از ابن حسن:
سب سے مزیدار حرکت ان محترمہ کی ہے جنھوں نے اپنے ازلی بغض کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف یہ دھاگا کھولا بلکہ ایسی ایسی گل افشانیاں فرمائیں ہیں کہ عقل دنگ رہ رہ جاتی ہے بہت ان کو عورت کی تکریم کا خیال ہے ایک مظلوم لڑکی کی آہ سے ان کا بڑا جذبہ ہمدردی بیدار ہو گیا ہے شاید وہ بھول گئیں کہ
اس دھاگے میں جب میں نے ایک تصویر پوسٹ کی تھی جس میں ایران میں ایک عورت کو کرین کے ذریعے لٹکا دیا گیا تھا کیوں کہ اس پر بے راہ روی کا الزام تھا اور ایک اور لڑکی کو موت کی سزا کا حکم تھا جو بعد ازاں ایرانی منصف بین الاقوامی دباو کے بعد بدلنے پر مجبور ہو گیا تو وہاں موصوفہ نے ارشاد فرمایا تھا
اقتباس:
شکر ہے کہ دونوں کیسز میں احتجاج یا کسی بھی اور وجہ سے انصاف کے تقاضے کسی حد تک تو پورے ہوئے
افسوس کہ اوپر بیان کردہ دھاگے کو بند کر دیا گیا۔ مگر اس بند تھریڈ کے باوجود میں قارئین کو دعوت دیتی ہوں کہ وہ اس کا ضرور سے مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ:
1۔ کہ دھاگہ سعودیہ میں 75 سالہ بوڑھی عورت پر زنا کاری کا الزام تھا جب کہ اسکے مرحوم شوہر کا بھانجا اسکے لیے روٹی لیکر آیا۔
اس سلسلے میں سعودی اتھارٹیز نے کوئی گواہی طلب نہیں کی [جس کا ذکر اوپر جناب عمر ابن الخطاب کے واقعے میں ہے]
2۔ اور یہ تھریڈ گواہ ہے کہ جن لوگوں کے ضمیر پاک صاف اور تعصب سے پاک ہیں، انہوں نے اس پر فورا سعودیہ کے نظام عدل پر تنقید کی اور اسے غیر اسلامی فیصلہ قرار دیا۔
3۔ مگر جن لوگوں کی رگوں میں تعصب کا زہر دوڑ رہا ہے، انہیں ایک مرتبہ بھی اس واقعہ کی مذمت کرنے کی توفیق نہ ہوئی، بلکہ انہوں نے فورا اسے فرقہ وارانہ رنگ دیا اور فورا آج سے سات آٹھ سال قبل ایران میں ہونے والے واقعات کو لا کر واقعات کی بجائے ایران اور اہل تشیع پر تنقید شروع کر دی۔
4۔ اور یہ تھریڈ گواہ ہے کہ میں نے کھل کر ایرانی نظام عدل میں موجود ان انتہا پسندوں کی مسلسل مذمت کی۔
5۔ مگر یہ سب کچھ ہو گیا، مگر یہ صاحب ابن حسن وہ ہیں جنہیں اس پورے تھریڈ کے شروع ہونے والے دن سے لیکر آج کے دن تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ سعودیہ میں ہونے والے اس واقعہ کی مذمت کر دیں۔
میں ایک طرف ان پاک ضمیر والوں کو دیکھتی ہوں جنہوں نے بنا کسی تفریق کے غلط کام کی مذمت کی، اور دوسری طرف تعصب سے زہر آلودہ ان لوگوں کو دیکھتی ہوں جن کے نزدیک دوسروں کے عیوب بیان کر دینا کافی ہیے کہ اپنے گریبان کی صفائی نہ کی جائے اور اسے ویسا کا ویسا ہی غلیظ چھوڑ دیا جائے۔
’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’
اور انہیں اعتراض ہے کہ میں خدا کا شکر ادار کر رہی ہوں کہ ان میں سے ایک ایرانی لڑکی نازین ان ایرانی انتہا پسندوں کے اس غلط فیصلے سے ایرانی معاشرے کے احتجاج کی وجہ سے بچ گئی۔
پتا نہیں یہ حضرت تعصب کے زہر کے کتنے انجیکشن کے روزآنہ کا نسخہ لیتے ہیں، ورنہ اس تھریڈ میں سعودیہ میں اس 75 سالہ بوڑھی عورت کا واقعہ پیش کرنے کے بعد اسی پہلے پوسٹ میں میں نے یہ لکھا تھا:
اسلام اور اسلامی معاشرہ شاید ہم سب کا خواب ہے۔ مگر سعودیہ ہو یا ایران، یا پھر طالبان، کبھی کبھار انتہا پسندی کی وہ مثالیں سامنے آتی ہیں جب ڈر لگنے لگتا ہے کہ اگر یہی اسلامی معاشرہ ہے تو اسے دور سے سلام۔
اگلی پوسٹ میں میں نے لکھا تھا:
اور باتوں کی بات یہ ہے کہ ایران ہو یا میرے میرے اپنے والد گرامی، اگر کوئی بھی اسلام کے نام پر اپنی انتہا پسندی کا شکار ہوتے ہوئے اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں تو انہیں دور کا سلام۔ نہ چاہیے مجھے انکا اسلام اور نہ انکا اسلامی معاشرہ۔
علی ابن ابی طالب کا قول ہے کہ معاشرہ شرک پر تو زندہ رہ سکتا ہے، مگر نا انصافی و ظلم پر نہیں۔ میں ایسے سب انتہا پسندوں سے بیزار ہوں جو اسلام کے نام پر ایسی حرکتیں کرتے ہیں، چاہے وہ ایران سے ہوں یا سعودیہ یا طالبان سے [اور اُن سے بھی بیزار جو ان کی حرام حرکتوں کا واضح علم ہونے کے باوجود اس کی مذمت نہیں کرتے بلکہ ظلم کے خاموش حمایتی بنے رہتے ہیں]۔
اور اگلی پوسٹ میں میں نے لکھا تھا:
اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ایک واقعہ پڑھ رہی تھی کہ ایک بدو نے مسجد کی دیوار پر ہی پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ لوگ اُسے مارنے کے لیے دوڑے تو رسول ص نے انہیں کہا کہ اسے فارغ ہونے دو۔ اسکے بعد آپ نے بالٹی پانی منگوا کر وہاں بہا دیا۔
پتا نہیں ہمارے ملا کب اس رحمت اللعالمین کی سیرت کو سمجھیں گے اور کب اپنے اندر یہ وصف پیدا کریں گے۔
مزید پوسٹیں آپ اسی تھریڈ میں پڑھ سکتے ہیں اور فیصلہ کر سکتے ہیں کہ میں تو بار بار ان مظالم پر تنقید کر رہی ہوں چاہے یہ ایران سے ہوں یا میرے سگے بھائی سے، مگر ان حضرت کو اس پورے تھریڈ میں بے تحاشہ مراسلے بھیجنے سے لیکر آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ایک مرتبہ بھی سعودیہ میں پیش آنے والے اس واقعہ کی مذمت کر دیں۔ اور آج بھی اگر ان کا کوئی فعل ہے تو وہ یہ کہ میرے اللہ تعالی کے اس شکر کرنے پر اعتراض کریں کہ کسی حد تک ہی صحیح مگر ان انتہا پسند ایرانی ملاووں کے ہاتھوں ہونے والے عدالتی جرم سے ان لڑکیوں کو کچھ حد تک نجات ملی۔
کاش یہ حضرت بھی اسی طرح روشن ضمیر ہو سکتے جیسا کہ ان سے قبل کے کچھ برادران کہ جنہوں نے بنا کسی تعصب میں پڑے عصر حاضر میں سعودیہ میں ہونے والے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا اور اسے غیر اسلامی قرار دیا۔
والسلام
پی ایس: پہلی لڑکی نازنین تو رہا ہو گئی، اور دوسری لڑکی جو نہیں بچ سکی اسکی وجہ یہ تھی کہ اس نے کئی مردوں کے ساتھ اپنے سونے کے واقعات بیان کیے تھے اور پھر عدالت اور قانون اور ملک کے خلاف بیان بازی شروع کر دی تھی۔
اور یہ چوتھی مرتبہ تھا کہ وہ اس جرم میں ملوث پائی گئی تھی۔ مجھے نہیں پتا کہ اس کیس میں اسلام کے تقاضے کتنے پورے ہوئے اور اس کے ساتھ سونے والے مرد کو 95 کوڑے کی سزا کتنے فیصد اسلامی تھی، مگر اتنا ضرور سے پتا ہے کہ ایران میں ہونے والے ان تمام واقعات سے سعودیہ میں ہونے والے اس 75 سالہ بوڑھی عورت پر ہونے والے ظلم کا مداوا نہیں ہیں اور نہ اس سے یہ ظلم مٹ رہا ہے۔ مگر ایسی چیزوں کو دیکھنے کے لیے انسان کو روشن ضمیر ہونا پڑتا ہے بجائے تعضب کے زہر میں تیرنے کے۔