آبی ٹوکول
محفلین
ًًمحترم ۔۔۔۔ آپ کیوں مفاہمت " این آر او " کا شکار ہوتے ہیں ۔ آپ بھی ایک طرف ہوجائیں ۔
عزیزم ایک طرف ہی تو لگایا ہوا ہے " دونوں ولوں " نے رل مل کہ عوام کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ًًمحترم ۔۔۔۔ آپ کیوں مفاہمت " این آر او " کا شکار ہوتے ہیں ۔ آپ بھی ایک طرف ہوجائیں ۔
زونی آپ نے بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ طالبان اس معاہدے کے حق میں نہیں ہیں کہ اس طرح ایک تہذیب یافتہ معاشرے کی تشکیل میں آسانی پیدا ہوجائے گی ۔ جبکہ یہ لوگ جنگل کا قانون یہاں لانا چاہتے ہیں ۔ اگر میں یہ کہوں کہ سوات میں رہائش پذیر میرے جاننے والے معاہدہ ٹوٹنے کے حوالے سے طالبان کی اس خوشی کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں توشاید یہ ہمیشہ کی طرح مجھے امریکہ کا ایجنٹ قرار دے دیں ۔ مگر اسی فورم کی ایک معتبر رکن جن کا تعلق سوات سے ہی ہے ان کا یہ بیان ان کے منہ پر طمانچہ ہے کہ جو لوگ یہاں جان بوجھ کر حقیقت سےانحراف کررہے ہیں ۔ دراصل یہ رویہ ان کے تعصب ، عناد ، نفرت اور دشمنی کا اظہارہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ معاہدہ ٹوٹا ہے تو کسی کی منت ِ مراد بر آئی ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے ۔
مجھے تو یہاں احباب کی دو انتہائیں ہی دکھ رہی ہیں طالبان کہ متوالوں کو فقط امریکہ نظر آتا ہے اور امریکہ کہ شیدائیوں کی نظر فقط طالبان تک محدود . . . عوام اور پاکستاب بےچارے کا تو کوئی پرسان حال نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
سوات کی ویڈیو نا جانے حقیقی ہے یا نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سوات کو امن کی سخت ضرورت ہے اور اس کا ضامن فی الحال سوات کا امن معاہدہ ہے جتنا عرصہ یہ معاہدہ قائم رہے اتنا ہی اچھا ہے۔ لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا سوات کا امن معاہدہ سب سے زیادہ امریکا کو ہی کھٹک رہا ہے امریکی وزیر دفاع نے مطالبہ کر دیا ہے کہ سوات امن معاہدہ ختم کیا جائے
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ امريکہ سميت عالمی برادری ايسے دہشت گردوں سے معاہدوں کو قابل تحسين قرار ديں گے جنھوں نے بارہا عوامی فورمز پر پاکستان، افغانستان اور ديگر مقامات پر پردہشت گردی کی کاروائيوں کے ليے اپنے ارادے واضح کر ديے ہيں؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
جو طالبان نے کیا اس کے سچ ہونے سے اختلاف نہیں مجھے ، مگر امریکہ دودھ کا نہا یا ہوا ہے۔۔ پوتر دودھ سے
دنیا کا کوئی ایسا کونہ بتا دیجئیے کہ جہاں امریکہ کے قدم پہنچنے کے بعد خون کی ندیاں نہ بہی ہوں؟؟؟۔
۔
کتنی صدیاں گذر چکیں ہیں ۔ آپ ایک ذہین دماغ بھی پیدا نہیں کرسکے ۔ ایک ذہین آدمی بھی نہیں دے سکے ۔ یہ ملک سب کا ہے ۔ قائدِ اعظم کا بیان دیکھیں کہ ہم سب پاکستانی ہیں ۔ اسی تناظر میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ صدیوں بعد ایک ذہین آدمی یہاں پیدا ہوا تھا اور ا سکو قادیانی کہہ کر ملک سے باہر نکال دیا ۔
لہذا یہ گریہ آزوری بند کی جائے اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرکے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ کسی سپر طاقت کو نیست و نابود کے بجائے کم از کم اپنی ہی قوم کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے کا سوچا جائے ۔
ظفری بھائی ، آپ نے بہت درست لکھا۔ میں بھی اپنے مراسلات میں اکثر و بیشتر کہتا ہوں کہ اگر ہم نے مسائل سے چھٹکارا پانا ہے تو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئیے۔ آپ نے برصغیر کے مسلم ادوار حکومت کا ذکر کیا میں تو یہ کہتا ہوں کہ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں تو شرمندگی ہی شرمندگی ملے گی۔گستاخی معاف ۔۔۔۔ امریکہ کے لیئے جب میں آپ لوگوں کواس رویئے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہیں یا پھر آپ جان بوجھ کر اس سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔ اس کے بعد ستم یہ کہ اپنی نااہلی ، کمزوری ، غلطی ،جرائم اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا جواز امریکی سازشوں میں ڈھونڈتے ہیں ۔ جو ایک مسخ ، شکست خوردہ ذہینت کا ردعمل ہوتا ہے ۔ اگر کوئی طاقت ور ہے اور وہ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر رہا ہے تو مجھے چاہیئے کہ میں اپنی کمزوری پر نظر ڈالوں اور اسے دور کرنے کی کوشش کروں تاکہ کوئی میرا استحصال نہ کرسکے ۔ آپ لوگ مسلسل امریکہ کی بات کر رہے ہیں جسے طاقت حاصل کیئے ہوئے دن ہی کتنے گذرے ہیں ۔ مگر آپ کی تو ساری تاریخ ہی اسی طرح ہے ۔ ساری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ آپ نے اپنے تمام ادوار میں ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے کاکام انجام دیا ہے ۔ اپنی تاریخ کا ذکر پر منہ چھپانا نہیں چاہیئے اس سے تاریخ کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ تاریخ کو مسخ کریں گے تو تاریخ بھی آپ کو مسخ کر دے گی ۔ اور جب بھی اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو بغیر کسی تعصب اور جانبداری کے بغیر جائزہ لیں اس سے یہ ہوگا کہ اس میں آپ کا چہرہ صاف اور نمایاں نظر آئے گا اور آپ کو آج اپنا محاسبہ کرنے کی بھی آسانی ہوگی ۔ جس سے شاید آپ کے آج کل مسائل حل ہوسکیں ۔
مسلمانوں اور مغرب کے درمیان صدیوں سے معرکہ آرائی کا محاذ کھلا ہوا ہے ۔ اس تناظر میں تو یہ کہنا چاہیئے کہ جو تم کرسکتے ہو کرلو ، مگر اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ سازشیں کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ ہم سے بہتر دماغ رکھتے ہیں تو کرتے ہیں ۔ آپ بھی کرلیں ۔ مگر یہ بھی ایک واویلا ہے ۔ برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ لارڈ کلائیو کیساتھ کتنے گورے انڈیا کی سر زمین پر اترے تھے ۔ مشکل سے ڈھائی سو بھی نہیں رہے ہونگے جبکہ اس کے بعد سارے ہم لوگ ہی تھے ۔ شاہ عالم ثانی کاحشر کرنے والے کون تھے ۔ بابر کو فرغانہ اس کے چچاؤں نے نکالا تھا ۔ یہاں آکر اس نے سب سے پہلے ابراہیم لودھی کی گردن اتاری ۔ امیر تیمور نے کس کو مارا تھا، یلدرم کو ۔۔۔ تیمور نے توقتمش، بایزید یلدرم اور سلطان مصر کو شکست دے کر عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں کا صفایا کردیا ۔ پھر بنو امیہ ، بنو عباس ۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے حوالے چاہئیں ۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسپین ہاتھ سے نکل گیا ۔ کیا کسی نے مسلمانوں کو اسپین جہیز میں دیا تھا کہ ہاتھ سے نکل گیا ۔ اس وقت آپ طاقتور تھے اور آپ دنیا میں اجاہ داری قائم کر رہے تھے ، جب آپ میں سکت تھی طاقت تھی تو آپ نیا ورلڈ آرڈر متعارف کرارہے تھے ۔ اسی طرح آج امریکہ طاقتور ہے سو وہ بھی یہی کام کر رہے ہیں تو رونا کس بات کا ۔ پہلے اپنا موازنہ کریں ۔ اپنی حالت کا جائزہ لیں ۔ اپنی سکت دیکھیں ، اپنے دم و خم پر ایک نظر ڈالیں ۔ آپ کی تو پوری تاریخ ہی ایک دوسرے کے لہو سے تر ہے ۔ یلدرم نے پورے یورپ کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا تھا ۔ یہاں سے تیمور جاتا ہے ۔ اور اس کو شکست دیکر پنجرے میں قید کرلیتا ہے ۔
برصغیر میں کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے divide & rule کی پالیسی اختیا ر کی ۔ انگریز تو تقریباً جہانگیر کے دور میں آئے اس سے پہلے مغل شہزادے اور دیگر مسلم حکمران ایک دوسرے کی گردنیں پہلے ہی سے کاٹ رہے تھے ۔ شیر شاہ سوری ان سے لڑ گیا ۔ ہمایوں نے دوبارہ آکر اس کے بیٹے سے حکومت چھین لی ۔ یہ تو ایک مکمل طاقت کا کھیل ہے جو صدیوں پر محیط ہے ۔ جن مسلم جرنیلوں کی فتوحات کے قصے بڑھ چڑھ کر آپ اپنی نسلوں کو بتاتے ہیں ذرا ان کو یہ بھی بتائیں کہ ان کے ساتھ بعد میں آپ نے کیا کیا تھا ۔ اور کرنے والے کون تھے ۔ محمد بن قاسم کو کھال میں سی کر ، کیا امریکہ نے بھیجا تھا ۔ اب یہ قدم قدم پر سازشیں ڈھونڈنا ، اپنی کمزوری اور نااہلی پر شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی سے اس کا الزام کسی کے سر پر رکھ دینا ، اپنی مظلومیت کا رونا ، اپنے اندر غداروں کا بہانہ بنانا کر خود کو خود ساختہ بے بسی کا نمونہ بنانا کیا معنی رکھتا ہے ۔ کبھی سوچا کہ آپ کے اندر ہی غدار کیوں پیدا ہوتے ہیں ۔ گوروں میں یہ وبا کیوں نہیں پائی جاتی ۔ اس کی ایک وجہ ہے ، اور وجہ یہ ہے یہ غدار ایک خاص قسم کے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں ۔ جہاں ریاست اور عوام کے مفادات یکساں ہوجائیں وہاں غدار پیدا نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہاں تو فرد سے ریاست کا باہمی تعلق تو دور کی بات ، فرد یہاں فرد کا دشمن ہے ۔ جہانگیر نے جب سر تھامس کو سونے میں تولنے کو کہا تو اس نے کہا " مجھے سونا نہیں چاہیئے ۔ بلکہ میرے ملک کی کمپنی کو اپنے ملک سے تجارت کی اجازت دیدیں ۔ " آپ کے پاس تو یہ رحجان آج 2009 میں بھی نہیں ہے ۔ آپ کے حکمران سوئس بینکوں میں اپنے کیس نمٹاتے نظر آتے ہیں ۔ سربراہانِ مملکت king of cureption کہلاتے ہیں ۔ سر تھامس جیسی کامنٹمنٹ آپ کے پاس آج کی تاریخ میں بھی نہیں ہے ۔
آج مسلمان ایک ارب چالیس کروڑ کی تعداد میں 57 ، 56 ملکوں میں پھیلے پڑے ہیں ۔ دنیا کی ترقی میں آج ہمارا کیا کردار ہے ۔آپ دنیا کو ایک بال پوائنٹ نہیں دے سکے ،گاڑی کی ونڈ اسکرین صاف کرنے والا وائپر نہیں دے سکے۔ انہی کے بنائے ہوئے ہتیھاروں سے جہاد کرتے ہیں ۔ اور انہی کو لعنت ملامت بھی کرتے ہیں ۔ کتنی صدیاں گذر چکیں ہیں ۔ آپ ایک ذہین دماغ بھی پیدا نہیں کرسکے ۔ ایک ذہین آدمی بھی نہیں دے سکے ۔ یہ ملک سب کا ہے ۔ قائدِ اعظم کا بیان دیکھیں کہ ہم سب پاکستانی ہیں ۔ اسی تناظر میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ صدیوں بعد ایک ذہین آدمی یہاں پیدا ہوا تھا اور ا سکو قادیانی کہہ کر ملک سے باہر نکال دیا ۔
پھر ایک نیا شوشہ چھیڑ دیتے ہیں کہ مغرب اور ہمارے درمیان clash of civilizations موجود ہے ۔ کس civilizations کی بات کی جاتی ہے ۔ civilizations تو ان کے پاس ہے ۔ آپ کے پاس کونسی civilizations ہے ۔ زندگی بچانے والی ادویات میں ملاوٹ کرتے ہیں ، جھوٹ بول کر ناقص مال کو اچھا بتاتے ہیں ۔ پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرتے ۔ کسان اور ہاریوں کو جانوروں کی طرح پنچرے میں بند کرکے رکھتے ہیں ۔ عورتوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے ہیں یا پھر اس کو سرعام تشدد کا نشانہ بنا کر محظوظ ہوتے ہیں ۔ اپنی ہی اولادوں کو زہریلا دودھ فراہم کرنے والے کس منہ سے خود کو civilizations کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ کس قسم کی آپ کے پاس civilizations ہے ۔ دراصل آپ نے خود کو دھوکہ دینے ے لیئے یہ اصطلاح قائم کر رکھی ہے کہ ایک عام سطح کا دانشور اٹھ کر یہ کہتا ہے کہ clash of civilizations ہے اور آپ اس کو سر پر بٹھا لیتے ہیں ۔ یہ clash of civilizations نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔ clash of faith ہے ۔ جسے آپ اپنے جرائم چھپانے لے لیئے استعمال کرتے ہیں ۔
یہاں سب ہی بالعموم پڑھے لکھے لوگ آتے ہیں ۔ اس لیئے امید ہے کہ یہ کوٹ سب نے سنا ہوگا کہ " جب تم کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاتے ہو تو تین انگلیاں خود تمہاری طرف اٹھی ہوئی ہوتیں ہیں ۔ "
لہذا یہ گریہ آزوری بند کی جائے اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرکے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ کسی سپر طاقت کو نیست و نابود کے بجائے کم از کم اپنی ہی قوم کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے کا سوچا جائے ۔
( ساجد بھائی اور مغل بھائی ۔۔ میں خاص کر آپ کے اقتباس کو یہاںکوٹ کیا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں آپ لوگ علمی بحث کے قائل ہیں ۔ باقیوں کی اقتباس کو نظرانداز کیا ہے کہ انکی اپنی کوئی بھی بات " اپنی " نہیں ہوتی )
بھائی اس بارے میں میںکئی مہینے سے یہاں چیخ و پکار کرچکا ہوں مختلف دھاگوں میں۔ لیکن ہماری عوام کے بالوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔
جب سائنس و ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر ایک نظام پیش کیا کہ اس پر سوچ و بچار کر کے عوام کے ہر فرد کیلئے زندگی کی بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان) فراہم کیا جائے تو جواب آیا کہ ہم ایسے نظام پر ہرگز نہ چلیں گے جو پہلے ہی غیر آزمودہ ہو یا شروع سے ہی غیر اسلامی ہو!
پھر جب میں نے دوسری آپشن یعنی ابتدائی اسلامی نظام کو واپس 21 ویں صدی میں رائج کرنے سے متعلق ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی دعوت دی تو "منتظمین" سمیت اکثر اراکین میرے پیچھے پڑ گئے کہ میں نے اسلام کی تعلیم کن لوگوں سے حاصل کی ہے؟!
یعنی یہاں ہر کسی کو بس لکیر کی فقیری کا شوق ہے۔کسی نئی سوچ و فکر کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ جو ’’اوپر‘‘ سے آرڈر آئے گا ، ہم کہیں گے: Yes sir!
اور جو کوئی نئی سوچ لائے گا، ہم کہیں گے : No sir, u are qadiani!
پہلے سے معذرت۔ لیکن مجھے ہمیشہ لگتا ہے کہ آپ کے سوال ٹھیک ہیں لیکن انہیں پیش کرنے کا طریقہ انتہائی غلط ہے یا نیت خراب ہے۔بھائی اس بارے میں میںکئی مہینے سے یہاں چیخ و پکار کرچکا ہوں مختلف دھاگوں میں۔ لیکن ہماری عوام کے بالوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔
جب سائنس و ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر ایک نظام پیش کیا کہ اس پر سوچ و بچار کر کے عوام کے ہر فرد کیلئے زندگی کی بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان) فراہم کیا جائے تو جواب آیا کہ ہم ایسے نظام پر ہرگز نہ چلیں گے جو پہلے ہی غیر آزمودہ ہو یا شروع سے ہی غیر اسلامی ہو!
پھر جب میں نے دوسری آپشن یعنی ابتدائی اسلامی نظام کو واپس 21 ویں صدی میں رائج کرنے سے متعلق ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی دعوت دی تو "منتظمین" سمیت اکثر اراکین میرے پیچھے پڑ گئے کہ میں نے اسلام کی تعلیم کن لوگوں سے حاصل کی ہے؟!
یعنی یہاں ہر کسی کو بس لکیر کی فقیری کا شوق ہے۔کسی نئی سوچ و فکر کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ جو ’’اوپر‘‘ سے آرڈر آئے گا ، ہم کہیں گے: Yes sir!
اور جو کوئی نئی سوچ لائے گا، ہم کہیں گے : No sir, u are qadiani!
IMAGINE that a neighbouring country had killed a leading Pakistani politician, blown up a popular hotel in the middle of Islamabad and killed thousands of security personnel and innocent civilians in a series of bombing raids.
Imagine too that the enemy’s stated goal is nothing short of the capture of state power. Surely these acts would have constituted a declaration of war.
In this scenario, all political parties would have united to face this aggression. The media would have been full of patriotic songs and messages to urge the nation to support the government and the military in defending Pakistan. And above all, the armed forces would not have hesitated in playing their role.
Anybody suggesting a dialogue with the invader, or justifying the attack, would be denounced as a traitor and a defeatist.
So my question is why isn’t all this happening now? True, the aggressors are mostly home-grown terrorists, but the damage they have been inflicting is just as lethal as any bombs dropped from the skies. Their acts must, under any definition, count as an open declaration of civil war. And yet, wide sections of public opinion and the media are sitting on the fence. Many leading politicians have yet to publicly denounce the Taliban as enemies of the state. And the army has yet to demonstrate that it is serious about fighting this war.
Talking about the situation in Lahore last week, Aitzaz Ahsan came up with a unique solution. He cited an incident from Mughal history where the emperor had his elephant tethered to the ground to send out a signal to his forces that he would not retreat. His wavering army rallied to protect him and won the day.
According to Aitzaz, this is what the president should do: instead of staying in his bunker in Islamabad, he should set up his office in Fata, as these are federally administered territories, and he is the symbol of the federation. Simultaneously, the chief minister of the NWFP should shift his office to Swat.
According to Aitzaz, the army would then be forced to protect them and move forces to the battle zone.
Aitzaz is an old friend, and I respect his intellect and his integrity. However, I pointed out a fatal flaw in his proposal: it presupposes that the army would want to take the fight to the Taliban and protect political leaders. Thus far, our armed forces have not shown that they take the extremist threat seriously. According to a recent article in Der Spiegel, the respected German daily:
‘The (Pakistan) military avoids serious confrontation with the extremists. Many officers still do not see the Taliban as their enemy. Pakistan’s true enemy, in their view, is India… Quite a few officers say that the fight against terrorism in the north-western part of the country is being forced upon them by the Americans and that they are fighting the wrong war…. A Pakistani two-star general candidly explained the mindset of his fellow military commanders … noting that although the army is fighting the Taliban at the instructions of politicians, it also supports the militants….’
Given this ambiguity and duplicity, the success of Baitullah Mehsud and his fellow terrorists should come as no surprise. In fact, this military mindset mirrors what we see in the media, and reflects the confusion that has characterised and dogged our efforts to combat the extremist threat. In this, Aitzaz Ahsan is right: our security forces have a bunker mentality that has them cowering in their barracks while the jihadis mount a series of attacks. If we are to save Pakistan, the army will have to take the fight to the Taliban, and not simply wait for the next attack.
The Role of Nawaz Sharif
So far, with the exception of the PPP and the MQM, most political parties have avoided taking a clear position. While they may occasionally condemn individual atrocities, they fall short of openly identifying the enemy. One senior journalist in Islamabad told me that when reporters seek an interview with Nawaz Sharif, they must first agree not to ask any direct questions about the Taliban. If this is true, it shows that the PML-N leader does not want to either condemn or support the jihadis openly. Being a canny politician, he does not wish to alienate his core support among reactionary elements. Nor does he want to upset Washington. But wars are not won through such tactical hedging.
While this jockeying for advantage goes on among politicians, millions of Pakistanis are paying the price for this procrastination. Thousands have died in terrorist attacks because the state has failed in its duty to protect its citizens. If somebody wants to know the cost of defeat, he has only to view the video of the 17-year old girl being flogged in Swat. Many have questioned the timing of the video’s release, claiming that it is an attempt to sabotage the ‘peace deal’ between the NWFP government and the Taliban. If it is, I would be happy to see this disgraceful instrument of surrender torn up.
One positive outcome of this atrocity coming to public knowledge is that it has opened many eyes to the reality of the Taliban, and what they represent. The flogging has ignited protests across the country. I participated in one in Lahore last week. I was glad to see that apart from many old friends, a large number of young people and students also took part in the march. One popular slogan was: ‘Pakistan kay do shaitan: fauj aur uskay Taliban’ (‘Pakistan’s two demons: the army and its Taliban’). My favourite banner at the rally asked: ‘$12 billion in aid to fight terrorism. Where is it?’ Where indeed?
During Richard Holbrooke’s recent visit to Pakistan, our government responded to the new Obama plan to fight the Taliban with an ill-concealed resentment.
Clearly, the establishment is not enjoying having its reluctance to fight held up under a spotlight. As in the past, it wants the promised flow of dollars to remain unimpeded by any serious questions about its will to carry the fight to the Taliban. Our television warriors echo this sentiment, and demand that the country should not follow ‘American dictates’.
But as we are about to discover, there really is no such thing as a free lunch.
irfan.husain@gmail.com
مہوش بہن اردو میں ترجمہ کردیں یا بتادیں کہ مضمون میں کیا لکھا ہے۔
انگلش بہت کمزور ہے
اور شمشاد بھائی کا ایک ہاتھ شکرئیے کے بٹن پہ ہوتا ہے تو دوسرے میں ایک تالہ انگلی میں گھماتے رہتے ہیں۔زونی کے متعلق آپ کہہ سکتی ہیں کہ اس نے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔
ملائکہ کو سیاست کی الف بے بھی نہیں معلوم اور باجو (بوچھی) وہ تو کل کے واقعہ پر جو کہ برطانیہ میں ہوا ہے، اس وجہ سے ادھر آئی ہیں۔