پروفیسر شوکت اللہ شوکت
محفلین
اس نئی لڑی کا بنیادی مقصد شعور و آگاہی ہے تاکہ عوام کو سیاستدانوں کے جھوٹے وعدے یاد دلائے جائیں تاکہ وہ مستقبل میں اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر سکیں.
مجھے حامد میر کی مندرجہ ذیل تحریر اچھی لگی.
”جھوٹا آدمی سچ بولنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ سچائی خطرے میں ہے ۔سچ تو وہی ہوتا ہے جو سچے انسان کی زبان سے ادا ہوتا ہے۔ جھوٹے انسان کا سچ منافقت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ایک سیاسی جماعت کی سچائی دوسری سیاسی جماعت کا جھوٹ ہے۔ ایک ملک کی سچائی دوسرے ملک کی سچائی نہیں ہے ۔ ہم اپنے ملک کی خاطر مر جائیں تو شہید کہلاتے ہیں دشمن اپنے وطن پر قربان ہو جائے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں چلا گیا۔ اکثر اوقات ہمارا سچ دوسروں کیلئے جھوٹ ہوتا ہے لیکن کئی سیاست دان اور علماء اپنوں اور پرایوں میں بیک وقت مقبول ہونے کے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ وہ مومنوں اور کافروں میں بیک وقت مقبولیت کیلئے کبھی اردو بولتے ہیں کبھی انگریزی بولتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے منافقت کہتے ہیں لیکن میری دانست میں منافقت بہت سخت لفظ ہے کیونکہ نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو ہے۔ جب کوئی صرف اپنے آپ کو سچا اور دوسروں کو جھوٹا قرار دینے لگےتو اسے نرم سے نرم الفاظ میں خود پسند کہا جا سکتا ہے۔ خود پسند انسان میں تکبر آ جاتا ہے اور وہ جھوٹ بھی خوب بولتا ہے۔
جھوٹے انسان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ بات بات پر قسم کھاتا ہے اور کثرت کے ساتھ وعدے کرتا ہے۔ ایفائے عہد مومن کی پہچان ہے۔ سچا انسان زیادہ وعدے نہیں کرتا کیونکہ وعدوں کی کثرت انسان کی عظمت ختم کر دیتی ہے۔“
مجھے حامد میر کی مندرجہ ذیل تحریر اچھی لگی.
”جھوٹا آدمی سچ بولنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ سچائی خطرے میں ہے ۔سچ تو وہی ہوتا ہے جو سچے انسان کی زبان سے ادا ہوتا ہے۔ جھوٹے انسان کا سچ منافقت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ایک سیاسی جماعت کی سچائی دوسری سیاسی جماعت کا جھوٹ ہے۔ ایک ملک کی سچائی دوسرے ملک کی سچائی نہیں ہے ۔ ہم اپنے ملک کی خاطر مر جائیں تو شہید کہلاتے ہیں دشمن اپنے وطن پر قربان ہو جائے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں چلا گیا۔ اکثر اوقات ہمارا سچ دوسروں کیلئے جھوٹ ہوتا ہے لیکن کئی سیاست دان اور علماء اپنوں اور پرایوں میں بیک وقت مقبول ہونے کے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ وہ مومنوں اور کافروں میں بیک وقت مقبولیت کیلئے کبھی اردو بولتے ہیں کبھی انگریزی بولتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے منافقت کہتے ہیں لیکن میری دانست میں منافقت بہت سخت لفظ ہے کیونکہ نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو ہے۔ جب کوئی صرف اپنے آپ کو سچا اور دوسروں کو جھوٹا قرار دینے لگےتو اسے نرم سے نرم الفاظ میں خود پسند کہا جا سکتا ہے۔ خود پسند انسان میں تکبر آ جاتا ہے اور وہ جھوٹ بھی خوب بولتا ہے۔
جھوٹے انسان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ بات بات پر قسم کھاتا ہے اور کثرت کے ساتھ وعدے کرتا ہے۔ ایفائے عہد مومن کی پہچان ہے۔ سچا انسان زیادہ وعدے نہیں کرتا کیونکہ وعدوں کی کثرت انسان کی عظمت ختم کر دیتی ہے۔“
آخری تدوین: