک پر تو زندہ رہ سکتا ہے، مگر نا انصافی و ظلم پر نہیں۔ میں ایسے سب انتہا پسندوں سے بیزار ہوں جو اسلام کے نام پر ایسی حرکتیں کرتے ہیں، چاہے وہ ایران سے ہوں یا سعودیہ یا طالبان سے [اور اُن سے بھی بیزار جو ان کی حرام حرکتوں کا واضح علم ہونے کے باوجود اس کی مذمت نہیں کرتے بلکہ ظلم کے خاموش حمایتی بنے رہتے ہیں]۔


اور اگلی پوسٹ میں میں نے لکھا تھا:

اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ایک واقعہ پڑھ رہی تھی کہ ایک بدو نے مسجد کی دیوار پر ہی پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ لوگ اُسے مارنے کے لیے دوڑے تو رسول ص نے انہیں کہا کہ اسے فارغ ہونے دو۔ اسکے بعد آپ نے بالٹی پانی منگوا کر وہاں بہا دیا۔
پتا نہیں ہمارے ملا کب اس رحمت اللعالمین کی سیرت کو سمجھیں گے اور کب اپنے اندر یہ وصف پیدا کریں گے۔

مزید پوسٹیں آپ اسی تھریڈ میں پڑھ سکتے ہیں اور فیصلہ کر سکتے ہیں کہ میں تو بار بار ان مظالم پر تنقید کر رہی ہوں چاہے یہ ایران سے ہوں یا میرے سگے بھائی سے، مگر ان حضرت کو اس پورے تھریڈ میں بے تحاشہ مراسلے بھیجنے سے لیکر آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ایک مرتبہ بھی سعودیہ میں پیش آنے والے اس واقعہ کی مذمت کر دیں۔ اور آج بھی اگر ان کا کوئی فعل ہے تو وہ یہ کہ میرے اللہ تعالی کے اس شکر کرنے پر اعتراض کریں کہ کسی حد تک ہی صحیح مگر ان انتہا پسند ایرانی ملاووں کے ہاتھوں ہونے والے عدالتی جرم سے ان لڑکیوں کو کچھ حد تک نجات ملی۔

کاش یہ حضرت بھی اسی طرح روشن ضمیر ہو سکتے جیسا کہ ان سے قبل کے کچھ برادران کہ جنہوں نے بنا کسی تعصب میں پڑے عصر حاضر میں سعودیہ میں ہونے والے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا اور اسے غیر اسلامی قرار دیا۔

والسلام

پی ایس: پہلی لڑکی نازنین تو رہا ہو گئی، اور دوسری لڑکی جو نہیں بچ سکی اسکی وجہ یہ تھی کہ اس نے کئی مردوں کے ساتھ اپنے سونے کے واقعات بیان کیے تھے اور پھر عدالت اور قانون اور ملک کے خلاف بیان بازی شروع کر دی تھی۔
اور یہ چوتھی مرتبہ تھا کہ وہ اس جرم میں ملوث پائی گئی تھی۔ مجھے نہیں پتا کہ اس کیس میں اسلام کے تقاضے کتنے پورے ہوئے اور اس کے ساتھ سونے والے مرد کو 95 کوڑے کی سزا کتنے فیصد اسلامی تھی، مگر اتنا ضرور سے پتا ہے کہ ایران میں ہونے والے ان تمام واقعات سے سعودیہ میں ہونے والے اس 75 سالہ بوڑھی عورت پر ہونے والے ظلم کا مداوا نہیں ہیں اور نہ اس سے یہ ظلم مٹ رہا ہے۔ مگر ایسی چیزوں کو دیکھنے کے لیے انسان کو روشن ضمیر ہونا پڑتا ہے بجائے تعضب کے زہر میں تیرنے کے۔
 

جیہ

لائبریرین
یہ ویڈیو جعلی نہیں ۔۔۔۔۔ میں نے پہلی بار یہ ویڈیو 13 فروری 2009 کو دیکھی تھی۔ والد صاحب نے کوئی 6 مہینے قبل۔
اصل واقعہ بقول والد صاحب جنوری 2008 کو پیش آیا تھا۔ اب جو یہ ویڈیو منظرعام پر لائی گئی ہے تو اس کا اصل مقصد بظاہر سوات امن معاہدے کو سبوتاژ کرنا لگتا ہے۔
جہاں تک کل کی جلسے کی بات ہے ، اس کا اصل مقصد زرداری سے امن معاہدے پر دستخط کرنے کا مطالبہ کرنا تھا ۔
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں بحث برائے بحث ہو رہی ہے کیسی کو بھی اسلام کے احکام اور اس کی عزمت کا حیال نہیں ہے اسلام سے زیادہ مہم طالبان ہوگئے ہیں پہلے لوگ اپنے آپ کو اسلام کے اوپر قربان کرتے تھے اب شاید لوگوں نےاسلام کو طالبان پر قربان کرنا شروع کردیا ہے ۔

والسلام
 

ساقی۔

محفلین
تو کیا تمام میڈیا جھوٹ بول رہا ہے ؟ تقریبا ہر اخبار میں یہی خبر ہے جو میں نے یہاں لگائی ہے . یا سوات کے ہزاروں لوگوں پر طالبان نے ذہنی کنٹرول (ہپنا ٹزم یا ٹیلی پیتھی کے ذریعے) حاصل کیا ہوا ہے. ؟
کیا اس ویڈیو کے متعلق ماہرین جھوٹ بھول رہے ہیں. ؟
 

جیہ

لائبریرین
مجھے ان سب باتوں کا پتہ نہیں اور نہ ہی میں سیاسی دھاگوں میں حصہ لیتی ہوں مگر جو معلومات مھے تھیں وہ میں نے یہاں شیئر کئیں۔
 

arifkarim

معطل
تو کیا تمام میڈیا جھوٹ بول رہا ہے ؟ تقریبا ہر اخبار میں یہی خبر ہے جو میں نے یہاں لگائی ہے . یا سوات کے ہزاروں لوگوں پر طالبان نے ذہنی کنٹرول (ہپنا ٹزم یا ٹیلی پیتھی کے ذریعے) حاصل کیا ہوا ہے. ؟
کیا اس ویڈیو کے متعلق ماہرین جھوٹ بھول رہے ہیں. ؟

جعلی ہو یا اصلی، ظلم ظلم ہے، چاہے سوات میں‌ہو، یا افغانستان میں۔
 
Top